امیرالمومنین سیدنا علی المرتضیؓ
حُب و عشقِ رسولؐ ان کی رگ و پے میں بسا ہوا تھا
PARIS:
تاج دارِ فقر و غنا، فاتح خیبر، دامادِ حبیب کبریا ﷺ سیدنا علی المرتضیٰ ؓ تاریخ اسلام کا وہ تاب ناک باب اور ایسی عظیم الشان شخصیت ہیں، لاریب جن کے اسم ِ گرامی کے ساتھ فقر و غنایت ، غیرت و حمیت ، شہامت و شہادت ، جرأت و بسالت ، شوکت و سطوت کی آبرو وابستہ ہے۔ ایک ایسی لامثال اور عدیم النظیر ہستی جس نے اس حیات فانی میں نانِ شعیر میں ہی لذت ِ کام و دہن محسوس کرتے ہوئے اپنی تیغ براں سے معاندین اسلام اور دشمنان اسلام کی خشونت و رعونت کو روئی کے گالوں کی طرح ہوا میں اڑا دیا اور آج بھی قصر کفر جس کے نام سے لرزہ بر اندام ہے۔
آپؓ ایک ایسے شفیق النفس باپ کے لخت جگر تھے، جنہوں نے اپنی حیات مستعار کا ہر ایک لمحہ قندیل اسلام کو فروزاں رکھنے میں صرف کیا۔ اگر اس حقیقت کا بے لاگ اظہار کیا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ اسلام کی سر بلندی و ارتقاء اور شمع رسالتؐ کو حوادث زمانہ اور مصائب و آلام کی آندھیوں سے بچا کر رکھنا اور اس کی لو کو مدہم نہ ہونے دینا یہ سیدنا علی ؓ کے والد گرامی جناب ابوطالب کا ایک ایسا زریں اور بے مثال کارنامہ ہے جسے ماضی، حال اور مستقبل کا کوئی مورخ نظر انداز نہیں کرسکتا۔
یوں تو سیدنا علی ؓ کے محامد و محاسن کی فہرست بڑی طویل ہے، جس ہستی کو محسن انسانیت حضور سرور کائنات ﷺ کی آغوش عاطفت بچپن سے ہی میسر آگئی ہو اور جس کی حیات اقدس کا ایک ایک لمحہ صاحب یٰس آقائے گیتی پناہؐ کی زلف عنبریں کی طرح داری کی قربتوں میں گزرا ہو، جو ہر وقت آقاؐ کے جمال ِ جہاں آرا کی زیارت کرتا رہا ہو، جسے ہر گھڑی بہ راہ راست حضور ﷺ کی چشم ِ عنایت کا فیضان ملتا رہا ہو، جس کے مشام ِ جاں زندگی کے ہر ثانیے میں پسینائے حبیب خدا ﷺ کی خوش بو سے معطر ہوتے رہے ہوں، جس سراپا یمین و سعادت ہستی کی آنکھیں ہر وقت حبیب خداؐ کو مکہ و مدینہ کی گلیوں میں محو خرام دیکھتی رہی ہوں اور سب سے بڑھ کر قربت ِ محمد عربی ﷺ کی یہ انتہا کہ آپ کی سب سے پیاری صاحب زادی مخدومہ ِکونین، سرتاج مخدرات عالم اسلام، خواتین جنت کی سردار، معدن و مخزن عفت و عصمت سیدہ فاطمۃ الزہرہؓ جس کی اہلیہ محترمہ ہوں، اس کے فضائل و کمالات اور عروج و ارتفاع کو کون پہنچ سکتا ہے۔
