ووٹ سے محروم عورت
کتنے شرم کی بات ہے کہ دوسرے ممالک پاکستان کو کیسی کیسی نظر سے دیکھتے ہیں،
خواتین کے لیے پاکستان بہت مشکل ترین ملک ہے، اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان خواتین کے لیے بے حد پیچیدہ ملک ہے، پاکستان نمبر 2 پر ہے جہاں خواتین کی زندگی محفوظ نہیں خواتین کے لیے یہ خطرناک ملک ہے۔
کتنے شرم کی بات ہے کہ دوسرے ممالک پاکستان کو کیسی کیسی نظر سے دیکھتے ہیں، اقوام متحدہ کی یہ رپورٹ 100 فیصد صحیح ہے۔ اگر ہم پورے پاکستان کا ایک نظر جائزہ لیں خواتین کے اعتبار سے تو دل کانپ جاتا ہے کہ اسلامی جمہوری پاکستان میں اتنا ظلم ہورہا ہے، ایک ایسی ریاست میں جہاں اسلام رائج ہے جو اسلامی جمہوری ریاست کہلاتا ہے اسلام کے نام پر لیا گیا یہ ملک اور یہاں صنف نازک کے ساتھ اتنا بدترین ظلم آخر کیوں؟
اسلام نے تو خواتین کو بے شمار حقوق عطا کیے ہیں، اتنے حقوق کسی مذہب میں نہیں ملتے ہیں جتنے کہ اسلام نے خواتین کو عطا کیے ہیں۔ تاریخ میں عورتوں کا ذکر تو نظر آتا ہے مگر اصل میں ان کا کردار وہی ہوتا ہے جو ان کے مرد چاہتے ہیں کبھی بھی کھلی آزادی کے ساتھ عورت کو کوئی بھی فیصلہ کرنے کا حق نہیں ہے۔ 1873 میں ڈیرہ غازی خان بلوچستان کے قبائل اور انگریز گورنر البرٹ سینڈی گن کے درمیان معاہدہ کے نتیجے میں جن لاتعداد قبائلی رسوم و رواج کو قانونی تحفظ دیا گیا تھا اس میں سے ایک کاروکاری بھی تھا۔ جنوبی بلوچستان میں تحصیلدار نے ایسے ایسے واقعات بتائے ہیں جن میں خواتین بے قصور نکلیں اور مرد حضرات قصور وار نکلے۔ مگر ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرتا۔ مرد حضرات دوسری شادی کرنے کے لیے عورت کو قتل کردیتے ہیں یا پھر زمینوں کے لیے اپنی بیوی، بیٹی، بہن کو قتل کردیا جاتا ہے۔
سندھ کے ضلع گھوٹکی کے علاقے کھیجو جو سرحدی پٹی پر واقع ایک گوٹھ (گاؤں) ہے جس کے اردگرد سیکڑوں دیگر دیہات آباد ہیں ان تمام دیہاتوں کے درمیان ایک قبرستان واقع ہے جس کو کاریوں کا قبرستان کہتے ہیں، دو ڈھائی سو سال پرانا ہے اس میں سیکڑوں خواتین بغیر کفن اور نماز جنازہ کے دفن کی گئی ہیں۔ سندھ کے بیشتر علاقوں میں کاری ہونے والی عورتوں کو کفن یا دفن کرنا تو دور کی بات ان کی نماز جنازہ بھی ادا نہیں کی جاتی ہے۔ اس قبرستان میں جو خواتین دفن ہیں ان کی عمر تقریباً 45-18 سال کے درمیان ہے۔
