قائداعظم اور پاکستان کی پہلی سالگرہ
ڈاکٹر الٰہی بخش کی خوش قسمتی تھی کہ انھوں نے عظیم شخصیت کو قریب سے...
آج پاکستان جس نہج پر پہنچ چکا ہے، اس کی شکست خوردہ حالت دیکھ کر محب وطن پاکستانیوں کا دل خون کے آنسو رو رہا ہے، قوم تنکوں کی مانند بکھر گئی ہے، نہ اسے دینی حمیت اور تعلیم یاد ہے اور نہ ملکی وقار کا خیال ہے۔ ہمارے صاحبِ اقتدار یہ بھی بھول گئے ہیں کہ پاکستان کے حصول کے لیے قائداعظم محمد علی جناحؒ نے ہر طرح کی قربانی دی، نہ اپنے آرام کا خیال رکھا اور نہ مال و زر، جائیداد کی حفاظت کی۔
وہ ایک عظیم مقصد کو لے کر آگے بڑھے اور آخرکار کامیاب ہوئے لیکن ان خارزار راہوں پر چلتے ہوئے ان کے پیروں میں چھالے پڑ گئے، شبانہ روز کی جہدِ مسلسل نے صحت کو خراب کردیا لیکن اس عظیم ترین ہستی نے حوصلہ نہیں ہارا۔ دشمنوں کی مخالفت اور خونریزی کے باوجود وہ منزلِ مقصود کی طرف رواں دواں رہے۔
زندگی کے آخری دنوں میں جس ذہنی و جسمانی اذیت کا شکار رہے، اس کا احوال لیفٹیننٹ کرنل ڈاکٹر الٰہی بخش نے اپنے مضمون بعنوان ''قائداعظم کے آخری چند ایّام'' میں بے حد دردمندی کے ساتھ درج کیا ہے کہ ڈاکٹر الٰہی بخش معالج کی حیثیت سے ان کے ساتھ تھے اور موت کو شکستِ فاش دینے کے لیے ہر گھڑی کوشاں رہے، لیکن موت برحق ہے۔ ایک وقت مقرر ہے اس لمحے کو کوئی نہیں ٹال سکتا، بقول علامہ اقبال ؎
اوّل و آخر فنا، باطن و ظاہر فنا
نقشِ کہن ہو کہ نو منزل آخر فنا
ہے مگر اس نقش میں رنگِ ثبات دوام
جس کو کیا ہو کسی مردِ خدا نے تمام
ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں بدھوار 21 جولائی 1948 کی شام کا ذکر ہے، میں کھانے سے فارغ ہو کر مطالعے میں مصروف تھا، ٹیلی فون کی گھنٹی بجی۔ کراچی سے حکومتِ پاکستان کے سیکریٹری جنرل مسٹر محمد علی بول رہے تھے، میں لاہور میں تھا، انھوں نے مجھے کہا کہ میں قائداعظم کو دیکھنے کے لیے فوراً زیارت پہنچوں۔
قائداعظم کے متعلق مجھے معلوم ہوا کہ وہ انجکشنوں اور پیٹنٹ دوائیوں کو بری طرح ناپسند کرتے ہیں اور وہ یور ایکسیلینسی کہلوانا بھی پسند نہیں کرتے۔ گورنر جنرل کو یور ایکسیلینسی کہا جاتا ہے اور قائداعظم پاکستان کے گورنر جنرل تھے۔
