انتخابات 25 جولائی کو…

جیتنے کی امید لگانے والے رہنما ئوں کے ماضی کو نظر انداز کرتے ہوئے ان کے لیے تحریک انصاف کے دروازے کھول دیے گئے

tauceeph@gmail.com

الیکشن کمیشن نے انتخابی شیڈول کا اعلان کر دیا، اسلام آباد اور لاہور ہائی کورٹس نے متضاد فیصلے دیے، پھر چیف جسٹس ثا قب نثار نے دوبارہ یہ اعلان کرکے کہ انتخابات ہر صورت میں 25 جولائی کو ہونگے، ان عناصر کے عزائم پر پانی پھیر دیا جو انتخابات ملتوی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ ملک کی تاریخ میں جب بھی انتخابات کا مرحلہ آتا ہے توکئی عناصر انتخابات ملتوی کرنے کی تگ و دوو کرتے ہیں ۔ ان عناصر میں سے تو بعض عناصر تو وہ ہوتے ہیں ۔

جنھیں آیندہ انتخابات میں کامیابی کی امید نہیں ہوتی اور بعض وہ ہوتے ہیں جو اسٹیبلیشمٹ کی ایماء پر جمہوری نظام کو سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں ۔ بدقسمتی سے اس دفعہ انتخابات ملتوی کرنے کی آواز بلوچستان سے آئی اور انتخابات ملتوی کرنے کا ان لوگوں نے مطالبہ کیا جو چند ماہ قبل اپنی وفاداریاں تبدیل کرچکے تھے، تحریک انصاف بھی ان لوگوں کی ہم نوا نظر آئی ۔

پانچ سالوں کی تاریخ بھی عجیب ہے کہ عمران خان نے 2013ء کے انتخابات کے چند مہینے بعد ہی دھاندلی کے مبینہ الزام کی بنا ء پر 2013ء کے انتخابات کو منسوخ کرنے اور نئے انتخابات کا نعرہ لگایا ۔ اپنے مطالبات کو منوانے کے لیے اسلام آباد کا گھیرائوکرنے نکلے اور کئی مہینے تک دھرنا دیے بیٹھے رہے۔ اگرچہ چیف جسٹس ناصر الملک نے2013ء کے انتخابات میں دھندلی کے الزامات کو مسترد کیا تو عمران خان نے بظاہر تو اس فیصلے کو قبول کیا مگر اگلے چار سال تک ملک میں جلسے جلوسوں کے ذریعے انتخابی مہم چلاتے رہے۔تحریک انصاف کے کور گروپ نے مستقبل کی پلاننگ کرنے کے دعوے شروع کر دیے۔

جیتنے کی امید لگانے والے رہنما ئوں کے ماضی کو نظر انداز کرتے ہوئے ان کے لیے تحریک انصاف کے دروازے کھول دیے گئے۔عمران خان نے ملک کے ہر بڑے شہر میں جلسے کیے اور ان شہروں کے متوقع امیدوار تحریک انصاف کے جلسوں میں آنے لگے۔ کچھ اضلاع میں تحریک انصاف کے نامزدہ ناموں کی فہرستیں بھی اخبارات کی زینت بنی۔ تحریک انصاف نے دو ماہ پہلے نگران وزیر اعظم کے لیے اپنے ناموں کی فہرست جاری کر دی ، مگر جب خیبر پختون خواہ اور پنجاب میں نگراں وزیر اعلیٰ کا مرحلہ آیا تو حیرت انگیز طو ر پر تحریک انصاف کی کارکردگی عیاں ہوگئی۔ اگرچہ سب سے پہلے نگراں وزیر اعلی کے پی کے سے متفقہ امیدوار کی خبر آئی مگر عمران خان نے نامزد نگران وزیر اعلی کو اپنے گھر بلا کے اور ان کے ساتھ اپنا گروپ فوٹو جاری کر کے نگراں وزیر اعلیٰ کی ساکھ اور غیر جانبداری کو ختم کر دیا ۔

