آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا

سابق صدر جنرل پرویز پر ہمیں بیک وقت دو کہاوتیں یاد آرہی ہیں۔ پہلی کہاوت تو یہ کہ بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی

S_afarooqi@yahoo.com

سابق صدر جنرل پرویز پر ہمیں بیک وقت دو کہاوتیں یاد آرہی ہیں۔ پہلی کہاوت تو یہ کہ بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی، اور دوسری کہاوت یہ کہ گیدڑ کی موت آتی ہے تو وہ شہر کا رخ کرتا ہے۔ پرویز مشرف کو اپنے کمانڈو ہونے پر بڑا گھمنڈ تھا۔ پرویز مشرف بلاشبہ ایک کمانڈو ہیں اور وہ بھی بلا کے۔ انھیں بڑے بڑے داؤپیچ بھی یقینا آتے ہونگے جوکہ ان کی پیشہ ورانہ تربیت کا حصہ ہیں۔ لہٰذا اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں کہ وہ وقتاً فوقتاً اس حوالے سے اپنی پھرتیاں اور کرتب دکھاتے رہے ہیں اور ممکن ہے کہ آیندہ بھی اس کا مظاہرہ کریں۔

ان کی نو سالہ حکمرانی بھی ان کی کمانڈو شپ کا ہی ایک عملی مظاہرہ تھا۔اس سے قبل کارگل کا معاملہ بھی کچھ اسی نوعیت کا معاملہ تھا۔ ان کی کمانڈو صلاحیت کے بارے میں ایک تاثر یہ بھی ہے کہ وہ کسی سنجیدہ اور گہری حکمت عملی سے عاری محض ایک نرے کمانڈو ہیں، مگر ہمارا یہ منصب نہیں کہ اس بارے میں کوئی تبصرہ کریں۔ اس کا حق تو صرف ان ماہرین کو ہی پہنچتا ہے جن کی تمام عمر اسی دشت کی سیاحی میں گزری ہے۔

عام قیاس یہی ہے کہ وطن واپسی سے قبل انھیں اس بات کا کسی نہ کسی حد تک اندازہ ہوگا کہ ان کے ساتھ کیا کچھ پیش آسکتا ہے۔ یہ بات بھی بعید ازقیاس نہیں ہے کہ ان کی پشت پر اسی بڑی طاقت کا ہاتھ ہوگا جس کے لیے انھوں نے اپنے دور حکمرانی میں بڑی بڑی خدمات انجام دی تھیں، حتیٰ کہ ڈرون حملوں کی راہ بھی ہموار کی تھی جو آج تک نہ جانے کتنی قیمتی جانوں کی بھینٹ لے چکے ہیں اور جن کا لامتناہی سلسلہ خدا جانے کب ختم ہوگا۔

جنرل صاحب کی واپسی ایک ایسے نازک موقع پر ہوئی ہے جب ملک میں عام انتخابات کا انعقاد بہت زیادہ دور نہیں ہے۔ ان کی آمد کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ وہ اپنی انتخابی مہم میں خود بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیں مگر شاید انھیں اس بات کا بخوبی اندازہ نہیں تھا کہ بالآخر انھیں الیکشن لڑنے کے لیے قطعی طور پر نااہل قرار دے دیا جائے گا۔ انھیں اپنی سیادت پر بڑا ناز ہوا کرتا تھا جس کا تذکرہ وہ اکثروبیشتر اپنی گفتگو میں بھی بڑے دھڑلے سے کیا کرتے تھے۔ ان کے سید ہونے کے زعم پر ہمیں ہمیشہ علامہ اقبال کا یہ شعر یاد آتا ہے:

یوں تو سید بھی ہو، مرزا بھی ہو، افغان بھی ہو

تم سبھی کچھ ہو بتاؤ تو مسلمان بھی ہو

برا ہو انتخابی سیاست کا کہ اس نے پرویز مشرف صاحب کی سیاست کا رہا سہا بھرم بھی ختم کردیا۔ بقول شاعر ''اس عاشقی میں عزت سادات بھی گئی''۔

قصہ مختصر، جنرل مشرف کی واپسی کے ساتھ مکافات عمل کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے اور اب انھیں قانون اور انصاف کے تقاضوں کا سامنا کرنا ہوگا۔ بہ الفاظ دیگر اونٹ اب پہاڑ تلے آچکا ہے اور دیکھنا یہ ہے کہ اب یہ کس کروٹ بیٹھے گا۔ ایک اہم پیش رفت یہ ہے کہ پاکستان کی سینیٹ نے جمہوریت کی گاڑی کو پٹری سے اتارنے اور آئین کو پامال کرنے کے جرم میں ان کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت مقدمہ چلانے اور تمام سرکاری عمارتوں سے ان کی تصویریں ہٹانے کی قرارداد اتفاق رائے سے منظور کرلی ہے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ سینیٹ کے ارکان نے انھیں جیل نہ بھجوانے پر شدید احتجاج کرتے ہوئے نگراں وزیر داخلہ ملک حبیب کو آڑے ہاتھوں لیا ہے۔

اس حوالے سے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں محمد نواز شریف نے انھیں عدالتی حکم پر فوراً گرفتار نہ کرنے کوغلط قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ڈکٹیٹر کے ساتھ وہی سلوک ہونا چاہیے جو آئین توڑنے والے کے ساتھ ہوتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ عام آدمی کو کال کوٹھڑی میں ڈال دیا جاتا ہے لیکن مشرف کو ان کے گھر منتقل کرایا گیا۔ دوسری جانب پاکستان کے دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ مشرف کے سلسلے میں دنیا کے کسی بھی ملک نے کوئی رابطہ نہیں کیا ہے جب کہ امریکا نے ان کے خلاف قانونی کارروائی پر کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کردیا ہے۔

