سبق پڑھ پھر صداقت کا
کہتے ہیں کہ اگر نیت سچی ہو تو منزل مل بھی جاتی ہے، یہ محض کہنے اور سننے کی بات نہیں ہے۔
KARACHI:
ان کی عمر تیرانوے (93) سال ہے، پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر تھے لیکن پچھلی کئی دہائیوں سے سیاست سے جڑے ہیں، ملائشیا کی اس نئی نسل نے اس بوڑھے پرائم منسٹر کو سترھویں وزیراعظم کے روپ میں دیکھا ہے جسے انھوں نے خود ہی منتخب بھی کیا ہے۔ ڈاکٹر مہاتیر محمد سخت محنت کرنے کے عادی ہیں، وہ اپنے ملک کو ترقی کی بلندیوں پر دیکھنے کے ہمیشہ خواہاں رہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ اس عمر میں بھی انھوں نے آرام و سکون کے بجائے اپنے ملک کو ایک اونچے مقام پر دیکھنا چاہا اور اسی راہ کو اختیار بھی کیا۔
کہتے ہیں کہ اگر نیت سچی ہو تو منزل مل بھی جاتی ہے، یہ محض کہنے اور سننے کی بات نہیں ہے بلکہ ڈاکٹر مہا تیر محمد نے ایسا کر دکھایا ہے اور وہ ایسے منصوبوں میں دلچسپی نہیں دکھا رہے جس میں ان کے خیال میں وقت اور پیسے کا ضیاع ہے، مثلاً تیز رفتار ریل کا منصوبہ جس میں سینتیس(37) بلین امریکی ڈالرز خرچ آئے گا اور بقول ڈاکٹر مہاتیر کے وہ ہمیں ایک پائی بھی کماکر نہیں دے گا۔ ظاہر ہے کہ 2026 میں مکمل ہونے والا ہائی اسپیڈ ریل کا منصوبہ اپنی طویل دورانیے کی وجہ سے اور زیادہ لاگت کے باعث ڈاکٹر مہاتر کو وہ نتیجہ نہیں دکھا سکتا جس کی ان کی طویل العمری متحمل نہیں ہوسکتی، گو ان کے اس فیصلے کی وجہ سے مختلف حلقوں میں چہ میگوئیاں اٹھ رہی ہیں لیکن ملائیشیا کی حالیہ صورتحال بقول ڈاکٹر صاحب کہ ابھی اس قدر پائیدار نہیں ہے۔
زر کی کمی کے باعث مسائل در پیش ہیں، اس میں کسی حد تک صداقت ہے یا یہ ایک فرضی کہانی ہے لیکن ڈھلتی عمر کے اس شخص کے وژن کو دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس میں کام کرنے اور اپنے ملک کو ایک اعلیٰ مقام پر دیکھنے کی لگن ضرور ہے۔ ملائیشیا کی تاریخ میں طویل ترین وزارت کا عہدہ سنبھالنے والے ڈاکٹر مہاتیر محمد کا ریکارڈ قابل قدر ہے، انھوں نے 1981 سے لے کر 2003 تک وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالا، اس کے بعد پندرہ برس تک وہ اس منصب سے دور رہے، اس غیر حاضری میں کسی نے سوچا نہ تھا کہ نوے کی عمر کے بعد بھی ان جیسے بزرگ شخص میں اس قدر جذبہ ہوسکتا ہے جو انھیں ایک بار پھر انتخابات کے ملاکھڑے میں اتار سکے گا، لیکن ایسا ہی ہوا، طویل ترین وزارت کا ریکارڈ قائم کرنے کے بعد ایک بار پھر ان کے لیے میدان سج گیا اور وہ دنیا کے معمر ترین وزیراعظم بن گئے۔
