سندھ حکومت کے بدترین پانچ سال
حکومتی رٹ کا یہ عالم رہا کہ شعبہ صحت میں ایمرجنسی لگانے کے باوجود صحت کے شعبہ کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کردیا گیا ہے
27مئی کو سندھ حکومت کی قانونی میعاد ختم ہوگئی جس کے ساتھ ہی پیپلز پارٹی کے سندھ پر اقتدار کے 10برس پورے ہوئے ۔ سندھ کے لیے یہ دس سال بالخصوص دوسرا 5سالہ عرصۂ حکومت کیسا رہا ؟ اس کے لیے انسانی ترقی کی بنیادی اقدار کا جائزہ لیں تو نظر آتا ہے کہ ایک طرف تو یہ صورتحال ہے کہ سالانہ کھربوں روپے کے جنرل بجٹ اور پانچ برسوں میں بالخصوص تقریباً 800ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ ختم کرنے والی حکومت سندھ صوبہ کے عوام کو صحت، تعلیم، امن و امان اور پانی جیسی بنیادی سہولیات تک فراہم نہیں کرسکی ہے۔
صوبے بھر کے قلت آب والے علاقوں میں لوگ آج بھی کئی کئی میل دور سے پانی سروں اور جانوروں پر لاد کر گھروں تک لاتے ہیں۔ بڑے شہروں میں فراہمی آب کے اداروں میں بد انتظامی اور کرپشن نے عوام کو بے حال کر کے واٹر مافیا کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔صوبائی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی سمجھی جانے والی زراعت کے لیے پانی کی عدم دستیابی کا یہ عالم ہے کہ عالمی طور پر مشہور سندھ کی کپاس کی پیداوار نصف سے بھی کم ہوکر رہ گئی ہے۔
شوگر انڈسٹری کی تباہی کا یہ عالم ہے کہ گنے کے کاشتکاروں نے گذشتہ سال مناسب قیمت دینے کے لیے مسلسل روڈوں پر احتجاج کیے لیکن کچھ حاصل نہ ہونے پر اپنی کھڑی فصلوں کو آگ لگادی ۔ جب کہ سندھ کے عوام کی بنیادی ضروریات سے تعلق رکھنے والی وزارتوں کے امور تو ایسے چھپا اور الجھا کے رکھے گئے کہ بظاہر محکموں کے وزیر نظر آنے والوں تک کو اپنے محکمہ کے اُمور پر کنٹرول نہ تھا بلکہ کوئی پوشیدہ بااثر افراد اُن محکموں کے کرتا دھرتا بنے رہے جنھیں موقع پرست بیوروکریٹس ڈیڈی یا انکل کہہ کر پکارا کرتے یعنی یہ محکمے مافیاؤں کے قبضے میں رہے ۔
شہروں میں گندگی کے ڈھیر دیکھ کر گمان ہونے لگا کہ حکومت کچرے کو نایاب جان کرشاید اُسے بڑی مقدار میں جمع کرنے کی مہم چلارہی ہے ۔ 2016میں کراچی میں ماحول دشمن بیرونی درخت Conocarpusپر اپنی جانب سے لگائی گئی پابندی پر بھی آج تک عمل نہ کرواس کی اور نہ ہی ان ضرر رساں درختوں کو کاٹ کر مقامی ماحول دوست درخت لگانے پر عمل کرسکی۔
حکومتی رٹ کا یہ عالم رہا کہ شعبہ صحت میں ایمرجنسی لگانے کے باوجود صحت کے شعبہ کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کر دیا گیا ہے، سرکاری اسپتالوں میں ناقص ادویات کی فراہمی اور صفائی ستھرائی کی ابتر صورتحال نے تو انسانی زندگیاں بچانے کی شرح میں کمی اور گنوانے کی شرح میں اضافہ کر دیا ہے۔