حب و عشق رسولؐ سیدنا علی ؓ کی رگ و پے میں بسا ہوا تھا۔ محبت کے بھی اس انداز کو سمجھنا سطح بین لوگوں کا کام نہیں ہے۔ وہ حب رسولؐ کے ان واقعات کو سطحی آنکھوں سے دیکھ کر آگے گزر جاتے ہیں۔ ذرا شب ِ ہجرت کی فرقت درازی اور خوف و کرب ناکی کا اندازہ لگائیں، نام لینا آسان ہوتا ہے مگر شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا اور پھر اسے عملی جامہ پہنانا علیؓ کا ہی کام ہے۔ رات کی تاریکی کا تصور عام حالات میں ہی وحشت ناک ہوتا ہے۔
گھر سے باہر قدم رکھتے ہوئے بڑے بڑے شجیع لڑکھڑا جاتے ہیں۔ مگر ہجرت کی رات وہ بھی اپنی تمام تر ہول ناکیوں کے ساتھ پھنکارتے ہوئے ناگ کی طرح کھڑی ہو۔ حکم رسالت مآب ﷺ ہوتا ہے اے علیؓ! آج کی رات تمھیں میرے بستر پر دراز ہونا ہوگا۔ یہ جانتے ہوئے کہ آستانہ نبوتؐ کے باہر کفار کے کژدم اور اژدر ہاتھوں میں زہر آلود تیر سناں لیے کھڑے ہوں گے مگر موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مسکرانے والے حیدر کرارؓ ارشاد نبوتؐ کے سامنے بہ صد خلوص و محبت سرنیاز خم کرتے ہوئے اس شان بے نیازی کے ساتھ بستر نبوت پر دراز ہوجاتے ہیں کہ جس طرح حریم حُسن میں کوئی نو عروسِ چمن دنیا و مافیہا سے بے خبر نیند کے مزے لے رہا ہو۔
سیدنا علی ؓ فرماتے ہیں شبِ ہجرت میں نے بستر نبوتؐ پر جس طمانیت و تسکین کے ساتھ گزاری، اتنی راحت مجھے زندگی بھر میسر نہیں آسکی۔ حضور سرور عالم ﷺ کی ذات اقدس کے ساتھ جذباتی وابستگی کا دوسرا واقعہ صلح حدیبیہ کے وقت پیش آیا۔ اس صلح نامے کی شرائط طے کرنے اور انہیں تحریری شکل دینے کے لیے مدینۃ العلمؐ نے باب علمؓ کو بلایا۔ سیدنا علیؓ جب صلح کی شرائط تحریر فرما چکے تو آپ نے حد احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے نیچے محمد رسول اﷲ ﷺ لکھ دیا۔
مگر کفار کا نمائندہ سہیل بڑا شاطر اور کائیاں نکلا اس نے فوراً اعتراض کردیا کہ ہم آپؐ کو اﷲ کا رسول تسلیم نہیں کرتے، اگر کرلیں تو پھر نزاع کس بات پر۔ دانش و تدبر اور بصیرت و فراست کے دائمی تاج دار حضور سرور کائنات ﷺ نے سہیل کے موقف کو وقتی طور پر درست تسلیم کرتے ہوئے سیدنا علیؓ کو حکم دیا کہ اے علی محمد رسول اﷲ مٹا کر صرف محمد بن عبداﷲ لکھ دیا جائے مگر اپنے آقا و مولا حضور سرورِ کون و مکاں ﷺ کے ایک اشارہ ابرو پر اپنا سب کچھ قربان کر دینے والے علیؓ۔ بدر و احد اور خندق میں دشمنوں کے سر بریدہ کر دینے والے علیؓ کی حمیت اور شفقت و محبت کی غایت اوج کمال تک پہنچ گئی، دست بستہ عرض کیا، حضور جو دست علی ؓ وجود آفتاب رسالت ﷺ کی حفاظت اورِ اسلام کی سر بلندی کے لیے بنا ہو، جو ید مرتضیٰ احد میں اپنے محبوب کی حفاظت کرتا رہا ہو، علی کا وہ ہاتھ بلاد تاریخ کی سب سے بڑی حقیقت یعنی محمد رسول اﷲ ﷺ کو کس طرح مٹا سکتا ہے۔۔۔۔ ؟