پنجاب میں ناصر کھوسہ کی نامزدگی کو واپس لے کر ثابت کردیا کہ تحریک انصاف کی قیادت کو نگراں وزیر اعلیٰ کی تقرری کی حساسیت کا احساس ہی نہیں ہے ، ایک سابق بیوروکریٹ کو نگراں وزیر اعلیٰ کے لیے نامزد کردیا گیا جو طالبان کے حامی ہیں ۔ تحریک انصاف سے اچھی امید رکھنے والے مبصرین کو یہ امید تھی کہ کے پی کے اور پنجاب میں نگراں وزیر اعلی کے معاملات سب سے پہلے حل ہوںگے۔ اگرچہ عمران خان بار بار یہ نعرہ بلند کر رہے ہیں کہ 25 جولائی کو ان کی جماعت اکثریت حاصل کر لے گی۔ ان لوگوں نے اپنی متوقع حکومت کا100 دن کا پلان بھی پیش کر دیا ہے اور ایک کروڑ نوجوانوں کو ملازمت دینے کا بھی وعدہ کیا ہے، مگر پنجاب اور خیبرپختون خوا میں نگراں وزیر اعلیٰ کے مسئلے پر تحریک انصاف کے غیر سنجیدہ رویئے سے یہ محسوس ہونے لگا ہے کہ ان کی قیادت آیندہ انتخابات سے خوفزدہ ہوگئی ہے یا پھر عمران خان کا اپنی جماعت پر کنٹرول نہیں ہے۔

ایم کیوایم کی بھی تاریخ بھی عجیب ہے ۔اس دفعہ وہ مردم شماری کے نتائج کی آڑ میںانتخابات کے بائیکاٹ کا نعرہ لگا رہی ہے۔ 90ء کی دہائی میں اور پھر نئی صدی کے پہلے عشرے میں کبھی قومی اسمبلی اورکبھی بلدیاتی انتخابات کا بائیکاٹ کرچکی ہے اور ہمیشہ وقت گزرنے کے بعد ایم کیو ایم کی قیادت یہ تسلیم کرتی رہی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے دبائو پر بائیکاٹ کے فیصلے غلط تھے۔ اب پھر ایم کیو ایم کے دونوں گروپ اسٹیبلشمنٹ کا کھیل کھیل رہے ہیں۔ پاکستا ن کی تاریخ کے مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمیشہ اسٹیبلیشمنٹ نے انتخابات کو روکنے کی کوشش کی اور پھر اس کے خوفناک نتائج برآمد ہوئے۔ جب تیسرے گورنر جنرل غلام محمد نے وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کی حکومت کو برطرف کیا اورپہلی آئین ساز اسمبلی کو توڑ دیا تو قاعدے کے مطابق انتخابات کرانے سے گریزکیا۔اس صورت حال سے برا ہ راست اکثریتی حصہ ،مشرقی پاکستان متاثر ہوا اور وہاں کی عوام میں یہ احساس ہوا کہ انھیں حکومت کرنے کے حق سے محروم کیا جا رہا ہے۔ یہ وہی وقت تھا جب فوج کے کمانڈر انچیف جنرل ایوب خان نے حکومتی معاملات میں مداخلت شروع کی تھی۔


صوبائی اسمبلیوں کے بلا واسطہ انتخابات کرا کے دوسری آئین ساز اسمبلی قائم کی گئی۔ برابری کا اصول قائم کر کے مشرقی پاکستان کی اکثریت کو ختم کیا گیا اور ون یونٹ قائم کر کے چھوٹے صوبوں میں احساس محرومی کی بنیاد رکھ دی گئی۔1956 کے آئین کے نفاذ کے بعد جب 1958 میں انتخابات لازم ہو گئے اور یہ بات واضح ہو گئی کہ عوامی لیگ اور نیشنل عوامی پارٹی اکثریت حاصل کرلیں گی اور سرکاری جماعتیں مسلم لیگ اور ری پبلکن پارٹی شکست کھا لیں گی تو فوج کے سربراہ جنرل ایوب خان نے مارشل لاء لگا کے ملک پر قبضہ کر لیا ۔ پاکستان امریکا کی غلامی میںچلا گیا ۔ عالمی بینک میں قرضوں نے ملکی معیشت کو جکڑ لیا ۔