پیپلز پارٹی کے اس 10سالہ دور کو اگر دوسرے زاویے سے دیکھا جائے تو نظر آتا ہے کہ صوبہ کو اپنے وسائل پر حق نہ ملنے ، روزگار کے مواقع میں وفاقی نوکریوں میں سندھ کے کوٹا پر دیگر صوبوں کے لوگوں کی تقرریاں، سندھ کے ساتھ کی جانے والی ہرزہ سرائیاں جیسے چشمہ جہلم لنک کینال کو زبردستی چلانا ، کوٹری ڈاؤن اسٹریم کے لیے پانی کی عدم فراہمی، سندھ کو حصے سے کم پانی کی فراہمی ،سندھ کو اپنی قدرتی گیس سے محروم کرنا ، بجلی اور سی این جی گیس کی لوڈ شیڈنگ ، ونڈ اور سولر انرجی کی پیداوار کے لیے وفاق کی جانب سے ٹرانسمیشن لائین و دیگر انتظامات و رجسٹریشن کے انتظامات نہ کرنے پر صوبائی حکومت کی مجرمانہ خاموشی بھی حکومت کی روایتی کرپشن اور سندھ سے لاتعلقی کی نشاندہی کرتی ہے ۔
ان دس برسوں کے دوران دیگربڑے نقصانات کے ساتھ سندھ کے عوام کو یہ نقصان بھی ہوا ہے کہ ملکی سطح پر اُن کا عمومی تاثر خراب ہوا ہے ۔ سندھ کے شہروں ، پنجاب ، کے پی کے اور اسلام آباد میں رہنے والے عوام و خواص پیپلز پارٹی کی طرز ِ حکومت اور ان کے اہم رہنماؤں کے طریقہ کار ، بدترین کرپشن ، اچانک کروڑ و ارب پتی بننے کے باعث سندھیوں کی اکثریت کو کرپٹ، جاہل ، نااہل اور پی پی پی کی کرپشن کا حمایتی اور شراکت دار سمجھنے لگے ہیں ۔ اور اس کو وجہ بنا کر سندھ کے فیصلوں میں وفاق و دیگر صوبوں کی جانب سے دخل اندازی کی جاتی ہے ۔
پیپلز پارٹی کے گذشتہ 5سالوں کے دوران سندھ حکومت کی باگ ڈور پہلے تین سال اور کچھ مہینے سید قائم علی شاہ کے ہاتھ رہی جو خود کرپٹ تو نہیں تھے لیکن کرپٹ لوگوں کی سرپرستی کرنے، صوبائی انتظامی اُمور پر مکمل گرفت و ادراک نہ رکھنے اور پھرپارٹی کمانڈ کی جانب سے بے جا پریشرو مداخلت کی وجہ سے اُن کے دور نے بھی سندھ کو سیاہی کے سوا کچھ نہ دیا ۔ پھرباقی عرصہ فلمی ہیرو انیل کپور کے اسٹائل سے متاثر سید مراد علی شاہ سندھ حکومت کے نگران ِ اعلیٰ بنے ۔
جنھوں نے گیدڑ بھبکیوں اور شیخ چلی کی طرح سپننے بُننے کے علاوہ کوئی کام نہ کیا ۔ تعلیم کی ایمرجنسی کا اعلان کردیا لیکن عملی طور پر ہنگامی اقدامات تو رہے ایک طرف عمومی فرائض بھی سرانجام نہیں دیے ۔ آج بھی صوبہ بھر میں 12000کے قریب اسکول بند پڑے ہیں جب کہ صوبہ بھر میں بھاری فیسوں والے نجی اسکول قائم کرکے عوام کو تعلیم کے بنیادی حق سے محروم کرنے کی کوشش پر بھی سندھ حکومت کی جانب سے کوئی واضح پالیسی نہ رکھنے کی وجہ سے معاملہ عدالت ِ عظمیٰ کی شنوائیوں میں اٹکا ہوا ہے۔
جب کہ عالمی و ملکی سروے کے مطابق سندھ کی شرح ِ ناخواندگی دیگر صوبوں کی نسبت زیادہ ہے ۔دوسری طرف کونسلر سطح کے صفائی ستھرائی کے کاموں کے لیے رات کو کراچی کی سڑکوں پر چھاپے مارے لیکن کچرے کا ڈھیر بنے صوبہ کو عملی طور پر صاف ستھرا کرنے کے انتظامات نہیں کیے۔ تھر میں گندم کی بوریاں بانٹتے ہوئے اپنی اور اپنے پارٹی قائد کی تصویریں تو بنوائیں لیکن کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزارنے والے تھر کے عوام کی بدحالی کے خاتمے کے لیے کوئی خصوصی اقدامات نہیں کیے ۔
