مسجد باقر خان …

 مغل دور میں تعمیر ہونے والی ملتان کی تاریخی عبادت گاہ !!

کہا جاتا ہے باقر خان نے صرف ملتان میں یہ مسجد ہی تعمیر نہیں کرائی بلکہ اپنے نام پر ایک خام قلعہ بھی تعمیر کرایا۔ فوٹو : فائل

ملتان میں مغلوں کی حکومت بابر کے ملتان پر حملے کے وقت میں قائم ہوگئی تھی لیکن اسے تقویت اکبر اعظم کے زمانے میں ہی نصیب ہوئی، سلاطین کے دورمیں سرحدی صوبہ ہونے کے ناطے ملتان کو ایک خاص اہمیت حاصل تھی، فوجی اور انصرامی لحاظ سے اہم ترین صوبہ ہونے کی وجہ سے مغلوں نے بھی ملتان کو بہت زیادہ اہمیت دی لیکن کچھ وجوہ کی بنا پر مغلوں نے ملتان پر اعتبار بھی نہیں کیا، یہی وجہ ہے کہ دیگر شہروں کی طرح مغلوں نے ملتان میں مغلئی طرز کی کوئی خاص عمارت تعمیر نہیں کرائی، البتہ ملتان میں بطور گورنر متعین ہونے والے مغل شہزادوں اور گورنروں نے کچھ عمارات ضرور تعمیر کرائیں جن میں مسجد باقر خان، مسجد پھول ہٹاں، عام خاص باغ اور باغ بیگی شامل ہیں۔

آج ہم آپ کو ملتان میں مغل دور حکومت میں تعمیر ہونے والی مسجد باقر خان کی کہانی سنا رہے ہیں۔ ملتان کی تاریخی مسجد باقر خان ملتان میں مغلوں کے متعین کردہ گورنر باقر خان نے تعمیر کرائی لیکن باقر خان کس مغل بادشاہ کے عہد حکومت میں ملتان کا گورنر تھا، اس حوالے سے کوئی حتمی تاریخ سامنے نہیں آتی۔ ملتان کے بیشتر مؤرخین جن میں شیخ اکرم الحق، ڈاکٹر مہر عبدالحق، منشی عبدالرحمن خان، مولانا نور احمد فریدی، پروفیسر ڈاکٹر عاشق درانی اور دیگر شامل ہیں کی رائے یہ ہے کہ باقر خان محمد شاہ رنگیلا کے عہد میں ملتان کا گورنر تھا، اس دور میں مغلوں کا پایہء تخت متزلزل تھا اور آئے روز صوبوں کے ناظمین تبدیل کئے جاتے تھے، کہا جاتا ہے جہاندار شاہ، فرخ سیر اور محمد شاہ رنگیلا کے عہد میں ملتان کے مختلف ناظم رہے جن میں نعمت خان، علی مراد خان، خان زمان، شیر افگن، عقیدت خان، سید حسین خان، باقر خان اور نواب عبدالصمد خان شامل ہیں۔

بجز باقر خان اور عبدالصمد خان دوسرے کسی اختصاص کے مالک نہ تھے۔ ڈاکٹر عاشق محمد خان درانی کی ''تاریخ ملتان، کے مطابق'' نومبر 1720ء میں محمد شاہ رنگیلا نے ایک عظیم الشان دربار منعقد کیا جس میں اس نے بہت سی تقرریاں کیں، محمد امین خان کو اعتماد الدولہ کا خطاب دے کر ملتان کا منصب دار مقرر کیا اس نے شاہی اجازت سے شیرافگن خان کو ملتان میں اپنا نائب مقرر کیا جس نے تین سال ملتان پر حکمرانی کی اس کے بعد 1723ء سے لے کر 1726ء تک نواب باقر خان ملتان کا گورنر رہا، بطور گورنر اس نے بہت سی اصلاحات کیں اور لوگوں کی بھلائی کے لئے کام کئے۔

اس نے زراعت کی ترقی کے لئے دریائے چناب سے ایک نہر نکلوائی جس سے زراعت نے ترقی کی اور غلہ وافر پیدا ہونے لگا، اس نے ملتان کے سدوزئی خانوادے سے بڑے اچھے تعلقات استوار کئے، اس کے عہد میں سدوزئی پٹھانوں نے اہم کردار ادا کیا انہیں شاہی لشکر میں شامل کیا گیا وقت کے ساتھ ساتھ یہ ملتانی پٹھان کہلوانے میں فخر محسوس کرنے لگے، مغلوں کے جن منصب داروں نے پٹھانوں کی سرپرستی کی ان میں باقر خان بھی شامل ہے''۔