ڈاکٹر مہاتیر محمد کی تاریخ اٹھاکر دیکھیے تو 1925 میں ملائیشیا کے ایک گاؤں میں وہ اس دور میں پیدا ہوئے جب ملائیشیا برطانیہ کی ایک کالونی تھا، ان کی قوم پسماندگی کا شکار تھی۔ پڑھنے کا شوق انھیں اپنے معلم باپ سے ورثے میں ملا، دس بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے ہونے کے باوجود وہ لاڈلے نہیں بلکہ سخت محنتی تھے، انھوں نے محنت مزدوری بھی کی۔ چائے کیلے اور کافی کی فروخت بھی کی لیکن پڑھائی کو نہیں چھوڑا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد ملائیشیا جاپان کے قبضے میں آگیا، جنگ کے بعد انھوں نے اپنی تعلیم دوبارہ شروع کی اور سنگاپور کے ایک میڈیکل کالج میں داخلہ لیا، وہ اپنی دھن کے پکے تھے لہٰذا ایک کامیاب معالج بن کر ابھرے اور اس میدان میں بھی خوب نام کمایا، لیکن اپنی قوم و ملک کی حالت دیکھ کر خدمت کا جذبہ ان میں پنپنے لگا، سیاست میں آنے کا شوق طالب علم سے ہی چرایا تھا۔
1957 تک ملائیشیا پر انگریز قابض رہے پھر جاپانیوں نے مختصر وقت کے لیے ان پر قبضہ کیا، شاید یہی وجہ ہے کہ ان کے دل میں ان آقاؤں کے خلاف آگ سی بھڑکتی رہی، وہ ان کی چوہدراہٹ کے خلاف تھے لیکن جب انھیں ملائیشیا کی حکومت کرنے کا موقع ملا تو دلچسپ بات یہ ہے کہ انھوں نے مغرب سے اپنے ملک کے مفاد میں بہت سے ایسے معاہدے کیے جو ملائیشیا کی ترقی و بہتری کے لیے ضروری تھے۔ 1956 تک غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ایک ملک کی سالانہ فی کس آمدنی 2003 تک جب کہ ڈاکٹر مہاتیر محمد رخصت ہوئے تھے 4036 ڈالرز تھی جو ان کے 2018 تک دوبارہ برسر اقتدار آنے کے بعد 9766 ڈالرز تک پہنچ چکی ہے، یہی وجہ ہے کہ ملائیشیا کو دنیا کا ترقی یافتہ ملک سمجھا جاتا ہے اور اس کے پاسپورٹس کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
اگر ہم ملائیشیا کا مقابلہ پاکستان سے کرتے ہیں تو اس سفر میں ملائیشیا ہم سے بہت آگے نظر آتا ہے، جہاں مختلف سیاسی طاقتوں نے اپنے اپنے مزاج اور محرکات کے باعث ان منصوبوں کو خراج دیا جو ان کو آنے والے انتخابات میں ووٹ بینک بڑھانے کا باعث بن سکے، یہی وجہ ہے کہ ہم 1960 کے بعد سے کوئی قابل ذکر ڈیم تک نہیں بناسکے کہ جس کے ذریعے ہم اپنے قیمتی میٹھے پانی کو محفوظ رکھ سکیں۔
سیاحت کے حوالے سے ملائیشیا بہت کام ہوا ہے، ابھی حال ہی میں ایک عزیز کی ملائیشیا سے مختصر ٹرپ کے بعد واپسی ہوئی ہے، جو وڈیو اور تصاویر انھوں نے ہمیں ارسال کی تھیں اسے دیکھ کر یوں لگتا تھا کہ جیسے وہ سب کسی خوبصورت جادوئی مقام کی ہو، جہاں صفائی ستھرائی اور عظیم تعمیرات و ترقی اپنی زبان خود بول رہی تھی۔ شاید اس عظیم ترقی میں اگر ڈاکٹر مہاتیر محمد کی انتھک محنت کا اثر ہے تو وہیں ان کی قوم نے بھی بھرپور اپنے قائد کا ساتھ دے کر یہ ثابت کردیا کہ ملائیشیا ایک عظیم اسلامی ترقی یافتہ ملک ہونے کے قابل ہے۔
ملائیشیا میں تعلیم کو بہت اہمیت حاصل ہے، ڈاکٹر مہا تیر محمد نے اس سلسلے میں بہت کام کیا ہے انھوں نے خواتین کی تعلیم پر بھی خصوصی توجہ دی، آج بھی وہاں اسکولوں میں مفت تعلیم دی جارہی ہے جب کہ یونیورسٹی کے درجے تک بھی اسی طرح کی سہولیات فراہم کی گئی ہیں تاکہ تعلیم کو حاصل کرنے میں اگر معاشی مسائل درپیش ہوں تو سرکار آگے بڑھ کر اس دشواری کو آسان بنادے، شاید یہی وجہ ہے کہ ملائیشیا کو ایشین ٹائیگرز کی فہرست میں اہم مقام حاصل ہے۔
