بھارت کی آبی جارحیت

پاکستان نے بھارت کے اس رویے پر شدید احتجاج کیا جو صدا بہ صحرا ثابت ہوا اور بھارت کے کان پر جوں بھی نہ رینگی۔

S_afarooqi@yahoo.com

آخرکار وہی ہوا جس کا بڑا خدشہ تھا۔ عالمی بینک نے کشن گنگا ڈیم کی تعمیر پر پاکستان کی شکایت اور پیش کیے گئے شواہد کو ناکافی قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا۔ اس سے قبل بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی پاکستان کا احتجاج مسترد کرتے ہوئے ڈیم کا افتتاح کر دیا۔ بھارت نے اس منصوبے کا آغاز 2009 میں کرکے اسے 9 سال کے عرصے میں مکمل کرلیا ، یہ پاور اسٹیشن پاکستانی سرحد کے قریب قائم کیا گیا ہے۔

یہ پاکستان کے حصے کا پانی استعمال کرکے 330 میگاواٹ بجلی پیدا کرے گا جوکہ پاکستان کے سینے پر مونگ دلنے کے مترادف ہے۔ کشن گنگا ڈیم کی تعمیر سندھ طاس معاہدے کی کھلی خلاف ورزی ہے اور یہ پاکستان کے خلاف بھارت کی آبی جارحیت کے زمرے میں آتی ہے۔ پاکستان نے بھارت کی اس جارحیت کے خلاف اپنا مقدمہ عالمی بینک کے سامنے پیش بھی کیا تھا اور عالمی بینک نے 2016 میں پاکستان کے حق میں حکم امتناع پر مبنی اپنا فیصلہ سناتے ہوئے بھارت کو ڈیم کے ڈیزائن میں تبدیلی کرنے کا حکم بھی دیا تھا۔

اس کے علاوہ فروری 2013 میں دی ہیگ میں قائم عالمی ادارہ انصاف نے پاکستان کے موقف کو درست قرار دیتے ہوئے یہ کہا تھا کہ مقبوضہ کشمیر میں واقع اس ڈیم کی تعمیر سے پاکستان کی جانب دریا کے بہاؤ پر غیر معمولی اثر پڑے گا۔ لیکن بھارت کے کان پر جوں تک نہیں رینگی اور اس نے عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کو پاؤں تلے روندتے ہوئے پاکستان کے خلاف آبی جارحیت کا سلسلہ جاری رکھا۔

بھارت جس تیزی کے ساتھ یکے بعد دیگرے ڈیموں پر ڈیم تعمیر کر رہا ہے ان کی تکمیل کے بعد پاکستان میں پانی کا بحران مزید شدت اختیارکرجائے گا اور دریا جہلم اور چناب جو پہلے ہی خشک ہوتے جا رہے ہیں مزید خشک ہوکر چٹیل میدان بن جائیں گے۔ بھارت دریائے چناب پر 850 میگاواٹ کا رتلے پن بجلی منصوبہ بنا رہا ہے جس کی تعمیر کے بعد دریائے چناب میں بھی پاکستان کی جانب پانی کے بہاؤ پر غیر معمولی اثرات مرتب ہوں گے۔

ابھی چند روز قبل بھارتی وزیر مملکت برائے ٹرانسپورٹ و پانی نتن گڈکری نے ایک تقریب کے دوران پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے ہوئے کہا تھا کہ اترکھنڈ کے دریاؤں پر تین ڈیم بناکر پاکستان جانے والے پانی کو روک لیا جائے گا تاکہ بارش نہ ہونے کے باعث پیدا ہونے والے پانی کے بحران کے وقت آب پاشی کے لیے ان ڈیموں کا پانی استعمال کیا جاسکے۔

بھارت کے آبی جارحیت کے منصوبے برسوں پہلے ہی منظر عام پر آگئے تھے۔ اس وقت پاکستان میں جنرل پرویز مشرف کی حکمرانی کا دور تھا۔ اس کے بعد پیپلز پارٹی کی حکومت آئی اور پھر مسلم لیگ (ن) کی حکمرانی کا دور آگیا۔ لیکن ان میں سے کسی بھی حکومت نے پاکستان کے خلاف بھارت کی آبی جارحیت کا سنجیدگی سے کوئی نوٹس نہیں لیا اور تمام حکمران محض اپنے اقتدار کے نشے میں ہی مست رہے جس سے بھارت نے خوب خوب فائدہ اٹھایا۔ اگر ہمارے حکمرانوں نے بھارت کے ان مذموم عزائم کو بروقت عالمی سطح پر بے نقاب کیا ہوتا اور عالمی رائے عامہ کو بیدار کیا ہوتا تو یہ نوبت نہ آتی اور عالمی برادری کی حمایت معقول حد تک پاکستان کے حق میں ہموار ہوجاتی اور بھارت کو من مانی کرنے کی کھلی چھوٹ حاصل نہ ہوتی۔


پاکستان اور بھارت کے درمیان کئی معاملات متنازع اور اختلاف کا باعث ہیں اور پون صدی کا طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود ابھی تک حل طلب ہیں۔ ان کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کا ماحول بنا ہوا ہے جو کسی بھی وقت تصادم کی صورت اختیار کرسکتا ہے۔ یہی بنیادی متنازع امور دونوں ملکوں کے درمیان اسلحے کی دوڑ کا سبب ہیں۔ پانی کا مسئلہ ان میں سے ایک ہے جو قیام پاکستان کے وقت سے ہی ووٹوں ملکوں کے درمیان جھگڑے کی ایک بڑی وجہ ہے۔