افسوس ہوتا ہے ان کے مسلمان ہونے پر۔ اسلام ہم کو کیا ایسی تعلیمات سکھاتا ہے کہ اپنی عورتوں کو غیرت کے نام پر قتل کردیا جائے، جو ہے ہی نہیں۔ اسلام نے تو ہمیں تعلیمات ہمدردی، محبت ، ایک دوسرے کا خیال کرتے رہنے کی تلقین کی ہے تو پھر یہ کیسے مسلمان ہیں؟ غیرت مند وہ ہوتا ہے جو اپنے فرائض کو اچھے سے نبھانے کا حوصلہ رکھتا ہو نہ کہ اپنے مفادات کی خاطر اپنی ماں، بہن، بیوی اور اپنی بیٹی کو قتل کردے اور بولے میں بہت غیرت مند تھا اسی لیے قتل کردیا میں نے، اپنے قبیلے کا نام روشن کردیا (غیرت مند) وہ مرد ہوتا ہے جو اپنے گھر والوں کا خیال رکھتا ہے اپنی خواتین کے فرائض کو اچھے سے پورا کرتا ہے ان کا خیال رکھتا ہے ایسے غیرت مند مرد ہوتے ہیں۔
مگر افسوس کہ اسلام نے ہمیں جو سکھایا اس پر ہم عمل ہی نہیں کرتے۔ ہمیں معلوم نہیں کہ کیا تعلیمات ہیں اور جاہلیت میں ظلم پر ظلم کرتے چلے جارہے ہیں، اپنے مفادات کے لیے اور نام غیرت کا دیتے ہیں۔ یہ کیسی غیرت ہے جو اپنی بے قصور خواتین کو اتنی بے دردی سے مار دیتی ہے اور پھر ان کا نماز جنازہ تک نہیں پڑھتے۔ یہ کیسی غیرت ہے کہ اپنی خواتین کو کفن تک نہیں پہناتے۔ یہ تو صرف اور صرف جہالت ہے۔
آج کا ترقی یافتہ معاشرہ دور جہالت کے مناظر پیش کرتا ہے، کیا واقعی ہم ترقی یافتہ معاشرے میں رہتے ہیں؟ لوگ کہتے ہیں ہم 21 ویں صدی میں داخل ہوگئے ہیں، ہمارے اردگرد ہر طرف ترقی ہورہی ہے، ہر ملک بڑی تیزی سے ترقی کا سفر طے کرنے میں لگا ہوا ہے پھر کیوں ہم پیچھے رہ گئے ہیں؟ ہمارے ذہنوں نے ابھی تک ترقی نہیں کی ہے، یہ لوگ صحیح اور غلط کا فیصلہ کرنے سے قاصر ہیں کیونکہ ان کے اندر علم و شعور کی بے حد کمی ہے، علم و شعور جب آئے گا جب یہ لوگ تعلیم حاصل کریں گے اور تعلیم کی روشنی سے یہ صحیح اور غلط کا فیصلہ کرپائیں گے، تمام قبیلے میں نہ اسکول ہوتا ہے اور نہ تعلیم کی بات کی جاتی ہے جب تعلیم ہی نہیں تو جہالت ہر چیز پر حاوی ہوجاتی ہے اور غلط کام صحیح معلوم ہوتے ہیں۔
دریائے سندھ کے آس پاس رہنے والے آبادی کے لوگ کاروکاری کو قتل کرنے کے بعد دریا میں بہا دیتے ہیں اور عورت کی ناک کاٹ دیتے ہیں تاکہ دریا میں آگے چل کر کوئی اس نعش کو باہر نکالے تو وہ اس کی کٹی ہوئی ناک دیکھ کر سمجھ جائے کہ یہ کاری عورت ہے اور اس کی نعش دریا سے باہر نکال کر دفن نہ کرے۔ دوسری طرف صوبہ سرحد کے قبائل میں بھی ایسی رسوم پائی جاتی ہیں جسے سوارہ کہا جاتا ہے۔ کم عمر لڑکی کو اپنے باپ، بھائی، یا چچا کے قتل کے جرم میں مرتکب ہونے کے بعد بطور جرمانہ مقتول کے ورثاء میں سے کسی مرد کے حوالے کردیا جاتا ہے۔