یہ تھا الفت نبویؐ کا وہ جذبہ بے کراں، جس نے انہیں علیؓ سے حیدر کرار بنا دیا۔
میدان شجاعت کے اس لامثال تاج دار کے حربی کارناموں کا تذکرہ اتنا ایمان افروز اتنا حیات آفرین اور اتنا طویل ہے کہ قرطاس و قلم کو اپنی کم مائیگی کا احساس ہونے لگتا ہے۔ معرکہ بدر ہو یا غزوۂ احد میدان خندق ہو یا یہودیوں کے قلعہ خیبر کا میدان رستا خیز، علیؓ کی شمشیر خارا شگاف کچھ اس طرح سے خرمن باطل پر برستی رہی کہ اس کی دھار پر بجلیاں بھی آشیانے بنانے پر ناز کرتی رہیں بالخصوص معرکۂ خیبر ذوالفقار حیدری کی فقید المثال کارکردگی کی وجہ سے مسلمانوں کی فتوحات کا مظہر بن گیا۔ خیبر میں یہودیوں کا ایک قلعہ مجاہدین حق کی مکمل فتح میں فصیل بنا ہوا تھا، ارشاد نبویؐ ہوتا ہے کہ پرچم اسلام کل اس عظیم انسان کے ہاتھ میں ہوگا جس پر شجاعت ناز کرتی ہے۔
صحابہؓ نے یہ رات بڑے تذبذب میں گزاری صبح ہوتے ہی ارشاد نبوت ہوتا ہے علی ؓ کو بلایا جائے، صحابہ ؓ نے عرض کیا انہیں آشوب چشم کا عارضہ ہے، علی ؓ بارگاہ نبوت میں حاضر ہوتے ہیں، عرض کیا آقا آنکھیں دکھتی ہیں۔ مسیحائے کائناتؐ طبیب انفس و آفاق نے اپنا لعاب دہن آنکھوں میں لگایا فرمایا اب کیسے ہو، عرض کیا درد یوں کافور ہو گیا ہے جیسے کچھ تھا ہی نہیں، سیدنا علیؓ نے پرچم اسلام دست نبوت سے ہاتھ میں لیا اور بڑی شان سے قلعہ قاموص میں داخل ہوئے، شیر خدا نے نعرہ تکبیر بلند کرتے ہوئے یہود کو للکارا ۔ یہود کا سرمایہ فخر و غرور اور پیکر نخوت و تکبر مرحب رجز پڑھتا ہوا سامنے آیا، بھلا جس اسد اﷲ کی للکار سے دشت و جبل لرز اٹھتے ہوں، جس کے جذبہ شہامت و بسالت سے سمندر کی موجیں خوف کھاتی ہوں۔
بدر و احد اور خندق کے میدان جس کے بازوئے شمشیر زن سے ابھی تک کانپ رہے ہوں اور پھر سب سے بڑھ کر جس علی المرتضیٰ کو تائید خدا اور مصطفی ﷺ حاصل ہو، نان شعیر جس کی غذا ہونے کے باوجود باطل جس کا نام سن کر کانپ اٹھتا ہو، اس کے سامنے مرحب کی کیا حیثیت تھی۔ ذوالفقار حیدری کی ایک ہی ضرب سے شوکت و شکوہِ مرحب خاک و خون میں تڑپتی نظر آئی۔ یہود نے اپنے معدن جرات کو خاک میں لوٹتے دیکھا تو بھاگ کر قلعہ میں پناہ لی اور اندر سے دروازہ بند کرلیا لیکن قوت دین مبین اور عشق کے سرمایہ ایمان علی نے اﷲ اکبر کا نعرہ لگاتے ہوئے ایک جھٹکے میں باب خیبر کو اکھاڑ کر ہوا میں اچھال دیا۔
