کراچی کا انتخابی منظرنامہ…
ان چارانتخابات سے قبل ایم کیو ایم اورجماعت کے مقابلے جو کہ 1988 اور 1990 میں ہوئے، وہ ایم کیو ایم کے شباب کا زمانہ تھا
شہر قائد میں دس جماعتی اتحاد کی جانب سے مختلف نشستوں پر ہونے والی ہم آہنگی کے مطابق قومی اسمبلی میں جماعت اسلامی کو 9، جمعیت علمائے پاکستان (نورانی) کو 4، نواز لیگ اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کو 3،3 نشستیں دی گئی ہیں، جب کہ حلقہ 250 پر متفقہ امیدوار کا فیصلہ نہ ہوسکا۔ صوبائی حلقوں میں جماعت اسلامی کو 12، جمعیت علمائے پاکستان (نورانی) کو 6، جمعیت علمائے اسلام (ف) کو 4، نواز لیگ کو 3 جب کہ فنکشنل لیگ کے 1 امیدوارکو دس جماعتی اتحاد کی حمایت حاصل ہوگی۔
شہر کی سیاسی نمایندگی کا جائزہ لیں تو 2002 کے انتخابات میں متحدہ مجلس عمل نے شہر قائد میں قومی اسمبلی کی پانچ نشستیں حاصل کی تھیں۔ اب اگرچہ وہ اتحاد موجود نہیں لیکن اس میں شامل تین بڑی جماعتیں ''دس جماعتی اتحاد'' کے ذریعے ایک دوسرے کی معاون ہیں اور انھیں نواز لیگ و دیگر کی مدد بھی حاصل ہے۔ 1988، 1990 اور 2002 کے بعد 2013 میں شہر کی دو بڑی سیاسی قوتوں متحدہ اور جماعت اسلامی میں مقابلہ ہو رہا ہے۔ 1993 میں متحدہ، جب کہ 1997 میں جماعت اسلامی انتخابی دنگل سے باہر رہی، پھر 2002 میں جماعت اسلامی متحدہ مجلس عمل کی صورت میں یکسر مختلف انداز میں سامنے آئی۔
اس وقت 11 ستمبر کے واقعات کے بعد بدلتی ہوئی عالمی صورت حال نے مجلس عمل کو ایک بار پھر نفاذ اسلام کے نام پر خاطر خواہ کام یابی سے ہم کنار کیا اور کراچی میں بھی اس اتحاد نے پانچ نشستوں پر میدان مارا جس میں سے چار امیدواروں کا تعلق جماعت اسلامی سے تھا۔ اس کے بعد اگلے انتخابی دنگل 2008 میںایک بار پھر جماعت اسلامی باہر رہی۔ یوں گزشتہ چار انتخابات میں صرف ایک بار ہی یہ سیاسی حریف آمنے سامنے آئے۔
ان چار انتخابات سے قبل ایم کیو ایم اور جماعت کے مقابلے جو کہ 1988 اور 1990 میں ہوئے، وہ ایم کیو ایم کے شباب کا زمانہ تھا، یوں 6 انتخابات میں ان قریب ترین سیاسی حریفوں کا مقابلہ صرف 3 بار ہی ہو سکا۔ تاہم 2013 میں حالات ان تینوں انتخابات کے مقابلے میں بالکل جداگانہ ہیں۔ ساتھ ہی دس جماعتی اتحاد کے ذریعے ایک بار پھر سخت مقابلے کی فضا پیدا ہو چکی ہے اور شہر کی بدلتی ہوئی تہلکہ خیز صورت حال کے تناظر میں اور بھی کانٹے کے مقابلے متوقع ہیں۔
2002 میں قومی اسمبلی کی جن پانچ نشستوں پر متحدہ مجلس عمل نے کام یابی حاصل کی ان میں سے حلقہ 239 پر جماعت اسلامی کے بائیکاٹ کے باوجود متحدہ کے بجائے پیپلزپارٹی کامیاب ہوئی، جب کہ ایک اور حلقہ 250 دس جماعتی اتحاد کے لیے بھی خاصے نزع کا باعث بنا ہوا ہے اور اس پر اتفاق رائے نہیں ہو سکا۔ پہلے یہ حلقہ پرویز مشرف کے متوقع انتخاب کے پیش نظر خبروں میں رہا، جن سے مقابلے کے لیے امریکا میں قید عافیہ صدیقی کی بہن فوزیہ صدیقی سامنے آگئیں۔ پھر پرویز مشرف تو نا اہل قرار پائے لیکن فوزیہ صدیقی جماعت اسلامی کے لیے ہی مسئلہ بنی رہیں،اب ان کے دستبردار ہونے کی غیر مصدقہ خبریں آچکی ہیں۔
