رسول بخش پلیجو ایک سوچ ایک فکر

سندھ کی تاریخ میں رسول بخش پلیجو ایک قدآور نام اور شخصیت کے طور پر رقم ہوئے۔

Jvqazi@gmail.com

کتنے سارے لوگ آئے اور چلے گئے، ایک لمحہ تھا بس اور باغ اجڑ گئے، عاصمہ گئیں، جمال نقوی گئے، جام ساقی گئے، ابراہیم جویو گئے اور اب پلیجو۔ ان سب جدائیوں کو مشکل سے ایک سال ہی ہوا ہوگا۔ اک پل تھا، پل بھر میں ابھرے، امر ہوئے اور دھواں ہوئے۔ ہماری روایت ہے کہ ہم جاتے ہوئے کو الوداع کرتے وقت سرنگوں ہوجاتے ہیں، آنکھوں میں نم لیے ان کی یادوں میں گم ہوجاتے ہیں۔

سندھ کی تاریخ میں رسول بخش پلیجو ایک قدآور نام اور شخصیت کے طور پر رقم ہوئے۔ یوں کہیے کہ جو قرضہ تھا وہ اتار چلے اور جو فریضہ تھا وہ ادا کرگئے۔ ان کے گرد جو تضادات تھے، جو ماحول تھا وہ سمجھے، اس کاادراک کیا، ایک موقف اختیار کیا اور چٹان بن کر کھڑے ہوگئے۔ پھر کیا کوٹ لکھپت جیل، حیدرآباد جیل یا سکھر، لانگ مارچ ہو، بھوک ہڑتال ہو، غرض کہ ہر جدوجہد میں انھوں نے حصہ لیا۔ جان سے اس حد تک کھیلے کہ وچن کی پاسداری نہ جائے۔

وہ بھانپ گئے کہ میں فرد ہوں اور تاریخ کی طویل اور دیو مالائی حقیقت کے سامنے اپنے کردار کا تعین کروں۔ اور وہ سوچ کے اس مقام تک پہنچ گئے جہاں ڈر ایک چھوٹی سی چیونٹی کے مانند نظر آتا ہے، جہاں تم اور میں کا عندیہ ثانوی ہوجاتا ہے۔ ایک ایسے مقام پر پہنچے جہاں سب کل نظر آتا ہے اور فرد اس کل میں ایک عکس کی مانند ہوجاتا ہے۔ عجیب تھے ہمارے پلیجو صاحب، جب موت نے آکر دستک دی تو اپنی تحریک میں شامل چند خواتیں کو بٹھا کر ان سے انقلابی گیت سنا کرتے، ان کی آنکھیں چھت کی طرف جیسے کُھپ جاتیں اور یہ اٹھاسی سالہ شخص کہیں دور سوچوں میں نکل جاتا۔

ایچ ٹی سورلے لکھتے ہیں کہ جب بھٹائی موت کے قریب پہنچے تو خوب نہا دھو کر اپنے آستانے میں برگد کے نیچے چارپائی پر لیٹ کر فقیروں کو بلایا اور کلام سنانے کو کہا، فقیر بھٹائی کا کلام گانے لگے، جب کلام ختم ہوا تو فقیروں نے دیکھا کہ شاہ بھٹائی کی روح پرواز کر چکی تھی۔

پلیجو ایک فکر تھے، وہ اپنی ذات میں ایک تحریک تھے، ان کا تحرک بھی بلا کا تھا تو فکر بھی۔ فکر کے حوالے سے وہ ماؤسٹ تھے۔ اسٹالنسٹ بھی تھے۔ ساری عمر بائیں بازو کی سیاست سے جڑے رہے۔ وہ مادیت پرست تھے۔ میری ان سے پہلی ملاقات جب ہوئی تو میں صرف سات سال کا تھا، وہ میرے والد کے چیمبر میں بیٹھے ہوئے تھے۔ میں اپنے گھر سے جب اچانک چیمبر میں داخل ہوا تو وہ اٹھ کھڑے ہوئے اور مجھے اپنی گود میں لے لیا۔ کہنے لگے خدا کہاں ہے؟ میں نے اپنی انگلی آسمان کی طرف اٹھائی تو وہ آسمان کی طرف دیکھنے لگے اور کہنے لگے کہاں ہے وہاں خدا؟ تو میرے والد ان پر نرمی سے برہم ہونے لگے، ان کو کہنے لگے کہ میرے بیٹے کو تم کیا سکھا رہے ہو۔

پلیجو صاحب فقط ایک انسان تھے۔ جب پلیجو صاحب کی فکری سوچ کی نشوونما ہوئی تو ان کے پاس چند سوال تھے کہ دنیا میں اونچ اور نیچ کیوں ہے۔ کوئی اونچا ہے تو کیوں اور کوئی نیچا ہے تو کس وجہ سے۔ اس طرح وہ کارل مارکس کی فکری سوچ تک پہنچے اور آخرکار انھوں نے اپنے سندھی قوم پرست ہونے میں اپنی پہچان دی۔ ان کی قوم پرستی کسی سندھی وڈیرے کی طرح نہ تھی، جو کالا باغ ڈیم کی انحرافی تو کرتا ہے مگر وہ اپنے دہقانوں کو اپنے جوتوں میں بٹھاتا ہے۔