جب میں محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ ان کے سونے کے کمرے میں داخل ہوا تو قائداعظم کو بستر پر لیٹے ہوئے دیکھا۔ میں نے ان سے پوچھا کہ ان کی صحت کیسی ہے؟ قائداعظم نے کہا ''پیٹ میں تکلیف ہے اور زیادہ کام کرنے اور پریشان رہنے کی وجہ سے جسم ٹوٹتا رہتا ہے، چالیس برسوں سے میں چودہ گھنٹے روزانہ کام کررہا ہوں، میں ہمیشہ بیماری سے ناواقف اور آزاد رہا، پچھلے چند برسوں سے بخار اور کھانسی کے حملے ہورہے ہیں، میرے بمبئی کے ڈاکٹر مجھے صحت یاب کرلیا کرتے تھے مگر ایک دو برس سے اس بیماری کے حملے زیادہ ہوگئے ہیں اور شدید بھی۔''
ڈاکٹر الٰہی بخش کی خوش قسمتی تھی کہ انھوں نے عظیم شخصیت کو قریب سے دیکھا، علاج کیا، مشورے دیے۔ قائداعظم کی لیبارٹری رپورٹ تسلی بخش نہیں تھی۔ ڈاکٹر صاحب نے محترمہ فاطمہ جناح کو اصل بیماری سے آگاہ کیا، وہ آبدیدہ ہوگئیں۔ ڈاکٹر الٰہی بخش نے یہ کہہ کر فاطمہ جناح کو تسلی دی کہ ساری قوم اپنے محبوب قائداعظم کی صحت کے لیے بدستِ دعا ہے، خدا قوم کی دعائیں سنے گا۔ فاطمہ جناح کے اصرار پر قائداعظم کو بتادیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ علاج کے لیے تعاون نہیں کریں گے۔ ڈاکٹر صاحب اس طرح رقم طراز ہیں کہ میں نے قائداعظم کو بتادیا۔ آہ قائداعظم کی عظمت اپنے متعلق ایسی جانکاہ خبر سن کر ان کے چہرے پر ذرّہ بھر تبدیلی نہ آئی۔ مجھ سے پوچھا ''آپ نے فاطمہ کو بتادیا ہے؟'' میں نے جواب دیا، ''ہاں۔'' انھوں نے کہا ''اسے نہیں بتانا چاہیے تھا، وہ آخر عورت ہے۔'' میں نے افسوس کا اظہار کرکے کہا کہ مریض کے کنبے کے کسی ذمے دار فرد کو اصل بیماری کا علم ہونا چاہیے۔
قائداعظم بولے، ''جو ہوگیا سو ہوگیا، مجھے اس بیماری کے متعلق سب کچھ بتادو۔ علاج کتنا لمبا ہوگا؟ کیا علاج کامیاب ہوگا؟ بلاجھجک بتادو۔'' محترمہ نے قائداعظم کی دیکھ بھال کے لیے تجربہ کار نرس رکھنے کے بارے میں پوچھا تو قائداعظم نے صاف انکار کردیا۔ کہنے لگے فاطمہ کی موجودگی میں مجھے نرس کی ضرورت نہیں ہے۔ قائداعظم سلک کا پاجامہ پہنے رہتے تھے جو ان کے جسم کو پوری حرارت نہیں دے سکتا تھا، جب ان سے پوچھے بغیر کراچی سے ان کے لیے گرم کپڑا منگوالیا اور جب قائداعظم کو دِکھایا تو انھوں نے کہا، ''سنو ڈاکٹر! میری ایک نصیحت یاد رکھو۔
جب کبھی پیسہ خرچ کرنا ہو تو دو بار سوچو کہ کیا یہ خرچ بہت ضروری ہے؟'' اسی طرح ایک موقع پر قائداعظم نے اپنے معالج سے سگریٹ پینے کی اجازت مانگی۔ ڈاکٹر صاحب نے ایک سگریٹ کی اجازت دے دی لیکن ڈاکٹر ریاض علی شاہ نے ایک اور کا اضافہ کردیا اور انھیں کہا کہ دھواں حلق سے نیچے نہ جانے دیں۔