کراچی میں کچھ انڈر پاس و سڑکوںکی تعمیر اورتزئین و آرائش واقعی ان کا اچھا کام ہے لیکن کراچی میں ماس ٹرانزٹ کی باتیں سنتے سنتے کان پک گئے ہیں لیکن ابھی تک گراؤنڈ پر کچھ نظر نہیں آرہا ۔ لاہور میں تو اورنج ٹرین و بس سروس شروع بھی ہوگئی لیکن کراچی میں پہلے سے موجود سرکر ریلوے کی بچھی پٹڑیاں تک چوری ہوگئیں اور صرف ان کو بحال کرکے بھی فعال نہیں کیا جاسکا۔
کرپشن ، اقربا پروری اور سیاسی مداخلت کی انتہا کی وجہ سے کراچی کے انفرااسٹرکچر کے ذمے دار ادارے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی و محکمہ بلدیات کی نااہلی کی وجہ سے شہر کا یہ حال ہے کہ گرمی ہو یا مون سون دونوں ہی صورتوں میں لوگوں کے مرنے کا اندیشہ رہتا ہے ۔ جب کہ نالوں و سرکاری زمینوں پر سے قبضے نہیں چھڑائے گئے۔ کہتے ہیں کہ ''سات گھر تو ڈائن بھی چھوڑ دیتی ہے '' لیکن شاید یہ ڈائن نہیں ڈریکولا یعنی خون چوسنے والے درندے ہیں جو جسم سے آخری قطرے تک کو چوس لیتے ہیں ، تبھی تو مجموعی طور 113ارب کی خطیر رقم خرچ ہونیکے باوجود لاڑکانہ کھنڈر بنا ہوا ہے ۔
سندھ حکومت کی جانب سے ایک واحد ترقی کا کام تھر کے کوئلے پر اینگرو کول کمپنی سے معاہدہ کرکے تھر کول پروجیکٹ میں تیزی لانا قابل تحسین کام ہے لیکن ایشیا کے سب سے بڑے پروجیکٹ کا درجہ رکھنے والے تھر کول پروجیکٹ سے مقامی لوگوں کے مستفید ہونے کے لیے بھی کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے گئے۔
نہ یہاں فنی و ہنر کے تربیتی ادارے قائم کیے گئے ہیں اور نہ ہی وہاں کی عام آبادی کے لیے فلاح و بہبود کا کوئی بڑا پروگرام شروع کیا گیا ہے، پروجیکٹ کی وجہ سے دربدر ہونے والے مقامی لوگوں کی بحالی و معاوضہ سے لے کر تھر کے پُرکشش فطرتی ماحول کے تحفظ کے لیے بھی کوئی خاص انتظام نہیں کیا گیا بلکہ اُلٹا تھر کے سب سے زرخیز حصے پر کول فیلڈ سے نکلنے والے زہریلے پانی کا ڈیم بناکر یہاں کے فطرتی حسن کوبھی متاثر کردیاگیا ہے ۔
حالانکہ پاکستان پیپلز پارٹی کی تاریخ جمہوری طرز کی رہی ہے ۔اسٹیٹس کو سے ٹکرانے اور عوام کو طاقت کا سرچشمہ سمجھنے اور ماضی کے تمام ڈکٹیٹرز کی راتوں کی نیند حرام کردینے والی اس جماعت کو کوئی سپر پاور بھی ختم نہ کرسکی لیکن گذشتہ 10برس کی خراب طرز ِ حکمرانی نے اس پارٹی کو اپنے ہی گھرسندھ کو اگر کھنڈر بنادیا ہے تو اس کی وجہ بے انتہا کرپشن ، اقربا پروری، اختیارات کا ناجائز استعمال اور غیر جمہوری و غیر اخلاقی رویے ہیں جو بھٹو کی اس جماعت کے موجودہ رہنماؤں کی جانب سے اختیار کیے گئے ہیں۔
