رات دن گردش میں ہیں سات آسماں
اگر آپ سمجھتے ہیں کہ ہم ان سات آسمانوں کا نام یا ویئر اباؤٹ آپ کو بتادیں گے تو آپ کی غلط فہمی ہے۔
پیر و مرشد نے کہا تھا کہ
رات دن گردش میں سات آسماں
ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا؟
یہ تو معلوم نہیں کہ مرشد کا اشارہ کن آسمان کی طر ف تھا اور وہ کونسے ''کچھ نہ کچھ'' کے منتظر تھے لیکن ہمارے ساتھ ایسا کوئی مسٔلہ نہیں ہے۔ ہمیں وہ سات آسمان بھی معلوم ہیں جو کہ گردش کر رہے ہیں گردش کا بھی پتہ ہے کہ کیسی گردش ہو رہی ہے اور اس کا بھی پتہ ہی کیا ''کچھ نہ کچھ'' ہونے والا ہے اور ہو کر رہے گا لیکن پرابلم یہ ہے کہ :
ہے کچھ ایسی ہی بات جو چپ ہیں
ورنہ کیا بات کر نہیں آتی
اور یہ تو ہم آپ کو کئی بار بتا چکے ہیں کہ ہم نہ تو کچھ زیادہ ''پشتون'' ہیں اور نہ ہی خالص قسم کے مومن جو کلمہ حق بلند کرکے خود کو شہادت کے مرتبے پر فائز کر دیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ ہم آج تک زندہ موجود ہیں کسی بوری میں گٹر میں یا کسی بند کمرے میں نہیں پہنچے ہیں اس کے لیے ہم اپنے لطیف چوہدری کے شکر گزار ہیں ورنہ ہم تو یوں سمجھئے کہ اب تک نہ جانے کس جہاں میں کھو چکے ہوتے۔ اب کے تو مرگ مفاجات کے ساتھ ساتھ ''مقدسات'' کی بے حرمتی کا خطرہ بھی سر پر منڈلا رہا ہے کیونکہ ان سات آسمانوں میں ایک آسمان مقدسات کا بھی ہے جس کی توہین کا الزام کسی بھی بات کے لیے لگ سکتا ہے۔
ویسے بھی ہمارے بتانے نہ بتانے سے کچھ فرق پڑھنے والا نہیں ہے کہ یہ پبلک ہے سب جانتی ہے یہ الگ بات ہے کہ اس کی یادداشت فلم گجنی کے عامر خان جیسی ہے۔ اب یہ جو رات دن گردش میں ہیں سات آسمان اور ان میں ''ستارے'' آسمانوں سے بھی زیادہ مائل بہ گردش ہیں۔ ان کے بارے میں جو بات ہم پورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ یہ سارا میلہ سارا تام جھام صرف اس بد نصیب کی ''چادر'' چرانے کے لیے ہے جس نے ہر میلے میں ''چادر'' کھوئی۔ لیکن اس بار شاید چار دیواری سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے اور ''چارے'' سے بھی جس کی ٹانگیں ''چار'' نہیں ہیں لیکن ایسے ظالموں سے دو چار ہوا ہے جو اسے مکمل طور پر چار پایہ اور ''چارپائی'' دونوں بنا چکے ہیں وہ بھی کچھ ایسا ویسا نہیں پرانے زمانے میں تو یہ پہیلی پوچھی جاتی تھی کہ بتاؤ وہ پرندہ کونسا ہے جس کے سر پر پیر ہوتے ہیں لیکن آج کل اسے الٹا کر کہا جاتا ہے کہ وہ کونسا پرندہ ہے جس کے ''پیر پر سر'' ہوتا ہے اور وہ کون سا جانور ہے جو انڈے بھی دیتا ہے اور دودھ بھی دیتا ہے جس کی اون بھی کھائی جاتی ہے اور کھال بھی اتاری جاتی ہے وہ کھال جس کے ''حقدار'' بے شمار ہوتے ہیں اور مستحق بے قطار۔ بلکہ ہم نے آپ کو ایک گائے کا قصہ بھی بتایا تھا جو سب کچھ پیدا کر دیتی تھی اور پھر برھمن اور کشتری میں اس کے لیے پھڈا پڑ گیا اور آخر کار دونوں ساجھے دار بن گئے کہ تو دودھ اور مجھے بھی دوہنے دو اور وہ دونوں دھو رہے ہیں۔ اور یہ جن ''سات آسمانوں'' کا ہم نے ذکر کر دیا ہے کہ آج کل بڑی تیزی سے رات دن گردش میں ہیں یہ بھی اسی گائے کا جھگڑا ہے۔