یہ درست ہے کہ مہاتیر محمد کے دور کا اگر ماضی میں مطالعہ کریں تو کوئی خامیاں ہی نظر آتی ہیں جن میں ایک بڑی خامی پریس کی محدود آزادی اور عوامی احتجاجی مظاہروں کی پابندی یقیناً یہ وہی پابندیاں ہیں کہ جن کے سبب کیا کوئی ملک ترقی نہیں کرسکتا لیکن ملائیشیا کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ ملائیشیا ہی ان دونوں ایشوز پر گرفت اسی طرح رکھی گئی کہ عوام اس کی عادی ہوگئی اس کے برخلاف جتنی تیز رفتاری اور کم وقت میں ملائیشیا نے جو مقام حاصل کیا ہے کیا وہ مقام ان ممالک کے مقابلے میں کم ہے کہ جہاں پریس اور عوام آزاد تھے۔
اب اپنے ہی ملک کی مثال لے لیجیے یہاں ہر مہینے میڈیا پر ایک ایسا ایشو اٹھتا ہے کہ جس کے لیے عوام کے منتخب نمائندے اس قدر بحث و مباحثے کرتے ہیں کہ ان کی تمام تر توانائی اسمبلی میں ڈیسک بجاتے اور ٹاک شوز میں ٹاکرا کرتے خرچ ہوجاتی ہے کیا اسی طرح آزادی سے کوئی قوم ترقی کرسکتی ہے جہاں جس پارٹی کا دل چاہتا ہے سڑک بلاک کرکے اپنے مطالبات کی فہرست جاری کردیتا ہے تو دوسری جانب وہ مظلوم عوام بھی سوالیہ نشان بنے نظر آتے ہیں جو ظلم و جبر اور سرکاری محکموں کی طبع آزمائی کا شکار بنتے ہیں تو کسی اور سے نہیں تو سڑکوں پر نکل آتے ہیں اور پھر پولیس کی شیلنگ اور فائرنگ کا نشانہ بنتے ہیں آج ایک ان پڑھ ٹھیلے والے نے بھی سیکھ لیا ہے کہ سخت گرمی سے بچنے کی کیا تدابیر ہیں، مختصراً یہ کہ اس قوم میں جذبہ بھی ہے اور سیکھنے کا شعور بھی ہے بس کوئی ڈاکٹر مہاتیر محمد کی طرح سکھانے والا استاد آجائے۔
ان کی عمر تیرانوے (93) سال ہے، پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر تھے لیکن پچھلی کئی دہائیوں سے سیاست سے جڑے ہیں، ملائشیا کی اس نئی نسل نے اس بوڑھے پرائم منسٹر کو سترھویں وزیراعظم کے روپ میں دیکھا ہے جسے انھوں نے خود ہی منتخب بھی کیا ہے۔ ڈاکٹر مہاتیر محمد سخت محنت کرنے کے عادی ہیں، وہ اپنے ملک کو ترقی کی بلندیوں پر دیکھنے کے ہمیشہ خواہاں رہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ اس عمر میں بھی انھوں نے آرام و سکون کے بجائے اپنے ملک کو ایک اونچے مقام پر دیکھنا چاہا اور اسی راہ کو اختیار بھی کیا۔
کہتے ہیں کہ اگر نیت سچی ہو تو منزل مل بھی جاتی ہے، یہ محض کہنے اور سننے کی بات نہیں ہے بلکہ ڈاکٹر مہا تیر محمد نے ایسا کر دکھایا ہے اور وہ ایسے منصوبوں میں دلچسپی نہیں دکھا رہے جس میں ان کے خیال میں وقت اور پیسے کا ضیاع ہے، مثلاً تیز رفتار ریل کا منصوبہ جس میں سینتیس(37) بلین امریکی ڈالرز خرچ آئے گا اور بقول ڈاکٹر مہاتیر کے وہ ہمیں ایک پائی بھی کماکر نہیں دے گا۔ ظاہر ہے کہ 2026 میں مکمل ہونے والا ہائی اسپیڈ ریل کا منصوبہ اپنی طویل دورانیے کی وجہ سے اور زیادہ لاگت کے باعث ڈاکٹر مہاتر کو وہ نتیجہ نہیں دکھا سکتا جس کی ان کی طویل العمری متحمل نہیں ہوسکتی، گو ان کے اس فیصلے کی وجہ سے مختلف حلقوں میں چہ میگوئیاں اٹھ رہی ہیں لیکن ملائیشیا کی حالیہ صورتحال بقول ڈاکٹر صاحب کہ ابھی اس قدر پائیدار نہیں ہے۔
