ہیں کٹھن بہت دیہی خواتین کے شب و روز

رمضان میں ان خواتین کے معمولاتِ زندگی۔

ان کا طرز زندگی شہر کی خواتین سے قدرے مختلف تھا۔ فوٹو: فائل

لاہور:
''ہم گاؤں گھومنے جائیں گے۔'' ابونے گاؤں جانے کی کیا خبر سنائی، گھر بھر میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ اس سے قبل کبھی گاؤں نہیں دیکھا تھا۔

صوبہ سندھ کے شہر مٹیاری سے آگے جاکر وہ گاؤں تھا۔ راستے کے دونوں اطراف لہلہاتے کھیت تھے۔ گاؤں میں ابو کے دوست کی اہلیہ اور بیٹیوں نے والہانہ استقبال کیا۔ چارپائیوں پر رلیاں اور تکیے رکھ کر ہمیں بٹھایا، تکیوں کے غلاف پر کڑھائی کی ہوئی تھی اور شیشے جڑے ہوئے تھے۔ آنگن میں بھاگتی مرغیوں میں سے مرغی پکڑ کر ذبح کی اور لکڑیاں جلاکر کھانا پکانے لگیں۔ گائے اور بھینس کا دودھ دوہ کر چائے بنائی، کھیتوں کی سیر کرائی، گلاب کے پھول چن کر ان کا گل دستہ بناکر مجھے تحفے میں دیا۔

ہاتھ منہ دھونے کے لیے وہاں نلکوں کے بجائے آنگن میں ہینڈ پمپ تھا۔ وہ خواتین تیزی سے وہ ہینڈ پمپ چلاتیں اور پانی آجاتا، خواتین کھیتوں میں بھی کام کررہی تھیں جن کچے ناہموار اور تنگ راستوں پر چلنے میں ہمیں دقت پیش آرہی تھی، وہ خواتین تیزی سے ان راستوں سے گزر کر کھیتوں میں کام کرتی تھیں۔ واپسی پر ہاتھ سے بنائی چند اشیا تحفے میں بھی دیں۔ ان کا طرز زندگی شہر کی خواتین سے قدرے مختلف تھا، لہٰذا ماہ رمضان المبارک میں دیہی خواتین کے کیا معمولات زندگی ہوتے ہیں، اس سوال کو مد نظر رکھ کر ہم نے چند خواتین سے جو باتیں کیں، وہ ذیل میں درج ہیں۔

٭سکینہ:

