الزامات اور وجوہات کا دراز سلسلہ

سات سال سے عدالت میں کیس گواہوں کے نہ آنے کی وجہ سے نہیں چل رہا کیونکہ پولیس اپنے پیٹی بند گواہوں کو پیش نہیں کر رہی۔

سندھ ہائی کورٹ نے پولیس کو قتل سمیت 22 مقدمات میں ملوث ایک سات سال سے قید ملزم کے خلاف گواہوں کو گرفتار کرکے پیش کرنے کا حکم دیا تو جواب میں پولیس افسر نے کہا کہ کل گواہوں کو پیش کردیں گے جس پر عدالت نے تفتیشی افسر کو کہا کہ خود بھی کچھ کام کر لیا کریں۔ چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ پر مشتمل دو رکنی بینچ کے روبرو یہ صورتحال اس وقت پیش آئی جب ملزم کے وکیل صفائی نے کہا کہ ملزم پر کراچی کے ایک ہی تھانے میں قتل سمیت 22 مقدمات درج ہیں اور وہ 2011 سے جیل میں ہے۔

2014 میں ملزم کو سکھر جیل منتقل کردیا گیا اور ملزم کے خلاف زیادہ ترگواہ پولیس اہلکار ہیں جو عدالت میں پیش نہیں ہوتے پولیس خود گواہوں کو پیش نہیں کرتی۔ ملزم سات سال سے جیل میں ہے کیا عدالتوں نے سوچ رکھا ہے کہ غریب کو انصاف نہیں دینا؟ چیف جسٹس نے جواب میں برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عدالتوں کو الزام نہ دیں کل سکھر خود بھی جائیں اور کیس چلائیں۔ عدالت نے پولیس کو بھی ہدایت کی کہ ہر قیمت پر گواہ پیش کریں خواہ خود پکڑکر لانا پڑیں جس پر پولیس افسر نے بیان دیا کہ انشا اللہ کوشش کریں گے کہ کل گواہوں کو پیش کردیں۔

یہ کیس مثال ہے جس میں عدالت ملزم کے وکیل اور پولیس کے دیے گئے ریمارکس کی جو ہائی کورٹ میں چیف جسٹس کے روبرو ہوئے اور چیف جسٹس کو بتایا گیا کہ قتل سمیت 22 ملزمان میں ملوث ملزم سات سال سے جیل میں ہے اور کیس اس لیے نہیں چل رہا کہ پولیس گواہ پیش نہیں کر رہی۔ اس کیس میں وکیل صفائی نے عدالتوں پر الزام لگادیا کہ عدالتوں نے غریب کو انصاف نہیں دینا۔

جواب میں چیف جسٹس کوکہنا پڑا کہ عدالتوں پر الزام نہ لگائیں اور وکیل صفائی خود سکھر جائیں اور کیس چلائیں۔ پولیس کو بھی کیس میں کہا گیا کہ وہ خود بھی کچھ کرلیا کریں۔ عدالتوں میں زیر سماعت مقدمات میں تاخیر کی یہ کیس ایک مثال ہے جس سے پتا چلتا ہے کہ الزامات، تاخیر کی وجوہات کا یہ سلسلہ نچلی عدالت سے اعلیٰ عدالتوں تک یوں ہی چل رہا ہے اور اگر نہیں چل رہا تو کیس نہیں چل رہا اور فیصلوں میں تاخیر کے باعث ملزمان سزا کے بغیر ہی سالوں سے جیل میں فیصلے کے منتظر ہیں۔

اس صورتحال میں عدالتوں پر مقدمات کا بوجھ بڑھ رہا ہے اور انھیں سننا پڑ رہا ہے کہ غریب کو عدالتوں نے انصاف نہیں دینا۔ سالوں سے قید ملزم کے وکیل کو سات سال بعد عدالت سے اس کی شکایت کرنے کا خیال آیا کیونکہ وکیل کو اس عرصے میں وکیل کرنے والے ملزم سے فیس بھی ملتی رہی اور پولیس افسر نے سات سال میں کچھ نہ کرنے کے بعد عدالت کی ہدایت پر انشا اللہ کا سہارا لے کر کہہ دیا کہ گواہ کل پیش کردیں گے۔


