پی ٹی آئی میں سب اچھا نہیں ہے
پی ٹی آئی چونکہ ابھی سے خود کو پاکستان کا حکمران سمجھ رہی ہے، اس لیے اُس کا رویہ مناسب نہیں رہا۔
ISLAMABAD:
ریحام خان اور اُن کی مبینہ کتاب کی شکل میں جو کچھ بھی عمران خان اور پی ٹی آئی کے ساتھ ہو رہا ہے، اِس میں کسی کا کوئی قصور نہیں ہے۔یہ دراصل قانونِ فطرت حرکت میں آیا ہے جس نے کپتان اور اُن کے بہی خواہوںکو پریشان کیا ہے۔
پی ٹی آئی کے مرکزی سیکریٹری اطلاعات ، فواد چوہدری، نے بھی تسلیم کیا ہے کہ ''ریحام خان کی کتاب سے تحریکِ انصاف اَپ سَیٹ ہے۔''کپتان کی پریشانیاں بڑھ رہی ہیں' ریحام کے ایشو کو الگ رکھتے ہوئے میں سیاست کی بات کروں گا' مجھے عائشہ گلہ لئی،ناز بلوچ اورفوزیہ قصوری یاد آ رہی ہیں۔ محترمہ فوزیہ قصوری کا پی ٹی آئی چھوڑ کر پی ایس پی میں شامل ہونا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ فوزیہ قصوری کو راقم ذاتی حیثیت میں جانتا ہے۔ مجھے امریکہ اور کینیڈا کے وہ مناظر کبھی نہیں بھولیں گے جہاں فوزیہ قصوری اپنے بے پناہ اخراجات سے عمران خان سے مل کر شوکت خانم اسپتال اور نمل یونیورسٹی وغیرہ کے لیے فنڈز اکٹھے کرنے کے لیے دن رات ایک کیے رہتی تھیں۔
اِن ذاتی مشاہدات کی بِنا پر کہا جاسکتا ہے کہ فوزیہ قصوری کے عمران خان، اُن کی نجی یونیورسٹی، اسپتال اور اُن کی پارٹی پر تو یقینا بہت سے احسانات ہوں گے مگر کپتان کا اُن پر کوئی احسان نہیں ہے۔ فوزیہ قصوری صاحبہ نے عمران خان کے کہنے پر غیر ملکی شہریت چھوڑی اور پاکستان آ گئیں۔ اُن سے مبینہ طور پر وعدے وعید کیے گئے تھے کہ انھیں قومی اسمبلی یا سینیٹ کی رکنیت دی جائے گی لیکن جب وقت آیا تو کیے گئے سب وعدے فراموش کر دیے گئے۔نجی حیثیت میں جو شخص اپنے مقربین سے کیے گئے وعدے ایفا نہیں کر سکتا، اُس سے یہ توقع رکھنا ہی عبث ہے کہ وہ قوم سے کیا گیا کوئی وعدہ وفا کر سکے گا۔
پھر 100دن کے پروگرام کی شکل میں کیے گئے وعدے کیسے پورے ہوں گے؟ ایسے میں فوزیہ قصوری بہ امرمجبوری پی ایس پی میں شامل نہ ہوتیں تو بھلا کیا کرتیں؟ کیا وہ شیریں مزاری کی دستِ نگر بن کر رہ جاتیں جو اپنے تئیں مستقبل کی وزیر خارجہ بنی بیٹھی ہیں؟ معراج محمد خان اور جسٹس (ر) وجیہ الدین ایسے ایماندار لوگوں کے لیے بھی پی ٹی آئی میں جگہ نہیں بن سکی تھی۔
