بینظیر قتل کیس مشرف کا بیان قلمبند مشترکہ تفیشی ٹیم نے با قاعدہ ملزم قرار دیدیا
قتل کی کوئی سازش نہیں کی،بینظیرکومکمل سیکیورٹی دی تھی،مشرف،سابق صدرتفتیشی ٹیم کوتسلی بخش جواب نہ دے سکے،ذرائع
ایف آئی اے نے انسداددہشتگردی کی خصوصی عدالت کے حکم پر پرویز مشرف کو بینظیر قتل کیس میں باضابطہ طور پرگرفتار کر لیا۔
وفاقی تحقیقاتی ادارے کے ڈپٹی ڈائریکٹر خالد رسول اور انسپکٹر ملک طارق پر مشتمل تفتیشی ٹیم نے پرویزمشرف کے سب جیل قرار دیے گئے فارم ہائوس پہنچ کر ان سے تفتیش بھی کی، ذرائع کے مطابق پرویز مشرف نے کہا کہ انھوں نے بینظیر کو قتل کرنے کی کوئی سازش نہیں کی اور انہیں بھرپور سیکیورٹی فراہم کی۔
ذرائع کے مطابق پرویز مشرف سوالات کا تسلی بخش جواب نہ دے سکے۔نجی ٹی وی کے مطابق مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے پرویزمشرف کوباقاعدہ ملزم قراردیا ہے۔ قبل ازیں انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت کے سینئرجج چوہدری حبیب الرحمن نے سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو شہادت کیس میں ملزم سابق صدرپرویزمشرف کو باضابطہ طورپرگرفتار کرنے اور اس مقدمے میں شامل تفتیش کرنے کاحکم جاری کردیاہے اوران کی وکیل افشاں عادل ایڈووکیٹ کی استدعامستردکردی،عدالت نے پرویزمشرف کے خلاف تفتیش مکمل کر کے حتمی چالان3مئی کو عدالت بھی پیش کرنے کا حکم دے دیاہے اورپرویز مشرف کوبھی اسی تاریخ پرعدالت پیش کرنے کاحکم دیا ہے،دوران گرفتاری پرویزمشرف سب جیل قراردیے جانے والی اپنی رہائش گاہ چک شہزادفارم ہاؤس میں ہی رہیں گے۔
تفتیش کاتمام مرحلہ یہیں مکمل کیاجائے گا،جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم کے سربراہ ڈائریکٹرایف آئی اے خالدقریشی، تفتیشی آفیسرڈپٹی ڈائریکٹر خالدرسول دیگر افسران کے ساتھ فارم ہاؤس پرویزمشرف کابیان ریکارڈکرنے جائیں گے۔ ایف آئی اے کے سینئرپراسیکیوٹرچوہدری ذوالفقار علی نے مشرف کی گرفتاری اور شامل تفتیش کرنے کی درخواست دائر کی، جس پر دلائل دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ پرویز مشرف اس کیس میں اشتہاری ملزم ہیں ان کے دائمی وارنٹ گرفتاری جاری ہوچکے ہیں جوآج بھی موجودہیں ان کی جائیداد بنک اکاؤنٹس منجمندہیں ان کو پاکستان آئے ایک ماہ سے زائد کا عرصہ ہوگیاہے،سندھ ہائی کورٹ نے انہیں تحفظاتی ضمانت دی تھی،اس کے بعدانھوں نے ہائی کورٹ راولپنڈی بینچ سے بھی ضمانت کرائی مگراس کے باوجود اس مقدمے میں شامل تفتیش نہیں ہوئے۔
اب ہائی کورٹ راولپنڈی بینچ نے ان کی عبوری ضمانت خارج کر دی،اس لیے تفتیشی ٹیم کوانہیں شامل تفتیش کرنے،بیان ریکارڈکرنے اور گرفتار کرنے کی اجازت دی جائے چونکہ ان کی سیکیورٹی کو خطرات ہیں اس لیے سب جیل میں ہی تفتیش کرنے کی بھی اجازت دی جائے عدالت نے یہ استدعابھی منظور کر لی۔وکیل صفائی افشاں عادل ایڈووکیٹ نے اس درخواست اوراستدعا کی مخالفت کرتے ہوئے کہاکہ پہلے انہیں اس درخواست کی کاپی دی جائے اوراس پر بحث کیلیے نئی تاریخ مقرر کی جائے،پرویزکولایا نہیں گیابلکہ وہ خود رضاکارانہ طورپرملک واپس آئے ہیں اور مقدمات کاسامنا کر رہے ہیں۔