سات سال سے عدالت میں کیس گواہوں کے نہ آنے کی وجہ سے نہیں چل رہا کیونکہ پولیس اپنے پیٹی بند گواہوں کو پیش نہیں کر رہی۔ وکالت بھی مفت نہیں ہو رہی ہوگی اور انصاف میں تاخیر کا الزام عدالت پر لگ رہا ہے اور وہ ملزم سات سال سے جیل میں ہے جس پر ایک ہی تھانے میں درج قتل سمیت 22 مقدمات ہیں۔

ملزم پر دہشت گردی کا الزام ہوتا تو مقدمہ دہشت گردی کی عدالت میں چلتا اور فیصلہ بھی شاید ہوچکا ہوتا مگر قتل اور دیگر الزامات کا کیس متعلقہ عام عدالت میں زیر سماعت ہے اور فیصلہ نہ ہونے پر معاملہ ہائی کورٹ پہنچا جو خود قتل کی سزا نہیں دیتی بلکہ سزاؤں اور مقدمات کی اپیلیں سنتی ہے اور فیصلہ کرتی ہے۔

گزشتہ دنوں ایک خاتون اسما نواب کی 19 سال بعد رہائی کی خبر کا بڑا چرچا رہا جس پر اس کے والدین اور بھائی کے تہرے قتل کا الزام تھا جسے ایک پولیس افسر کی جھوٹی گواہیوں کے نتیجے میں موت کی سزا ہوئی تھی اور مذکورہ پولیس افسر کے مرنے کے بعد ملزمہ کو 19 سال جیل میں رہنے کے بعد سپریم کورٹ کے فیصلے سے رہائی ملی۔ اس سے قبل بھی قتل کے ایک مقدمے میں ملوث ملزم کو 20 سال بعد سپریم کورٹ سے اس وقت رہائی کا حکم ملا تھا جب وہ بیس سال فیصلہ نہ ہونے کے دوران خود ہی زندگی سے رہائی حاصل کرچکا تھا جس کو 20 سال جیل میں رہنے کا تو فائدہ نہیں ہوا تھا اور مرنے کے بعد اس کا فیصلہ آیا تھا جس پر اس کے ورثا کو یہ اطمینان ضرور ہوا تھا کہ مرنے کے بعد ہی قتل کے الزام سے مرحوم بری قرار پایا تھا۔

گزشتہ دنوں چیف جسٹس پاکستان کی طرف سے کہا گیا تھا کہ مقدمات میں تاخیر کا ذمے دار عدالتوں کو قرار نہ دیا جائے کیونکہ بعض وکلا بھی فیصلوں میں تاخیر کا سبب بنتے ہیں۔ چیف جسٹس کا یہ کہنا بھی کافی حد تک درست ہے کیونکہ فیصلوں میں تاخیر وکیلوں کے مفاد میں بھی ہوتی ہے اور ملزمان بھی یہی چاہتے ہیں مگر فیصلوں میں تاخیر کا الزام عدلیہ پر لگادیا جاتا ہے۔ ملکی عدلیہ پر اٹھارہ لاکھ سے زائد مقدمات کا بوجھ ہے جو مزید بڑھایا جا رہا ہے۔ عدالتوں میں نئے نئے مقدمات لانا بعض لوگوں کا شوق ہے تاکہ شہرت ملے جب کہ سیاسی معاملات میں بھی سیاستدان خود عدلیہ کو پھنسا چکے ہیں۔

یہ بات سو فیصد درست ہے کہ نچلی عدلیہ میں مقدمات میں تاخیر کی بڑی ذمے دار خود تفتیشی پولیس اور وکلا بھی ہیں۔ پولیس جھوٹے مقدمات بناتی ہے جن میں گواہ بھی پولیس اہلکار ہوتے ہیں۔ پولیس اہلکار جو مقدمات میں گواہ ہوتے ہیں یا مدعی وہ تبادلوں کے باعث عدالتوں میں پیش نہیں ہوتے۔ پولیس کے جن گواہوں کو پتا ہوتا ہے کہ وہ جھوٹے گواہ بنائے گئے ہیں اس لیے وہ جان بوجھ کر پیش نہیں ہوتے۔ عدالتوں میں پیش نہ ہونے کی پولیس اہلکاروں کی یہ بھی شکایت ہے کہ انھیں متعلقہ عدالتوں میں پیش ہونے کی چھٹی دی جاتی ہے نہ سرکاری الاؤنس جو ملتا نہیں یا خواری کے بعد ملتا ہے اور پولیس کی وجہ سے ہی ملک میں لاکھوں مقدمات التوا کا شکار چلے آرہے ہیں۔
Load Next Story