کیا کپتان صاحب ہر صورت وزیر اعظم بننے کی تمنا میں ہر ممکنہ الیکٹ ایبلز کو پی ٹی آئی میں شامل کرنے کے جنوں کاشکار ہو چکے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو پھر ہمیں معروف برطانوی صحافی اور کئی کتابوں کی مصنف، کرسٹینا لیمب، کے اُس آرٹیکل کے مندرجات پر بھی غور کرنا چاہیے جو حال ہی میں شایع ہُوا ہے اور جس میں کہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی کے سربراہ صاحب ہر جائز، ناجائز راستے پر چل کر پاکستان کے وزیر اعظم بننا چاہتے ہیں۔ کرسٹینا لیمب پاکستانی سیاست اور پاکستانی سیاستکاروں سے خوب واقف ہیں؛ چنانچہ اُن کے اِس تبصرے کو سرے ہی سے مسترد نہیں کیا جا سکتا۔
کپتان کے ذاتی ترجمان، پرانے دوست اور دیرینہ رفیق، نعیم الحق، نے مغضوب الغضب ہو کر جو ناقابلِ رشک حرکت کی تھی، پی ٹی آئی کے حصے میں تحسین اور شوبھا نہیں آئی۔ اُن کا سابق وفاقی وزیر، دانیال عزیز،کو ایک نجی ٹی وی کے ٹاک شو میں طمانچہ مارنا پی ٹی آئی کے لیے سخت نقصان کا باعث بنا۔یہیں پر بس نہیں۔ موصوف نے اِس سانحہ کے بعد دو متضاد بیانات بھی داغ ڈالے جس کی بنیاد پر کپتان کی ذات بھی ہدفِ تنقید بنی۔
حیرت کی بات ہے کہ پی ٹی آئی کے سربراہ صاحب نے اِس غیر پارلیمانی حرکت پر نعیم الحق کے خلاف کوئی تادیبی کارروائی نہیں کی۔ نعیم الحق کی وجہ سے پی ٹی آئی پر جو نیا ''ٹیگ'' لگا ہے، اِسے کبھی ہٹایا نہیں جا سکے گا۔
بی بی سی ایسے سنجیدہ عالمی میڈیا نے کپتان کے دوست کی اِس حرکت پر یوں سُرخی جمائی تھی: ''نعیم الحق کا دانیال عزیز کو تھپڑ، پی ٹی آئی کے 100روزہ منصوبے کو نافذ کرنے کا آغاز۔'' یقینا یہ تبصرہ پی ٹی آئی کے لیے کبھی باعثِ افتخار نہیں ہو سکے گا۔عوام استفسار کرتے ہیں کہ کیا پی ٹی آئی کے ایسے افراد آیندہ پارلیمنٹ کے رکن بنیں گے جنہیں ضبط کا یارا نہیں ہے؟ یہ سوال بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ خود کپتان صاحب بطور ممبر نیشنل اسمبلی کیسے ثابت ہو سکے؟ وہ حال ہی میں ختم ہونے والی اسمبلی میں کتنی بار حاضر ہو سکے؟ جون 2013ء سے مئی 2018ء تک قومی اسمبلی کے 56سیشنوںکی 489سٹنگز ہُوئیں۔ عمران خان صرف 20سٹنگز میں شریک ہو سکے۔
قومی اسمبلی سے مگر وہ باقاعدہ اپنی لاکھوں روپے کی ماہانہ تنخواہ ضرور وصول کرتے رہے۔پی ٹی آئی کے اُن ارکانِ اسمبلی نے بھی بے حجابانہ اپنی تنخواہیں وصول کرلیں جنہوں نے اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ کیا یہ اعمال و افعال کسی بھی پارلیمانی اخلاق کے پیمانے پر پورا اُترتے ہیں؟ حالات ایسے بن گئے ہیں کہ بوجوہ پی ٹی آئی کئی سیاستدانوں کے لیے کششِ ثقل کی حیثیت اختیار کر گئی ہے۔