جسمانی ریمانڈکی کوئی ضرورت نہیں،ان کے خلاف کوئی ٹھوس شہادت موجود نہیں، پرو یزمشرف کئی دن سے گرفتارہیں تفتیشی ٹیم نے پہلے کیوں تفتیش نہیںکی؟اورشامل تفتیش نہیں کیا؟یہ غیر قانونی اور بد نیتی پر مبنی ہے،عدالت نے قراردیا کہ عدالت پہلے ہی انہیں شامل تفتیش کرنے کاحکم جاری کر سکتی ہے،قانون کے مطابق کوئی ملزم شامل تفتیش ہونے سے انکارنہیں کر سکتا اونہ ہی قانونی طور پرتفتیشی ٹیم کو ایسا کرنے سے روکا جاسکتاہے، تفتیشی ٹیم پرویزمشرف کو باقاعدہ شامل تفتیش کرے،تاہم سیکیورٹی خطرات کے پیش نظر انہیں سب جیل میں رکھا جائے عدالت نے پرویزمشرف کی وکیل افشاں عادل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ایف آئی اے کی درخواست قانون کے مطابق ہے۔
آپ اس بارے پہلے قانون پڑھ کر آئیں،عدالتی فیصلے کے بعدسینئرپراسیکیوٹرچوہدری ذوالفقارعلی نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پرویز مشرف کو شامل تفتیش کرنے کے بعد باقاعدہ گرفتار کیاجائے،بیان ریکارڈ کرنے کی روشنی میں جسمانی ریمانڈلینے یا نہ لینے کافیصلہ ہوگا،مشرف کے خلاف ٹھوس شہادتیں اورگواہان موجود ہیں،ان کے خلاف بھرپور انداز میں کیس پیش کیا جائے گا جبکہ پرویز مشرف کی خاتون وکیل افشاں عادل نے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ پرویز مشرف کے ساتھ مسلسل ناانصافی ہورہی ہے،اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج نے متعصبانہ فیصلہ دیا۔
جسے ہم چیلنج کریں گے انہی عدالتوں میں اپنامؤقف پیش کیاجائے گا،پرویز مشرف خود آئے ہیں اور تمام مقدمات میں عدالتوں میں پیش ہورہے ہیں انہیں عدالت پیش ہونے بھی رکاوٹیں کھڑی کی جارہی ہیں،شامل تفتیش ہونے پر کوئی اعتراض نہیں ہم نے خود اس کی درخواست دی تھی ہم ہر کام صرف قانون کے مطابق چاہتے ہیں،بینظیر بھٹو کیس کی تفتیش پولیس کرے جس نے مقدمہ درج کیاہے،ایف آئی اے کو تفتیش کاکوئی حق نہیں،ہمارے ساتھ سراسر ناانصافی ہورہی ہے،اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج کافیصلہ بطورجج نہیں بلکہ بطور فریق کیا گیاتھا،قابل ضمانت کیس کو نئی دفعات لگاکرناقابل ضمانت بنایاگیا۔
وفاقی تحقیقاتی ادارے کے ڈپٹی ڈائریکٹر خالد رسول اور انسپکٹر ملک طارق پر مشتمل تفتیشی ٹیم نے پرویزمشرف کے سب جیل قرار دیے گئے فارم ہائوس پہنچ کر ان سے تفتیش بھی کی، ذرائع کے مطابق پرویز مشرف نے کہا کہ انھوں نے بینظیر کو قتل کرنے کی کوئی سازش نہیں کی اور انہیں بھرپور سیکیورٹی فراہم کی۔
ذرائع کے مطابق پرویز مشرف سوالات کا تسلی بخش جواب نہ دے سکے۔نجی ٹی وی کے مطابق مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے پرویزمشرف کوباقاعدہ ملزم قراردیا ہے۔ قبل ازیں انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت کے سینئرجج چوہدری حبیب الرحمن نے سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو شہادت کیس میں ملزم سابق صدرپرویزمشرف کو باضابطہ طورپرگرفتار کرنے اور اس مقدمے میں شامل تفتیش کرنے کاحکم جاری کردیاہے اوران کی وکیل افشاں عادل ایڈووکیٹ کی استدعامستردکردی،عدالت نے پرویزمشرف کے خلاف تفتیش مکمل کر کے حتمی چالان3مئی کو عدالت بھی پیش کرنے کا حکم دے دیاہے اورپرویز مشرف کوبھی اسی تاریخ پرعدالت پیش کرنے کاحکم دیا ہے،دوران گرفتاری پرویزمشرف سب جیل قراردیے جانے والی اپنی رہائش گاہ چک شہزادفارم ہاؤس میں ہی رہیں گے۔
