الیکشن اور نوجوانوں کی ذمے داریاں
پاکستان کی تاریخ میں کئی بار الیکشن ہوئے، اب یہ دوسری بات کہ وہ واقعی الیکشن تھے یا اس کے نام پر ڈراما۔
ایک بار پھر الیکشن الیکشن کا شور مچ رہا ہے۔ اخبارات اور رسائل ٹی وی چینل دھوم دھام سے الیکشن کا میدان سجائے اپنی خصوصی نشریات کا اہتمام کیے ہوئے ہیں اور سب ہی مسابقت کی دوڑ میں بازی جیتنا چاہتے ہیں۔ روز مناظرے اور مذاکرے ہورہے ہیں۔ نرم گرم تبصروں و تجزیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ عوام سے آرا لی جارہی ہے۔ بڑی بڑی سیاسی جماعتوں کے اشتہارات اخبارات اور ٹی وی چینلز کی زینت بنے ہوئے ہیں جو سیاسی جماعتوں کے کارناموں اور خدمات سے سجے ہوئے ہیں اور جو عوام کوکہیں بھی نظر نہیں آتے ، بس ترقی کا شور ہے جو صرف سماعتوں کو آلودہ کیے ہوئے ہے۔
پاکستان کی تاریخ میں کئی بار الیکشن ہوئے، اب یہ دوسری بات کہ وہ واقعی الیکشن تھے یا اس کے نام پر ڈراما۔ چلیں ہم کچھ دیر کے لیے انھیں الیکشن مان لیتے ہیں۔ لیکن ان الیکشن میں حصہ لینے والی جماعتوں اور ہر مرتبہ جمہوریت کا نعرہ لگا کر آنے والی حکومتوں نے عوام کو مایوسی کی طرف دھکیلا ۔ اس سے کوئی یہ نا سمجھے کہ ہم جمہوریت کے خلاف ہیں بلکہ ہم تو جمہوریت کے پرزور حامی ہیں۔ بد قسمتی سے ہم اس جمہوریت سے خائف ہیں جو وطن عزیز میں رائج ہے۔
خیر بات ہو رہی تھی الیکشن کی۔ الیکشن کمیشن کے قیام کے بعد اور اس کی کارکردگی کو دیکھتے ہوئے امید جاگی تھی کہ وطن عزیز کو کھربوں کے قرضے میں جکڑ دینے والوں، جعلی ڈگریوں اور فراڈ میں مطلوب چوروں کو بھی نااہل قرار دیا جائے گا مگر بدقسمتی سے آج پھر وہی مداری پاک و صاف ہوکر اپنے علاقوں میں سادہ لوح عوام کو بیوقوف بنا کر الیکشن میں کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ہم جن مسائل کا شکار ہیں وہ ان ہی نام نہاد سیاست دانوں کے مرہون منت ہیں۔ یہ افراد چہرے اور اپنی پارٹیاں بدل بدل کر طویل عرصے تک حکومتوں میں رہے۔ عوام کی خدمت کرنا تو دور کی بات ہے انھوں نے مزید مشکلات پیدا کیں۔ قومی خزانے کو شیر مادر سمجھا اور آج پھر نت نئے وعدوں اور خوش نما الفاظ کا سہارا لے کر عوام کے سامنے کھڑے ہیں۔
ہم سب تبدیلیوں کے بلند بانگ دعوے سن رہے ہیں۔ سب تبدیلی کے خواہش مند بھی ہیں۔ ہم میں ہر فرد چاہتا بھی ہے کہ اس کے حالات بدلیں، لیکن عملی طور پر ہم میں سے ہر ایک زبانی جمع خرچ تو بہت کرتا ہے، عملی طور پرکچھ نہیں کرتا۔ اس کی وجہ شاید یہ بھی ہو کہ ہم سب خود اس بات سے خوف زدہ ہیں کہ اگر سچی، ایمان دار، دیانت دار حکومت آگئی تو کہیں ہم بھی جو نچلی سطح کی کرپشن سے آلودہ ہیں، اس کی زد میں نا آجائیں۔ ہم سب اپنے ذاتی مفادات کو اجتماعی مفادات پر تر جیح دیتے ہیں۔ جب تک ہم اپنے ذاتی مفادات کی قربانی نہیں دیں گے، اس وقت تک تبدیلی کی خواہش دیوانے کا خواب ہی رہے گی۔ آج جس کا جتنا اختیار ہے وہ اتنی ہی کرپشن کررہا ہے، اگر کسی کی اس طرف توجہ دلائو تو وہ اپنے دفاع میں دلیلیں لے کر آجاتا ہے اور حالات کو مورد الزام ٹھہرانے لگتا ہے۔ حالات اس وقت بدلیں گے جب ہم اپنے قومی مفادات کو ذاتی مفادات پر ترجیح دیں گے ۔