دوسری صبح ڈاکٹر الٰہی بخش اور ڈاکٹر شاہ قائداعظم کے پاس گئے، دیکھا تو ان کی ایش ٹرے میں چار جلے ہوئے سگریٹوں کے ٹکڑے پڑے ہوئے تھے۔ قائداعظم نے مسکرا کر کہا، ''آپ نے کہا تھا نا کہ دھواں حلق سے نیچے نہ جائے تو کوئی نقصان نہیں ہوگا، میں نے دھواں اندر جانے نہیں دیا۔'' قائداعظم ''کریون اے'' سگریٹ پسند کرتے تھے جو کوئٹہ میں دستیاب نہیں تھی۔
ڈاکٹر الٰہی بخش نے انھیں اپنا برانڈ پیش کیا اور ایک ان کے پاس چھوڑ دیا مگر دوسرے دن قائداعظم نے کہا کہ یہ سگریٹ باسی ہیں، لاہور سے تازہ منگوادو۔'' ڈاکٹر صاحب حیران ہوئے اس لیے کہ سگریٹ باسی نہیں تھے۔ انھیں بعد میں معلوم ہوا کہ قائداعظم پیسے دیے بغیر کسی کی کوئی پیشکش قبول نہیں کرتے ہیں۔
بیگم جنرل محمد اکبر خان نے انھیں ایک بار انگور بھیجے تو انھوں نے قبول تو کرلیے لیکن یہ بھی کہا کہ آیندہ انھیں ایسا کوئی تحفہ نہ بھیجا جائے۔ جنرل محمد اکبر خان نے جب قائداعظم کو گلاب کے پھول بھیجے تو انھوں نے شکریہ کے ساتھ یہ بھی فرمایا کہ آیندہ اس قسم کی زحمت نہ کی جائے۔
یہ تھے مملکتِ اسلامی جمہوریہ کے گورنر جنرل اور بانیٔ پاکستان۔ جنھوں نے اپنے خون سے پاکستان کی تاریخ رقم کی اور آج اسی پاکستان کا کیا حال ہے۔ اس مملکتِ پاک پر کیسے لوگوں کی حکومت ہے جو تحفتاً گلاب کے پھول اور انگوروں کے ٹوکرے لینے پر قطعی معترض نہیں ہیں بلکہ اپنے عوام کے منہ سے نوالہ تک چھیننے میں عار محسوس نہیں کرتے، جن کے ہاتھوں میں کشکول ہیں اور پوری دنیا سے بھیک لینے کے امیدوار، پاکستان کن لوگوں کے ہاتھوں میں پہنچ گیا ہے کہ جن کی نگاہیں صرف اور صرف ذاتی مفاد پر ٹکی رہتی ہیں اور ان کی بصیرت و بصارت وقتی اور وہ بھی ذاتی مفاد کو مدنظر رکھتی ہے۔
یہ اسی بانیٔ پاکستان کا وطن ہے جو صرف گرم کپڑے کو محض بیماری کی حالت میں بھی لینا گوارا نہیں کرتا ہے۔ لیکن اسی ملک میں منصوبہ بندی کے تحت لوٹ مار، بھتہ مافیا سرگرم ہے۔ مفاد پرست دوسرے کا رزقِ حلال اعتماد کے ساتھ بھتے کی شکل میں وصول کررہے ہیں، جیسے یہ ان کا ہی مال ہو۔
ڈاکٹر الٰہی بخش کا مضمون کتاب ''نقوشِ قائداعظم'' میں شامل ہے۔ اس کے مرتب پروفیسر رحیم بخش شاہین ہیں۔ اسی مضمون سے چند سطور: ڈاکٹر صاحب نے 9 اگست کی شام کو جب معائنہ کیا تو انھیں قائداعظم کے پائوں پر سوجن نظر آئی اور یہ علامت خطرناک تھی۔ انھوں نے محترمہ فاطمہ جناح سے کہا، بہتر ہے قائداعظم کو کوئٹہ لے چلیں کیونکہ زیارت کی بلندی ان کے لیے ٹھیک نہیں۔ قائداعظم سے ذکر کیا تو وہ مانے نہیں۔