ماضی میں اس حلقے میں شامل علاقے 1970 میں مولانا شاہ احمد نورانی نے پیپلز پارٹی کے نورالعارفین اور 1977 میں قومی اتحاد کی طرف سے موجودہ امیر جماعت اسلامی سید منور حسن نے پیپلزپارٹی کی طرف سے مشہور شاعر و ادیب جمیل الدین عالی کو ہرایا۔ 1988 اور 1990 میں یہاں سے ایم کیو ایم کے طارق محمود سرخرو ٹھہرے۔ انھوں نے بالترتیب غلام سرور اعوان (پنجابی پختون اتحاد) اور عبدالستار افغانی (آئی جے آئی)کو شکست سے دوچار کیا۔ ایم کیو ایم نے بائیکاٹ کیا تو 1993 میں نواز لیگ کی طرف سے کیپٹن (ر) حلیم صدیقی نے اس وقت کے امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد کو ہرایا اور 1997 میں متحدہ کی موجودگی کے باوجود اپنی نشست کا دفاع کیا اور متحدہ کے عبدالجیل پر برتری منوائی۔ اگرچہ جماعت اسلامی نے اس بار بائیکاٹ کر رکھا تھا۔
اس کے بعد 2002 میں عبدالستار افغانی (متحدہ مجلس عمل) نے متحدہ کی مرکزی رہنما نسرین جلیل کو ہرایا۔ 2008 میں ایک بار پھر جماعت اسلامی بائیکاٹ پر تھی تو متحدہ کی خوش بخت شجاعت نے پیپلز پارٹی کے مرزا اختیار بیگ کو شکست دی جنھیں نواز لیگ کی حمایت بھی حاصل تھی۔ اس بار بھی وہاں متحدہ کی طرف سے خوش بخت شجاعت ہی امیدوار ہیں، جب کہ نعمت اﷲ خان (جماعت اسلامی)، عارف علوی (تحریک انصاف)، راشد ربانی (پیپلز پارٹی)، سلیم ضیا (نواز لیگ)، کامران ٹیسوری (فنکشنل لیگ) اور فوزیہ صدیقی (آزاد) بھی میدان میں ہیں۔
ان دو حلقوں کے بعد صرف تین حلقے ہی باقی رہ جاتے ہیں جہاں 2002 میں مجلس عمل کی کام یابی کے بعد اب ایک بار پھر متحدہ کو سخت مقابلہ کرنا پڑے گا۔ کراچی شہر کی سیاست میں دس جماعتی اتحاد اور متحدہ کے علاوہ تحریک انصاف بھی خاصی امیدیں لگائے بیٹھی ہے، لیکن اتنے بڑے انتخابی دنگل میں اس کی پرواز تنہا ہے۔ 2002 میں نومولود اور 2013 میں بائیکاٹ کے بعد اب یہ خود کو منوانے کی حیثیت میں محسوس ہوتی ہے۔ عام اندازے کے مطابق عمران خان کے چاہنے والوں میں جماعت اسلامی ، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے علاوہ اے این پی کے لیے نرم گوشہ رکھنے والوں کی بڑی تعداد شامل ہے، لیکن ملک کے دیگر حصوں کی طرح ''تبدیلی'' کی خواہش اس شہر کے لیے بھی نظر انداز نہیں کی جا سکتی۔ مذہبی جماعتوں کے بعد متحدہ اس شہر کی نمایندہ جماعت بنی۔