پیپلز پارٹی اور نون لیگ کے کئی سابق ارکانِ اسمبلی پی ٹی آئی میں شامل ہو چکے ہیں۔ سوال مگر یہ ہے کہ کیا یہ صورتحال مستقل ہے؟ آنے والوں کا ریلہ یونہی برقرار رہے گا؟ پی ٹی آئی نے ٹکٹ مانگنے والوں کے لیے جن شرائط کا اعلان کیا ہے، اِس سے قبل کسی سیاسی جماعت نے یہ سلیقہ کبھی نہیں اپنایا تھا یعنی پی ٹی آئی کا ٹکٹ نہ ملنے کی صورت میں مخصوص حلف دینے کی پابندی۔ کیا یہ شرط پی ٹی آئی میں کسی باطنی خوف کی علامت ہے؟ پی ٹی آئی ترجمان فواد چوہدری کا مخصوص لہجے میں یہ ارشاد سامنے آیاہے کہ ''سیاسی جماعتیں تو بہتے دریا کی مانند ہوتی ہیں۔'' لیکن جناب والا، دریائی پانی کا ازلی اصول یہ رہا ہے کہ پچھلے پانی کی کوئی اہمیت اور حیثیت نہیں ہوتی کہ دریا میں تو ہمہ وقت نیا پانی داخل ہوتا رہتا ہے۔
تو کیا فواد چوہدری صاحب دراصل یہ کہنا چاہتے ہیں کہ پی ٹی آئی میں پرانے لوگوں کی کوئی اہمیت اور حیثیت نہیں رہ گئی ہے؟ شائد پی ٹی آئی کے اِسی فکری ارتقا کا نتیجہ تھا کہ مئی2018ء کے آخری ہفتے اسلام آباد میں پی ٹی آئی کے کور اجلاس میں شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین کے درمیان سخت کلامی کا ظہور ہُوا۔کپتان کا اپنے اندرونی حلقے میں کہنا ہے کہ وہ 25جولائی2018ء کے عام انتخابات میں 100نشستیں تو جیت ہی جائیں گے لیکن خان کو اندر ہی اندر یہ پریشانی بھی کھائے جارہی ہے کہ پارٹی کے سینئر رہنماؤں کے باہمی اختلافات بھی سنگین ہوتے جارہے ہیں۔ یہ حالات ''مستقبل کے وزیر اعظم'' کے لیے خطرے کی گھنٹی کے مترادف ہیں۔
یہ بات تو ابھی پردئہ غیب میں ہے کہ 25جولائی کے الیکشنوں میں کون جیت کر حکومت سازی میں مرکزی کردار ادا کرتا ہے لیکن پی ٹی آئی میں تو ابھی سے پھڈے پڑ گئے ہیں۔ ایک دھینگا مشتی کا منظر ہے۔ بعض تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ پی ٹی آئی چونکہ ابھی سے خود کو پاکستان کا حکمران سمجھ رہی ہے، اس لیے اُس کا رویہ مناسب نہیں رہا۔ مثال کے طور پر جون 2018ء کے پہلے ہفتے میں جنوبی پنجاب کے مشہور اور بزرگ سیاستدان، سردار ذوالفقار کھوسہ، پی ٹی آئی میں شامل ہو گئے۔
بنی گالہ میں اُن کا اچھا استقبال بھی کیا گیا لیکن جب کھوسہ صاحب نے یہ اعلان کیا کہ وہ اپنے بیٹے، دوست محمد کھوسہ، کے ساتھ شامل ہو ئے ہیں تو پی ٹی آئی کے اندر سے اُن کے خلاف آوازیں اُٹھنی شروع ہو گئیں۔ پہلے تو پی ٹی آئی کی مشہور رکن ڈاکٹر شیریں مزاری صاحبہ نے بزرگ سردار کے خلاف ٹویٹ حملہ کیا اور پھر اِس ٹویٹ پر فواد چوہدری نے اپنی ٹویٹ کی گرہ لگائی۔ اس پر فریقین میں خاصی گرمی سردی دیکھنے میں آئی۔اور اب پاک پتن سے کھگہ برادران ایسے افراد کی پی ٹی آئی میں شمولیت نے تو سبھی کو حیران کر دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ پی ٹی آئی پر رحم فرمائے۔
