شیشم کے درخت کی چوری کا تنازعہ

8 افراد کی جان گئی، 6 عورتیں بیوہ اور 21 بچے یتیم ہو گئے

8 افراد کی جان گئی، 6 عورتیں بیوہ اور 21 بچے یتیم ہو گئے۔ فوٹو ایکسپریس

IPOH:
سانحہ کوئی بھی ہوا اس کے وقوع پذیر ہونے میں کسی نہ کسی فرد یا ادارے کی نا اہلی ضرور کار فرما ہوتی ہے ۔لالہ موسیٰ سے 8کلو میٹر کے فاصلے پر واقع گاؤں ملاگر کے رہایشی 6افراد سمیت کل 7افراد کے قتل ہونے کی دلدوزداستان کے پس پردہ بھی محکمہ پولیس کی بے حسی نظر آتی ہے اور اگر کہا جائے کہ اس طرح کے بڑے سانحوں میں ہمیشہ پولیس کی غفلت ہی نمایاں کردار ادا کرتی ہے تو بے جا نہ ہو گا۔

سانحہ گلیانہ کے مقتولین کے ورثاء کا کہنا ہے کہ اگر پولیس، دانش عرف دانشا اورطیب کو گرفتار کر لیتی تو ہمیں آج 7لاشیں نہ اُٹھانا پڑتیں اور نہ ہی 21بچے یتیم اور 6عورتیں بیوہ ہوتیں۔

2جنوری کی صبح ملاگر کے رہایشی راجا شریف حسب معمول حبیب بینک گلیانہ میں ڈیوٹی کی غرض سے تیار ہو کر نکلے ، پولیس کی طرف سے مہیا کردہ محافظ، کانسٹیبل شفیق فاضل ، قریبی عزیز، راجا یونس ، محبوب عالم ، طاہر حسین ، عرفان صابر ، ڈرائیور، عثمان اسلم کے ہم راہ ڈبل کیبن ڈالے میں بیٹھ کر گلیانہ جا رہے تھے، جو نہی ان کی گاڑی گورنمنٹ ہائی اسکول گلیانہ کے پاس پہنچ کر سپیڈ بریکر پہ گاڑی آہستہ ہوئی تو پہلے سے گھات لگا کر بیٹھے ملزمان نے گاڑی پر اندھا دھند فائرنگ کر دی ۔

پولیس کانسٹیبل ،شفیق فاضل نے گاڑی سے نکل کر ملزمان پر جوابی فائرنگ کے لیے پوزیشن سنبھالی تو ملزمان نے برسٹ مار کر اُسے موت کے گھاٹ اُتار دیا ۔ ملزمان کی فائرنگ سے ایک دکاندار، قدیر بھی زخمی ہوا۔ وقوعہ کی اطلاع ملتے ہی ملاگر سے خواتین و حضرات کی کثیر تعداد موقع پر پہنچی اور احتجاج کیا ۔ مظاہرین نے پولیس کے خلاف زبردست نعرے بازی کی اور ایک گھنٹہ تک احتجاج کیا ، پولیس کوان کی نعش نہ اُٹھانے دی۔7افراد کے قتل کی لرزہ خیز واردات کے بعد گلیانہ کے دکانداروں نے سوگ میں بازار بند کرا دیے ۔

بعدازاں تحصیل ہیڈکوارٹر ہسپتال میں نعشوں کے پوسٹمارٹم کے بعد مظاہرین نے نعشیں جی ٹی روڈ پر رکھ کر 3گھنٹے تک روڈ بلاک کیے رکھا۔ خواتین ماتم کرتی رہیں اور پولیس کے خلاف نعرے لگائے ۔ ایک موقعہ پر جب پولیس نعش اُٹھانے کیلئے آگے بڑھی تو مظاہرین نے پولیس کو دھکے دیے اورایک سیاسی شخصیت کو بھی دھکے دے کر نکال دیا۔ نجی چینلز پر خبر نشر ہونے کے بعد وزیر اعلیٰ پنجاب، میاں شہباز شریف نے سانحہ کی رپورٹ طلب کی اور اپنے سیکرٹری لاء، زاہد سلیم کو ہنگامی طور پر کھاریاں بھیجا۔ زاہد سلیم نے قتل ہونے والوں کے لواحقین سے ملاقات کرکے ملزمان جلد گرفتار کرنے کی یقین دہانی کرائی جس پر احتجاج ختم ہوا۔