اگر آپ سمجھتے ہیں کہ ہم ان سات آسمانوں کا نام یا ویئر اباؤٹ آپ کو بتادیں گے تو آپ کی غلط فہمی ہے کیونکہ اس کا کوئی فائدہ ہے ہی نہیں کوئی چاہے آپ کو کتنا بھی سمجھائے آپ کریں گے وہی جو کرتے آئے ہیں۔ ہم وہ خدائی خدمت گار فیلسوف نہیں ہیں جس کو طوطوں پر رحم آگیا تھا اور اس نے طوطوں کو تعلیم دینا شروع کیا کہ ہم شکاری کے نرکل پر کبھی نہیں بیٹھیں گے اور اگر بیٹھیں گے تو پھڑ پھڑا کر اڑ جائیں گے۔ اپنے خیال میں اچھی طرح سمجھانے کے بعد وہ فیلسوف مطمئن ہوگیا کہ اب یہ طوطے کبھی شکاری کے ہاتھ نہیں لگیں گے۔ لیکن صبح جا کر دیکھا تو اس کے سارے شاگرد بلکہ فارغ التحصیل اور کوالیفائڈ طوطے شکاری کے نرکل پر لٹک رہے اور آموختہ دہرا رہے ہم شکاری کے نرکل پر کبھی نہیں بیٹھیں گے اگر بیٹھیں گے تو پھڑ پھڑا کر اڑ جائیں گے او ر اپنے آموختے میں اتنے مصروف تھے کہ شکاری انھیں پکڑ کر پنجرے میں ڈال رہا تھا اور یہ پنجرے میں بھی آموختہ دہرا رہے تھے۔
مکتب عشق کا دستور نرالا دیکھا
اسے چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا
لیکن ان آسمانوں میں آج کل ایک نئے آسمان کا اضافہ کچھ معمول سے ہٹ کر ہے جو نہ صرف گرجتا بھی ہے بلکہ برستا بھی ہے بلکہ اپنے اندر بجلیاں بھی کھڑکاتا رہتا ہے اور ہمارے لیے سب سے بڑ معمہ یہ آٹھواں آسمان ہے کہ یہ آیا کہاں سے یا ہے بھی کہ نہیں صرف بادل ہی بادل ہیں جو گرج گرج کر بغیر برسے چلے جائیں گے اور پیاسے ویسے ہی دشت وبیابان میں رہزنوں کے ہاتھوں لٹتے رہیں گے۔ سیرابوں کے پیچھے دوڑ دوڑ کر پیاسے ہی پیاسے مرجائیں گے۔
پھر بہار آئی وہی دشت نوردی ہوگی
پھر وہی پاؤں وہی خار مغیلاں ہوں گے
سنگ اور ہاتھ وہی اور وہی ''سر'' اور داغ جنوں
وہی ہم اور وہ ہی دشت و بیاباں ہو ں گے
ہاں یہ آٹھواں آسمان تھا تو یہ پہلے بھی۔ لیکن اتنا نہیں تھا جتنا اب دکھائی دیتا ہے کیا یہ واقعی مستقل ایک آٹھواں آسمان بننے جا رہا ہے جس میں نئے ستارے اور نئے سیارے ہوں گے یا یہ ایک عارضی گردش کا زمانہ ہے کچھ سمجھ میں نہیں آتا باقی کے سات آسمان تو جانے پہچانے ہیں ان کی گردش بھی اور ستارے سیارے بھی کہ ادھر ڈوبے ادھر نکلے ادھر نکلے ادھر ڈوبے۔
زمانہ عہد میں اس کے محو آرائش
بنیں گے اور ستارے اب آسمان کے لیے
بہر حال ایک بات جو یقینی ہے وہ یہ ہے کہ ہو رہے گا کچھ نہ کچھ لیکن کالا نعاموںکو خاطر جمع رکھنا چاہیے کہ جو کچھ بھی ہو گا اس میں تمہارا کچھ بھی نہ ہوگا تمہاری قسمت میں نعروں اور نالوں کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں ہے۔
نالے ازل میں چند ہمارے سپرد تھے
جو واں نہ کھچ سکے تو وہ یاں آ کے دم ہوئے
آخر میں وہی ایک بات ذہن میں آتی ہے جو آج کل ہمیشہ آرہی ہے بلکہ ذہن سے نکل کر ہی نہیں دے رہی ہے کہ کیا وہ جو ایک شرم نام کی چیز ہوا کرتی تھی کیا اسے کسی ''دنبے'' کی طرح ذبح کر دیا گیا ہے۔