ریحام خان اور اُن کی مبینہ کتاب کی شکل میں جو کچھ بھی عمران خان اور پی ٹی آئی کے ساتھ ہو رہا ہے، اِس میں کسی کا کوئی قصور نہیں ہے۔یہ دراصل قانونِ فطرت حرکت میں آیا ہے جس نے کپتان اور اُن کے بہی خواہوںکو پریشان کیا ہے۔
پی ٹی آئی کے مرکزی سیکریٹری اطلاعات ، فواد چوہدری، نے بھی تسلیم کیا ہے کہ ''ریحام خان کی کتاب سے تحریکِ انصاف اَپ سَیٹ ہے۔''کپتان کی پریشانیاں بڑھ رہی ہیں' ریحام کے ایشو کو الگ رکھتے ہوئے میں سیاست کی بات کروں گا' مجھے عائشہ گلہ لئی،ناز بلوچ اورفوزیہ قصوری یاد آ رہی ہیں۔ محترمہ فوزیہ قصوری کا پی ٹی آئی چھوڑ کر پی ایس پی میں شامل ہونا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ فوزیہ قصوری کو راقم ذاتی حیثیت میں جانتا ہے۔ مجھے امریکہ اور کینیڈا کے وہ مناظر کبھی نہیں بھولیں گے جہاں فوزیہ قصوری اپنے بے پناہ اخراجات سے عمران خان سے مل کر شوکت خانم اسپتال اور نمل یونیورسٹی وغیرہ کے لیے فنڈز اکٹھے کرنے کے لیے دن رات ایک کیے رہتی تھیں۔
اِن ذاتی مشاہدات کی بِنا پر کہا جاسکتا ہے کہ فوزیہ قصوری کے عمران خان، اُن کی نجی یونیورسٹی، اسپتال اور اُن کی پارٹی پر تو یقینا بہت سے احسانات ہوں گے مگر کپتان کا اُن پر کوئی احسان نہیں ہے۔ فوزیہ قصوری صاحبہ نے عمران خان کے کہنے پر غیر ملکی شہریت چھوڑی اور پاکستان آ گئیں۔ اُن سے مبینہ طور پر وعدے وعید کیے گئے تھے کہ انھیں قومی اسمبلی یا سینیٹ کی رکنیت دی جائے گی لیکن جب وقت آیا تو کیے گئے سب وعدے فراموش کر دیے گئے۔نجی حیثیت میں جو شخص اپنے مقربین سے کیے گئے وعدے ایفا نہیں کر سکتا، اُس سے یہ توقع رکھنا ہی عبث ہے کہ وہ قوم سے کیا گیا کوئی وعدہ وفا کر سکے گا۔
پھر 100دن کے پروگرام کی شکل میں کیے گئے وعدے کیسے پورے ہوں گے؟ ایسے میں فوزیہ قصوری بہ امرمجبوری پی ایس پی میں شامل نہ ہوتیں تو بھلا کیا کرتیں؟ کیا وہ شیریں مزاری کی دستِ نگر بن کر رہ جاتیں جو اپنے تئیں مستقبل کی وزیر خارجہ بنی بیٹھی ہیں؟ معراج محمد خان اور جسٹس (ر) وجیہ الدین ایسے ایماندار لوگوں کے لیے بھی پی ٹی آئی میں جگہ نہیں بن سکی تھی۔