اس موقعہ پر ڈی پی او گجرات ،رانا شاہد پرویز نے بھی مظاہرین کو یقین دلایا کہ ملزمان 3دنوں میں گرفتار نہ ہوئے تو کھاریاں سرکل کے تمام ایس ۔ ایچ ۔ اوز کو معطل کر دیا جائے گا ۔ ڈی ایس پی کھاریاں کو 3دن کی ڈیڈ لائن دی گئی ۔ ڈی ایس پی کھاریاں، میاں سلطان میراں نے بتایا ، مقتول بینک منیجر، راجا شریف اور ملزمان میں، درخت چوری کا تنازعہ تھا ،اس سے قبل مقتول کا بھائی، راجا محمد اصغر بھی ملزمان نے قتل کر دیا تھا۔ سانحہ گلیانہ کے مقتولین اور ملزمان کے درمیان تنازعہ اس وقت ہوا، جب مقتول پارٹی نے 18کنال خریدی، مذکورہ زمین، ملزمان عبدالمجید ولدمحمد صادق اور عبدالمجید ولد پہلوان خان خریدنا چاہتے تھے ۔

17مئی کو عبدالمجید نے راجا محمد اصغر کا شیشم کا درخت چوری کرکے فروخت کر دیا ۔ راجا اصغر نے اُسے سمجھایا تو ملزم نے اس سنگین نتائج کی دھمکیاں دی ۔ راجا اصغر نے پولیس تھانہ گلیانہ کو درخواست دی، لیکن پولیس نے کوئی نوٹس نہ لیا، جس کے نتیجے میں، 20جون، 2011کو صبح کے وقت اسے قتل کر دیا گیا جب وہ، حبیب بینک کوٹلہ ڈیوٹی پر جا رہے تھے، جنڈ شریف پلی کے قریب گھات لگائے، عبدالمجید ، دانش علی ، عمران ، طیب ، عرفان اور 2نامعلوم ملزمان نے فائرنگ کرکے اسے قتل کیا۔

بھائی کے قتل کے بعد راجا محمد شریف نے مقدمہ درج کرایا تو پولیس نے عبدالمجید کو گرفتار کیا لیکن دانش عرف دانشا گرفتار نہ ہو سکا۔ راجا محمد شریف نے بھائی کے قاتلوں کی گرفتاری کے لیے اعلیٰ پولیس افسران کے دفاتر کی خاک چھانی ۔ لالہ موسیٰ میں آر پی او گوجرانوالہ کی کھلی کچہری میں آواز اُٹھائی لیکن ڈی پی او گجرات، راجا محمد شریف بینک مینجر کو ایک سیکورٹی گارڈ دے کر اپنے فرائض سے سبک دوش ہو گئے ۔ پوسٹمارٹم کے بعد 6مقتولین کو ملاگر، جب کہ پولیس کانسٹیبل، محمد شفیق فاضل کی پولیس لائن میں نماز جنازہ کے بعد اسے آبائی گاؤں سادہ چک میں سپرد خاک کر دیا گیا ۔

یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ حملہ آوروں کا ٹارگٹ راجا محمد شریف تھے باقی 6افراد بے گناہ مارے گئے ، مرنے والوں میں راجا عثمان اسلم، مقتول راجا شریف کا کزن اور گاڑی کا ڈرائیور تھا ، راجا محبوب کچھ عرصہ قبل دوبئی سے آیا تھا اور 38روز قبل اس کی شادی ہوئی تھی، ابھی اس کی دلہن کے ہاتھوں سے مہندی بھی نہ اُتری تھی کہ اس کو بیوگی کی چادراوڑھنا پڑی ۔ راجا عرفان سرائے عالمگیر کا رہائشی تھا اور وہ ملاگر میں اپنی ہمشیرہ سے ملنے آیا تھا ، یاد رہے عرفان اور طاہر مبین شہر جانے کے لیے گاڑی میں بیٹھے تھے، دونوں کو قطعی علم نہ تھا کہ یہ سفر ان کی زندگی کا آخری سفر ثابت ہو گا۔