سید ابو الحسن ندوی تحریر کرتے ہیں کہ یہ روایت بالکل صحیح ہے کہ اس قلعے کا دروازہ چالیس انسان مل کر کھولتے اور بند کرتے تھے۔ اس ذلت آمیز شکست سے یہود کی قوت ہمیشہ کے لیے پاش پاش ہوگئی۔
سیدنا علیؓ کا قاتل ابن ملجم شب جمعہ 17 رمضان المبارک کو اس دروازے کے قریب آ کر بیٹھ گیا جس سے سیدنا علی ؓ نماز کے لیے نکلا کرتے تھے۔ آپ لوگوں کو فجر کی نماز کے لیے بیدار کر رہے تھے کہ اس بدبخت ازلی نے اچانک حیدر کرارؓ کے سر کے اگلے حصے پر وار کیا، خون سے آپؓ کی ریش مبارک تر ہوگئی۔ حسن سلوک کے مجسم پیکر نے ارشاد فرمایا، اگر میں شہید ہو جائوں تو ایک جان کا بدلہ لیا جائے اور مثلہ نہ کیا جائے، اگر میں زندہ رہا تو خود سوچوں گا کہ کیا معاملہ کرنا ہے۔ یوں مہد سے آغوش نبوتؐ میں پرورش پانے والا، میدان بدر میں اپنی تیغ ناز سے دشمنان اسلام کے پرخچے اڑا دینے والا، معرکہ احد میں شمع رسالتؐ کی حفاظت فرمانے والا، غزوہ خندق میں عمرو کی انانیت کی دھجیاں فضائے بسیط میں بکھیر دینے والا، کبھی کسی سے ذاتی انتقام نہ لینے والا غریق بحر زہد و اتقاء ہونے کے باوجود عجز و انکسار کا نذرانہ لے کر تریسٹھ برس کی عمر میں رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں جمعۃ المبارک کے روز شہادت کے عظیم منصب پر فائز ہونے والا علی ؓ شیر خدا اپنے رب کے حضور جا پہنچا۔
تاج دارِ فقر و غنا، فاتح خیبر، دامادِ حبیب کبریا ﷺ سیدنا علی المرتضیٰ ؓ تاریخ اسلام کا وہ تاب ناک باب اور ایسی عظیم الشان شخصیت ہیں، لاریب جن کے اسم ِ گرامی کے ساتھ فقر و غنایت ، غیرت و حمیت ، شہامت و شہادت ، جرأت و بسالت ، شوکت و سطوت کی آبرو وابستہ ہے۔ ایک ایسی لامثال اور عدیم النظیر ہستی جس نے اس حیات فانی میں نانِ شعیر میں ہی لذت ِ کام و دہن محسوس کرتے ہوئے اپنی تیغ براں سے معاندین اسلام اور دشمنان اسلام کی خشونت و رعونت کو روئی کے گالوں کی طرح ہوا میں اڑا دیا اور آج بھی قصر کفر جس کے نام سے لرزہ بر اندام ہے۔
آپؓ ایک ایسے شفیق النفس باپ کے لخت جگر تھے، جنہوں نے اپنی حیات مستعار کا ہر ایک لمحہ قندیل اسلام کو فروزاں رکھنے میں صرف کیا۔ اگر اس حقیقت کا بے لاگ اظہار کیا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ اسلام کی سر بلندی و ارتقاء اور شمع رسالتؐ کو حوادث زمانہ اور مصائب و آلام کی آندھیوں سے بچا کر رکھنا اور اس کی لو کو مدہم نہ ہونے دینا یہ سیدنا علی ؓ کے والد گرامی جناب ابوطالب کا ایک ایسا زریں اور بے مثال کارنامہ ہے جسے ماضی، حال اور مستقبل کا کوئی مورخ نظر انداز نہیں کرسکتا۔