اگر ہماری کسی سے سیاسی وابستگی ہے یا کسی سے کسی بھی قسم کا تعلق ہے، کوئی مفاد وابستہ ہے اور ہمیں یہ علم بھی ہے یہ فرد کرپٹ ہے، عوامی نمایندگی یا حکومت میں رہنے کا حق دار نہیں، تو ہونا یہ چاہیے کہ ہم خود ایسے شخص کو اپنی فہرست سے خارج کردیں۔ اس کے برعکس ہم اسے محض اپنے مفاد کے لیے دوبارہ منتخب کرلیتے ہیں۔ کیا ہم اس طرح سے اس کرپشن میں حصہ دار نہیں بن جاتے۔
عوام اس بار بہت پرامید نظر آتے ہیں، تبدیلی کی گونج چاروں جانب سنائی دے رہی ہے۔ الیکشن کے شفاف ہونے کی نوید اور یقین دہانی کرائی جا رہی ہے، لیکن ہمیں پھر بھی خوف اور ناامیدی اور اندھیروں نے گھیرا ہوا ہے۔ ہم ہر بار اپنے وطن کی باگ ڈور ایسے ریاکاروں کے ہاتھوں میں دے دیتے ہیں، جو آزمائے ہوئے ہیں جو عوام سے ہر بار وعدے کرتے اور بھول جاتے ہیں، جو ہر بار جھوٹ بولتے اور مکر و فریب کا جال بنتے اور ہم ہر بار ان کے جال میں پھنس جاتے اور پھر آہ و بکا کرتے رہتے ہیں۔
ان اندھیروں میں روشن دیا ہمارے نوجوان ہیں۔ الیکشن کمیشن کی رپورٹ کے مطابق نوجوان ووٹرز کا تناسب 58 فیصد ہے جن کی عمر 18 سے 20 سال کے درمیان ہے۔ نوجوان ہی سب سے زیادہ بیروزگاری، تعلیم، صحت، امن و امان کی مخدوش صورتحال اور بے یقینی کا شکار ہیں۔ ہماری امیدوں کا مرکز اب یہی نوجوان ہیں، اور ان ہی سے توقع کی جا سکتی ہے کہ وہی اب اس وطن عزیز کی نیا پار لگا سکتے ہیں۔ اسے اقوام عالم کی صف میں اچھا مقام دلاسکتے ہیں۔
اگر اس مرتبہ ہمارے نوجوانوں نے جوش کے بجائے ہوش اور جذباتیت کے بجائے عقل و شعور سے کام لیتے ہوئے ایسے افراد کو چن کر پارلیمنٹ میں بھیجا جو ایماندار، دیانتدار، فعال، دردمند اور کسی رنگ و نسل، مذہب و ملت کے تعصب سے پاک ہوں، تو وہ وقت دور نہیں جب ہم بھی عالم میں سربلند ہونگے۔ ہم سب کو یاد رکھنا چاہیے کہ ہمارا ووٹ اک قومی امانت ہے اور جسے اس کے صحیح حق دار تک پہنچانا ہمارا قومی فریضہ ہے۔ ووٹ کا درست استعمال ہی ہمارا مستقبل روشن اور محفوظ بنا سکتا ہے۔
پاکستان کی تاریخ میں کئی بار الیکشن ہوئے، اب یہ دوسری بات کہ وہ واقعی الیکشن تھے یا اس کے نام پر ڈراما۔ چلیں ہم کچھ دیر کے لیے انھیں الیکشن مان لیتے ہیں۔ لیکن ان الیکشن میں حصہ لینے والی جماعتوں اور ہر مرتبہ جمہوریت کا نعرہ لگا کر آنے والی حکومتوں نے عوام کو مایوسی کی طرف دھکیلا ۔ اس سے کوئی یہ نا سمجھے کہ ہم جمہوریت کے خلاف ہیں بلکہ ہم تو جمہوریت کے پرزور حامی ہیں۔ بد قسمتی سے ہم اس جمہوریت سے خائف ہیں جو وطن عزیز میں رائج ہے۔
خیر بات ہو رہی تھی الیکشن کی۔ الیکشن کمیشن کے قیام کے بعد اور اس کی کارکردگی کو دیکھتے ہوئے امید جاگی تھی کہ وطن عزیز کو کھربوں کے قرضے میں جکڑ دینے والوں، جعلی ڈگریوں اور فراڈ میں مطلوب چوروں کو بھی نااہل قرار دیا جائے گا مگر بدقسمتی سے آج پھر وہی مداری پاک و صاف ہوکر اپنے علاقوں میں سادہ لوح عوام کو بیوقوف بنا کر الیکشن میں کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ہم جن مسائل کا شکار ہیں وہ ان ہی نام نہاد سیاست دانوں کے مرہون منت ہیں۔ یہ افراد چہرے اور اپنی پارٹیاں بدل بدل کر طویل عرصے تک حکومتوں میں رہے۔ عوام کی خدمت کرنا تو دور کی بات ہے انھوں نے مزید مشکلات پیدا کیں۔ قومی خزانے کو شیر مادر سمجھا اور آج پھر نت نئے وعدوں اور خوش نما الفاظ کا سہارا لے کر عوام کے سامنے کھڑے ہیں۔
