کیا ایران کی پالیسیاں کامیاب رہیں
حزب اللہ کے پاس نہ بڑے ہتھیار نہ جدید ٹیکنالوجی اور نہ مضبوط مالی پوزیشن ہونے پر بھی اسرائیل کو ناکوں چنے چبوا دیے۔
ایران میں 1979ء میں انقلاب آیا۔ جس کے بعد مغرب نے ایران پر پابندیاں لگانا شروع کر دیں۔ عالمی معاشی پابندیوں کے باوجود دیکھا جائے تو ایران کے اندر معاشی حالات خطے کے دیگر ممالک سے زیادہ برے نہیں ہیں۔ تاہم دوسری طرف دیکھا جائے تو ایران تجارت اور معیشت کے اندر خاطر خواہ ترقی نہیں کر سکا اور نہ ہی تعلیم کے میدان میں ۔ اس کی وجہ مغرب کے ساتھ تعلقات کا خراب ہونا ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ دنیا میں جتنی بھی تحقیق اور اعلیٰ تعلیم ہے وہ مغرب کے ہی مرہون منت ہے۔ ان ممالک میں جانے کے لیے ایرانی طلباء کو کافی دشواریوں کا سامنا رہا ہے جن میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ دیکھا جائے تو ڈپلومیسی اور خارجہ پالیسی کے محاذ پر ایران نے گزشتہ 10 سے 15 سالوں میں کافی کامیابیاں سمیٹی ہیں۔ اس کے پیچھے ایران کے اندر ترقی پسند نظریہ رکھنے والے سیاستدانوں کی انتخابات میں جیت بھی ایک اہم وجہ ہے۔
ایران کے سابق صدر احمدی نژاد جو کہ قدامت پسند نظریہ رکھتے تھے، انھوں نے ایران کو صفحہ ہستی سے مٹانے کا بیان بھی دیا۔ اس سے ایران کا امیج دنیا بھر میں بہت متاثر ہوا۔ مگر احمدی نژاد کے حق میں یہ بات جاتی ہے کہ ان پر کرپشن کے الزامات نہیں لگے۔ انھوں نے صدر ہونے کے باوجود انتہائی سادہ زندگی گزاری۔ اس کے بعد صدر حسن روحانی آئے جو ترقی پسند خیالات رکھتے تھے۔ انھوں نے اقتدار میں آکر سفارتکاری کے نئے دور کا آغاز کیا جس کی وجہ سے مغرب اور امریکا سے نیوکلیئرڈیل ہوئی۔ جس سے ایران پر معاشی پابندیاں نرم ہوئیں۔ جس کے بعد ایران کو معاشی میدان میں بہت کامیابیاں حاصل ہو گئیں۔ اس ڈیل کے پیچھے بنیادی وجہ یہ بھی تھی کہ شام کی جنگ میں ایران نے اپنی پوری معیشت اور فوجی طاقت کو جھونک دیا تھا۔ایران نے یہاں تک بیان دے دیا کہ شام ایران کے جسم کا حصہ ہے جس کا بھر پور دفاع کریں گے۔ ایران نے شام کے دفاع کو مضبوط کیا۔
ایران کی ایک بہت بڑی کامیابی حزب اللہ بھی ہے۔ حزب اللہ لبنان میں مسلمانوں کی ایک انتہائی طاقتور سیاسی اور فوجی تنظیم خیال کی جاتی ہے۔ ایران کی مدد سے 1980ء میں تشکیل پانے والی اس جماعت نے لبنان سے اسرائیلی فوجی دستوں کے انخلاء کے لیے جدوجہد کی۔ جون 2006ء میں اسرائیل کے دو فوجیوں کے اغوا کے بعد اسرائیل نے لبنان پر حملہ کر دیا۔ اس وقت حزب اللہ جیسی چھوٹی جماعت نے اسرائیل کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ اس جنگ میں دنیا کی بڑی فوجی طاقت کو حزب اللہ کے ہاتھوں شکست ہوئی۔14اگست 2006ء کو اسرائیل نے جنگ بندی کا اعلان کر دیا۔