پلیجو صاحب اگر کالا باغ ڈیم کے مخالف تھے تو وہ اپنے سندھ کی مظلوم کلاس کو بھی اپنے ساتھ لے کر چلتے تھے۔ ان کے ساتھ فرش پر بیٹھ کر ان کے جیسے ہوجاتے تھے۔ ہم سندھی یہ کہتے ہیں کہ ووٹ کا شعور بھٹو نے دیا اور سچ بھی ہے، مگر عورت کو سیاسی شعور دینے والے رسول بخش پلیجو تھے۔ وہ اپنے جلسوں میں عورتوں کو مردوں کے برابر کھڑا کرتے تھے اور سیکڑوں کی تعداد میں عورتیں ان کے جلسوں میں شریک ہوتی تھیں۔ یہاں تک کہ ان کے جنازہ کو عورتوں نے اپنے کندھوں پر اٹھایا۔ ایک پسماندہ، زراعتی سندھی سماج میں انھوں نے انقلاب برپا کردیا۔

پلیجو کا نام جب بھی لیا جائے گا تو فاضل راہو کو بھی ضرور یاد کیا جائے گا۔ دہقانوں کی تحریک، مزدوروں کی تحریک، عورتوں کے حقوق اور آزادی کی تحریک اور بچوں کی تحریک، غرض کہ کون سی ایسی مظلوموں کی تحریک تھی جس میں پلیجو صاحب حصہ دار نہ ہوں۔ ان کے جلسوں میں ہزاروں لوگوں کی شرکت ہوتی تھی۔ ایک طرف جی ایم سید کی سوچ تھی، دوسری طرف پلیجو صاحب کی فکر اور تیسری طرف بھٹو کا نظریہ۔ جی ایم سید کی تحریک شاگردوں کی تحریک تھی، بھٹو کی سوچ بالآخر زرداری تک پہنچتے پہنچتے وڈیروں تک محدود رہ گئی، جب کہ پلیجو کی سوچ آخری شب کے ہمسفر کی طرح نہ جانے کہاں رہ گئی۔ یوں کہیے کہ فاضل راہو کے قتل کے بعد پلیجو صاحب کی تحریک کا زور ٹوٹ گیا۔ پھر دھڑے بندیاں ہوئیں اور کچھ لوگ اس تحریک کو خیر باد کہہ کر گھر بیٹھ گئے۔

پاکستان بننے کے بعد سندھ کے اندر ایم آر ڈی کی تحریک سب سے بڑی تحریک تھی۔ اس تحریک کا جی ایم سید نے بائیکاٹ کیا مگر پلیجو صاحب نے اس تحریک میں بھرپور حصہ لیا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے بعد پلیجو اور ان کے کارکنان کا ایم آر ڈی تحریک میں سب سے بڑا کردار رہا۔

جب کالا باغ ڈیم کے خلاف تحریک چلی تو پلیجو اور اس کے کارکن اس تحریک کا ہر اول دستہ تھے۔ پلیجو صاحب، بینظیر بھٹو کو پنجاب اور سندھ کے بارڈر کے قریب کمو شہید لے کر آئے جہاں بشیر قریشی بھی ان کے ساتھ شامل ہوئے۔ ایم آر ڈی کی تحریک میں اگرچہ پورا سندھ شامل نہ تھا لیکن کالا باغ ڈیم کے خلاف تحریک میں جی ایم سید کی سوچ، بشیر قریشی، رسول بخش پلیجو اور بینظیر بھٹو سب ایک موقف پر یکجا تھے۔ کالا باغ ڈیم کا بیانیہ بنانے میں رسول بخش پلیجو کا اہم ترین کردار ہے۔

پلیجو بلا کے مقرر تھے۔ شاہ جو رسالو انھوں نے جیسے حفظ کیا ہوا ہو، وہ بات کرتے کرتے بھٹائی کی شاعری کے حوالے دینے لگتے۔ جب وہ بولتے تو جیسے ساکن سماع سا بندھ جاتا اور گھنٹوں بغیر کسی تعطل کے وہ اپنے خیال میں محو ہو کر بولتے جاتے۔ وہ اس حوالے سے ایک سند تھے، وہ ایک بہت بڑی درسگاہ تھے، جہاں سے ان کی پارٹی کے کئی کارکناں مستفید ہوئے۔ وہ اپنے ذات میں ایک بہت بڑا مدرسہ تھے۔

ان کی شخصیت کے کئی پہلو تھے، وہ نقاد بھی تھے، اردو ادب سے لے کر سندھی اور انگریزی ادب کے مداح تھے۔ وہ پائے کے وکیل بھی تھے۔ شاعری ان کی رگوں میں رچی بسی تھی۔ رسول بخش پلیجو اب ہم میں نہیں۔ وہ مورخہ 7 جولائی صبح تین بجے کراچی کے ایک نجی اسپتال میں خالق حقیقی سے جا ملے۔

وہ ایک عہد ساز شخصیت تھے۔ انھوں نے اپنی زندگی سماج کو بدلنے کے لیے وقف کردی۔ انھوں نے اپنی جدوجہد سے سندھ کی تاریخ پر گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔ آیندہ آنیوالی نسلوں کے لیے ایک فکر، ایک سوچ اور ایک نظریہ پیچھے چھوڑا ہے۔ ایک تشنگی سی رہ گئی، میری ان سے ملاقات بہت کم رہی۔ 2008ء میں میرے والد کی برسی پر وہ مہمان خصوصی تھے اور فخرالدین جی ابراہیم نے اس محفل کی صدارت کی۔ اس موقع پر ان کی ایک خوبصورت تقریر میرے پاس بطور یادگار موجود ہے۔ ایسے لمحے زندگی کا حصہ ہیں جب ہم ایسی شخصیتوں سے جدا ہوتے ہیں۔ انھوں نے 88 سال کی عمر پائی اور ان کا اس دنیا سے جانا بھی ایک فطری عمل تھا۔ ایسے لمحوں میں رویا نہیں جاتا، بلکہ ایک نئے عزم کے ساتھ ان کی کاوشوں کو یاد کیا جاتا ہے۔
Load Next Story