کیا کپتان صاحب ہر صورت وزیر اعظم بننے کی تمنا میں ہر ممکنہ الیکٹ ایبلز کو پی ٹی آئی میں شامل کرنے کے جنوں کاشکار ہو چکے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو پھر ہمیں معروف برطانوی صحافی اور کئی کتابوں کی مصنف، کرسٹینا لیمب، کے اُس آرٹیکل کے مندرجات پر بھی غور کرنا چاہیے جو حال ہی میں شایع ہُوا ہے اور جس میں کہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی کے سربراہ صاحب ہر جائز، ناجائز راستے پر چل کر پاکستان کے وزیر اعظم بننا چاہتے ہیں۔ کرسٹینا لیمب پاکستانی سیاست اور پاکستانی سیاستکاروں سے خوب واقف ہیں؛ چنانچہ اُن کے اِس تبصرے کو سرے ہی سے مسترد نہیں کیا جا سکتا۔
کپتان کے ذاتی ترجمان، پرانے دوست اور دیرینہ رفیق، نعیم الحق، نے مغضوب الغضب ہو کر جو ناقابلِ رشک حرکت کی تھی، پی ٹی آئی کے حصے میں تحسین اور شوبھا نہیں آئی۔ اُن کا سابق وفاقی وزیر، دانیال عزیز،کو ایک نجی ٹی وی کے ٹاک شو میں طمانچہ مارنا پی ٹی آئی کے لیے سخت نقصان کا باعث بنا۔یہیں پر بس نہیں۔ موصوف نے اِس سانحہ کے بعد دو متضاد بیانات بھی داغ ڈالے جس کی بنیاد پر کپتان کی ذات بھی ہدفِ تنقید بنی۔
حیرت کی بات ہے کہ پی ٹی آئی کے سربراہ صاحب نے اِس غیر پارلیمانی حرکت پر نعیم الحق کے خلاف کوئی تادیبی کارروائی نہیں کی۔ نعیم الحق کی وجہ سے پی ٹی آئی پر جو نیا ''ٹیگ'' لگا ہے، اِسے کبھی ہٹایا نہیں جا سکے گا۔
بی بی سی ایسے سنجیدہ عالمی میڈیا نے کپتان کے دوست کی اِس حرکت پر یوں سُرخی جمائی تھی: ''نعیم الحق کا دانیال عزیز کو تھپڑ، پی ٹی آئی کے 100روزہ منصوبے کو نافذ کرنے کا آغاز۔'' یقینا یہ تبصرہ پی ٹی آئی کے لیے کبھی باعثِ افتخار نہیں ہو سکے گا۔عوام استفسار کرتے ہیں کہ کیا پی ٹی آئی کے ایسے افراد آیندہ پارلیمنٹ کے رکن بنیں گے جنہیں ضبط کا یارا نہیں ہے؟ یہ سوال بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ خود کپتان صاحب بطور ممبر نیشنل اسمبلی کیسے ثابت ہو سکے؟ وہ حال ہی میں ختم ہونے والی اسمبلی میں کتنی بار حاضر ہو سکے؟ جون 2013ء سے مئی 2018ء تک قومی اسمبلی کے 56سیشنوںکی 489سٹنگز ہُوئیں۔ عمران خان صرف 20سٹنگز میں شریک ہو سکے۔
قومی اسمبلی سے مگر وہ باقاعدہ اپنی لاکھوں روپے کی ماہانہ تنخواہ ضرور وصول کرتے رہے۔پی ٹی آئی کے اُن ارکانِ اسمبلی نے بھی بے حجابانہ اپنی تنخواہیں وصول کرلیں جنہوں نے اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ کیا یہ اعمال و افعال کسی بھی پارلیمانی اخلاق کے پیمانے پر پورا اُترتے ہیں؟ حالات ایسے بن گئے ہیں کہ بوجوہ پی ٹی آئی کئی سیاستدانوں کے لیے کششِ ثقل کی حیثیت اختیار کر گئی ہے۔