شرم اک ادائے ناز ہے اپنے سے ہی سہی
ہیں کتنے بے حجاب جو یاں ہیں حجاب ہیں
رات دن گردش میں سات آسماں
ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا؟
یہ تو معلوم نہیں کہ مرشد کا اشارہ کن آسمان کی طر ف تھا اور وہ کونسے ''کچھ نہ کچھ'' کے منتظر تھے لیکن ہمارے ساتھ ایسا کوئی مسٔلہ نہیں ہے۔ ہمیں وہ سات آسمان بھی معلوم ہیں جو کہ گردش کر رہے ہیں گردش کا بھی پتہ ہے کہ کیسی گردش ہو رہی ہے اور اس کا بھی پتہ ہی کیا ''کچھ نہ کچھ'' ہونے والا ہے اور ہو کر رہے گا لیکن پرابلم یہ ہے کہ :
ہے کچھ ایسی ہی بات جو چپ ہیں
ورنہ کیا بات کر نہیں آتی
اور یہ تو ہم آپ کو کئی بار بتا چکے ہیں کہ ہم نہ تو کچھ زیادہ ''پشتون'' ہیں اور نہ ہی خالص قسم کے مومن جو کلمہ حق بلند کرکے خود کو شہادت کے مرتبے پر فائز کر دیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ ہم آج تک زندہ موجود ہیں کسی بوری میں گٹر میں یا کسی بند کمرے میں نہیں پہنچے ہیں اس کے لیے ہم اپنے لطیف چوہدری کے شکر گزار ہیں ورنہ ہم تو یوں سمجھئے کہ اب تک نہ جانے کس جہاں میں کھو چکے ہوتے۔ اب کے تو مرگ مفاجات کے ساتھ ساتھ ''مقدسات'' کی بے حرمتی کا خطرہ بھی سر پر منڈلا رہا ہے کیونکہ ان سات آسمانوں میں ایک آسمان مقدسات کا بھی ہے جس کی توہین کا الزام کسی بھی بات کے لیے لگ سکتا ہے۔
ویسے بھی ہمارے بتانے نہ بتانے سے کچھ فرق پڑھنے والا نہیں ہے کہ یہ پبلک ہے سب جانتی ہے یہ الگ بات ہے کہ اس کی یادداشت فلم گجنی کے عامر خان جیسی ہے۔ اب یہ جو رات دن گردش میں ہیں سات آسمان اور ان میں ''ستارے'' آسمانوں سے بھی زیادہ مائل بہ گردش ہیں۔ ان کے بارے میں جو بات ہم پورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ یہ سارا میلہ سارا تام جھام صرف اس بد نصیب کی ''چادر'' چرانے کے لیے ہے جس نے ہر میلے میں ''چادر'' کھوئی۔ لیکن اس بار شاید چار دیواری سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے اور ''چارے'' سے بھی جس کی ٹانگیں ''چار'' نہیں ہیں لیکن ایسے ظالموں سے دو چار ہوا ہے جو اسے مکمل طور پر چار پایہ اور ''چارپائی'' دونوں بنا چکے ہیں وہ بھی کچھ ایسا ویسا نہیں پرانے زمانے میں تو یہ پہیلی پوچھی جاتی تھی کہ بتاؤ وہ پرندہ کونسا ہے جس کے سر پر پیر ہوتے ہیں لیکن آج کل اسے الٹا کر کہا جاتا ہے کہ وہ کونسا پرندہ ہے جس کے ''پیر پر سر'' ہوتا ہے اور وہ کون سا جانور ہے جو انڈے بھی دیتا ہے اور دودھ بھی دیتا ہے جس کی اون بھی کھائی جاتی ہے اور کھال بھی اتاری جاتی ہے وہ کھال جس کے ''حقدار'' بے شمار ہوتے ہیں اور مستحق بے قطار۔ بلکہ ہم نے آپ کو ایک گائے کا قصہ بھی بتایا تھا جو سب کچھ پیدا کر دیتی تھی اور پھر برھمن اور کشتری میں اس کے لیے پھڈا پڑ گیا اور آخر کار دونوں ساجھے دار بن گئے کہ تو دودھ اور مجھے بھی دوہنے دو اور وہ دونوں دھو رہے ہیں۔ اور یہ جن ''سات آسمانوں'' کا ہم نے ذکر کر دیا ہے کہ آج کل بڑی تیزی سے رات دن گردش میں ہیں یہ بھی اسی گائے کا جھگڑا ہے۔