سوارہ ہونے والی تمام لڑکیوں کی زندگی ذلت اور حقارت کا نشانہ بنتی ہے یہ بچی اس گناہ کی تمام عمر سزا بھگتتی ہے جو اس سے کبھی سرزد نہیں ہوا، لیکن اس کی قربانی کا مقصد صرف کسی اور گناہ گار کی زندگی اور اپنے خاندان کی عزت بچانا ہوتا ہے۔ ''سوارہ'' ہونے والی کئی بچیوں کی چند ہی روز بعد خودکشی کی داستانیں قبائلی علاقوں میں عام ملتی ہیں۔ یہ رسمیں جہالت کی پیداوار ہیں۔ ہمارے ملک کا بنیادی مسئلہ تعلیم ہے جس معاشرے کو تباہ کرنا ہو وہاں سے تعلیم غائب کردو معاشرہ جہالت کے اندھیرے سے تباہ ہوجائے گا اور یہی سب ہمارے معاشرے کے ساتھ ہورہا ہے۔
آج کل پاکستان میں انتخابات کی فضا چلی ہوئی ہے، ووٹ کا حق ہر پاکستانی کو ہے مگر بہت بڑی عورتوں کی جماعت ووٹ کے حق سے محروم رہ جاتی ہے، ووٹ سے ملک کے نظام میں تبدیلی آتی ہے اور ہم عورتوں کے ووٹ کو بالکل نظرانداز نہیں کرسکتے ہیں۔ افسوس صد افسوس ہمارے معاشرے میں عورت سانس بھی اپنے مرد کی اجازت سے لیتی ہے ووٹ ڈالنا تو بہت دور کی بات ہے جس معاشرے میں عورت کے ساتھ جانوروں سے بھی بدترین سلوک کیا جاتا ہو وہاں عورت کیسے اپنے ووٹ کا حق استعمال کرسکتی ہے۔ سندھ کے شہری علاقوں کی بھاری اکثریت کے نام ووٹرز کی فہرست میں درج ہیں لیکن ان کا ووٹ ان کے مرد کی مرضی کے مطابق ڈالتا ہے۔ ملک کے دیہی علاقوں اور چھوٹے شہروں میں خواتین کو ووت ڈالنے کی آزادی نہیں۔ ہمارے ملک میں کیسے تبدیلی آئے گی جب تک خواتین کو نظرانداز کیا جاتا رہے گا فرسودہ اور جہالت سے بھری رسوم کی بھینٹ چڑھایا جاتا رہے گا ہمارے ملک میں تبدیلی نہیں آسکتی اور نہ ہم مہذب معاشرہ اور ترقی یافتہ کہلوانے کے حق دار ہیں۔
خواتین کی اتنی بڑی تعداد ووٹ ڈالنے سے محروم رہتی ہے۔ سوات میں معمر خواتین کو اس شرط پر ووٹ ڈالنے کی اجازت دی جاتی ہے کہ پولنگ کا عملہ باہر بیٹھے گا اور اندر اس عورت کا کوئی رشتہ دار بیٹھا ہوگا۔ دیر میں عورتوں کے نام تو درج ہیں مگر وہ ووٹ ڈالنے نہیں آتیں۔ بلوچستان میں اکثر خواتین ووٹ ڈالتی ہیں مگر اپنی مرضی سے نہیں۔ پشین اور دوسرے دور دراز علاقوں پشتون گھرانوں میں نوجوان لڑکیوں کو اجازت نہیں کہ وہ ووٹ ڈالیں۔ چارسدہ، کوہاٹ اور دوسرے قدامت پسند علاقوں میں عورتیں بہت کم ووٹ ڈالتی ہیں۔
ہمارے معاشرے میں تبدیلی اسی وقت آئے گی جب خواتین کو ان کے مرد عزت کے ساتھ ساتھ حقوق بھی دیں گے جو اسلام نے دیے ہیں۔ جس معاشرے میں خواتین کو اپنا وجود برقرار رکھنے کے لیے بے حد دشواری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے وہاں ووٹ ڈالنا بہت دور کی بات ہے، جس معاشرے میں عورت کی جان اور عزت اتنی سستی ہو وہاں عورت کے ووٹ کی کیا حیثیت اور کیا اہمیت؟ جس معاشرے میں عورت کی زندگی بے معنی ہے وہاں اس کے ووٹ بھی بے معنی ہیں۔ عورت کا بھی اس معاشرے پر اتنا ہی حق ہے جتنا کہ مردوں کا ہے، اس وقت ہمیں شدید ضرورت اپنی سوچوں کو بدلنے کی ہے جب ہماری سوچ بدلے گی معاشرہ بھی بدل جائے گا۔