حزب اللہ کے پاس نہ بڑے ہتھیار نہ جدید ٹیکنالوجی اور نہ مضبوط مالی پوزیشن ہونے پر بھی اسرائیل کو ناکوں چنے چبوا دیے۔حزب اللہ نے ہمیشہ فلسطینیوں کا بھرپورساتھ دیا، بالخصوص حماس کا۔ جب شام میں جنگ ہوئی تو اس کے بعد حماس کے ساتھ حزب اللہ کے راستے جدا ہو گئے۔ حزب اللہ کی جو عرب ممالک میں مقبولیت تھی اس میں کمی آئی۔ عرب ممالک کی حکومت بالخصوص حکمرانوں کی حمایت شام کے باغیوں کے ساتھ تھی جب کہ شامی حکومت کو ایران اور حزب اللہ مدد فراہم کر رہے تھے۔
حزب اللہ کے سپریم لیڈر حسن نصراللہ نے بیان دیا تھا کہ وہ یہ جنگ جیت جائیں گے اور ان کی مخالف قوتیں جن کو مغرب، امریکا اور عرب ممالک مدد فراہم کر رہے ہیں وہ ناکام ہوں گی۔ جس وقت حسن نصراللہ نے یہ پیغام دیا تھا اس وقت شام میں 70 سے 80 فیصد علاقوں پر باغیوں کا قبضہ ہو چکا تھا۔ وہ دن نظر آتے تھے کہ باغی دمشق کے اوپر قبضہ کر لیں گے اور بشار الاسد کی حکومت الٹ جائے گی۔ جیسے ہی حزب اللہ شام کی جنگ میں شامل ہوئی تو اس نے جنگ کا پانسہ ہی پلٹ دیا۔
آج حزب اللہ کی گوریلا جنگ کی صلاحیت کا مغرب بھی معترف ہے۔ حزب کا لبنان میں سیاسی ونگ بھی ہے۔ اس نے لبنان کے اندر بہت سے ترقیاتی ادارے بھی کھول رکھے ہیں۔ حالیہ لبنان انتخابات میں حزب اللہ کو خاطر خواہ کامیابی حاصل ہوئی۔آج شام کا 80 فیصدشہری علاقہ شامی حکومت کے زیر اثر ہے۔ دیکھا جائے تو شام اور لبنان میں ایران کی پالیسیاں کامیاب ہوتیں معلوم ہوتی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس جنگ میں ایران کوشدید مالی اور جانی نقصان بھی اٹھانا پڑا۔
اسی طرح اگر عراق پر نظر ڈالیں تو حالیہ عراق انتخابات میں بھی 329 نشستوں میں سے مقتداالصدر کے اتحاد نے 54 نشستیں لیں۔ جب کہ نورالمالکی نے صرف 25 نشستیں جیتیں تاہم جو عراق میں اتحاد بنتا دکھائی دے رہا ہے۔ وہ ایران کے حق میں بہتر لگتا ہے۔ ایران کا اب شام عراق، لبنان میں اثر و رسوخ بڑھا ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ دنیا میں جتنی بھی تحقیق اور اعلیٰ تعلیم ہے وہ مغرب کے ہی مرہون منت ہے۔ ان ممالک میں جانے کے لیے ایرانی طلباء کو کافی دشواریوں کا سامنا رہا ہے جن میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ دیکھا جائے تو ڈپلومیسی اور خارجہ پالیسی کے محاذ پر ایران نے گزشتہ 10 سے 15 سالوں میں کافی کامیابیاں سمیٹی ہیں۔ اس کے پیچھے ایران کے اندر ترقی پسند نظریہ رکھنے والے سیاستدانوں کی انتخابات میں جیت بھی ایک اہم وجہ ہے۔
ایران کے سابق صدر احمدی نژاد جو کہ قدامت پسند نظریہ رکھتے تھے، انھوں نے ایران کو صفحہ ہستی سے مٹانے کا بیان بھی دیا۔ اس سے ایران کا امیج دنیا بھر میں بہت متاثر ہوا۔ مگر احمدی نژاد کے حق میں یہ بات جاتی ہے کہ ان پر کرپشن کے الزامات نہیں لگے۔ انھوں نے صدر ہونے کے باوجود انتہائی سادہ زندگی گزاری۔ اس کے بعد صدر حسن روحانی آئے جو ترقی پسند خیالات رکھتے تھے۔ انھوں نے اقتدار میں آکر سفارتکاری کے نئے دور کا آغاز کیا جس کی وجہ سے مغرب اور امریکا سے نیوکلیئرڈیل ہوئی۔ جس سے ایران پر معاشی پابندیاں نرم ہوئیں۔ جس کے بعد ایران کو معاشی میدان میں بہت کامیابیاں حاصل ہو گئیں۔ اس ڈیل کے پیچھے بنیادی وجہ یہ بھی تھی کہ شام کی جنگ میں ایران نے اپنی پوری معیشت اور فوجی طاقت کو جھونک دیا تھا۔ایران نے یہاں تک بیان دے دیا کہ شام ایران کے جسم کا حصہ ہے جس کا بھر پور دفاع کریں گے۔ ایران نے شام کے دفاع کو مضبوط کیا۔