اگر آپ سمجھتے ہیں کہ ہم ان سات آسمانوں کا نام یا ویئر اباؤٹ آپ کو بتادیں گے تو آپ کی غلط فہمی ہے کیونکہ اس کا کوئی فائدہ ہے ہی نہیں کوئی چاہے آپ کو کتنا بھی سمجھائے آپ کریں گے وہی جو کرتے آئے ہیں۔ ہم وہ خدائی خدمت گار فیلسوف نہیں ہیں جس کو طوطوں پر رحم آگیا تھا اور اس نے طوطوں کو تعلیم دینا شروع کیا کہ ہم شکاری کے نرکل پر کبھی نہیں بیٹھیں گے اور اگر بیٹھیں گے تو پھڑ پھڑا کر اڑ جائیں گے۔ اپنے خیال میں اچھی طرح سمجھانے کے بعد وہ فیلسوف مطمئن ہوگیا کہ اب یہ طوطے کبھی شکاری کے ہاتھ نہیں لگیں گے۔ لیکن صبح جا کر دیکھا تو اس کے سارے شاگرد بلکہ فارغ التحصیل اور کوالیفائڈ طوطے شکاری کے نرکل پر لٹک رہے اور آموختہ دہرا رہے ہم شکاری کے نرکل پر کبھی نہیں بیٹھیں گے اگر بیٹھیں گے تو پھڑ پھڑا کر اڑ جائیں گے او ر اپنے آموختے میں اتنے مصروف تھے کہ شکاری انھیں پکڑ کر پنجرے میں ڈال رہا تھا اور یہ پنجرے میں بھی آموختہ دہرا رہے تھے۔
مکتب عشق کا دستور نرالا دیکھا
اسے چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا
لیکن ان آسمانوں میں آج کل ایک نئے آسمان کا اضافہ کچھ معمول سے ہٹ کر ہے جو نہ صرف گرجتا بھی ہے بلکہ برستا بھی ہے بلکہ اپنے اندر بجلیاں بھی کھڑکاتا رہتا ہے اور ہمارے لیے سب سے بڑ معمہ یہ آٹھواں آسمان ہے کہ یہ آیا کہاں سے یا ہے بھی کہ نہیں صرف بادل ہی بادل ہیں جو گرج گرج کر بغیر برسے چلے جائیں گے اور پیاسے ویسے ہی دشت وبیابان میں رہزنوں کے ہاتھوں لٹتے رہیں گے۔ سیرابوں کے پیچھے دوڑ دوڑ کر پیاسے ہی پیاسے مرجائیں گے۔
پھر بہار آئی وہی دشت نوردی ہوگی
پھر وہی پاؤں وہی خار مغیلاں ہوں گے
سنگ اور ہاتھ وہی اور وہی ''سر'' اور داغ جنوں
وہی ہم اور وہ ہی دشت و بیاباں ہو ں گے
ہاں یہ آٹھواں آسمان تھا تو یہ پہلے بھی۔ لیکن اتنا نہیں تھا جتنا اب دکھائی دیتا ہے کیا یہ واقعی مستقل ایک آٹھواں آسمان بننے جا رہا ہے جس میں نئے ستارے اور نئے سیارے ہوں گے یا یہ ایک عارضی گردش کا زمانہ ہے کچھ سمجھ میں نہیں آتا باقی کے سات آسمان تو جانے پہچانے ہیں ان کی گردش بھی اور ستارے سیارے بھی کہ ادھر ڈوبے ادھر نکلے ادھر نکلے ادھر ڈوبے۔
زمانہ عہد میں اس کے محو آرائش
بنیں گے اور ستارے اب آسمان کے لیے
بہر حال ایک بات جو یقینی ہے وہ یہ ہے کہ ہو رہے گا کچھ نہ کچھ لیکن کالا نعاموںکو خاطر جمع رکھنا چاہیے کہ جو کچھ بھی ہو گا اس میں تمہارا کچھ بھی نہ ہوگا تمہاری قسمت میں نعروں اور نالوں کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں ہے۔
نالے ازل میں چند ہمارے سپرد تھے
جو واں نہ کھچ سکے تو وہ یاں آ کے دم ہوئے
آخر میں وہی ایک بات ذہن میں آتی ہے جو آج کل ہمیشہ آرہی ہے بلکہ ذہن سے نکل کر ہی نہیں دے رہی ہے کہ کیا وہ جو ایک شرم نام کی چیز ہوا کرتی تھی کیا اسے کسی ''دنبے'' کی طرح ذبح کر دیا گیا ہے۔
شرم اک ادائے ناز ہے اپنے سے ہی سہی
ہیں کتنے بے حجاب جو یاں ہیں حجاب ہیں