کتنے شرم کی بات ہے کہ دوسرے ممالک پاکستان کو کیسی کیسی نظر سے دیکھتے ہیں، اقوام متحدہ کی یہ رپورٹ 100 فیصد صحیح ہے۔ اگر ہم پورے پاکستان کا ایک نظر جائزہ لیں خواتین کے اعتبار سے تو دل کانپ جاتا ہے کہ اسلامی جمہوری پاکستان میں اتنا ظلم ہورہا ہے، ایک ایسی ریاست میں جہاں اسلام رائج ہے جو اسلامی جمہوری ریاست کہلاتا ہے اسلام کے نام پر لیا گیا یہ ملک اور یہاں صنف نازک کے ساتھ اتنا بدترین ظلم آخر کیوں؟
اسلام نے تو خواتین کو بے شمار حقوق عطا کیے ہیں، اتنے حقوق کسی مذہب میں نہیں ملتے ہیں جتنے کہ اسلام نے خواتین کو عطا کیے ہیں۔ تاریخ میں عورتوں کا ذکر تو نظر آتا ہے مگر اصل میں ان کا کردار وہی ہوتا ہے جو ان کے مرد چاہتے ہیں کبھی بھی کھلی آزادی کے ساتھ عورت کو کوئی بھی فیصلہ کرنے کا حق نہیں ہے۔ 1873 میں ڈیرہ غازی خان بلوچستان کے قبائل اور انگریز گورنر البرٹ سینڈی گن کے درمیان معاہدہ کے نتیجے میں جن لاتعداد قبائلی رسوم و رواج کو قانونی تحفظ دیا گیا تھا اس میں سے ایک کاروکاری بھی تھا۔ جنوبی بلوچستان میں تحصیلدار نے ایسے ایسے واقعات بتائے ہیں جن میں خواتین بے قصور نکلیں اور مرد حضرات قصور وار نکلے۔ مگر ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرتا۔ مرد حضرات دوسری شادی کرنے کے لیے عورت کو قتل کردیتے ہیں یا پھر زمینوں کے لیے اپنی بیوی، بیٹی، بہن کو قتل کردیا جاتا ہے۔
سندھ کے ضلع گھوٹکی کے علاقے کھیجو جو سرحدی پٹی پر واقع ایک گوٹھ (گاؤں) ہے جس کے اردگرد سیکڑوں دیگر دیہات آباد ہیں ان تمام دیہاتوں کے درمیان ایک قبرستان واقع ہے جس کو کاریوں کا قبرستان کہتے ہیں، دو ڈھائی سو سال پرانا ہے اس میں سیکڑوں خواتین بغیر کفن اور نماز جنازہ کے دفن کی گئی ہیں۔ سندھ کے بیشتر علاقوں میں کاری ہونے والی عورتوں کو کفن یا دفن کرنا تو دور کی بات ان کی نماز جنازہ بھی ادا نہیں کی جاتی ہے۔ اس قبرستان میں جو خواتین دفن ہیں ان کی عمر تقریباً 45-18 سال کے درمیان ہے۔
افسوس ہوتا ہے ان کے مسلمان ہونے پر۔ اسلام ہم کو کیا ایسی تعلیمات سکھاتا ہے کہ اپنی عورتوں کو غیرت کے نام پر قتل کردیا جائے، جو ہے ہی نہیں۔ اسلام نے تو ہمیں تعلیمات ہمدردی، محبت ، ایک دوسرے کا خیال کرتے رہنے کی تلقین کی ہے تو پھر یہ کیسے مسلمان ہیں؟ غیرت مند وہ ہوتا ہے جو اپنے فرائض کو اچھے سے نبھانے کا حوصلہ رکھتا ہو نہ کہ اپنے مفادات کی خاطر اپنی ماں، بہن، بیوی اور اپنی بیٹی کو قتل کردے اور بولے میں بہت غیرت مند تھا اسی لیے قتل کردیا میں نے، اپنے قبیلے کا نام روشن کردیا (غیرت مند) وہ مرد ہوتا ہے جو اپنے گھر والوں کا خیال رکھتا ہے اپنی خواتین کے فرائض کو اچھے سے پورا کرتا ہے ان کا خیال رکھتا ہے ایسے غیرت مند مرد ہوتے ہیں۔