جیسا کہ پہلے کہا گیا ملتان کے بیشتر مؤرخین کا اس بات پر اصرار ہے کہ باقر خان محمد شاہ رنگیلا کے عہد میں ملتان کا گورنر تھا اور اس کے عہد نظامت کے فوری بعد نواب عبدالصمد خان ملتان کے گورنر بنے تھے، تاہم 2011ء میں شائع ہونے والی داؤد طاہر کی کتاب ''ارمغان ملتان'' باقر خان کے عہد حکومت کے حوالے سے دو مختلف روایات سامنے لاتی ہے، داؤد طاہر شاہنواز صممام الدولہ کی کتاب ''مآثر امراء'' کے حوالے سے لکھتے ہیں باقر خان کا باپ مدتوں خراسان کا دیوان رہا، نیرنگی فلک سے اس کے حالات خراب ہوگئے، باقر خان برے حالوں ہندوستان میں آیا چونکہ باحیثیت نوجوان تھا اکبر بادشاہ کے ملازمین میں شامل ہوگیا اور تین سو کا منصب پایا، دوسری روایت یہ ہے کہ باقر خان جہانگیر کے زمانے میں ولایت سے آیا۔

پہلے اسے پچاس سوار کا منصب عطا ہوا چونکہ اس کا نصیب یاور تھا، نور جہاں کی بھانجی خدیجہ بیگم سے اس کی شادی ہوئی یوں فوراً اس پر دولت کے دروازے کھل گئے اور ملتان کی حکومت ملی، ''داؤد طاہر مزید لکھتے ہیں'' تزک جہانگیری میں یہ ذکر موجود ہے باقر خان فوجدار صوبہ ملتان 1618ء میں منصب ہشت صدی و سہ صد سوار سے سرفراز کیا گیا ، تزک جہانگیری سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ باقر خان نے بحیثیت صوبہ دار ملتان 1620ء میں جہانگیر کے دربار میں حاضری دی'' ان تمام تاریخی روایات میں باقر خان کے عہد کے حوالے سے کوئی بھی حتمی تاریخ سامنے نہیں آتی۔ تاریخ کی بیشتر کتابوں میں باقر خان کے عہد حکومت کے حوالے سے مختلف آراء ملتی ہے، بعض مؤرخین اسے جہانگیر کے عہد اور بعض محمد شاہ رنگیلا کا عہد کا بتاتے ہیں، دیکھا جائے تو ان تاریخی روایات میں پوری ایک صدی کا فرق پایا جاتا ہے۔

باقر خان کے عہد حکومت کے حوالے سے کچھ تاریخی روایات تو ضرور سامنے آتی ہیں لیکن باقر خان کون تھا، مغلوں کی حکومت میں شامل ہونے سے پہلے اس کا خاندان کہاں کا رہنے والا تھا۔ اس حوالے سے تاریخ بالکل خاموش ہے۔ بہرحال ملتان کی تاریخ میں باقر خان کا نام دو حوالوں سے آج بھی زندہ ہے ایک اس کے نام پر آباد ہونے والا ملتان کا تاریخی گاؤں باقرآباد اور دوسری اس کی تعمیر کردہ مسجد باقر خان، منشی حکم چند کی ''تواریخ ملتان'' کے مطابق ''باقر خان نے یہ مسجد از طرف موضع جمعہ خالصہ تعمیر کرائی''۔

کہا جاتا ہے باقر خان نے صرف ملتان میں یہ مسجد ہی تعمیر نہیں کرائی بلکہ اپنے نام پر ایک خام قلعہ بھی تعمیر کرایا۔ مرور زمانہ سے یہ قلعہ تو اپنے وجود کو قائم نہیں رکھ سکا لیکن باقر خان کے نام پر آباد باقرآباد کا علاقہ اور مسجد باقر خان آج بھی موجود ہیں۔ ملتان کی تاریخی روایات سے پتہ چلتا ہے باقر خان نے یہ مسجد نماز عید کی ادائیگی کیلئے تعمیر کرائی اور اس کی ضرورت اس لئے محسوس ہوئی کہ ملتان کی موجودہ عیدگاہ جو باقر خان کے فوری بعد ملتان میں متعین ہونے والے گورنر نواب عبدالصمد خان نے تعمیر کرائی تھی کی جگہ نواب باقر خان کے عہد سے بھی پہلے موجود عید گاہ میں صرف ایک خام دیوار تھی، ملتان کے تمام تر مسلمان اسی عید گاہ میں نماز عید ادا کیا کرتے تھے۔