انھوں نے تاریخ پوچھی تو ڈاکٹر صاحب نے 12 اگست کے بعد 13 اگست کہا، تو جذباتی لہجے میں انھوں نے کہا، کیا آپ کو معلوم نہیں اگلے روز پاکستان کی پہلی سالگرہ منائی جائے گی؟ میں 15 اگست کو صبح جائوں گا۔'' قائداعظم جیسے منجھے ہوئے وکیل کو قائل کرنا آسان کام نہ تھا لیکن آخرکار وہ مان گئے اور 13 اگست کو کوئٹہ روانہ ہونے کے لیے تیار ہوگئے۔ چار گھنٹوں کے بعد قائداعظم کو کوئٹہ ریذیڈنسی پہنچادیا گیا، انھیں اسٹریچر پر بالائی منزل میں سونے کے کمرے تک لے جایا گیا۔ ڈاکٹر الٰہی بخش نے نبض محسوس کی ہر دس یا پندرہویں دھڑکن کے بعد ایک دھڑکن غائب ہوتی تھی لیکن خون کا دبائو تسلی بخش تھا۔
دوسرے دن 14 اگست 1948 پاکستان کی پہلی سالگرہ تھی۔ قائداعظم کے چہرے پر تازگی تھی، کھانسی میں بھی افاقہ رہا، وہ بہت خوش تھے۔ مسکرا کر بولے جائو پاکستان کی سالگرہ منائو۔ 29 اگست کی صبح ڈاکٹر صاحب نے معائنہ کیا اور کہا آپ انشاء اﷲ ٹھیک ہوجائیں گے۔ قائداعظم نے عجیب لہجے میں جواب دیا، ''جب آپ زیارت میرے پاس آئے تھے تو میں زندہ رہنا چاہتا تھا، اب کوئی فرق نہیں پڑتا، میں مرجائوں یا زندہ رہوں۔''
ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ انھوں نے فرمایا میں نے جو کام ہاتھ میں لیا تھا وہ مکمل کردیا ہے۔ ایک موقع پر ڈاکٹر صاحب نے کہا انشاء اﷲ آپ زندہ رہیں گے۔ ''نہیں میں زندہ نہیں رہوں گا'' قائداعظم کے یہ آخری الفاظ تھے۔ پھر قائداعظم خاموش ہوگئے ہمیشہ کے لیے۔ موجودہ اور آنے والی نسلوں کے لیے یہ امانت پاکستان کی شکل میں سونپ گئے لیکن اس امانت میں کس کس طرح سے خیانت کی گئی، اس بات سے پاکستان کا بچّہ بچّہ واقف ہے۔
وہ ایک عظیم مقصد کو لے کر آگے بڑھے اور آخرکار کامیاب ہوئے لیکن ان خارزار راہوں پر چلتے ہوئے ان کے پیروں میں چھالے پڑ گئے، شبانہ روز کی جہدِ مسلسل نے صحت کو خراب کردیا لیکن اس عظیم ترین ہستی نے حوصلہ نہیں ہارا۔ دشمنوں کی مخالفت اور خونریزی کے باوجود وہ منزلِ مقصود کی طرف رواں دواں رہے۔
زندگی کے آخری دنوں میں جس ذہنی و جسمانی اذیت کا شکار رہے، اس کا احوال لیفٹیننٹ کرنل ڈاکٹر الٰہی بخش نے اپنے مضمون بعنوان ''قائداعظم کے آخری چند ایّام'' میں بے حد دردمندی کے ساتھ درج کیا ہے کہ ڈاکٹر الٰہی بخش معالج کی حیثیت سے ان کے ساتھ تھے اور موت کو شکستِ فاش دینے کے لیے ہر گھڑی کوشاں رہے، لیکن موت برحق ہے۔ ایک وقت مقرر ہے اس لمحے کو کوئی نہیں ٹال سکتا، بقول علامہ اقبال ؎
اوّل و آخر فنا، باطن و ظاہر فنا
نقشِ کہن ہو کہ نو منزل آخر فنا
ہے مگر اس نقش میں رنگِ ثبات دوام
جس کو کیا ہو کسی مردِ خدا نے تمام
ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں بدھوار 21 جولائی 1948 کی شام کا ذکر ہے، میں کھانے سے فارغ ہو کر مطالعے میں مصروف تھا، ٹیلی فون کی گھنٹی بجی۔ کراچی سے حکومتِ پاکستان کے سیکریٹری جنرل مسٹر محمد علی بول رہے تھے، میں لاہور میں تھا، انھوں نے مجھے کہا کہ میں قائداعظم کو دیکھنے کے لیے فوراً زیارت پہنچوں۔
قائداعظم کے متعلق مجھے معلوم ہوا کہ وہ انجکشنوں اور پیٹنٹ دوائیوں کو بری طرح ناپسند کرتے ہیں اور وہ یور ایکسیلینسی کہلوانا بھی پسند نہیں کرتے۔ گورنر جنرل کو یور ایکسیلینسی کہا جاتا ہے اور قائداعظم پاکستان کے گورنر جنرل تھے۔
جب میں محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ ان کے سونے کے کمرے میں داخل ہوا تو قائداعظم کو بستر پر لیٹے ہوئے دیکھا۔ میں نے ان سے پوچھا کہ ان کی صحت کیسی ہے؟ قائداعظم نے کہا ''پیٹ میں تکلیف ہے اور زیادہ کام کرنے اور پریشان رہنے کی وجہ سے جسم ٹوٹتا رہتا ہے، چالیس برسوں سے میں چودہ گھنٹے روزانہ کام کررہا ہوں، میں ہمیشہ بیماری سے ناواقف اور آزاد رہا، پچھلے چند برسوں سے بخار اور کھانسی کے حملے ہورہے ہیں، میرے بمبئی کے ڈاکٹر مجھے صحت یاب کرلیا کرتے تھے مگر ایک دو برس سے اس بیماری کے حملے زیادہ ہوگئے ہیں اور شدید بھی۔''
ڈاکٹر الٰہی بخش کی خوش قسمتی تھی کہ انھوں نے عظیم شخصیت کو قریب سے دیکھا، علاج کیا، مشورے دیے۔ قائداعظم کی لیبارٹری رپورٹ تسلی بخش نہیں تھی۔ ڈاکٹر صاحب نے محترمہ فاطمہ جناح کو اصل بیماری سے آگاہ کیا، وہ آبدیدہ ہوگئیں۔ ڈاکٹر الٰہی بخش نے یہ کہہ کر فاطمہ جناح کو تسلی دی کہ ساری قوم اپنے محبوب قائداعظم کی صحت کے لیے بدستِ دعا ہے، خدا قوم کی دعائیں سنے گا۔ فاطمہ جناح کے اصرار پر قائداعظم کو بتادیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ علاج کے لیے تعاون نہیں کریں گے۔ ڈاکٹر صاحب اس طرح رقم طراز ہیں کہ میں نے قائداعظم کو بتادیا۔ آہ قائداعظم کی عظمت اپنے متعلق ایسی جانکاہ خبر سن کر ان کے چہرے پر ذرّہ بھر تبدیلی نہ آئی۔ مجھ سے پوچھا ''آپ نے فاطمہ کو بتادیا ہے؟'' میں نے جواب دیا، ''ہاں۔'' انھوں نے کہا ''اسے نہیں بتانا چاہیے تھا، وہ آخر عورت ہے۔'' میں نے افسوس کا اظہار کرکے کہا کہ مریض کے کنبے کے کسی ذمے دار فرد کو اصل بیماری کا علم ہونا چاہیے۔