اس جمہوری جماعت کی ماتحت حکومت ِ سندھ کی جانب سے صوبہ میں اساتذہ ، محکمہ صحت کے ملازمین وعوام کے اپنے حقوق کے لیے کیے گئے احتجاجی مظاہروں پربدترین تشدد بھی سندھ کے عوام کے رویوں میں آنے والی تبدیلی کی ایک وجہ ہے ،جب کہ حال ہی میں کراچی پریس کلب پر مسنگ پرسنس کی بازیابی کے لیے سندھ کے ادباء ، شعراء اور سول سوسائٹی کی جانب سے کیے جانے والے احتجاج میں مظاہرین پر سرکاری تشدد نے تو سندھ میں پی پی پی کی سندھ حکومت پر تنقید کے دروازے کھول دیے ہیں ۔ سندھ کا ترقیاتی بجٹ ویسے ہی کم ہے اوپر سے ہر سال مختلف محکموں کی جانب سے بجٹ استعمال نہ کرسکنے کی وجہ سے فنڈز کا Lapseہوجانا بھی سندھ حکومت کی نااہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
متذکرہ بالا عوامل کی بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ سندھ حکومت کے گذشتہ پانچ سال سندھ کے لیے سیاہ ترین پانچ سال رہے ۔اس دور میں پالیسیوں اور سرکاری اقدامات میں توازن نہ ہونے کی وجہ سے سندھ کی مستقل آبادیوں یعنی سندھی بولنے والی اور اردو بولنے والی آبادیوں کے درمیان کشیدگی بھی صوبہ کو جھیلنی پڑی۔
اچھی کارکردگی نہ ہونے کی وجہ سے جب بھی عوام کی جانب سے پی پی پی کی سندھ حکومت پر تنقید ہوتی تو وہ اس وقت اپنی غیراعلانیہ پارٹنر بنی ہوئی جماعت ایم کیو ایم کے ساتھ ملکرایسی کشیدگی کاماحول برپا کردیتی تھی جس طرح اپنے پانچ سالہ اقتدار کے آخری ہفتے میں پی پی پی کے وزیر اعلیٰ نے صوبہ بنانے والی بات چھیڑی اور پھر اس کا مطالبہ کرنے والوں پر لعنت بھیج کرآئندہ الیکشن کے لیے سندھی بولنے والی آبادی کی ہمدردیاں حاصل کرنی چاہیںاوردوسری جانب ایم کیوایم کوبھی آئندہ الیکشن میں اپنا ووٹ بینک بڑھانے کا ماحول فراہم کیا۔
حاصل مطلب یہ ہے کہ نئے انتخابات میں عوام کو ایک مرتبہ پھر موقع دیا ہے کہ وہ اپنے بنیادی حقوق تمام صوبے کی ترقی اور وسائل پر اختیار حاصل کرنے کے لیے اپنے ووٹ کا استعمال کریں اور آئندہ ایسی کسی جماعت کے انتخاب سے اجتناب برتیںجو کرپشن، اقربا پروری اور نااہلی کا ریکارڈ رکھتی ہویا پھر صوبے میںامن و ہم آہنگی کے ماحول کے فروغ کے بجائے انتشار اور بدامنی کے باعث امور و موضوعات میں اضافے کا سبب بنے ۔
صوبے بھر کے قلت آب والے علاقوں میں لوگ آج بھی کئی کئی میل دور سے پانی سروں اور جانوروں پر لاد کر گھروں تک لاتے ہیں۔ بڑے شہروں میں فراہمی آب کے اداروں میں بد انتظامی اور کرپشن نے عوام کو بے حال کر کے واٹر مافیا کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔صوبائی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی سمجھی جانے والی زراعت کے لیے پانی کی عدم دستیابی کا یہ عالم ہے کہ عالمی طور پر مشہور سندھ کی کپاس کی پیداوار نصف سے بھی کم ہوکر رہ گئی ہے۔
شوگر انڈسٹری کی تباہی کا یہ عالم ہے کہ گنے کے کاشتکاروں نے گذشتہ سال مناسب قیمت دینے کے لیے مسلسل روڈوں پر احتجاج کیے لیکن کچھ حاصل نہ ہونے پر اپنی کھڑی فصلوں کو آگ لگادی ۔ جب کہ سندھ کے عوام کی بنیادی ضروریات سے تعلق رکھنے والی وزارتوں کے امور تو ایسے چھپا اور الجھا کے رکھے گئے کہ بظاہر محکموں کے وزیر نظر آنے والوں تک کو اپنے محکمہ کے اُمور پر کنٹرول نہ تھا بلکہ کوئی پوشیدہ بااثر افراد اُن محکموں کے کرتا دھرتا بنے رہے جنھیں موقع پرست بیوروکریٹس ڈیڈی یا انکل کہہ کر پکارا کرتے یعنی یہ محکمے مافیاؤں کے قبضے میں رہے ۔