زر کی کمی کے باعث مسائل در پیش ہیں، اس میں کسی حد تک صداقت ہے یا یہ ایک فرضی کہانی ہے لیکن ڈھلتی عمر کے اس شخص کے وژن کو دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس میں کام کرنے اور اپنے ملک کو ایک اعلیٰ مقام پر دیکھنے کی لگن ضرور ہے۔ ملائیشیا کی تاریخ میں طویل ترین وزارت کا عہدہ سنبھالنے والے ڈاکٹر مہاتیر محمد کا ریکارڈ قابل قدر ہے، انھوں نے 1981 سے لے کر 2003 تک وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالا، اس کے بعد پندرہ برس تک وہ اس منصب سے دور رہے، اس غیر حاضری میں کسی نے سوچا نہ تھا کہ نوے کی عمر کے بعد بھی ان جیسے بزرگ شخص میں اس قدر جذبہ ہوسکتا ہے جو انھیں ایک بار پھر انتخابات کے ملاکھڑے میں اتار سکے گا، لیکن ایسا ہی ہوا، طویل ترین وزارت کا ریکارڈ قائم کرنے کے بعد ایک بار پھر ان کے لیے میدان سج گیا اور وہ دنیا کے معمر ترین وزیراعظم بن گئے۔
ڈاکٹر مہاتیر محمد کی تاریخ اٹھاکر دیکھیے تو 1925 میں ملائیشیا کے ایک گاؤں میں وہ اس دور میں پیدا ہوئے جب ملائیشیا برطانیہ کی ایک کالونی تھا، ان کی قوم پسماندگی کا شکار تھی۔ پڑھنے کا شوق انھیں اپنے معلم باپ سے ورثے میں ملا، دس بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے ہونے کے باوجود وہ لاڈلے نہیں بلکہ سخت محنتی تھے، انھوں نے محنت مزدوری بھی کی۔ چائے کیلے اور کافی کی فروخت بھی کی لیکن پڑھائی کو نہیں چھوڑا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد ملائیشیا جاپان کے قبضے میں آگیا، جنگ کے بعد انھوں نے اپنی تعلیم دوبارہ شروع کی اور سنگاپور کے ایک میڈیکل کالج میں داخلہ لیا، وہ اپنی دھن کے پکے تھے لہٰذا ایک کامیاب معالج بن کر ابھرے اور اس میدان میں بھی خوب نام کمایا، لیکن اپنی قوم و ملک کی حالت دیکھ کر خدمت کا جذبہ ان میں پنپنے لگا، سیاست میں آنے کا شوق طالب علم سے ہی چرایا تھا۔
1957 تک ملائیشیا پر انگریز قابض رہے پھر جاپانیوں نے مختصر وقت کے لیے ان پر قبضہ کیا، شاید یہی وجہ ہے کہ ان کے دل میں ان آقاؤں کے خلاف آگ سی بھڑکتی رہی، وہ ان کی چوہدراہٹ کے خلاف تھے لیکن جب انھیں ملائیشیا کی حکومت کرنے کا موقع ملا تو دلچسپ بات یہ ہے کہ انھوں نے مغرب سے اپنے ملک کے مفاد میں بہت سے ایسے معاہدے کیے جو ملائیشیا کی ترقی و بہتری کے لیے ضروری تھے۔ 1956 تک غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ایک ملک کی سالانہ فی کس آمدنی 2003 تک جب کہ ڈاکٹر مہاتیر محمد رخصت ہوئے تھے 4036 ڈالرز تھی جو ان کے 2018 تک دوبارہ برسر اقتدار آنے کے بعد 9766 ڈالرز تک پہنچ چکی ہے، یہی وجہ ہے کہ ملائیشیا کو دنیا کا ترقی یافتہ ملک سمجھا جاتا ہے اور اس کے پاسپورٹس کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