قائداعظم بولے، ''جو ہوگیا سو ہوگیا، مجھے اس بیماری کے متعلق سب کچھ بتادو۔ علاج کتنا لمبا ہوگا؟ کیا علاج کامیاب ہوگا؟ بلاجھجک بتادو۔'' محترمہ نے قائداعظم کی دیکھ بھال کے لیے تجربہ کار نرس رکھنے کے بارے میں پوچھا تو قائداعظم نے صاف انکار کردیا۔ کہنے لگے فاطمہ کی موجودگی میں مجھے نرس کی ضرورت نہیں ہے۔ قائداعظم سلک کا پاجامہ پہنے رہتے تھے جو ان کے جسم کو پوری حرارت نہیں دے سکتا تھا، جب ان سے پوچھے بغیر کراچی سے ان کے لیے گرم کپڑا منگوالیا اور جب قائداعظم کو دِکھایا تو انھوں نے کہا، ''سنو ڈاکٹر! میری ایک نصیحت یاد رکھو۔
جب کبھی پیسہ خرچ کرنا ہو تو دو بار سوچو کہ کیا یہ خرچ بہت ضروری ہے؟'' اسی طرح ایک موقع پر قائداعظم نے اپنے معالج سے سگریٹ پینے کی اجازت مانگی۔ ڈاکٹر صاحب نے ایک سگریٹ کی اجازت دے دی لیکن ڈاکٹر ریاض علی شاہ نے ایک اور کا اضافہ کردیا اور انھیں کہا کہ دھواں حلق سے نیچے نہ جانے دیں۔
دوسری صبح ڈاکٹر الٰہی بخش اور ڈاکٹر شاہ قائداعظم کے پاس گئے، دیکھا تو ان کی ایش ٹرے میں چار جلے ہوئے سگریٹوں کے ٹکڑے پڑے ہوئے تھے۔ قائداعظم نے مسکرا کر کہا، ''آپ نے کہا تھا نا کہ دھواں حلق سے نیچے نہ جائے تو کوئی نقصان نہیں ہوگا، میں نے دھواں اندر جانے نہیں دیا۔'' قائداعظم ''کریون اے'' سگریٹ پسند کرتے تھے جو کوئٹہ میں دستیاب نہیں تھی۔
ڈاکٹر الٰہی بخش نے انھیں اپنا برانڈ پیش کیا اور ایک ان کے پاس چھوڑ دیا مگر دوسرے دن قائداعظم نے کہا کہ یہ سگریٹ باسی ہیں، لاہور سے تازہ منگوادو۔'' ڈاکٹر صاحب حیران ہوئے اس لیے کہ سگریٹ باسی نہیں تھے۔ انھیں بعد میں معلوم ہوا کہ قائداعظم پیسے دیے بغیر کسی کی کوئی پیشکش قبول نہیں کرتے ہیں۔
بیگم جنرل محمد اکبر خان نے انھیں ایک بار انگور بھیجے تو انھوں نے قبول تو کرلیے لیکن یہ بھی کہا کہ آیندہ انھیں ایسا کوئی تحفہ نہ بھیجا جائے۔ جنرل محمد اکبر خان نے جب قائداعظم کو گلاب کے پھول بھیجے تو انھوں نے شکریہ کے ساتھ یہ بھی فرمایا کہ آیندہ اس قسم کی زحمت نہ کی جائے۔
یہ تھے مملکتِ اسلامی جمہوریہ کے گورنر جنرل اور بانیٔ پاکستان۔ جنھوں نے اپنے خون سے پاکستان کی تاریخ رقم کی اور آج اسی پاکستان کا کیا حال ہے۔ اس مملکتِ پاک پر کیسے لوگوں کی حکومت ہے جو تحفتاً گلاب کے پھول اور انگوروں کے ٹوکرے لینے پر قطعی معترض نہیں ہیں بلکہ اپنے عوام کے منہ سے نوالہ تک چھیننے میں عار محسوس نہیں کرتے، جن کے ہاتھوں میں کشکول ہیں اور پوری دنیا سے بھیک لینے کے امیدوار، پاکستان کن لوگوں کے ہاتھوں میں پہنچ گیا ہے کہ جن کی نگاہیں صرف اور صرف ذاتی مفاد پر ٹکی رہتی ہیں اور ان کی بصیرت و بصارت وقتی اور وہ بھی ذاتی مفاد کو مدنظر رکھتی ہے۔