یوں تو سیدنا علی ؓ کے محامد و محاسن کی فہرست بڑی طویل ہے، جس ہستی کو محسن انسانیت حضور سرور کائنات ﷺ کی آغوش عاطفت بچپن سے ہی میسر آگئی ہو اور جس کی حیات اقدس کا ایک ایک لمحہ صاحب یٰس آقائے گیتی پناہؐ کی زلف عنبریں کی طرح داری کی قربتوں میں گزرا ہو، جو ہر وقت آقاؐ کے جمال ِ جہاں آرا کی زیارت کرتا رہا ہو، جسے ہر گھڑی بہ راہ راست حضور ﷺ کی چشم ِ عنایت کا فیضان ملتا رہا ہو، جس کے مشام ِ جاں زندگی کے ہر ثانیے میں پسینائے حبیب خدا ﷺ کی خوش بو سے معطر ہوتے رہے ہوں، جس سراپا یمین و سعادت ہستی کی آنکھیں ہر وقت حبیب خداؐ کو مکہ و مدینہ کی گلیوں میں محو خرام دیکھتی رہی ہوں اور سب سے بڑھ کر قربت ِ محمد عربی ﷺ کی یہ انتہا کہ آپ کی سب سے پیاری صاحب زادی مخدومہ ِکونین، سرتاج مخدرات عالم اسلام، خواتین جنت کی سردار، معدن و مخزن عفت و عصمت سیدہ فاطمۃ الزہرہؓ جس کی اہلیہ محترمہ ہوں، اس کے فضائل و کمالات اور عروج و ارتفاع کو کون پہنچ سکتا ہے۔
حب و عشق رسولؐ سیدنا علی ؓ کی رگ و پے میں بسا ہوا تھا۔ محبت کے بھی اس انداز کو سمجھنا سطح بین لوگوں کا کام نہیں ہے۔ وہ حب رسولؐ کے ان واقعات کو سطحی آنکھوں سے دیکھ کر آگے گزر جاتے ہیں۔ ذرا شب ِ ہجرت کی فرقت درازی اور خوف و کرب ناکی کا اندازہ لگائیں، نام لینا آسان ہوتا ہے مگر شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا اور پھر اسے عملی جامہ پہنانا علیؓ کا ہی کام ہے۔ رات کی تاریکی کا تصور عام حالات میں ہی وحشت ناک ہوتا ہے۔
گھر سے باہر قدم رکھتے ہوئے بڑے بڑے شجیع لڑکھڑا جاتے ہیں۔ مگر ہجرت کی رات وہ بھی اپنی تمام تر ہول ناکیوں کے ساتھ پھنکارتے ہوئے ناگ کی طرح کھڑی ہو۔ حکم رسالت مآب ﷺ ہوتا ہے اے علیؓ! آج کی رات تمھیں میرے بستر پر دراز ہونا ہوگا۔ یہ جانتے ہوئے کہ آستانہ نبوتؐ کے باہر کفار کے کژدم اور اژدر ہاتھوں میں زہر آلود تیر سناں لیے کھڑے ہوں گے مگر موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مسکرانے والے حیدر کرارؓ ارشاد نبوتؐ کے سامنے بہ صد خلوص و محبت سرنیاز خم کرتے ہوئے اس شان بے نیازی کے ساتھ بستر نبوت پر دراز ہوجاتے ہیں کہ جس طرح حریم حُسن میں کوئی نو عروسِ چمن دنیا و مافیہا سے بے خبر نیند کے مزے لے رہا ہو۔