ایران کی ایک بہت بڑی کامیابی حزب اللہ بھی ہے۔ حزب اللہ لبنان میں مسلمانوں کی ایک انتہائی طاقتور سیاسی اور فوجی تنظیم خیال کی جاتی ہے۔ ایران کی مدد سے 1980ء میں تشکیل پانے والی اس جماعت نے لبنان سے اسرائیلی فوجی دستوں کے انخلاء کے لیے جدوجہد کی۔ جون 2006ء میں اسرائیل کے دو فوجیوں کے اغوا کے بعد اسرائیل نے لبنان پر حملہ کر دیا۔ اس وقت حزب اللہ جیسی چھوٹی جماعت نے اسرائیل کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ اس جنگ میں دنیا کی بڑی فوجی طاقت کو حزب اللہ کے ہاتھوں شکست ہوئی۔14اگست 2006ء کو اسرائیل نے جنگ بندی کا اعلان کر دیا۔
حزب اللہ کے پاس نہ بڑے ہتھیار نہ جدید ٹیکنالوجی اور نہ مضبوط مالی پوزیشن ہونے پر بھی اسرائیل کو ناکوں چنے چبوا دیے۔حزب اللہ نے ہمیشہ فلسطینیوں کا بھرپورساتھ دیا، بالخصوص حماس کا۔ جب شام میں جنگ ہوئی تو اس کے بعد حماس کے ساتھ حزب اللہ کے راستے جدا ہو گئے۔ حزب اللہ کی جو عرب ممالک میں مقبولیت تھی اس میں کمی آئی۔ عرب ممالک کی حکومت بالخصوص حکمرانوں کی حمایت شام کے باغیوں کے ساتھ تھی جب کہ شامی حکومت کو ایران اور حزب اللہ مدد فراہم کر رہے تھے۔
حزب اللہ کے سپریم لیڈر حسن نصراللہ نے بیان دیا تھا کہ وہ یہ جنگ جیت جائیں گے اور ان کی مخالف قوتیں جن کو مغرب، امریکا اور عرب ممالک مدد فراہم کر رہے ہیں وہ ناکام ہوں گی۔ جس وقت حسن نصراللہ نے یہ پیغام دیا تھا اس وقت شام میں 70 سے 80 فیصد علاقوں پر باغیوں کا قبضہ ہو چکا تھا۔ وہ دن نظر آتے تھے کہ باغی دمشق کے اوپر قبضہ کر لیں گے اور بشار الاسد کی حکومت الٹ جائے گی۔ جیسے ہی حزب اللہ شام کی جنگ میں شامل ہوئی تو اس نے جنگ کا پانسہ ہی پلٹ دیا۔
آج حزب اللہ کی گوریلا جنگ کی صلاحیت کا مغرب بھی معترف ہے۔ حزب کا لبنان میں سیاسی ونگ بھی ہے۔ اس نے لبنان کے اندر بہت سے ترقیاتی ادارے بھی کھول رکھے ہیں۔ حالیہ لبنان انتخابات میں حزب اللہ کو خاطر خواہ کامیابی حاصل ہوئی۔آج شام کا 80 فیصدشہری علاقہ شامی حکومت کے زیر اثر ہے۔ دیکھا جائے تو شام اور لبنان میں ایران کی پالیسیاں کامیاب ہوتیں معلوم ہوتی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس جنگ میں ایران کوشدید مالی اور جانی نقصان بھی اٹھانا پڑا۔
اسی طرح اگر عراق پر نظر ڈالیں تو حالیہ عراق انتخابات میں بھی 329 نشستوں میں سے مقتداالصدر کے اتحاد نے 54 نشستیں لیں۔ جب کہ نورالمالکی نے صرف 25 نشستیں جیتیں تاہم جو عراق میں اتحاد بنتا دکھائی دے رہا ہے۔ وہ ایران کے حق میں بہتر لگتا ہے۔ ایران کا اب شام عراق، لبنان میں اثر و رسوخ بڑھا ہے۔