مقتول راجا یونس کے 8بچے تھے ، مقتول راجا عثمان کے دو ، ایکسپریس نیوز کی ٹیم نے وقوعہ کی تفصیلات جاننے کی غرض سے گلیانہ کا دروہ کیا تو جائے وقوعہ پر موجود عینی شاہدین نے بتایا ، ملزمان، دانش علی ولد صادق ، وسیم ظہور ولد ظہور احمد ، عثمان ولد حاجی احمد سکنہ ملاگر وغیرہ جو موٹر سائیکلوں پہ سوار تھے ، انہوں نے راجا محمد شریف کی گاڑی پر فائرنگ کرکے 7افراد کو قتل کیا ۔ مقتول راجا محمد اصغر کے بیٹے اور مقتول راجا محمد شریف کے بھتیجے ،راجا مبین اصغر نے ایکسپریس نیوز کو بتایا، وقوعہ کو ایک ماہ گزرنے کے باوجود ہمیں تا حال انصاف فراہم نہیں کیاگیا۔

پولیس نے 8ملزمان کو تو پکڑ رکھا لیکن مرکزی ملزمان کو گرفتار نہیںکیا جا رہا۔ ہمارے ساتھ بڑی زیادتی ہوئی، پہلے میرے والد کو قتل کیا گیا، اب میرے چچا زاد، راجا شریف سمیت 7افراد کو بے دردی سے قتل کر دیا گیا ہمیں انصاف نہیں مل رہا ،ہم چیف جسٹس آف پاکستان ، وزیر اعظم ، وزیر داخلہ ، وزیر اعلیٰ پنجاب سے پُر زور اپیل کرتے ہیں کہ ہمیں انصاف فراہم کیا جائے ۔ سانحہ گلیانہ کے مقتولین کی گاڑی کے ڈرائیور، مقتول عثمان اسلم کے والد راجا محمد اسلم نے بتایا، ہماری کسی سے کوئی دشمنی نہیں ۔

میرے بیٹے کا صرف یہی گناہ ہے کہ وہ راجا اشرف کو گلیانہ چھوڑنے اور لینے جاتا تھا، ظالموں نے میرے بڑھاپے کا سہارا چھین لیا۔ عثمان کے 2بچے ہیں، میں بوڑھا ہونے کے ساتھ ساتھ رعشہ کا مریض ہوں، کوئی کام نہیں کر سکتا، میں اہلخانہ کی کفالت کیسے کروں گا۔ مقتول عثمان اسلم کی والدہ نے کہا، ہمارے ساتھ ظلم ہوا ہے ۔ میرا جوان بیٹا مارا گیا، میرے بیٹے کو ناحق قتل کیا گیا ، میرے دل کی جو حالت ہے میں بتا نہیں سکتی۔

عثمان اسلم کی بیوہ نے روتے ہوئے کہا ، ظالموں نے 1منٹ میں مجھے اور میرے بچوں کو بے آسرا کر دیا، نہ صرف میرا شوہر چھین لیا بل کہ میرا اِکلوتا بھائی بھی دوسرے جہاں پہنچا دیا ، میرے خاوند عثمان اسلم کا قصور یہ تھا کہ وہ راجا شریف کی گاڑی چلاتا تھا، جب کہ میرے بھائی عرفان کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ اپنی بہن کو ملنے آیا تھا۔ میرے سر کا تاج میرا شوہر اور میرا مان، میرا بھائی بھی چھین لیا، ابھی تو میں نے بھائی کے سر پر سہرا سجانا تھا ، میرا باپ بھی دنیا سے چلا گیا تھا، بھائی کا آسرا تھا ،ظالموں نے وہ بھی چھین لیا۔