شہروں میں گندگی کے ڈھیر دیکھ کر گمان ہونے لگا کہ حکومت کچرے کو نایاب جان کرشاید اُسے بڑی مقدار میں جمع کرنے کی مہم چلارہی ہے ۔ 2016میں کراچی میں ماحول دشمن بیرونی درخت Conocarpusپر اپنی جانب سے لگائی گئی پابندی پر بھی آج تک عمل نہ کرواس کی اور نہ ہی ان ضرر رساں درختوں کو کاٹ کر مقامی ماحول دوست درخت لگانے پر عمل کرسکی۔
حکومتی رٹ کا یہ عالم رہا کہ شعبہ صحت میں ایمرجنسی لگانے کے باوجود صحت کے شعبہ کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کر دیا گیا ہے، سرکاری اسپتالوں میں ناقص ادویات کی فراہمی اور صفائی ستھرائی کی ابتر صورتحال نے تو انسانی زندگیاں بچانے کی شرح میں کمی اور گنوانے کی شرح میں اضافہ کر دیا ہے۔
پیپلز پارٹی کے اس 10سالہ دور کو اگر دوسرے زاویے سے دیکھا جائے تو نظر آتا ہے کہ صوبہ کو اپنے وسائل پر حق نہ ملنے ، روزگار کے مواقع میں وفاقی نوکریوں میں سندھ کے کوٹا پر دیگر صوبوں کے لوگوں کی تقرریاں، سندھ کے ساتھ کی جانے والی ہرزہ سرائیاں جیسے چشمہ جہلم لنک کینال کو زبردستی چلانا ، کوٹری ڈاؤن اسٹریم کے لیے پانی کی عدم فراہمی، سندھ کو حصے سے کم پانی کی فراہمی ،سندھ کو اپنی قدرتی گیس سے محروم کرنا ، بجلی اور سی این جی گیس کی لوڈ شیڈنگ ، ونڈ اور سولر انرجی کی پیداوار کے لیے وفاق کی جانب سے ٹرانسمیشن لائین و دیگر انتظامات و رجسٹریشن کے انتظامات نہ کرنے پر صوبائی حکومت کی مجرمانہ خاموشی بھی حکومت کی روایتی کرپشن اور سندھ سے لاتعلقی کی نشاندہی کرتی ہے ۔
ان دس برسوں کے دوران دیگربڑے نقصانات کے ساتھ سندھ کے عوام کو یہ نقصان بھی ہوا ہے کہ ملکی سطح پر اُن کا عمومی تاثر خراب ہوا ہے ۔ سندھ کے شہروں ، پنجاب ، کے پی کے اور اسلام آباد میں رہنے والے عوام و خواص پیپلز پارٹی کی طرز ِ حکومت اور ان کے اہم رہنماؤں کے طریقہ کار ، بدترین کرپشن ، اچانک کروڑ و ارب پتی بننے کے باعث سندھیوں کی اکثریت کو کرپٹ، جاہل ، نااہل اور پی پی پی کی کرپشن کا حمایتی اور شراکت دار سمجھنے لگے ہیں ۔ اور اس کو وجہ بنا کر سندھ کے فیصلوں میں وفاق و دیگر صوبوں کی جانب سے دخل اندازی کی جاتی ہے ۔
پیپلز پارٹی کے گذشتہ 5سالوں کے دوران سندھ حکومت کی باگ ڈور پہلے تین سال اور کچھ مہینے سید قائم علی شاہ کے ہاتھ رہی جو خود کرپٹ تو نہیں تھے لیکن کرپٹ لوگوں کی سرپرستی کرنے، صوبائی انتظامی اُمور پر مکمل گرفت و ادراک نہ رکھنے اور پھرپارٹی کمانڈ کی جانب سے بے جا پریشرو مداخلت کی وجہ سے اُن کے دور نے بھی سندھ کو سیاہی کے سوا کچھ نہ دیا ۔ پھرباقی عرصہ فلمی ہیرو انیل کپور کے اسٹائل سے متاثر سید مراد علی شاہ سندھ حکومت کے نگران ِ اعلیٰ بنے ۔