سیدنا علی ؓ فرماتے ہیں شبِ ہجرت میں نے بستر نبوتؐ پر جس طمانیت و تسکین کے ساتھ گزاری، اتنی راحت مجھے زندگی بھر میسر نہیں آسکی۔ حضور سرور عالم ﷺ کی ذات اقدس کے ساتھ جذباتی وابستگی کا دوسرا واقعہ صلح حدیبیہ کے وقت پیش آیا۔ اس صلح نامے کی شرائط طے کرنے اور انہیں تحریری شکل دینے کے لیے مدینۃ العلمؐ نے باب علمؓ کو بلایا۔ سیدنا علیؓ جب صلح کی شرائط تحریر فرما چکے تو آپ نے حد احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے نیچے محمد رسول اﷲ ﷺ لکھ دیا۔
مگر کفار کا نمائندہ سہیل بڑا شاطر اور کائیاں نکلا اس نے فوراً اعتراض کردیا کہ ہم آپؐ کو اﷲ کا رسول تسلیم نہیں کرتے، اگر کرلیں تو پھر نزاع کس بات پر۔ دانش و تدبر اور بصیرت و فراست کے دائمی تاج دار حضور سرور کائنات ﷺ نے سہیل کے موقف کو وقتی طور پر درست تسلیم کرتے ہوئے سیدنا علیؓ کو حکم دیا کہ اے علی محمد رسول اﷲ مٹا کر صرف محمد بن عبداﷲ لکھ دیا جائے مگر اپنے آقا و مولا حضور سرورِ کون و مکاں ﷺ کے ایک اشارہ ابرو پر اپنا سب کچھ قربان کر دینے والے علیؓ۔ بدر و احد اور خندق میں دشمنوں کے سر بریدہ کر دینے والے علیؓ کی حمیت اور شفقت و محبت کی غایت اوج کمال تک پہنچ گئی، دست بستہ عرض کیا، حضور جو دست علی ؓ وجود آفتاب رسالت ﷺ کی حفاظت اورِ اسلام کی سر بلندی کے لیے بنا ہو، جو ید مرتضیٰ احد میں اپنے محبوب کی حفاظت کرتا رہا ہو، علی کا وہ ہاتھ بلاد تاریخ کی سب سے بڑی حقیقت یعنی محمد رسول اﷲ ﷺ کو کس طرح مٹا سکتا ہے۔۔۔۔ ؟
یہ تھا الفت نبویؐ کا وہ جذبہ بے کراں، جس نے انہیں علیؓ سے حیدر کرار بنا دیا۔
میدان شجاعت کے اس لامثال تاج دار کے حربی کارناموں کا تذکرہ اتنا ایمان افروز اتنا حیات آفرین اور اتنا طویل ہے کہ قرطاس و قلم کو اپنی کم مائیگی کا احساس ہونے لگتا ہے۔ معرکہ بدر ہو یا غزوۂ احد میدان خندق ہو یا یہودیوں کے قلعہ خیبر کا میدان رستا خیز، علیؓ کی شمشیر خارا شگاف کچھ اس طرح سے خرمن باطل پر برستی رہی کہ اس کی دھار پر بجلیاں بھی آشیانے بنانے پر ناز کرتی رہیں بالخصوص معرکۂ خیبر ذوالفقار حیدری کی فقید المثال کارکردگی کی وجہ سے مسلمانوں کی فتوحات کا مظہر بن گیا۔ خیبر میں یہودیوں کا ایک قلعہ مجاہدین حق کی مکمل فتح میں فصیل بنا ہوا تھا، ارشاد نبویؐ ہوتا ہے کہ پرچم اسلام کل اس عظیم انسان کے ہاتھ میں ہوگا جس پر شجاعت ناز کرتی ہے۔