پیپلز پارٹی اور نون لیگ کے کئی سابق ارکانِ اسمبلی پی ٹی آئی میں شامل ہو چکے ہیں۔ سوال مگر یہ ہے کہ کیا یہ صورتحال مستقل ہے؟ آنے والوں کا ریلہ یونہی برقرار رہے گا؟ پی ٹی آئی نے ٹکٹ مانگنے والوں کے لیے جن شرائط کا اعلان کیا ہے، اِس سے قبل کسی سیاسی جماعت نے یہ سلیقہ کبھی نہیں اپنایا تھا یعنی پی ٹی آئی کا ٹکٹ نہ ملنے کی صورت میں مخصوص حلف دینے کی پابندی۔ کیا یہ شرط پی ٹی آئی میں کسی باطنی خوف کی علامت ہے؟ پی ٹی آئی ترجمان فواد چوہدری کا مخصوص لہجے میں یہ ارشاد سامنے آیاہے کہ ''سیاسی جماعتیں تو بہتے دریا کی مانند ہوتی ہیں۔'' لیکن جناب والا، دریائی پانی کا ازلی اصول یہ رہا ہے کہ پچھلے پانی کی کوئی اہمیت اور حیثیت نہیں ہوتی کہ دریا میں تو ہمہ وقت نیا پانی داخل ہوتا رہتا ہے۔
تو کیا فواد چوہدری صاحب دراصل یہ کہنا چاہتے ہیں کہ پی ٹی آئی میں پرانے لوگوں کی کوئی اہمیت اور حیثیت نہیں رہ گئی ہے؟ شائد پی ٹی آئی کے اِسی فکری ارتقا کا نتیجہ تھا کہ مئی2018ء کے آخری ہفتے اسلام آباد میں پی ٹی آئی کے کور اجلاس میں شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین کے درمیان سخت کلامی کا ظہور ہُوا۔کپتان کا اپنے اندرونی حلقے میں کہنا ہے کہ وہ 25جولائی2018ء کے عام انتخابات میں 100نشستیں تو جیت ہی جائیں گے لیکن خان کو اندر ہی اندر یہ پریشانی بھی کھائے جارہی ہے کہ پارٹی کے سینئر رہنماؤں کے باہمی اختلافات بھی سنگین ہوتے جارہے ہیں۔ یہ حالات ''مستقبل کے وزیر اعظم'' کے لیے خطرے کی گھنٹی کے مترادف ہیں۔
یہ بات تو ابھی پردئہ غیب میں ہے کہ 25جولائی کے الیکشنوں میں کون جیت کر حکومت سازی میں مرکزی کردار ادا کرتا ہے لیکن پی ٹی آئی میں تو ابھی سے پھڈے پڑ گئے ہیں۔ ایک دھینگا مشتی کا منظر ہے۔ بعض تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ پی ٹی آئی چونکہ ابھی سے خود کو پاکستان کا حکمران سمجھ رہی ہے، اس لیے اُس کا رویہ مناسب نہیں رہا۔ مثال کے طور پر جون 2018ء کے پہلے ہفتے میں جنوبی پنجاب کے مشہور اور بزرگ سیاستدان، سردار ذوالفقار کھوسہ، پی ٹی آئی میں شامل ہو گئے۔
بنی گالہ میں اُن کا اچھا استقبال بھی کیا گیا لیکن جب کھوسہ صاحب نے یہ اعلان کیا کہ وہ اپنے بیٹے، دوست محمد کھوسہ، کے ساتھ شامل ہو ئے ہیں تو پی ٹی آئی کے اندر سے اُن کے خلاف آوازیں اُٹھنی شروع ہو گئیں۔ پہلے تو پی ٹی آئی کی مشہور رکن ڈاکٹر شیریں مزاری صاحبہ نے بزرگ سردار کے خلاف ٹویٹ حملہ کیا اور پھر اِس ٹویٹ پر فواد چوہدری نے اپنی ٹویٹ کی گرہ لگائی۔ اس پر فریقین میں خاصی گرمی سردی دیکھنے میں آئی۔اور اب پاک پتن سے کھگہ برادران ایسے افراد کی پی ٹی آئی میں شمولیت نے تو سبھی کو حیران کر دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ پی ٹی آئی پر رحم فرمائے۔