مگر افسوس کہ اسلام نے ہمیں جو سکھایا اس پر ہم عمل ہی نہیں کرتے۔ ہمیں معلوم نہیں کہ کیا تعلیمات ہیں اور جاہلیت میں ظلم پر ظلم کرتے چلے جارہے ہیں، اپنے مفادات کے لیے اور نام غیرت کا دیتے ہیں۔ یہ کیسی غیرت ہے جو اپنی بے قصور خواتین کو اتنی بے دردی سے مار دیتی ہے اور پھر ان کا نماز جنازہ تک نہیں پڑھتے۔ یہ کیسی غیرت ہے کہ اپنی خواتین کو کفن تک نہیں پہناتے۔ یہ تو صرف اور صرف جہالت ہے۔
آج کا ترقی یافتہ معاشرہ دور جہالت کے مناظر پیش کرتا ہے، کیا واقعی ہم ترقی یافتہ معاشرے میں رہتے ہیں؟ لوگ کہتے ہیں ہم 21 ویں صدی میں داخل ہوگئے ہیں، ہمارے اردگرد ہر طرف ترقی ہورہی ہے، ہر ملک بڑی تیزی سے ترقی کا سفر طے کرنے میں لگا ہوا ہے پھر کیوں ہم پیچھے رہ گئے ہیں؟ ہمارے ذہنوں نے ابھی تک ترقی نہیں کی ہے، یہ لوگ صحیح اور غلط کا فیصلہ کرنے سے قاصر ہیں کیونکہ ان کے اندر علم و شعور کی بے حد کمی ہے، علم و شعور جب آئے گا جب یہ لوگ تعلیم حاصل کریں گے اور تعلیم کی روشنی سے یہ صحیح اور غلط کا فیصلہ کرپائیں گے، تمام قبیلے میں نہ اسکول ہوتا ہے اور نہ تعلیم کی بات کی جاتی ہے جب تعلیم ہی نہیں تو جہالت ہر چیز پر حاوی ہوجاتی ہے اور غلط کام صحیح معلوم ہوتے ہیں۔
دریائے سندھ کے آس پاس رہنے والے آبادی کے لوگ کاروکاری کو قتل کرنے کے بعد دریا میں بہا دیتے ہیں اور عورت کی ناک کاٹ دیتے ہیں تاکہ دریا میں آگے چل کر کوئی اس نعش کو باہر نکالے تو وہ اس کی کٹی ہوئی ناک دیکھ کر سمجھ جائے کہ یہ کاری عورت ہے اور اس کی نعش دریا سے باہر نکال کر دفن نہ کرے۔ دوسری طرف صوبہ سرحد کے قبائل میں بھی ایسی رسوم پائی جاتی ہیں جسے سوارہ کہا جاتا ہے۔ کم عمر لڑکی کو اپنے باپ، بھائی، یا چچا کے قتل کے جرم میں مرتکب ہونے کے بعد بطور جرمانہ مقتول کے ورثاء میں سے کسی مرد کے حوالے کردیا جاتا ہے۔
سوارہ ہونے والی تمام لڑکیوں کی زندگی ذلت اور حقارت کا نشانہ بنتی ہے یہ بچی اس گناہ کی تمام عمر سزا بھگتتی ہے جو اس سے کبھی سرزد نہیں ہوا، لیکن اس کی قربانی کا مقصد صرف کسی اور گناہ گار کی زندگی اور اپنے خاندان کی عزت بچانا ہوتا ہے۔ ''سوارہ'' ہونے والی کئی بچیوں کی چند ہی روز بعد خودکشی کی داستانیں قبائلی علاقوں میں عام ملتی ہیں۔ یہ رسمیں جہالت کی پیداوار ہیں۔ ہمارے ملک کا بنیادی مسئلہ تعلیم ہے جس معاشرے کو تباہ کرنا ہو وہاں سے تعلیم غائب کردو معاشرہ جہالت کے اندھیرے سے تباہ ہوجائے گا اور یہی سب ہمارے معاشرے کے ساتھ ہورہا ہے۔