صحابہؓ نے یہ رات بڑے تذبذب میں گزاری صبح ہوتے ہی ارشاد نبوت ہوتا ہے علی ؓ کو بلایا جائے، صحابہ ؓ نے عرض کیا انہیں آشوب چشم کا عارضہ ہے، علی ؓ بارگاہ نبوت میں حاضر ہوتے ہیں، عرض کیا آقا آنکھیں دکھتی ہیں۔ مسیحائے کائناتؐ طبیب انفس و آفاق نے اپنا لعاب دہن آنکھوں میں لگایا فرمایا اب کیسے ہو، عرض کیا درد یوں کافور ہو گیا ہے جیسے کچھ تھا ہی نہیں، سیدنا علیؓ نے پرچم اسلام دست نبوت سے ہاتھ میں لیا اور بڑی شان سے قلعہ قاموص میں داخل ہوئے، شیر خدا نے نعرہ تکبیر بلند کرتے ہوئے یہود کو للکارا ۔ یہود کا سرمایہ فخر و غرور اور پیکر نخوت و تکبر مرحب رجز پڑھتا ہوا سامنے آیا، بھلا جس اسد اﷲ کی للکار سے دشت و جبل لرز اٹھتے ہوں، جس کے جذبہ شہامت و بسالت سے سمندر کی موجیں خوف کھاتی ہوں۔
بدر و احد اور خندق کے میدان جس کے بازوئے شمشیر زن سے ابھی تک کانپ رہے ہوں اور پھر سب سے بڑھ کر جس علی المرتضیٰ کو تائید خدا اور مصطفی ﷺ حاصل ہو، نان شعیر جس کی غذا ہونے کے باوجود باطل جس کا نام سن کر کانپ اٹھتا ہو، اس کے سامنے مرحب کی کیا حیثیت تھی۔ ذوالفقار حیدری کی ایک ہی ضرب سے شوکت و شکوہِ مرحب خاک و خون میں تڑپتی نظر آئی۔ یہود نے اپنے معدن جرات کو خاک میں لوٹتے دیکھا تو بھاگ کر قلعہ میں پناہ لی اور اندر سے دروازہ بند کرلیا لیکن قوت دین مبین اور عشق کے سرمایہ ایمان علی نے اﷲ اکبر کا نعرہ لگاتے ہوئے ایک جھٹکے میں باب خیبر کو اکھاڑ کر ہوا میں اچھال دیا۔
سید ابو الحسن ندوی تحریر کرتے ہیں کہ یہ روایت بالکل صحیح ہے کہ اس قلعے کا دروازہ چالیس انسان مل کر کھولتے اور بند کرتے تھے۔ اس ذلت آمیز شکست سے یہود کی قوت ہمیشہ کے لیے پاش پاش ہوگئی۔
سیدنا علیؓ کا قاتل ابن ملجم شب جمعہ 17 رمضان المبارک کو اس دروازے کے قریب آ کر بیٹھ گیا جس سے سیدنا علی ؓ نماز کے لیے نکلا کرتے تھے۔ آپ لوگوں کو فجر کی نماز کے لیے بیدار کر رہے تھے کہ اس بدبخت ازلی نے اچانک حیدر کرارؓ کے سر کے اگلے حصے پر وار کیا، خون سے آپؓ کی ریش مبارک تر ہوگئی۔ حسن سلوک کے مجسم پیکر نے ارشاد فرمایا، اگر میں شہید ہو جائوں تو ایک جان کا بدلہ لیا جائے اور مثلہ نہ کیا جائے، اگر میں زندہ رہا تو خود سوچوں گا کہ کیا معاملہ کرنا ہے۔ یوں مہد سے آغوش نبوتؐ میں پرورش پانے والا، میدان بدر میں اپنی تیغ ناز سے دشمنان اسلام کے پرخچے اڑا دینے والا، معرکہ احد میں شمع رسالتؐ کی حفاظت فرمانے والا، غزوہ خندق میں عمرو کی انانیت کی دھجیاں فضائے بسیط میں بکھیر دینے والا، کبھی کسی سے ذاتی انتقام نہ لینے والا غریق بحر زہد و اتقاء ہونے کے باوجود عجز و انکسار کا نذرانہ لے کر تریسٹھ برس کی عمر میں رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں جمعۃ المبارک کے روز شہادت کے عظیم منصب پر فائز ہونے والا علی ؓ شیر خدا اپنے رب کے حضور جا پہنچا۔