جنھوں نے گیدڑ بھبکیوں اور شیخ چلی کی طرح سپننے بُننے کے علاوہ کوئی کام نہ کیا ۔ تعلیم کی ایمرجنسی کا اعلان کردیا لیکن عملی طور پر ہنگامی اقدامات تو رہے ایک طرف عمومی فرائض بھی سرانجام نہیں دیے ۔ آج بھی صوبہ بھر میں 12000کے قریب اسکول بند پڑے ہیں جب کہ صوبہ بھر میں بھاری فیسوں والے نجی اسکول قائم کرکے عوام کو تعلیم کے بنیادی حق سے محروم کرنے کی کوشش پر بھی سندھ حکومت کی جانب سے کوئی واضح پالیسی نہ رکھنے کی وجہ سے معاملہ عدالت ِ عظمیٰ کی شنوائیوں میں اٹکا ہوا ہے۔
جب کہ عالمی و ملکی سروے کے مطابق سندھ کی شرح ِ ناخواندگی دیگر صوبوں کی نسبت زیادہ ہے ۔دوسری طرف کونسلر سطح کے صفائی ستھرائی کے کاموں کے لیے رات کو کراچی کی سڑکوں پر چھاپے مارے لیکن کچرے کا ڈھیر بنے صوبہ کو عملی طور پر صاف ستھرا کرنے کے انتظامات نہیں کیے۔ تھر میں گندم کی بوریاں بانٹتے ہوئے اپنی اور اپنے پارٹی قائد کی تصویریں تو بنوائیں لیکن کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزارنے والے تھر کے عوام کی بدحالی کے خاتمے کے لیے کوئی خصوصی اقدامات نہیں کیے ۔
کراچی میں کچھ انڈر پاس و سڑکوںکی تعمیر اورتزئین و آرائش واقعی ان کا اچھا کام ہے لیکن کراچی میں ماس ٹرانزٹ کی باتیں سنتے سنتے کان پک گئے ہیں لیکن ابھی تک گراؤنڈ پر کچھ نظر نہیں آرہا ۔ لاہور میں تو اورنج ٹرین و بس سروس شروع بھی ہوگئی لیکن کراچی میں پہلے سے موجود سرکر ریلوے کی بچھی پٹڑیاں تک چوری ہوگئیں اور صرف ان کو بحال کرکے بھی فعال نہیں کیا جاسکا۔
کرپشن ، اقربا پروری اور سیاسی مداخلت کی انتہا کی وجہ سے کراچی کے انفرااسٹرکچر کے ذمے دار ادارے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی و محکمہ بلدیات کی نااہلی کی وجہ سے شہر کا یہ حال ہے کہ گرمی ہو یا مون سون دونوں ہی صورتوں میں لوگوں کے مرنے کا اندیشہ رہتا ہے ۔ جب کہ نالوں و سرکاری زمینوں پر سے قبضے نہیں چھڑائے گئے۔ کہتے ہیں کہ ''سات گھر تو ڈائن بھی چھوڑ دیتی ہے '' لیکن شاید یہ ڈائن نہیں ڈریکولا یعنی خون چوسنے والے درندے ہیں جو جسم سے آخری قطرے تک کو چوس لیتے ہیں ، تبھی تو مجموعی طور 113ارب کی خطیر رقم خرچ ہونیکے باوجود لاڑکانہ کھنڈر بنا ہوا ہے ۔
سندھ حکومت کی جانب سے ایک واحد ترقی کا کام تھر کے کوئلے پر اینگرو کول کمپنی سے معاہدہ کرکے تھر کول پروجیکٹ میں تیزی لانا قابل تحسین کام ہے لیکن ایشیا کے سب سے بڑے پروجیکٹ کا درجہ رکھنے والے تھر کول پروجیکٹ سے مقامی لوگوں کے مستفید ہونے کے لیے بھی کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے گئے۔
نہ یہاں فنی و ہنر کے تربیتی ادارے قائم کیے گئے ہیں اور نہ ہی وہاں کی عام آبادی کے لیے فلاح و بہبود کا کوئی بڑا پروگرام شروع کیا گیا ہے، پروجیکٹ کی وجہ سے دربدر ہونے والے مقامی لوگوں کی بحالی و معاوضہ سے لے کر تھر کے پُرکشش فطرتی ماحول کے تحفظ کے لیے بھی کوئی خاص انتظام نہیں کیا گیا بلکہ اُلٹا تھر کے سب سے زرخیز حصے پر کول فیلڈ سے نکلنے والے زہریلے پانی کا ڈیم بناکر یہاں کے فطرتی حسن کوبھی متاثر کردیاگیا ہے ۔