اصل بدنیتی بھارت کی ہے جس نے برصغیر کی تقسیم کو دل سے تسلیم نہیں کیا اور شروع سے ہی پاکستان کو کمزورکرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ اثاثوں کی تقسیم میں بھی اس نے پاکستان کے ساتھ زیادتی اور بے ایمانی کی۔ بھارت کی یہی خواہش رہی کہ پاکستان اپنے پاؤں پرکھڑا نہ ہوسکے اور کسی نہ کسی طرح بھارت کا محتاج اور دست نگر رہے۔ چنانچہ پاکستان کا ناطقہ بند کرنے کے لیے اس نے کسی طرح بھارت کی طرف جاکر بہنے والے دریاؤں پر ڈیم تعمیر کرنے کی منصوبہ بندی شروع کی تاکہ پاکستان کی سونا اگلنے والی زرعی زمین بنجر ہوجائے۔

پاکستان کے ساتھ بھارت کا آبی تنازع تقسیم ہند کے ساتھ ہی شروع ہوگیا تھا۔ تاآنکہ 1960 میں پاکستان کو بھارت کی شرانگیزی سے بڑی حد تک نجات مل گئی اور پانی کی تقسیم کے معاملے میں بھارت کی دخل اندازی عالمی ادارے کے نوٹس میں آگئی۔ سندھ طاس معاہدے کے تحت یہ طے پایا کہ دریائے سندھ کے نظام کے ساتھ جڑے ہوئے چھ دریا جو بھارت اور پاکستان کی حدود میں بہتے ہیں برابری کی سطح پر تقسیم کیے جائیں گے۔ چنانچہ اس معاہدے کے تحت تین دریا یعنی دریائے سندھ، جہلم اور چناب پاکستان کی ملکیت اور راوی، بیاس اور ستلج بھارت کی ملکیت مان لیے گئے۔

اس معاہدے کے باوجود بھارت ڈنڈی مارنے سے باز نہیں آیا لیکن مجموعی طور پر پاکستان بھارت کی من مانی سے محفوظ ہوگیا۔ لیکن چونکہ بھارت کی نیت میں فتور تھا اس لیے اس نے 2005 میں مقبوضہ کشمیر میں پاکستان کے حصے کے دریا جہلم کے معاون دریا کشن گنگا پر جو پاکستان میں دریائے نیلم کے نام سے جانا جاتا ہے ایک پن بجلی پلانٹ تعمیر کرنے کا یک طرفہ اعلان کردیا۔ سندھ طاس معاہدے کے تحت بھارت اس کا قطعی مجاز نہیں تھا۔

بھارت کی یہ حرکت سندھ طاس معاہدے کی کھلی خلاف ورزی تھی۔ پاکستان نے بھارت کے اس رویے پر شدید احتجاج کیا جو صدا بہ صحرا ثابت ہوا اور بھارت کے کان پر جوں بھی نہ رینگی۔ اس کے بعد پاکستان نے اس مسئلے کو سیاسی اور سفارتی سطح پر حل کرنے کی ممکنہ حد تک کوشش کی اور بھارت کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ یہ منصوبہ سندھ طاس معاہدے کے منافی ہے اور پاکستان کے مفاد کے خلاف ہے لہٰذا اسے فوراً روکا جائے۔ لیکن ہٹ دھرم بھارت نے پاکستان کی ایک نہ سنی اور خاموشی اور ڈھٹائی سے اپنے اس مذموم منصوبے پر کام شروع کردیا۔

2010 میں پاکستان یہ مسئلہ دی ہیگ کی عالمی عدالت میں لے گیا جہاں بھارت کو منہ کی کھانی پڑی۔ عدالت نے پاکستان کے موقف کو درست قرار دیا اور بھارت کو یہ منصوبہ لپیٹنے کا حکم دے دیا۔ قانونی اور اخلاقی ہر اعتبار سے پاکستان کی پوزیشن واضح اور برحق تھی، لیکن بدقسمتی سے اس معاملے کے نگران ادارے (پاکستان انڈس واٹر کمیشن) کے حکام نے اس دوران انتہائی نااہلی کا مظاہرہ کیا۔ بعض اطلاعات یہ بھی ہیں کہ واٹر کمیشن کے کچھ ارکان خیانت کا ارتکاب کرتے ہوئے پاکستان کا مقدمہ کمزور کرتے رہے اور حکومت پاکستان نے بھی اس معاملے میں پوری سنجیدگی کے بجائے نیم دلی کا مظاہرہ کیا جس کے نتیجے میں بھارت کو اس منصوبے کو آگے بڑھانے کا موقع ہاتھ آگیا۔ چنانچہ اسی عالمی عدالت نے 2013 میں بھارت کے موقف سے اتفاق کرتے ہوئے اس منصوبے کو غیر نقصان دہ قرار دے دیا۔

بھارت چناب کا پانی روکنے کے لیے بھی ایک منصوبہ بگلیہار ڈیم کے نام سے جاری کیے ہوئے ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بھارت کے یہ منصوبے پاکستان کے آبی وسائل کو مفلوج کرنے کی گھناؤنی سازش کا حصہ ہیں۔ ان منصوبوں کی تکمیل سے پاکستان کے حصے کا پانی بھارت کے تصرف میں چلا جائے گا اور پاکستان کو زراعت کے ساتھ ساتھ آب نوشی کی ضرورت بھی تشنہ لبی کا شکار ہوجائے گی۔ یہ ہے بھارت کی پاکستان کے خلاف کھلی آبی جارحیت جس کا ہر صورت مقابلہ کرنا ہمارا قومی فریضہ ہے ورنہ ہماری آنے والی نسلیں ہمیں کبھی معاف نہ کریں گی۔
Load Next Story