اگر ہم ملائیشیا کا مقابلہ پاکستان سے کرتے ہیں تو اس سفر میں ملائیشیا ہم سے بہت آگے نظر آتا ہے، جہاں مختلف سیاسی طاقتوں نے اپنے اپنے مزاج اور محرکات کے باعث ان منصوبوں کو خراج دیا جو ان کو آنے والے انتخابات میں ووٹ بینک بڑھانے کا باعث بن سکے، یہی وجہ ہے کہ ہم 1960 کے بعد سے کوئی قابل ذکر ڈیم تک نہیں بناسکے کہ جس کے ذریعے ہم اپنے قیمتی میٹھے پانی کو محفوظ رکھ سکیں۔
سیاحت کے حوالے سے ملائیشیا بہت کام ہوا ہے، ابھی حال ہی میں ایک عزیز کی ملائیشیا سے مختصر ٹرپ کے بعد واپسی ہوئی ہے، جو وڈیو اور تصاویر انھوں نے ہمیں ارسال کی تھیں اسے دیکھ کر یوں لگتا تھا کہ جیسے وہ سب کسی خوبصورت جادوئی مقام کی ہو، جہاں صفائی ستھرائی اور عظیم تعمیرات و ترقی اپنی زبان خود بول رہی تھی۔ شاید اس عظیم ترقی میں اگر ڈاکٹر مہاتیر محمد کی انتھک محنت کا اثر ہے تو وہیں ان کی قوم نے بھی بھرپور اپنے قائد کا ساتھ دے کر یہ ثابت کردیا کہ ملائیشیا ایک عظیم اسلامی ترقی یافتہ ملک ہونے کے قابل ہے۔
ملائیشیا میں تعلیم کو بہت اہمیت حاصل ہے، ڈاکٹر مہا تیر محمد نے اس سلسلے میں بہت کام کیا ہے انھوں نے خواتین کی تعلیم پر بھی خصوصی توجہ دی، آج بھی وہاں اسکولوں میں مفت تعلیم دی جارہی ہے جب کہ یونیورسٹی کے درجے تک بھی اسی طرح کی سہولیات فراہم کی گئی ہیں تاکہ تعلیم کو حاصل کرنے میں اگر معاشی مسائل درپیش ہوں تو سرکار آگے بڑھ کر اس دشواری کو آسان بنادے، شاید یہی وجہ ہے کہ ملائیشیا کو ایشین ٹائیگرز کی فہرست میں اہم مقام حاصل ہے۔
یہ درست ہے کہ مہاتیر محمد کے دور کا اگر ماضی میں مطالعہ کریں تو کوئی خامیاں ہی نظر آتی ہیں جن میں ایک بڑی خامی پریس کی محدود آزادی اور عوامی احتجاجی مظاہروں کی پابندی یقیناً یہ وہی پابندیاں ہیں کہ جن کے سبب کیا کوئی ملک ترقی نہیں کرسکتا لیکن ملائیشیا کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ ملائیشیا ہی ان دونوں ایشوز پر گرفت اسی طرح رکھی گئی کہ عوام اس کی عادی ہوگئی اس کے برخلاف جتنی تیز رفتاری اور کم وقت میں ملائیشیا نے جو مقام حاصل کیا ہے کیا وہ مقام ان ممالک کے مقابلے میں کم ہے کہ جہاں پریس اور عوام آزاد تھے۔
اب اپنے ہی ملک کی مثال لے لیجیے یہاں ہر مہینے میڈیا پر ایک ایسا ایشو اٹھتا ہے کہ جس کے لیے عوام کے منتخب نمائندے اس قدر بحث و مباحثے کرتے ہیں کہ ان کی تمام تر توانائی اسمبلی میں ڈیسک بجاتے اور ٹاک شوز میں ٹاکرا کرتے خرچ ہوجاتی ہے کیا اسی طرح آزادی سے کوئی قوم ترقی کرسکتی ہے جہاں جس پارٹی کا دل چاہتا ہے سڑک بلاک کرکے اپنے مطالبات کی فہرست جاری کردیتا ہے تو دوسری جانب وہ مظلوم عوام بھی سوالیہ نشان بنے نظر آتے ہیں جو ظلم و جبر اور سرکاری محکموں کی طبع آزمائی کا شکار بنتے ہیں تو کسی اور سے نہیں تو سڑکوں پر نکل آتے ہیں اور پھر پولیس کی شیلنگ اور فائرنگ کا نشانہ بنتے ہیں آج ایک ان پڑھ ٹھیلے والے نے بھی سیکھ لیا ہے کہ سخت گرمی سے بچنے کی کیا تدابیر ہیں، مختصراً یہ کہ اس قوم میں جذبہ بھی ہے اور سیکھنے کا شعور بھی ہے بس کوئی ڈاکٹر مہاتیر محمد کی طرح سکھانے والا استاد آجائے۔