مشرقی پاکستان کی عوام میں یہ احساس پیدا ہو گیا کہ ان کا بدترین استحصال ہو رہا ہے جس کے نتیجے میں مشرقی پاکستان میں علیحدگی کی تحریک تقویت پانے لگی۔1977ء میں جب انتخابات میں پی پی پی کی کامیابی نظر آنے لگی تو جنرل ضیاء الحق نے انتخابات ملتوی کردیے۔ اسٹیبلشمنٹ سے طاقت پانے والے سیاستدان اورصحافی جنرل ضیاء کے ہمنوا بن گئے۔ جنرل ضیاء نے پاکستان کو افغان جنگ میں جھونک دیا ۔

مذہبی انتہا پسندی کی جڑیں گہری ہو گئیں اور پاکستان اور اطراف کے ممالک تقریبا چالیس سال گزرنے کے باوجود اس بحران سے نکل نہیں پا رہے۔آج سیاستدان اور فوجی جنرل تجزیہ نگار اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ جنرل ضیاء الحق کی افغان جنگ میں مداخلت ایک بھیانک غلطی تھی۔اگر5 جولائی1977 ء کو وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو اور پی این اے کے رہنمائوں کے درمیان دوبارہ انتخابات کے معاہدے کو جنرل ضیاء الحق سبوتاژ نہ کرتے اور ملک میں انتخابات ملتوی نہ ہوتے تو نئی منتخب حکومت پاکستان کو اس تباہی سے بچا لیتی۔

پیپلز پارٹی نے بلوچستان میں زہری حکومت کے خاتمے کے لیے قدوس بزنجو گروپ کی حمایت کی اور ان کے نمایندے کوسینیٹ کا چیئرمین بنوایا مگر آج بزنجو گروپ سب سے زیادہ انتخابات ملتوی کرانے کا داعی ہے۔ سندھ میں سابق وزیر اعلیٰ ارباب رحیم نے بھی انتخاب سے پہلے احتساب کا نعرہ بلند کردیا۔ پیپلز پارٹی کے اراکین قومی اسمبلی نے امیدواروں کے نامزدگی فارم کو مرتب کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ اب بدلتی ہوئی صورتحال میں پیپلز پارٹی کی قیادت کو حقیقت کا ادراک ہوا۔ پیپلز پارٹی کے رہنما اور سینئر قانون دان چوہدری اعتزاز احسن کو یہ کہنا پڑا کہ کوئی سسٹم انتخابا ت کو ملتوی کرانا چاہتا ہے۔

یہ مؤقف سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف اور نیشنل پارٹی کے رہنما میر حاصل بزنجو وغیر ہ کا بھی ہے۔ یہ اتفاق رائے جمہوری نظام کے مستقبل کے لیے انتہائی مثبت ہے۔ سیاسی جماعتوں کے ارتقاء کا جائزہ لینے سے محسوس ہوتا ہے کہ انتخابات کے ذریعے سیاسی جماعتیں مضبوط ہوتی ہیں۔انتخابی عمل کے ذریعے سیاسی جماعتوں کا عوام سے رابطہ مضبوط ہوتا ہے۔سیاسی جماعتیں کامیاب ہوں یا ناکام ، انتخابی عمل ان کی سمت کو درست کرتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ جدید سیاسی جماعتیںانتخابات کی برسوں منصوبہ بندی کرتی ہیں ، جو سیاسی جما عتیں دور رہتی ہیں وہ تحلیل ہوتی جاتی ہیں۔انھی وجوہات کی بناء پر سیاسی جماعتیں انتخابات میں بھر پور حصہ لیتی ہیں ۔ کسی سیاسی جماعت کا انتخابات کا ملتوی کرنے کے مؤقف کا مطلب یہ ہے کہ اس سیاسی جماعت کا عوام پر اعتبار نہیں ہے یا یہ جماعت اسٹیبلشمنٹ کی پیداوار ہے اور ایسی سیاسی جماعت کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔ چیف الیکشن کمشنر اور چیف جسٹس کے واضح موقف سے یہ واضح ہوتا ہے کہ وہ صورتحال کا صحیح ادراک کر رہے ہیں ۔ انتخابات کا 25 جولائی کو ہونا ہی ملک کا سب سے بڑا مفاد ہے۔
Load Next Story