2002 میں کچھ عالمی اور کچھ مقامی حالات کی بنا پر یہاں کے لوگوں نے تبدیلی ہی کی خاطر مجلس عمل کے کئی امیدواروں کو کامیاب کیا، جب کہ ہارنے والی نشستوں پر بھی خاطرخواہ ووٹ لیے، لیکن ایک بار پھر نفاذ اسلام کے نام پر اٹھنے والی اس بڑی جذباتی لہر کا فائدہ نہ اٹھایا جاسکا اور شہر قائد کے سیاسی مزاج پر نظر رکھنے والوں کے مطابق کراچی میں متحدہ اور جماعت اسلامی کے بعد اب تحریک انصاف سے دل چسپی نظر انداز نہیں کی جاسکتی۔ متحدہ کے حلقہ اثر بھی اس سے مبّرا نہیں۔ متحدہ مجلس عمل 2002 میں پارلیمان کا بہت اہم حصہ بننے کے باوجود اعتماد پر پورا نہ اتر سکی۔ اس کے بعد کوئی قریبی حریف نہ ہونے کے باعث نسبتاً آسانی سے دوبارہ متحدہ کو بھر پور نمایندگی مل گئی، لیکن 2008 سے 2013 تک کے سفر کے بعد متحدہ کو بھی اپنے حامیوں کو مطمئن کرنا خاصا مشکل محسوس ہورہا ہے۔
بلدیاتی نظام پر مضبوط موقف کی کمی، حکومت میں جانے اور آنے کے سلسلے، ذوالفقار مرزا کے متحدہ اور کراچی کے حوالے سے متواتر بیانات، شہر میں نہ رکنے والے اہدافی قتل، بھیانک حدوں کو چھوتی بھتا خوری، اغوا برائے تاوان، لیاری کے جرائم پیشہ عناصر کی کارروائیاں وغیرہ ایسے بڑے بڑے مسائل ہیں جس سے آج متحدہ کے حامی شدید بے چینی کا شکار ہیں۔ متحدہ نے ان مسائل پر وقتی طور پر سرگرمی دکھائی یا پھر ایک دم سے موقف ہی بدل لیا۔ اس پر طرہ کہ وہ چند دن قبل حکومت سے نکل آئے، لیکن گورنر کی شکل میں وہ حکومت سے غیرموجود نہیں کہے جاسکتے۔ یہ وہ عوامل ہیں جن سے متحدہ کو نبرد آزما ہونا ہے۔
دوسری طرف دس جماعتی اتحاد میں جوڑ توڑ کے ذریعے شہر میں برتری حاصل کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ تیسری طرف تحریک انصاف بھی اب نظر انداز نہیں کی جاسکتی۔ نتائج تو بہرحال انتخابات کے بعد ہی سامنے آئیں گے تاہم توقع ہے کہ تحریک انصاف کو بھی قابل قدر تعداد میں عوام کا اعتماد حاصل ہوسکتا ہے۔ شہر کی دیگر سیاسی قوتوں کی طرف دیکھیں تو کچھ مذہبی جماعتوں کا اتحاد ''متحدہ دینی محاذ'' کے علاوہ اہل تشیع افراد کے حقوق کے لیے مجلس وحدت المسلمین بھی شہر قائد میں خود کو منوانا چاہتی ہے۔ اس لیے انتخابی نتائج پر ان کی موجودگی بھی کوئی نہ کوئی کردار ادا کرسکتی ہے۔
شہر کی سیاسی نمایندگی کا جائزہ لیں تو 2002 کے انتخابات میں متحدہ مجلس عمل نے شہر قائد میں قومی اسمبلی کی پانچ نشستیں حاصل کی تھیں۔ اب اگرچہ وہ اتحاد موجود نہیں لیکن اس میں شامل تین بڑی جماعتیں ''دس جماعتی اتحاد'' کے ذریعے ایک دوسرے کی معاون ہیں اور انھیں نواز لیگ و دیگر کی مدد بھی حاصل ہے۔ 1988، 1990 اور 2002 کے بعد 2013 میں شہر کی دو بڑی سیاسی قوتوں متحدہ اور جماعت اسلامی میں مقابلہ ہو رہا ہے۔ 1993 میں متحدہ، جب کہ 1997 میں جماعت اسلامی انتخابی دنگل سے باہر رہی، پھر 2002 میں جماعت اسلامی متحدہ مجلس عمل کی صورت میں یکسر مختلف انداز میں سامنے آئی۔
اس وقت 11 ستمبر کے واقعات کے بعد بدلتی ہوئی عالمی صورت حال نے مجلس عمل کو ایک بار پھر نفاذ اسلام کے نام پر خاطر خواہ کام یابی سے ہم کنار کیا اور کراچی میں بھی اس اتحاد نے پانچ نشستوں پر میدان مارا جس میں سے چار امیدواروں کا تعلق جماعت اسلامی سے تھا۔ اس کے بعد اگلے انتخابی دنگل 2008 میںایک بار پھر جماعت اسلامی باہر رہی۔ یوں گزشتہ چار انتخابات میں صرف ایک بار ہی یہ سیاسی حریف آمنے سامنے آئے۔