اب میں صرف اس لیے زندہ ہوں کہ ظالموں کو سزا دلوا سکوں ۔ اگر ظالموں کو سزا نہ ملی تو کوئی بھائی اپنی بہن کو ملنے نہیں جائے گا ۔ مجھے انصاف چاہیے، میں انصاف کے لیے وزیراعلیٰ پنجاب، چیف جسٹس آف پاکستان سمیت ہر دروازہ کھٹکھٹاؤں گی اگر پولیس کو دانش نہیں ملتا تو کوئی اور طریقہ آزمائے پولیس کے پاس تو بہت گر ہوتے ہیں ، راجا شریف نے کئی بار پولیس کو بتایا کہ دانشا ہمارے گھر کے باہر آ کر فائرنگ کرتا ہے لیکن اُسے گرفتار نہیں کیا گیا ۔ ہم نے کھاریاں میں احتجاج کیا تو ڈی پی او نے 3دن میں ملزم گرفتار کرنے کا وعدہ کیا، ایک ماہ گزرنے کے باوجود اصل ملزمان گرفتار نہ ہو سکے۔

میں چیف جسٹس ، وزیراعظم ، صدر پاکستان ، وزیر اعلیٰ پنجاب سے انصاف چاہتی ہوں ۔ مقتول محمد محبوب کے والد محمد یعقوب نے بتایا، میرے بیٹے کی شادی کو صرف38دن ہوئے تھے، ہماری کسی سے کوئی دشمنی نہ تھی، کوئی ناراضگی نہ تھی ۔ ڈی پی او بھی آئے لیکن ابھی تک ازالہ نہ ہوا،ہم انصاف مانگتے ہیں ۔ ہماری کوئی ڈیمانڈ نہیں، صرف انصاف چاہتے ہیں، مرکزی ملزم کو گرفتار کرکے انصاف کے تقاضے پورے کیے جائیں۔ محبوب کی بیوہ نے بتایا ، ہماری شادی کو 38دن ہوئے ، میرے خاوند کا ناحق قتل کیا گیا ،ابھی تک ہمیں انصاف نہیں ملا۔

ڈی پی او نے دو دن کا ٹائم لیا تھا، لیکن ایک ماہ گزر گیا ہے، ابھی تک ان سے ایک دانشا نہیں پکڑا گیا ۔ پولیس ڈرامہ کر رہی ہے، ہم اُجڑ گئے، اللہ کرے وہ بھی اُجڑیں، پولیس کو دانشا نہیں مل رہا تو اس کا بھائی ہے، اُس کو پکڑ لیں، ہم انصاف چاہتے ہیں ۔ محبوب کی والدہ نے کہا کہ ظالموں نے غریبوں کے بچے کو مارا ہے، میرا دل کرتا ہے کہ میں ڈی پی او اور حکومت کے آگے جا کر ماتم کروں، مجھے انصاف چاہیے، میں نے غربت میں بچے پالے، اب پیٹ بھر کے روٹی کھانے کو ملی تو ظالموں نے ہمارا سب کچھ چھین لیا، ہم چیف جسٹس اور حکومت سے انصاف چاہتے ہیں ۔

مبین طاہر کی دادی نے بتایا ، مبین طاہر تو 15برس کا تھا، ہماری کسی سے دشمنی نہ تھی، ہمارے بچے کو ناحق قتل کیا گیا، ہم انصاف کی اپیل کرتے ہیں ۔ پولیس کانسٹیبل، محمد شفیق فاضل کے والد، محمدفاضل جنجوعہ نے بتایا، میں نے محنت مزدوری کرکے بیٹے کو پالا ، پڑھایا، لکھایا۔ میرا بیٹا بہت لائق تھا ۔ ہمیشہ اچھے نمبروں سے پاس ہوا کرتا تھا، ملازمت کے دوران اس نے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے بی اے کا امتحان پاس کیا۔ محمد شفیق کرکٹ شوق سے کھیلتا تھا ۔