سکینہ کا تعلق صوبۂ سندھ کے شہر بدین سے آگے لواری شریف سے ہے۔ سکینہ انتہائی محنتی اور جفاکش خاتون ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے گاؤں میں خواتین صبح جلدی اٹھ جاتی ہیں، ناشتے میں چاول، دہی، لسی اور چائے ہوتی ہے پھر کھیتوں میں ٹماٹر، بینگن، تربوز، ہری مرچ، ہرا دھنیا، روئی چنتی ہیں جسے بازار بھیج دیتی ہیں پھر گھر کا کام کرتی ہیں۔ عام دنوں میں دوپہر کے وقت کھانے کے لیے گھر کے مرد جو کھیتوں میں کام کرتے ہیں، وہ گھر آجائیں تو کھانا کھالیتے ہیں ورنہ ان کے لیے کھانا لے کر کھیتوں میں جاتی ہیں۔ وقت ملے تو تھوڑا بہت آرام کرتی ہیں ورنہ کام کرتی رہتی ہیں۔ افطاری کے وقت کھجور میسر ہو تو اس سے روزہ افطار کیا ورنہ نمک سے روزہ کھولتی ہیں۔ برف نہ ہو تو مٹکے کا ٹھنڈا پانی پیتی ہیں۔ منہگائی بہت ہے لہٰذا پکوڑے تو قسمت سے کبھی کبھار بنتے ہیں۔ اسی طرح اگر پھل ہوں تو کھالیتے ہیں ورنہ جو میسر ہو کھالیتے ہیں۔ کھانے میں دال، گوبھی یا مچھلی کا سالن ہوتا ہے، مچھلی بھی خریدتے نہیں، بلکہ قریبی ندی تالاب سے پکڑ کر لے آتے ہیں جسے بیچتے بھی ہیں اور پکارکر بھی کھاتے ہیں۔ سبزیاں وغیرہ بھی کھیتوں سے مل جاتی ہیں۔ لال مرچ کے لیے ہری مرچ کو سکھایا جاتا ہے۔ سردی کے دنوں میں پالک، چولائی، وغیرہ کھیتوں سے چن کر پکالیتے ہیں۔ جب گھر میں کوئی سالن نہ ہو تو مرچیں پیس کر کھالیتی ہیں۔ کچھ خواتین محلے کی گائے بکریاں چراتی ہیں، ان کے لیے گھاس کاٹتی ہیں جس سے کچھ پیسے مل جاتے ہیں۔ غربت ہے لہٰذا اکثر اشیائے خور و نوش، کسی خوشی غمی کے موقع یا بچے کی ولادت وغیرہ کے موقع پر قرض لیا جاتا ہے، فصل کٹنے کے بعد جب زمیں دار پیسے دیتا ہے تو وہ قرض چکایا جاتا ہے۔ عموماً بیش تر رقم ان ہی میں ختم ہوجاتی ہے۔ اکثر خواتین اور بچوں کے پاس چپل نہیں ہوتی، وہ ننگے پر دھوپ سے تپتی زمین پر پیر جھلسنے کے باوجود چلتی رہتی ہیں۔ گاؤں میں جو شخص کپڑے بیچنے آتا ہے، اس کے لیے ایک جوڑا خریدا جاتا ہے۔ جب پیسے ملتے ہیں تو اس کی ادائیگی کی جاتی ہے، کسی خاص موقع پر سوجی یا سوئیاں بنائی جاتی ہیں۔ موٹی سوئیاں خواتین مشینوں پر بناتی ہیں پکاتی ہیں اور فروخت بھی کرتی ہیں، پاپڑ بھی گھر میں بناتی ہیں۔


٭مینا:

مینا (فرضی نام) کا تعلق میرپور خاص سے کے ڈگری شہر کے قریب واقع گاؤں سے ہے۔ انھوں نے بتایاکہ سحری میں صبح اندھیرے میں اٹھ کر بھینسوں سے دودھ نکالتی ہیں پھر سحری بناتی ہیں۔ سحری میں رات کا جما ہوا دہی، لسی، روٹی، سبزی، دال جو بھی سالن ہو اور چائے ہوتی ہے۔ پھر کھیتوں میں کپاس چننے جاتی ہیں، چن کر تھیلا بھر کر وہاں رکھ آتی ہیں، پھر گھر کا کام کاج کرتی ہیں۔ جھاڑو لگانا، کھانا پکانا وغیرہ افطاری میں شربت، کھجور، روٹی، آلو کا سالن وغیرہ ہوتا ہے۔ صاحب حیثیت لوگ پھل بھی کھاتے ہیں۔ اگر دودھ نہ ہو تو کالی چائے پی لیتے ہیں۔ مہینے دو مہینے میں گوشت یا مرغی پکاتے ہیں، وہ بھی کسی کے پاس پلا ہوا ہو تو کاٹ کر کھالیتے ہیں ورنہ نہیں کھاتے۔ کھانے میں زیادہ مسالے نہیں ڈالتے۔ دھنیا، زیرہ، مرچیں کوٹ کر ڈالتے ہیں جس سے کھانے میں ذائقہ ہوجاتا ہے۔ عید کا تہوار ہو یا کسی کی دعوت ہو تو گوشت کا سالن، چاول اور روٹی پکاتے ہیں۔ عید پر ایک جوڑا بناتی ہیں جو ادھار یا قسطوں پر لیا جاتا ہے۔ فصل کٹنے پر جب زمیں دار پیسے دیتا ہے تو ادائیگی کردی جاتی ہے۔

٭شبانہ:

شبانہ کا تعلق ضلع رحیم یار خان کے قریب واقع گاؤں پٹن منارا سے ہے۔ اپنے گاؤں کی خواتین کے متعلق بتاتے ہوئے انھوں نے کہاکہ شہر کی اور گاؤں کی زندگی میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ گاؤں کی خواتین عام دنوں میں بھی صبح چار بجے اٹھتی ہیں۔ گھروں کے بڑے آنگن میں بندھے جانوروں کا دودھ نکالنے کے بعد جانوروں کو گھر کے باہر مخصوص جگہ پر باندھ دیتی ہیں، پھر گھر کی اس حصے کی جہاں جانور بندھے تھے صفائی کرتی ہیں اور باہر جس جگہ جانور باندھتی ہیں وہاں کی صفائی رات کو کرتی ہیں۔ صفائی کے بعد ناشتے کی تیاری کرتی ہیں۔ پراٹھے، گھر کا بنا مکھن، رات کا جما ہوا دہی، لسی وغیرہ ہوتی ہے۔ اب چائے بھی پی جاتی ہے۔ ڈبل روٹی، سلائس (بریڈ) شوقیہ کبھی شہر سے لے آئے تو کھالی جاتی ہے پھر خواتین گھر کا کام کرتی ہیں پھر گھاس پھونس کاٹنے زمینوں پر چلی جاتی ہیں۔ دو ڈھائی گھنٹوں بعد بیل گاڑی میں لے کر آتی ہیں بیل کو گاڑی سے الگ کرکے چھاؤں میں کھڑا کردیتی ہیں۔ عام دنوں میں دوپہر میں لسی، اچار، صبح کی پکی روٹی جس کو مکھن لگاکر رکھ دیا گیا تھا، کھاتی ہیں۔ مرد زمینوں پر ہل چلاتے ہیں، خواتین ان کو کھانا پہنچانے جاتی ہیں، پھر برتن واپس لے کر آجاتی ہیں۔ جیسے ہی فارغ ہوتی ہیں تو کشیدہ کاری، رلیاں( کپڑے کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کو جوڑ کر رلی بنانا) بنانا اور پنکھے وغیرہ بناتی ہیں۔ یہ اشیا گھر میں بھی استعمال کرتی ہیں اور بیچتی بھی ہیں۔ معاشی حالات جانوروں کو پالنے سے ہی چلتے ہیں۔ بقرعید پر چھوٹے چھوٹی جانوروں کے بچے لے کر پالتے ہیں۔ سال بھر خواتین ان کی دیکھ بھال کرتی ہیں۔ اگلی بقرعید پر بیچ دیے جاتے ہیں۔ منافع رکھ کر بقایا پیسوں سے دوبارہ جانوروں کے بچے خرید لیے جاتے ہیں، کیوں کہ فصل کی کمائی تو سال کے بعد آتی ہے، البتہ گرمی کا موسم ہے تو جانوروں کا بھی خیال رکھنا پڑتا ہے۔ رمضان المبارک میں بھی خواتین کا وہی معمول ہوتا ہے ۔ رمضان المبارک میں خاص مشروب ستو ہوتا ہے جو گندم سے تیار ہوتا ہے۔ گندم کو اچھی طرح دھوکر گندم کے دانے بھون کر ٹھنڈا کرکے پیسا جاتا ہے۔ اس پاؤڈر کو چینی کے علیحدہ سے بنائے گئے شیرے کے ساتھ ملاکر شربت بنایا ہے۔ اس شربت کی تاثیر ٹھنڈی ہوتی ہے۔ افطاری میں ستو کا شربت، آم، روٹی، پکوڑے سبزی کا سالن ہوتا ہے۔ زمینوں کی ہی سبزی پکائی جاتی ہے، خریدتے نہیں۔ لکڑی پر کھانا پکاتے ہیں اور تندور پر روٹیاں لگاتے ہیں۔ اس کھانے کی لذت ہی الگ ہوتی ہے۔ عید پر موٹی سوئیاں ابال کر چھان کر ان پر گرم دیسی گھی اور گڑ کی چینی ڈال کر پیش کی جاتی ہے۔ عید پر اپنی حیثیت کے مطابق ایک یا دو جوڑے بنائے جاتے ہیں۔

 
Load Next Story