نواب باقر خان کے عہد میں طغیانی کی وجہ سے اس پرانی عیدگاہ کا راستہ بند ہو گیا تھا اور شہریوں کو عیدین ادا کرنے کیلئے مشکلات کا سامنا تھا سو نواب باقر خان نے اسی عیدگاہ سے دو میل دور ایک پختہ مسجد نماز عید کی ادائیگی کیلئے تعمیر کرائی اور اپنے نام پر ایک گاؤں بھی آباد کیا ۔ نواب باقر خان کی تعمیر کردہ یہ مسجد جو ملتان کی موجودہ عیدگاہ سے قریباً دو میل دور بجانب مشرق قائم ہے نہر درانہ لنگانہ کے قریب پڑتی ہے۔ ملتان سے لاہور جانے والے راستے پر قائم باقرآباد کا یہ علاقہ ملتان شہر سے باہر آباد ہونے والے اولین علاقوں میں سے ہے، لاہور سے ملتان آنے والے مسافروں کا شہر سے باہر یہی علاقہ استقبال کرتا تھا، یہاں خال خال آبادی بھی تھی لیکن مغلیہ دور حکومت کے بعد یہ علاقہ ویران ہوتا چلا گیا، نواب باقر خان کا تعمیر کردہ کچا قلعہ وقت کے ساتھ ساتھ منہدم ہو گیا۔

بعد ازاں یہ علاقہ حملہ آوروں کی گزرگاہ بنا رہا، سکھوں کے سترہ حملوں کے دوران سکھ غارت گر زیادہ تر اسی علاقے سے ملتان میں داخل ہوئے، اسی طرح 1848ء میں بھی انگریز فوج نے بھی غارت گری کا آغاز اسی علاقے سے کیا ۔ یہی وجہ ہے کہ ایک طویل عرصہ تک یہ علاقہ ویران رہا، باقرآباد کے قریب معروف علاقوں میں ٹاٹے پور، لوٹھڑ اور پیراں غائب کے علاقے ہیں۔ ملتان شہر سے لاہور جانے والی سڑک پر ٹاٹے پور ایک ایسا علاقہ ہے جہاں کئی صدیوں سے آبادی چلی آ رہی ہے لیکن باقرآباد مغل دور حکومت کے بعد کبھی بھی آباد علاقوں کے تذکروں میں نہیں آیا۔ مسجد باقر خان ایک طویل عرصہ تک ویران پڑی رہی اسی وجہ سے ہی علاقہ میں ''جنوں والی مسجد'' کے طور پر معروف ہو گئی۔

سکھوں کے دور حکومت میں جب ملتان کا گورنر دیوان ساون مل تھا تو اس مسجد کو ایک خاص طرح کا تقدس حاصل تھا، ملتان کا یہ سکھ گورنر کسی بھی مقدمے کے مسلمان فریقین کو قرآن پر حلف اُٹھانے کیلئے اس مسجد میں بھیجا کرتا تھا' اس حلف کو ایک طرح سے مقدس حیثیت حاصل تھی۔ مولانا نور احمد خان فریدی کی کتاب ''تاریخ ملتان'' سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ محمد شاہ رنگیلا کے عہد میں ملتان میں متعین گورنر نواب باقر خان کو حضرت بہاء الدین زکریاؒ سے بہت زیادہ عقیدت تھی۔ نواب باقر خان نے اپنے دور حکومت میں حضرت بہاء الدین زکریاؒ کے مزار کے غربی جانب ایک کنواں بھی احداث کرایا تھا جس کے پانی سے لوگ وضو کیا کرتے تھے، انگریز دور حکومت میں یہ کنواں بند کر کے اور اس کے اوپر لوہے کا ایک جنگلا نصب کر دیا گیا، مزار پر آنے والے زائرین عقیدتاً اس میں پیسے ڈالتے تھے، چند سال پیشتر ملتان کی ضلعی انتظامیہ نے یہ کنواں ازسرنو تعمیر کرایا لیکن اس کے دہانے کو لوہے کے جنگلے سے بند کر دیا تھا لوگ آج بھی عقیدتاً اس کنویں میں پیسے ڈالتے ہیں۔