ہم سب تبدیلیوں کے بلند بانگ دعوے سن رہے ہیں۔ سب تبدیلی کے خواہش مند بھی ہیں۔ ہم میں ہر فرد چاہتا بھی ہے کہ اس کے حالات بدلیں، لیکن عملی طور پر ہم میں سے ہر ایک زبانی جمع خرچ تو بہت کرتا ہے، عملی طور پرکچھ نہیں کرتا۔ اس کی وجہ شاید یہ بھی ہو کہ ہم سب خود اس بات سے خوف زدہ ہیں کہ اگر سچی، ایمان دار، دیانت دار حکومت آگئی تو کہیں ہم بھی جو نچلی سطح کی کرپشن سے آلودہ ہیں، اس کی زد میں نا آجائیں۔ ہم سب اپنے ذاتی مفادات کو اجتماعی مفادات پر تر جیح دیتے ہیں۔ جب تک ہم اپنے ذاتی مفادات کی قربانی نہیں دیں گے، اس وقت تک تبدیلی کی خواہش دیوانے کا خواب ہی رہے گی۔ آج جس کا جتنا اختیار ہے وہ اتنی ہی کرپشن کررہا ہے، اگر کسی کی اس طرف توجہ دلائو تو وہ اپنے دفاع میں دلیلیں لے کر آجاتا ہے اور حالات کو مورد الزام ٹھہرانے لگتا ہے۔ حالات اس وقت بدلیں گے جب ہم اپنے قومی مفادات کو ذاتی مفادات پر ترجیح دیں گے ۔
اگر ہماری کسی سے سیاسی وابستگی ہے یا کسی سے کسی بھی قسم کا تعلق ہے، کوئی مفاد وابستہ ہے اور ہمیں یہ علم بھی ہے یہ فرد کرپٹ ہے، عوامی نمایندگی یا حکومت میں رہنے کا حق دار نہیں، تو ہونا یہ چاہیے کہ ہم خود ایسے شخص کو اپنی فہرست سے خارج کردیں۔ اس کے برعکس ہم اسے محض اپنے مفاد کے لیے دوبارہ منتخب کرلیتے ہیں۔ کیا ہم اس طرح سے اس کرپشن میں حصہ دار نہیں بن جاتے۔
عوام اس بار بہت پرامید نظر آتے ہیں، تبدیلی کی گونج چاروں جانب سنائی دے رہی ہے۔ الیکشن کے شفاف ہونے کی نوید اور یقین دہانی کرائی جا رہی ہے، لیکن ہمیں پھر بھی خوف اور ناامیدی اور اندھیروں نے گھیرا ہوا ہے۔ ہم ہر بار اپنے وطن کی باگ ڈور ایسے ریاکاروں کے ہاتھوں میں دے دیتے ہیں، جو آزمائے ہوئے ہیں جو عوام سے ہر بار وعدے کرتے اور بھول جاتے ہیں، جو ہر بار جھوٹ بولتے اور مکر و فریب کا جال بنتے اور ہم ہر بار ان کے جال میں پھنس جاتے اور پھر آہ و بکا کرتے رہتے ہیں۔
ان اندھیروں میں روشن دیا ہمارے نوجوان ہیں۔ الیکشن کمیشن کی رپورٹ کے مطابق نوجوان ووٹرز کا تناسب 58 فیصد ہے جن کی عمر 18 سے 20 سال کے درمیان ہے۔ نوجوان ہی سب سے زیادہ بیروزگاری، تعلیم، صحت، امن و امان کی مخدوش صورتحال اور بے یقینی کا شکار ہیں۔ ہماری امیدوں کا مرکز اب یہی نوجوان ہیں، اور ان ہی سے توقع کی جا سکتی ہے کہ وہی اب اس وطن عزیز کی نیا پار لگا سکتے ہیں۔ اسے اقوام عالم کی صف میں اچھا مقام دلاسکتے ہیں۔
اگر اس مرتبہ ہمارے نوجوانوں نے جوش کے بجائے ہوش اور جذباتیت کے بجائے عقل و شعور سے کام لیتے ہوئے ایسے افراد کو چن کر پارلیمنٹ میں بھیجا جو ایماندار، دیانتدار، فعال، دردمند اور کسی رنگ و نسل، مذہب و ملت کے تعصب سے پاک ہوں، تو وہ وقت دور نہیں جب ہم بھی عالم میں سربلند ہونگے۔ ہم سب کو یاد رکھنا چاہیے کہ ہمارا ووٹ اک قومی امانت ہے اور جسے اس کے صحیح حق دار تک پہنچانا ہمارا قومی فریضہ ہے۔ ووٹ کا درست استعمال ہی ہمارا مستقبل روشن اور محفوظ بنا سکتا ہے۔