جنرل پرویز مشرف کا آفتاب اقتدار جب پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا تھا اور وہ اس وقت سیاہ، سفید کے مالک تھے تو ان کی کیفیت کم و بیش ایک شہنشاہ کی سی تھی جسے یہ گمان تھا کہ I am the monarch of all I survey ۔ تب انھیں یہ خیال بھی نہ آیا ہوگا کہ ان پر ایک وقت ایسا بھی آئیگا جب وہ ایک ملزم کی حیثیت سے اسی عدالت کے روبرو پیش ہونگے جسے انھوں نے بے دست و پا اور بے و توقیر کرنے کی کوشش کی تھی۔ بے شک ہر کمال کو زوال ہے اور مکافات عمل قدرت کے نظام کا ایک لازمی جزو ہے جسے جدا نہیں کیا جا سکتا۔ قرآن حکیم عبرت کی داستانوں سے بھرا پڑا ہے بشرطیکہ کوئی ان سے سبق حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ لاریب، دائمی حاکمیت صرف اور صرف باری تعالیٰ کی ہے۔


دارا رہا، نہ جم، نہ سکندر سا بادشاہ

تخت زمیں پر سیکڑوں آئے، چلے گئے

ان حکمرانوں میں وہ بھی شامل ہیں جنھیں حاکم الحاکمین نے آیندہ آنے والوں کے لیے ہمیشہ کے لیے ایک مثال بنا دیا۔ مرزا یاس یگانہ چنگیزی اس موقع پر یاد آرہے ہیںجنہوں نے کیا خوب فرمایا تھا کہ:

خدا بنے تھے یگانہؔ مگر بنا نہ گیا

منصف اعلیٰ و بالا کا نظام عدل ملاحظہ ہو کہ اس نے پرویز مشرف کے آشیانے کو قفس میں تبدیل کردیا اور انھیں چک شہزاد میں اپنے ہی فارم ہائوس میں ایک قیدی کی حیثیت سے شب قید تنہائی گزارنا پڑی اور انتظامیہ نے ان کی نقل و حرکت کو ان کے بیڈروم سمیت دو کمروں تک محدود کردیا جہاں انھیں ٹی وی اور فریج کی سہولت تو دستیاب تھی لیکن ٹیلی فون اور کمپیوٹر تک رسائی حاصل نہیں تھی۔ اس کے علاوہ اپنے اہل خانہ سے ملاقات کی بھی اجازت نہیں تھی۔ ان کے انٹرنیٹ اور ٹیلی فون کے کنکشن کاٹ دیے گئے اور صرف اخبار پڑھنے کی سہولت تک محدود کردیا گیا۔

قانونی ماہرین کے مطابق سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے خلاف بغاوت کے مقدمے میں سزا سنائے جانے کا امکان بہت قوی ہے۔ ان کے خلاف دائر دوسرے مقدمات کے مقابلے میں یہ سب سے مضبوط اور ٹھوس کیس نظر آتا ہے۔ ان کے خلاف اس وقت متعدد فوجی مقدمات مختلف عدالتوں میں زیرسماعت ہیں ۔ محترمہ بے نظیربھٹو کیس میں وہ باضابطہ گرفتار ہیں اور نواب اکبر بگٹی کے قتل کے مقدمات کے علاوہ چیف جسٹس آف پاکستان سمیت اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کو زیر حراست رکھنے سے متعلق مقدمہ سرفہرست ہے۔ تاہم ان مقدموں میں استغاثہ کے لیے الزامات کو ثابت کرنا کافی مشکل کام ہوگا۔ ججز کیس میں بھی انتطامیہ کو ثابت کرنا ہوگا کہ ججوں کی نظربندی کے احکامات پرویز مشرف ہی نے صادر کیے تھے۔

جہاں تک بغاوت کیس کا تعلق ہے تو اس میں استغاثہ کے لیے الزام ثابت کرنا اس لیے آسان ہے کہ سابق صدر نے عبوری آئینی حکم کے ذریعے 3 نومبر 2007 کو آئین معطل کردیا۔ انھوں نے یہ اقدام مسلح افواج کے سربراہ کی حیثیت میں کیا جب کہ پی سی او سرکاری گزٹ کا باقاعدہ حصہ ہے۔ اس کے علاوہ سپریم کورٹ، سندھ ہائی کورٹ بار کیس کے فیصلے میں اس اقدام کو آئین سے بغاوت قرار دے چکا ہے۔ سپریم کورٹ کی جانب سے واضح آبزرویشن کے بعد استغاثہ کے لیے الزام ثابت کرنا مشکل نہیں ہوگا تاہم غداری کے قانون کے تحت بغاوت کے مقدمے کو درج کرنا وفاقی حکومت کا صوابدیدی اختیار ہے۔

بہرحال اب جنرل (ر) پرویز مشرف قانون اور انصاف کے تقاضوں کی رو سے عدلیہ کے سامنے ہیں اور انھیں اپنا مقدمہ لڑنا پڑے گا۔ دوسری جانب پرویز مشرف کے خلاف عدالتی کارروائیاں خود عدلیہ کے لیے بھی ایک کڑی آزمائش سے کم نہ ہوں گی اور پوری دنیا خصوصاً ملکی اور غیرملکی میڈیا کی توجہ اس پر مرکوز رہے گی۔

ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا

آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا
Load Next Story