ان چار انتخابات سے قبل ایم کیو ایم اور جماعت کے مقابلے جو کہ 1988 اور 1990 میں ہوئے، وہ ایم کیو ایم کے شباب کا زمانہ تھا، یوں 6 انتخابات میں ان قریب ترین سیاسی حریفوں کا مقابلہ صرف 3 بار ہی ہو سکا۔ تاہم 2013 میں حالات ان تینوں انتخابات کے مقابلے میں بالکل جداگانہ ہیں۔ ساتھ ہی دس جماعتی اتحاد کے ذریعے ایک بار پھر سخت مقابلے کی فضا پیدا ہو چکی ہے اور شہر کی بدلتی ہوئی تہلکہ خیز صورت حال کے تناظر میں اور بھی کانٹے کے مقابلے متوقع ہیں۔
2002 میں قومی اسمبلی کی جن پانچ نشستوں پر متحدہ مجلس عمل نے کام یابی حاصل کی ان میں سے حلقہ 239 پر جماعت اسلامی کے بائیکاٹ کے باوجود متحدہ کے بجائے پیپلزپارٹی کامیاب ہوئی، جب کہ ایک اور حلقہ 250 دس جماعتی اتحاد کے لیے بھی خاصے نزع کا باعث بنا ہوا ہے اور اس پر اتفاق رائے نہیں ہو سکا۔ پہلے یہ حلقہ پرویز مشرف کے متوقع انتخاب کے پیش نظر خبروں میں رہا، جن سے مقابلے کے لیے امریکا میں قید عافیہ صدیقی کی بہن فوزیہ صدیقی سامنے آگئیں۔ پھر پرویز مشرف تو نا اہل قرار پائے لیکن فوزیہ صدیقی جماعت اسلامی کے لیے ہی مسئلہ بنی رہیں،اب ان کے دستبردار ہونے کی غیر مصدقہ خبریں آچکی ہیں۔
ماضی میں اس حلقے میں شامل علاقے 1970 میں مولانا شاہ احمد نورانی نے پیپلز پارٹی کے نورالعارفین اور 1977 میں قومی اتحاد کی طرف سے موجودہ امیر جماعت اسلامی سید منور حسن نے پیپلزپارٹی کی طرف سے مشہور شاعر و ادیب جمیل الدین عالی کو ہرایا۔ 1988 اور 1990 میں یہاں سے ایم کیو ایم کے طارق محمود سرخرو ٹھہرے۔ انھوں نے بالترتیب غلام سرور اعوان (پنجابی پختون اتحاد) اور عبدالستار افغانی (آئی جے آئی)کو شکست سے دوچار کیا۔ ایم کیو ایم نے بائیکاٹ کیا تو 1993 میں نواز لیگ کی طرف سے کیپٹن (ر) حلیم صدیقی نے اس وقت کے امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد کو ہرایا اور 1997 میں متحدہ کی موجودگی کے باوجود اپنی نشست کا دفاع کیا اور متحدہ کے عبدالجیل پر برتری منوائی۔ اگرچہ جماعت اسلامی نے اس بار بائیکاٹ کر رکھا تھا۔
اس کے بعد 2002 میں عبدالستار افغانی (متحدہ مجلس عمل) نے متحدہ کی مرکزی رہنما نسرین جلیل کو ہرایا۔ 2008 میں ایک بار پھر جماعت اسلامی بائیکاٹ پر تھی تو متحدہ کی خوش بخت شجاعت نے پیپلز پارٹی کے مرزا اختیار بیگ کو شکست دی جنھیں نواز لیگ کی حمایت بھی حاصل تھی۔ اس بار بھی وہاں متحدہ کی طرف سے خوش بخت شجاعت ہی امیدوار ہیں، جب کہ نعمت اﷲ خان (جماعت اسلامی)، عارف علوی (تحریک انصاف)، راشد ربانی (پیپلز پارٹی)، سلیم ضیا (نواز لیگ)، کامران ٹیسوری (فنکشنل لیگ) اور فوزیہ صدیقی (آزاد) بھی میدان میں ہیں۔