حالانکہ پاکستان پیپلز پارٹی کی تاریخ جمہوری طرز کی رہی ہے ۔اسٹیٹس کو سے ٹکرانے اور عوام کو طاقت کا سرچشمہ سمجھنے اور ماضی کے تمام ڈکٹیٹرز کی راتوں کی نیند حرام کردینے والی اس جماعت کو کوئی سپر پاور بھی ختم نہ کرسکی لیکن گذشتہ 10برس کی خراب طرز ِ حکمرانی نے اس پارٹی کو اپنے ہی گھرسندھ کو اگر کھنڈر بنادیا ہے تو اس کی وجہ بے انتہا کرپشن ، اقربا پروری، اختیارات کا ناجائز استعمال اور غیر جمہوری و غیر اخلاقی رویے ہیں جو بھٹو کی اس جماعت کے موجودہ رہنماؤں کی جانب سے اختیار کیے گئے ہیں۔
اس جمہوری جماعت کی ماتحت حکومت ِ سندھ کی جانب سے صوبہ میں اساتذہ ، محکمہ صحت کے ملازمین وعوام کے اپنے حقوق کے لیے کیے گئے احتجاجی مظاہروں پربدترین تشدد بھی سندھ کے عوام کے رویوں میں آنے والی تبدیلی کی ایک وجہ ہے ،جب کہ حال ہی میں کراچی پریس کلب پر مسنگ پرسنس کی بازیابی کے لیے سندھ کے ادباء ، شعراء اور سول سوسائٹی کی جانب سے کیے جانے والے احتجاج میں مظاہرین پر سرکاری تشدد نے تو سندھ میں پی پی پی کی سندھ حکومت پر تنقید کے دروازے کھول دیے ہیں ۔ سندھ کا ترقیاتی بجٹ ویسے ہی کم ہے اوپر سے ہر سال مختلف محکموں کی جانب سے بجٹ استعمال نہ کرسکنے کی وجہ سے فنڈز کا Lapseہوجانا بھی سندھ حکومت کی نااہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
متذکرہ بالا عوامل کی بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ سندھ حکومت کے گذشتہ پانچ سال سندھ کے لیے سیاہ ترین پانچ سال رہے ۔اس دور میں پالیسیوں اور سرکاری اقدامات میں توازن نہ ہونے کی وجہ سے سندھ کی مستقل آبادیوں یعنی سندھی بولنے والی اور اردو بولنے والی آبادیوں کے درمیان کشیدگی بھی صوبہ کو جھیلنی پڑی۔
اچھی کارکردگی نہ ہونے کی وجہ سے جب بھی عوام کی جانب سے پی پی پی کی سندھ حکومت پر تنقید ہوتی تو وہ اس وقت اپنی غیراعلانیہ پارٹنر بنی ہوئی جماعت ایم کیو ایم کے ساتھ ملکرایسی کشیدگی کاماحول برپا کردیتی تھی جس طرح اپنے پانچ سالہ اقتدار کے آخری ہفتے میں پی پی پی کے وزیر اعلیٰ نے صوبہ بنانے والی بات چھیڑی اور پھر اس کا مطالبہ کرنے والوں پر لعنت بھیج کرآئندہ الیکشن کے لیے سندھی بولنے والی آبادی کی ہمدردیاں حاصل کرنی چاہیںاوردوسری جانب ایم کیوایم کوبھی آئندہ الیکشن میں اپنا ووٹ بینک بڑھانے کا ماحول فراہم کیا۔
حاصل مطلب یہ ہے کہ نئے انتخابات میں عوام کو ایک مرتبہ پھر موقع دیا ہے کہ وہ اپنے بنیادی حقوق تمام صوبے کی ترقی اور وسائل پر اختیار حاصل کرنے کے لیے اپنے ووٹ کا استعمال کریں اور آئندہ ایسی کسی جماعت کے انتخاب سے اجتناب برتیںجو کرپشن، اقربا پروری اور نااہلی کا ریکارڈ رکھتی ہویا پھر صوبے میںامن و ہم آہنگی کے ماحول کے فروغ کے بجائے انتشار اور بدامنی کے باعث امور و موضوعات میں اضافے کا سبب بنے ۔