میرے 2بیٹے تھے، ایک بیمار ہے، محمد شفیق نے فرض کی ادائیگی کے دوران، جام شہادت نوش کیا، محمدشفیق میرے بڑھاپے کا واحد سہارا تھا ۔ ایک بیٹی کی شادی کرنا ابھی باقی ہے ۔ ڈی پی او گجرات نے وزیرا علیٰ فنڈز سے 20لاکھ روپے، پنشن اور دیگر مراعات دینے کا اعلان کیا ہے، جبکہ ڈی سی او گجرات نے ییلو کیب سکیم سے ایک گاڑی بھی دینے کا وعدہ کیا ہے ۔

ایس ایچ او تھانہ گلیانہ، عامر شاہین نے ایکسپریس نیوز کو بتایا ، ایف آئی آر میں نام زد، محمد عثمان ولد حاجی احمد ، محمدا فضل ولد محمد یونس ، ظہور احمد ولد نادر خاں ، فیض علی ولد لال خاں، سکندر حمید ولد عبدالحمید، عبدالمجید ولد محمد صادق ، اظہر ولد عبدالرحمن ، نثار احمد ولد محمد اصغر کو گرفتار کرکے جیل بھجوا دیا ہے، جبکہ دانش عرف دانشااور طیب کی گرفتاری کے لیے چھاپے مار رہے ہیں، جلد ان کو بھی گرفتار کر لیا جائے گا۔

ڈی پی او گجرات رانا شاہد پرویز نے بتایا ، وقوعہ میں ملوث 8ملزمان کو گرفتار کیا جا چکا ہے، باقی 2ملزمان کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں ۔ دیگر مقتولین کے ساتھ ہمارا اپنا جوان، شفیق فاضل بھی شہید ہوا ، علاقہ میں گشت بڑھا دیا گیا ہے، اسلحہ کی نمائش پر مکمل پابندی عاید کر دی گئی ہے کسی بھی فرد کو لائسنسی یا ناجائز اسلحہ لہرانے کی اجازت نہیں ہو گی۔ شہید کانسٹیبل محمدشفیق کے بوڑھے والدین اور بہن بھائیوں کی کفالت کے لیے وزیر اعلیٰ فنڈز سے 20لاکھ روپے دیے جائیں گے، جب کہ دیگر مراعات بھی اس کے والدین کو ملیں گی ۔

بتایا جاتا ہے کہ ملاگر 150گھرانوں پر مشتمل قدیم گاؤں ہے، جہاں 7سال پہلے مکمل امن اور سکون تھا ۔ دانش عرف دانشا جوان ہوا تو اس کو چوہدراہٹ کا شوق ہوا۔ اس نے علاقہ میں لوگوں کو تنگ کرنا شروع کر دیا ۔ دانش عرف دانشا 2005 سے اشتہاری چلا آ رہا ہے، اس کے خلاف مختلف نوعیت کے 7مقدمات درج ہیں، جب کہ ملزم کا دوسرا بھائی، عبدالمجید عرف پولیس میں ملازم تھا ، اشتہاری ملزم کو فرار کرانے پر اُسے نوکری سے برخاست کر دیا گیا۔

گاؤں والوںنے بتایا ، راجا محمد اصغر کے قتل کے بعد بھی عبدالمجید کے بیوی بچے اپنے گھر رہ رہے ہیں، مقتول پارٹی نے انہیں میلی آنکھ سے نہیں دیکھا۔ ایکسپریس نیوز کی ٹیم نے ملزم پارٹی کے گھروں کا دورہ کیا تو یہاں تالے لگے ہوئے تھے ۔ دانش عرف دانشا کے ہاتھوں 8افراد کے قتل سے 21بچے یتیم ہو ئے ،6عورتیں بیوہ ہوگئیں ،کسی کا بیٹا قتل ہوا ،تو کسی کا باپ ، کسی کا شوہر مارا گیا تو کسی کا بھائی ۔ پولیس افسران کی اپنی منطق ہے، ایس ایچ او، گلزار رانجھا اور انویسٹی گیشن آفیسر، چوہدری محمد انور انسپکٹرنے 8ملزمان گرفتار کر لیے تو ایس ایچ او گلزار رانجھا کو تبدیل کرکے عامر شاہین کو SHO تعینات کر دیا۔

