ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی اسیری

ڈاکٹرفوزیہ صدیقی، ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بہن کے دو تین روز قبل کے انکشاف نے نہ صرف مجھے حیرت زدہ کر دیا

sarahliaquat@hotmail.com

ڈاکٹرفوزیہ صدیقی، ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بہن کے دو تین روز قبل کے انکشاف نے نہ صرف مجھے حیرت زدہ کر دیا بلکہ ایک دفعہ بھر عافیہ صدیقی کے لیے قلم اٹھانے پر مجبورکردیا۔ انھوں نے ٹی وی کے ایک پروگرام میں انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ اگر پاکستانی حکومت چاہے تو عافیہ دو دن میں پاکستان واپس آ سکتی ہیں،امریکا ڈاکٹرعافیہ کوخود پاکستان کے حوالے کرنے کو تیار ہے جس کے لیے پچھلے سال وہاں کے اٹارنی جنرل رمزے کلارک اور بعد میں وہاں کے سینیٹر بھی پاکستان آئے تھے اور مسٹر رمزے نے پاکستان میں اپنی پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ عافیہ بے قصور ہے اور ابھی چند دن قبل بھی انھوں نے امریکا میں ڈاکٹر عافیہ کے حق میں مظاہرہ کیا اور کہا کہ تمام حقائق جاننے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ڈاکٹر عافیہ بے گناہ ہیں ۔

ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کا کہنا تھا کہ امریکا بھی عافیہ صدیقی والے معاملے کو حل کرنا چاہتا ہے جس کے لیے انھوں نے دو تین صورتیں سامنے رکھیں ان میں سے ایک تو جوکہ سب سے آسان تھی یہ کہ اگر پاکستان امریکا کو خط لکھ دے کہ عافیہ ہماری شہری ہے اور وہ اپنی بقیہ سزا پاکستان آکر کاٹ لے گی تواس کو فورا بھیج دیا جائے گا ۔ اس حوالے سے ان کی دونوں سابق وزرائے اعظم سے ملاقات بھی ہوئی اور انھوں نے بھرپور تعاون کی یقین دہانی بھی کروائی ، اس کے باوجود بات آگے نہ بڑھ سکی ۔صرف ایک دستخط کہ ہم عافیہ کو واپس لینے کے لیے تیار ہیں نہ کرنے میں نجانے ایسے کیا راز پوشیدہ ہیں کہ ہر بڑھتا قدم پیچھے ہٹ جاتا ہے ۔کون سی ایسی نادیدہ قوتیں ہیں جو عافیہ صدیقی کو پاکستان نہیں آنے دینا چاہتیں ۔

گزشتہ دس برس سے امریکا میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرتی نحیف و نزار سی عورت ڈاکٹر عافیہ صدیقی ناکردہ گناہوں کی سزا کی پاداش میں آج اس طرح سے نشان عبرت بنا دی گئی ہے کہ ہر پاکستانی دل میں ان کے لیے درد تو رکھتا ہے لیکن نجانے کیوں ان کے حق میں آواز اٹھانے سے ڈرتا ہے ۔ان کا ذکر ایک آہ ،ایک کرب،ایک درد بن کے رہ گیا ہے جس درد کی دوا ہمارے حکمرانوں ، ہمارے کرتا دھرتا ملکی اداروں کے پاس ہے تو سہی لیکن ان دیکھی طاقتیں ان کو آگے قدم بڑھانے سے روکتی ہیں ۔

ڈاکٹر عافیہ کا تعلق کن لوگوں سے تھا ۔ ان کا جرم کیا تھا ۔ انھوں نے اپنی قید کے اذیت ناک دس سال کال کوٹھڑی میں اپنے گھر سے ، وطن سے ، اپنے بچوں سے دور کس طرح گزارے، ان پہ کیا کیا ستم ڈھائے گئے ۔ میں نہیں جانتی لیکن ہر بار جب بھی ان کا ذکر آتا ہے ان کی تصویر نگاہوں کے سامنے آتی ہے تو نجانے میری آنکھیں نم ہو جاتی ہیں اور دل سے ایک ہی کسک بار بار اٹھتی ہے کہ کاش قوم کی بیٹی کے ساتھ ایسا نہ ہوا ہوتا ۔


ڈاکٹر عافیہ 2 مارچ 1982 کو پیدا ہوئیں ۔ پیشے کے اعتبار سے نیورو سائنٹسٹ ہیں ۔ 1990 میں ان کی شادی امجد خان سے ہوئی جس سے ان کے 3 بچے ہیں ۔ ڈاکٹر عافیہ کی والدہ کے مطابق وہ 30 مارچ 2003 کو کراچی اپنے گھر سے اپنے بچوں کے ساتھ ٹیکسی پر اسلام آباد جانے کے لیے روانہ ہوئیں اور اس کے بعد لاپتہ ہو گئیں اور پھر پانچ سال تک ان کے بارے میں کچھ پتہ نہ تھا کہ وہ کہاں ہیں کس حال میں ہیں ، زندہ ہیں بھی یا نہیں ، آخر 7 جولائی 2008 کو وون ریڈلے ایک برطانوی صحافی جنہوں نے بعد میں اسلام قبول کر لیا اور مریم کہلائیں پاکستان آئیں اور انھوں نے پہلی دفعہ ڈاکٹر عافیہ کی افغانستان میں موجو دگی کا انکشاف کیا ۔ انھوں نے ڈاکٹر عافیہ کو جیل میں قید ایک بھوت سے تشبیہ دی جس کی کوئی شناخت نہیں ہے لیکن اس کی چیخیں ان لوگوں کا پیچھا کرتی ہیں جو انھیں ایک بار سن چکے ہیں ۔