تفتیش کاتمام مرحلہ یہیں مکمل کیاجائے گا،جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم کے سربراہ ڈائریکٹرایف آئی اے خالدقریشی، تفتیشی آفیسرڈپٹی ڈائریکٹر خالدرسول دیگر افسران کے ساتھ فارم ہاؤس پرویزمشرف کابیان ریکارڈکرنے جائیں گے۔ ایف آئی اے کے سینئرپراسیکیوٹرچوہدری ذوالفقار علی نے مشرف کی گرفتاری اور شامل تفتیش کرنے کی درخواست دائر کی، جس پر دلائل دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ پرویز مشرف اس کیس میں اشتہاری ملزم ہیں ان کے دائمی وارنٹ گرفتاری جاری ہوچکے ہیں جوآج بھی موجودہیں ان کی جائیداد بنک اکاؤنٹس منجمندہیں ان کو پاکستان آئے ایک ماہ سے زائد کا عرصہ ہوگیاہے،سندھ ہائی کورٹ نے انہیں تحفظاتی ضمانت دی تھی،اس کے بعدانھوں نے ہائی کورٹ راولپنڈی بینچ سے بھی ضمانت کرائی مگراس کے باوجود اس مقدمے میں شامل تفتیش نہیں ہوئے۔
اب ہائی کورٹ راولپنڈی بینچ نے ان کی عبوری ضمانت خارج کر دی،اس لیے تفتیشی ٹیم کوانہیں شامل تفتیش کرنے،بیان ریکارڈکرنے اور گرفتار کرنے کی اجازت دی جائے چونکہ ان کی سیکیورٹی کو خطرات ہیں اس لیے سب جیل میں ہی تفتیش کرنے کی بھی اجازت دی جائے عدالت نے یہ استدعابھی منظور کر لی۔وکیل صفائی افشاں عادل ایڈووکیٹ نے اس درخواست اوراستدعا کی مخالفت کرتے ہوئے کہاکہ پہلے انہیں اس درخواست کی کاپی دی جائے اوراس پر بحث کیلیے نئی تاریخ مقرر کی جائے،پرویزکولایا نہیں گیابلکہ وہ خود رضاکارانہ طورپرملک واپس آئے ہیں اور مقدمات کاسامنا کر رہے ہیں۔
جسمانی ریمانڈکی کوئی ضرورت نہیں،ان کے خلاف کوئی ٹھوس شہادت موجود نہیں، پرو یزمشرف کئی دن سے گرفتارہیں تفتیشی ٹیم نے پہلے کیوں تفتیش نہیںکی؟اورشامل تفتیش نہیں کیا؟یہ غیر قانونی اور بد نیتی پر مبنی ہے،عدالت نے قراردیا کہ عدالت پہلے ہی انہیں شامل تفتیش کرنے کاحکم جاری کر سکتی ہے،قانون کے مطابق کوئی ملزم شامل تفتیش ہونے سے انکارنہیں کر سکتا اونہ ہی قانونی طور پرتفتیشی ٹیم کو ایسا کرنے سے روکا جاسکتاہے، تفتیشی ٹیم پرویزمشرف کو باقاعدہ شامل تفتیش کرے،تاہم سیکیورٹی خطرات کے پیش نظر انہیں سب جیل میں رکھا جائے عدالت نے پرویزمشرف کی وکیل افشاں عادل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ایف آئی اے کی درخواست قانون کے مطابق ہے۔
آپ اس بارے پہلے قانون پڑھ کر آئیں،عدالتی فیصلے کے بعدسینئرپراسیکیوٹرچوہدری ذوالفقارعلی نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پرویز مشرف کو شامل تفتیش کرنے کے بعد باقاعدہ گرفتار کیاجائے،بیان ریکارڈ کرنے کی روشنی میں جسمانی ریمانڈلینے یا نہ لینے کافیصلہ ہوگا،مشرف کے خلاف ٹھوس شہادتیں اورگواہان موجود ہیں،ان کے خلاف بھرپور انداز میں کیس پیش کیا جائے گا جبکہ پرویز مشرف کی خاتون وکیل افشاں عادل نے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ پرویز مشرف کے ساتھ مسلسل ناانصافی ہورہی ہے،اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج نے متعصبانہ فیصلہ دیا۔
جسے ہم چیلنج کریں گے انہی عدالتوں میں اپنامؤقف پیش کیاجائے گا،پرویز مشرف خود آئے ہیں اور تمام مقدمات میں عدالتوں میں پیش ہورہے ہیں انہیں عدالت پیش ہونے بھی رکاوٹیں کھڑی کی جارہی ہیں،شامل تفتیش ہونے پر کوئی اعتراض نہیں ہم نے خود اس کی درخواست دی تھی ہم ہر کام صرف قانون کے مطابق چاہتے ہیں،بینظیر بھٹو کیس کی تفتیش پولیس کرے جس نے مقدمہ درج کیاہے،ایف آئی اے کو تفتیش کاکوئی حق نہیں،ہمارے ساتھ سراسر ناانصافی ہورہی ہے،اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج کافیصلہ بطورجج نہیں بلکہ بطور فریق کیا گیاتھا،قابل ضمانت کیس کو نئی دفعات لگاکرناقابل ضمانت بنایاگیا۔