ان دو حلقوں کے بعد صرف تین حلقے ہی باقی رہ جاتے ہیں جہاں 2002 میں مجلس عمل کی کام یابی کے بعد اب ایک بار پھر متحدہ کو سخت مقابلہ کرنا پڑے گا۔ کراچی شہر کی سیاست میں دس جماعتی اتحاد اور متحدہ کے علاوہ تحریک انصاف بھی خاصی امیدیں لگائے بیٹھی ہے، لیکن اتنے بڑے انتخابی دنگل میں اس کی پرواز تنہا ہے۔ 2002 میں نومولود اور 2013 میں بائیکاٹ کے بعد اب یہ خود کو منوانے کی حیثیت میں محسوس ہوتی ہے۔ عام اندازے کے مطابق عمران خان کے چاہنے والوں میں جماعت اسلامی ، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے علاوہ اے این پی کے لیے نرم گوشہ رکھنے والوں کی بڑی تعداد شامل ہے، لیکن ملک کے دیگر حصوں کی طرح ''تبدیلی'' کی خواہش اس شہر کے لیے بھی نظر انداز نہیں کی جا سکتی۔ مذہبی جماعتوں کے بعد متحدہ اس شہر کی نمایندہ جماعت بنی۔
2002 میں کچھ عالمی اور کچھ مقامی حالات کی بنا پر یہاں کے لوگوں نے تبدیلی ہی کی خاطر مجلس عمل کے کئی امیدواروں کو کامیاب کیا، جب کہ ہارنے والی نشستوں پر بھی خاطرخواہ ووٹ لیے، لیکن ایک بار پھر نفاذ اسلام کے نام پر اٹھنے والی اس بڑی جذباتی لہر کا فائدہ نہ اٹھایا جاسکا اور شہر قائد کے سیاسی مزاج پر نظر رکھنے والوں کے مطابق کراچی میں متحدہ اور جماعت اسلامی کے بعد اب تحریک انصاف سے دل چسپی نظر انداز نہیں کی جاسکتی۔ متحدہ کے حلقہ اثر بھی اس سے مبّرا نہیں۔ متحدہ مجلس عمل 2002 میں پارلیمان کا بہت اہم حصہ بننے کے باوجود اعتماد پر پورا نہ اتر سکی۔ اس کے بعد کوئی قریبی حریف نہ ہونے کے باعث نسبتاً آسانی سے دوبارہ متحدہ کو بھر پور نمایندگی مل گئی، لیکن 2008 سے 2013 تک کے سفر کے بعد متحدہ کو بھی اپنے حامیوں کو مطمئن کرنا خاصا مشکل محسوس ہورہا ہے۔
بلدیاتی نظام پر مضبوط موقف کی کمی، حکومت میں جانے اور آنے کے سلسلے، ذوالفقار مرزا کے متحدہ اور کراچی کے حوالے سے متواتر بیانات، شہر میں نہ رکنے والے اہدافی قتل، بھیانک حدوں کو چھوتی بھتا خوری، اغوا برائے تاوان، لیاری کے جرائم پیشہ عناصر کی کارروائیاں وغیرہ ایسے بڑے بڑے مسائل ہیں جس سے آج متحدہ کے حامی شدید بے چینی کا شکار ہیں۔ متحدہ نے ان مسائل پر وقتی طور پر سرگرمی دکھائی یا پھر ایک دم سے موقف ہی بدل لیا۔ اس پر طرہ کہ وہ چند دن قبل حکومت سے نکل آئے، لیکن گورنر کی شکل میں وہ حکومت سے غیرموجود نہیں کہے جاسکتے۔ یہ وہ عوامل ہیں جن سے متحدہ کو نبرد آزما ہونا ہے۔
دوسری طرف دس جماعتی اتحاد میں جوڑ توڑ کے ذریعے شہر میں برتری حاصل کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ تیسری طرف تحریک انصاف بھی اب نظر انداز نہیں کی جاسکتی۔ نتائج تو بہرحال انتخابات کے بعد ہی سامنے آئیں گے تاہم توقع ہے کہ تحریک انصاف کو بھی قابل قدر تعداد میں عوام کا اعتماد حاصل ہوسکتا ہے۔ شہر کی دیگر سیاسی قوتوں کی طرف دیکھیں تو کچھ مذہبی جماعتوں کا اتحاد ''متحدہ دینی محاذ'' کے علاوہ اہل تشیع افراد کے حقوق کے لیے مجلس وحدت المسلمین بھی شہر قائد میں خود کو منوانا چاہتی ہے۔ اس لیے انتخابی نتائج پر ان کی موجودگی بھی کوئی نہ کوئی کردار ادا کرسکتی ہے۔