برطانوی صحافی کے اس انکشاف کے بعد میڈیا اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے دبائو کی وجہ سے ڈاکٹر عافیہ کو امریکا منتقل کر دیا گیا ۔ جہاں انصاف کے نام پر ساری دنیا کے سامنے تماشا لگا کر اس بات کو تسلیم کرتے ہوئے کہ ان کا کسی دہشت گرد تنظیم کے ساتھ کوئی تعلق ثابت نہیں ہوا انھیں ارادہ قتل ، ہتھیار اٹھانے اور انھیں استعمال کرنے کے الزام میں مجرم ٹھہراکر 86 سال کی قید سنا دی گئی جو کہ امریکا کی تاریخ میں آج تک کسی خاتون کو نہیں دی گئی ۔ اور ان پہ جن ناکردہ جرائم کا الزام لگا کر سزا دی گئی ہے اس کی بھی امریکی قانون کے مطابق سزا 30 برس ہے ۔

بوسٹن میگزین کی کیتھرائن اوزمٹ اپنے آرٹیکل "Who,s afraid of Aafia Siddiqui''میں اپنی پڑھائی کے دوران امریکا میں گزارے ڈاکٹر عافیہ کے شب و روز کے بارے میں تحقیق کر کے اس نتیجے پہ پہنچتی ہیں کہ بلا شبہ وہ ایک متحرک خاتون تھیں ، مذہب کے معاملے میں بھی کافی سنجیدہ تھیں ، مختلف مسلم تنظیموں کے لیے چندے بھی اکٹھے کیا کرتی تھیں لیکن انھیں مجرم کسی صورت نہیں قرار دیا جا سکتا ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آج امریکا کے ڈاکٹر عافیہ کے حوالے سے اپنے بہت سے تحقیقاتی ادارے اور مغربی ذرایع ابلاغ بھی ان کی بے گناہی تسلیم کر چکے ہیں ۔ امریکا کے justice departmentکے اعلی عہدیدارDean Boyd بھی اس بات کا اعتراف کر تے ہیں کہ ڈاکٹر عافیہ پر لگائے گئے تمام الزامات جھوٹے اور بے بنیاد ہیں ۔

ڈاکٹر عافیہ کا اغوا ہونا ، ان کے افغانستان میں گزرے مہ و سال اور جرائم کی فہرست آج بھی ساری دنیا کے سامنے ایک معمہ ہے ۔ لیکن اس بات میں کوئی شک نہیں رہ جاتا کہ انھیں پرویز مشرف نے امریکیوں کے حوالے کیا وہ اپنی کتاب سب سے پہلے پاکستان میں فخر سے اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ انھوں نے امریکا کے حوالے 600 بندے کیے اور اس کے بدلے کروڑوں امریکی ڈالر لیے ۔ خورشید قصوری جو کہ اس وقت وزیر خارجہ تھے فروری 2012 میں اس بات کا اعتراف کچھ ان الفاظ میں کر تے ہیں کہ مجھے بہت افسوس ہے کہ بے گناہ ڈاکٹر عافیہ کو ہم نے امریکا کے حوالے کیا ، یہ میری سب سے بڑی غلطی تھی ۔ پرویز مشرف نے پاکستان آ کر اس حقیقت سے انکار کرتے ہوئے اپنی پہلی پریس کانفرنس میں کہا کہ میں نے عافیہ کو امریکا کے حوالے نہیں کیا جس نے بھی کیا وہ غدار ہے ۔ حقائق کیا ہیں شاید ہم کبھی نہ جان سکیں لیکن اﷲ کی لاٹھی بے آواز ہے جو بھی اس میں شامل تھے اپنے انجام تک ضرور پہنچیں گے ۔

ڈاکٹر عافیہ پہ گزری ظلم کی داستان اس قدر پراذیت ہے کہ شاید میرا قلم اس درد کا اندازہ کبھی نہ لگا سکے جس سے وہ پچھلے دس برسوں میں گزری ہیں ۔ ان کی نگاہیں اپنے دیس کی جانب لگی ہیں جانے کب کوئی مسیحا ان کو ان کے ناکردہ گناہوں کی سزا کے عذاب سے نکال کے اپنے ملک اپنے بچوں کے پاس لے آئے ۔ گزرے برسوں کی اذیت ، تکلیف ان کی تصاویر سے عیاں ہے ۔ تصویروں کا ہر ہر رخ چیخ چیخ کے ہر گزری اذیت کی گواہی دے رہا ہے۔ اس کے باوجود آ ج ہماری بے بسی کی یہ انتہا ہے کہ ہم ان کے لیے قلم تو اٹھا سکتے ہیں لیکن اپنے حکمرانوں کے سوئے ہو ئے ضمیر نہیں جگا سکتے جو قوم کی ایک بے گناہ بیٹی کو برسوں گزر جانے کے باوجود انصاف نہیں دلا سکتے۔
Load Next Story