آج کل پاکستان میں انتخابات کی فضا چلی ہوئی ہے، ووٹ کا حق ہر پاکستانی کو ہے مگر بہت بڑی عورتوں کی جماعت ووٹ کے حق سے محروم رہ جاتی ہے، ووٹ سے ملک کے نظام میں تبدیلی آتی ہے اور ہم عورتوں کے ووٹ کو بالکل نظرانداز نہیں کرسکتے ہیں۔ افسوس صد افسوس ہمارے معاشرے میں عورت سانس بھی اپنے مرد کی اجازت سے لیتی ہے ووٹ ڈالنا تو بہت دور کی بات ہے جس معاشرے میں عورت کے ساتھ جانوروں سے بھی بدترین سلوک کیا جاتا ہو وہاں عورت کیسے اپنے ووٹ کا حق استعمال کرسکتی ہے۔ سندھ کے شہری علاقوں کی بھاری اکثریت کے نام ووٹرز کی فہرست میں درج ہیں لیکن ان کا ووٹ ان کے مرد کی مرضی کے مطابق ڈالتا ہے۔ ملک کے دیہی علاقوں اور چھوٹے شہروں میں خواتین کو ووت ڈالنے کی آزادی نہیں۔ ہمارے ملک میں کیسے تبدیلی آئے گی جب تک خواتین کو نظرانداز کیا جاتا رہے گا فرسودہ اور جہالت سے بھری رسوم کی بھینٹ چڑھایا جاتا رہے گا ہمارے ملک میں تبدیلی نہیں آسکتی اور نہ ہم مہذب معاشرہ اور ترقی یافتہ کہلوانے کے حق دار ہیں۔
خواتین کی اتنی بڑی تعداد ووٹ ڈالنے سے محروم رہتی ہے۔ سوات میں معمر خواتین کو اس شرط پر ووٹ ڈالنے کی اجازت دی جاتی ہے کہ پولنگ کا عملہ باہر بیٹھے گا اور اندر اس عورت کا کوئی رشتہ دار بیٹھا ہوگا۔ دیر میں عورتوں کے نام تو درج ہیں مگر وہ ووٹ ڈالنے نہیں آتیں۔ بلوچستان میں اکثر خواتین ووٹ ڈالتی ہیں مگر اپنی مرضی سے نہیں۔ پشین اور دوسرے دور دراز علاقوں پشتون گھرانوں میں نوجوان لڑکیوں کو اجازت نہیں کہ وہ ووٹ ڈالیں۔ چارسدہ، کوہاٹ اور دوسرے قدامت پسند علاقوں میں عورتیں بہت کم ووٹ ڈالتی ہیں۔
ہمارے معاشرے میں تبدیلی اسی وقت آئے گی جب خواتین کو ان کے مرد عزت کے ساتھ ساتھ حقوق بھی دیں گے جو اسلام نے دیے ہیں۔ جس معاشرے میں خواتین کو اپنا وجود برقرار رکھنے کے لیے بے حد دشواری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے وہاں ووٹ ڈالنا بہت دور کی بات ہے، جس معاشرے میں عورت کی جان اور عزت اتنی سستی ہو وہاں عورت کے ووٹ کی کیا حیثیت اور کیا اہمیت؟ جس معاشرے میں عورت کی زندگی بے معنی ہے وہاں اس کے ووٹ بھی بے معنی ہیں۔ عورت کا بھی اس معاشرے پر اتنا ہی حق ہے جتنا کہ مردوں کا ہے، اس وقت ہمیں شدید ضرورت اپنی سوچوں کو بدلنے کی ہے جب ہماری سوچ بدلے گی معاشرہ بھی بدل جائے گا۔