یہ اسی بانیٔ پاکستان کا وطن ہے جو صرف گرم کپڑے کو محض بیماری کی حالت میں بھی لینا گوارا نہیں کرتا ہے۔ لیکن اسی ملک میں منصوبہ بندی کے تحت لوٹ مار، بھتہ مافیا سرگرم ہے۔ مفاد پرست دوسرے کا رزقِ حلال اعتماد کے ساتھ بھتے کی شکل میں وصول کررہے ہیں، جیسے یہ ان کا ہی مال ہو۔
ڈاکٹر الٰہی بخش کا مضمون کتاب ''نقوشِ قائداعظم'' میں شامل ہے۔ اس کے مرتب پروفیسر رحیم بخش شاہین ہیں۔ اسی مضمون سے چند سطور: ڈاکٹر صاحب نے 9 اگست کی شام کو جب معائنہ کیا تو انھیں قائداعظم کے پائوں پر سوجن نظر آئی اور یہ علامت خطرناک تھی۔ انھوں نے محترمہ فاطمہ جناح سے کہا، بہتر ہے قائداعظم کو کوئٹہ لے چلیں کیونکہ زیارت کی بلندی ان کے لیے ٹھیک نہیں۔ قائداعظم سے ذکر کیا تو وہ مانے نہیں۔
انھوں نے تاریخ پوچھی تو ڈاکٹر صاحب نے 12 اگست کے بعد 13 اگست کہا، تو جذباتی لہجے میں انھوں نے کہا، کیا آپ کو معلوم نہیں اگلے روز پاکستان کی پہلی سالگرہ منائی جائے گی؟ میں 15 اگست کو صبح جائوں گا۔'' قائداعظم جیسے منجھے ہوئے وکیل کو قائل کرنا آسان کام نہ تھا لیکن آخرکار وہ مان گئے اور 13 اگست کو کوئٹہ روانہ ہونے کے لیے تیار ہوگئے۔ چار گھنٹوں کے بعد قائداعظم کو کوئٹہ ریذیڈنسی پہنچادیا گیا، انھیں اسٹریچر پر بالائی منزل میں سونے کے کمرے تک لے جایا گیا۔ ڈاکٹر الٰہی بخش نے نبض محسوس کی ہر دس یا پندرہویں دھڑکن کے بعد ایک دھڑکن غائب ہوتی تھی لیکن خون کا دبائو تسلی بخش تھا۔
دوسرے دن 14 اگست 1948 پاکستان کی پہلی سالگرہ تھی۔ قائداعظم کے چہرے پر تازگی تھی، کھانسی میں بھی افاقہ رہا، وہ بہت خوش تھے۔ مسکرا کر بولے جائو پاکستان کی سالگرہ منائو۔ 29 اگست کی صبح ڈاکٹر صاحب نے معائنہ کیا اور کہا آپ انشاء اﷲ ٹھیک ہوجائیں گے۔ قائداعظم نے عجیب لہجے میں جواب دیا، ''جب آپ زیارت میرے پاس آئے تھے تو میں زندہ رہنا چاہتا تھا، اب کوئی فرق نہیں پڑتا، میں مرجائوں یا زندہ رہوں۔''
ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ انھوں نے فرمایا میں نے جو کام ہاتھ میں لیا تھا وہ مکمل کردیا ہے۔ ایک موقع پر ڈاکٹر صاحب نے کہا انشاء اﷲ آپ زندہ رہیں گے۔ ''نہیں میں زندہ نہیں رہوں گا'' قائداعظم کے یہ آخری الفاظ تھے۔ پھر قائداعظم خاموش ہوگئے ہمیشہ کے لیے۔ موجودہ اور آنے والی نسلوں کے لیے یہ امانت پاکستان کی شکل میں سونپ گئے لیکن اس امانت میں کس کس طرح سے خیانت کی گئی، اس بات سے پاکستان کا بچّہ بچّہ واقف ہے۔