نواب باقر خان کی تعمیر کردہ یہ تاریخی مسجد جس کے تین گنبد ہیں، زیادہ کشادہ نہیں ہے، اس مسجد میں نہ تو کوئی ایسا تاریخی کتبہ موجود ہے جو اس کی تاریخ تعمیر کا تعین کرے اور نہ ہی کوئی خطاطی کا نمونہ اور نقاشی موجود ہے جو اس کے قدیمی حسن و جمال کا احوال بتائے۔ ملتان میں تعمیر ہونیوالی تمام تاریخی مساجد پر نقاشی کا کام کیا جاتا تھا اس تاریخی مسجد پر بھی ضرور ملتان کی روایتی نقاشی کی گئی ہو گی جو وقت کے ساتھ ساتھ معدوم ہوتی چلی گئی۔ بتایا جاتا ہے کہ مسجد باقر خان کے ساتھ ملحقہ رقبہ 13 بیگھے تھا جو وقت کے ساتھ ساتھ علاقہ کی توسیع میں ضم ہوتا چلا گیا۔

یہ مسجد جو اب نیو ملتان کے علاقے وی بلاک میں شامل ہے کے گرد شاندار رہائشی کالونیاں آباد ہو چکی ہیں۔ مسجد باقر خان کا قدیمی حصہ بیرونی طرف سے تو اپنی اصل حالت میں موجود ہے اس کے قدیم دروازے، مینار اور گنبد بھی اپنی اصلی حالت میں موجود ہیں لیکن اس کے اندرونی حصہ میں نئی تزئین و آرائش کی گئی ہے۔ مسجد کے دو قدیم مینار اور گنبد چھوٹی اینٹ سے تیار کیے گئے ہیں جو فن تعمیر کا ایک شاہکار ہیں، اس کے طرز تعمیر میں مغلیہ دور کا اسلوب بھی شامل ہے، مسجد کا قدیمی حصہ زیادہ وسیع نہیں ہے البتہ اس میں قیام پاکستان کے بعد توسیع کی گئی اور پرانی عمارت کی طرز پر ہی نئی عمارت بھی تعمیر کی گئی جو مسجد کے قدیم حصے سے ہی ملحق ہے، مسجد کا صحن برآمدے اور مرکزی دروازہ بھی نئی تعمیرات پر مشتمل ہے۔

پرانے وقتوں میں مسجد باقر خان اس علاقے میں موجود واحد پختہ عمارت تھی اور اردگرد کا تمام علاقہ غیر آباد تھا یہی وجہ ہے کہ یہ مسجد صرف نماز کے اوقات میں ہی کھولی جاتی تھی اور یہاں دور دور سے نمازی نماز کی ادائیگی کے لیے آیا کرتے تھے۔ بطور خاص جمعہ اور عیدین کی نماز کے لیے تو یہاں بیس بیس میل دور سے نمازی آیا کرتے تھے۔

ہمیں ایک بزرگ نے بتایا کہ قیام پاکستان کے فوری بعد جب اس علاقے میں آبادی نہیں تھی تو چوک قذافی سے کھڑے ہو کر یہ مسجد صاف دکھائی دیتی تھی اور ہم چوک پر کھڑے ہو کر دیکھ لیتے تھے کہ مسجد کا دروازہ کھل گیا اور یوں مسجد میں نماز کی ادائیگی کے لیے آجاتے تھے۔ مسجد باقر خان چونکہ اس علاقے کی واحد جامع مسجد تھی اس لیے یہاں دور دراز کے علاقوں سے بھی لوگ نماز جمعہ پڑھنے کے لیے آیا کرتے تھے دور دراز علاقوں سے یہاں نماز پڑھنے کے لیے آنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اس مسجد کو ایک خاص طرح کا تقدس حاصل تھا دوسرا ایک غیر آباد علاقہ میں خدا کا یہ یہ خوبصورت گھر لوگوں کو اپنی طرف کھینچتا تھا۔
Load Next Story