ایک ماہ گزرنے کے باوجود،کوئی پیش رفت نہ ہو سکی ۔جس کے بعد آر پی او گوجرانولہ نے صغیر احمد بھدر کو بطور ایس ایچ او تعنیات کر کے ملزمان کی گرفتاری کا ٹاسک دیا لیکن وہ صرف ایک ملزم طیب نثار کو گرفتار کر سکے، 7ماہ گزرنے کے باوجود مرکزی، ملزم دانش عرف دانشا تا حال مفرور ہے ۔خطر ناک اشہتاری ملزم دانش عرف دانشا کی عدم گرفتاری تھانہ گلیانہ کے علاقہ میں خطرے کی گھنٹی ہے، اگر ملزم جلد گرفتار نہ ہوا تو علاقہ میں مزید کوئی بڑا سانحہ رونما ہو سکتا ہے ۔

پنجاب کے اہم اور معروف ضلع گجرات میں بھی قتل وغارت گری کی بڑی وجہ عوام کو انصاف نہ ملنا بتائی جاتی ہے، راجا نوید اسد ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ مجھے اور میرے بھائی کو گولیاں ماری گئیں اگر ایک وکیل کو تحفظ نہیں تو دوسرے لوگوں کا کیا حال ہوگا، مقتول راجا اصغر کے والد راجا صادق نے بتایا ، وقوعہ کو 3ماہ گزرنے کے باوجود تاحال مرکزی ملزم گرفتار نہیں ہوسکے، ہم یکم اکتوبر 2011 کو لالہ موسیٰ میں آرپی او کے کھلی کچہری میں پیش ہوئے تھے لیکن ابھی تک کوئی پیش رفت نہ ہو سکی انہوں نے کہا ، ہم یہی چاہتے ہیں کہ میرٹ پر تفتیش ہو اور ملزمان کو سزا ملے مقتول راجا محمد اصغر کے بھائی اور مقدمہ قتل کے مدعی راجا محمد شریف نے بتایا کہ ملزمان کے اشتہاری اور علاقہ میں دہشت کی علامت ہیں ملزمان خوف کی وجہ سے میں گذشتہ 3ماہ سے بینک اپنی ڈیوٹی پر نہیں جاسکا ،ملزمان روزانہ آکر ہمارے گھر کے باہر فائرنگ کرکے ہمیں پریشان کرتے ہیں۔

پولیس چکرلگا کر اپنا فرض پورا کرتی رہی، عملاً کچھ نہیں کیا۔ مقتول راجا اصغر کے والد راجا محمد صادق نے نم آنکھوں کے ساتھ بتایا ، اولاد بڑھاپے کا سہارا ہوتی ہے لیکن ظالموں نے مجھ سے بڑھاپے میں میرا خدمت گار بیٹا چھین لیا۔ بڑھاپے میں اولاد کا صدمہ جیتے جی مار دیتا ہے ۔بیٹے کی موت کے بعد زندہ تو ہوں لیکن زندگی موت سے بدتر لگتی ہے، جب بہو پوتے، پوتی کو افسردہ دیکھتا ہوں تو دل مرنے والوں کے ساتھ مرا نہیں جاسکتا لیکن زندہ رہنا مشکل ہوگیا ہے۔

راجا اصغر کا قتل ہوا اس کے بعد ملزمان سر عام دندناتے رہے، گائوں آکر فائرنگ کرتے رہے، لیکن راجا محمد شریف (مقتول ) کی اطلاع کے باوجود پولیس نے ملزمان کو پکڑنے یا گشت بڑھا کر پنی موجودگی کا احساس نہیں دلایا، جس کے نتیجے میں 7افراد محکمہ پولیس کی روایتی بے حسی کی بھینٹ چڑھ گئے ۔

Recommended Stories

Load Next Story