زبان یار من ترکی
امیر خسرو سے لے کر اب تک جن سیکڑوں اہم شعراء نے اس زبان میں شاعری کی ہے ان میں سے بیشتر کی مادری زبان کوئی اور تھی۔
''پردیسی'' کے عنوان سے حال ہی میں چھپنے والا ڈاکٹر خلیل طوقار خلیل کا تیسرا شعری مجموعہ اس وقت میرے سامنے ہے۔ اس کتاب کی شعری خوبیوں یا دیگر اوصاف کا ذکر کرنے سے پہلے یہ ضروری ہے کہ اس سے متعلق دو ایسی باتوں کو واضح کر دیا جائے جن کی وجہ سے یہ ایک غیر معمولی کتاب ٹھہرتی ہے اور وہ یہ کہ اس کے مصنف ڈاکٹر خلیل طوقار نسلاً ترک اور استنبول یونیورسٹی کے استاد ہیں جب کہ اس کتاب میں شامل شاعری ایک ایسی زبان میں کی گئی ہے جو ان کی مادری زبان نہیں، دنیا کی بیشتر زبانوں کے برعکس اردو کسی مخصوص علاقے، قوم یا نسل کی زبان نہیں ہے۔
امیر خسرو سے لے کر اب تک جن سیکڑوں اہم شعراء نے اس زبان میں شاعری کی ہے ان میں سے بیشتر کی مادری زبان کوئی اور تھی لیکن یہ سب زبانیں پاک و ہند ہی کے کسی نہ کسی علاقے میں بولی جاتی تھیں لیکن اس کی تاریخ میں ہمیں بہت سے ایسے شعراء بھی ملتے ہیں جو نسلی طور پر برصغیر سے باہر کے کسی علاقے سے تعلق رکھتے تھے اور جنھوں نے شوقیہ طور پر اس زبان کو سیکھا اور اس میں شاعری بھی کی لیکن ایسے لوگوں کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے جنھوں نے باقاعدہ اپنے دیوان مرتب کیے اور وہ شائع بھی ہوئے۔ فی زمانہ عرب امارات کے زبیر فاروق، چین کے چانگ شی شوان (انتخاب عالم) اور ہمارے ترک دوست خلیل طوقار ہی تین ایسے شاعر ہیں جنھوں نے نہ صرف اپنا اردو کلام کتابی شکل میں شائع کروایا ہے بلکہ اس میدان میں نام کمانے کے ساتھ ساتھ اپنا سکہ بھی جمایا ہے۔
خلیل طوقار (جن کے نام کا ترکی تلفظ ''خلیل طوقر'' ہے) کو میں گزشتہ تقریباً 20 برس سے جانتا ہوں اور مجھے پاکستان، بھارت، امریکا، کینیڈا اور یورپ میں ان کے ساتھ مشاعرے پڑھنے، ادبی کانفرنسوں میں شرکت کرنے اور سفر کرنے کا موقع بھی ملا ہے اور یوں اب وہ ادب کے ساتھ ساتھ میرے ذاتی دوست اور پسندیدہ شخصیت بھی ہیں۔
گزشتہ کچھ مہینوں سے وہ پاک ترک دوستی کے حوالے سے قائم کیے جانے والے یونس ایمرے کلچرل سینٹر کے ڈائریکٹر کے طور پر پاکستان ہی میں فرائض سرانجام دے رہے تھے۔ سو ان سے گاہے بگاہے ملاقات کا سلسلہ نکلتا رہتا تھا جو ہر بار اس وعدے پر ختم ہوتا تھا کہ جونہی وہ اس ذمے داری کے تنظیمی اور دفتری مراحل سے فارغ ہوتے ہیں، باقاعدگی سے مل بیٹھنے اور کچھ تہذیبی اور ادبی منصوبوں پر مل کر کام کرنے کی صورت نکالی جائے گی۔ مگر چند دن قبل عزیزہ ناز بٹ نے مجھے فون پر اطلاع دے کر الجھن میں ڈال دیا کہ خلیل اپنے وطن واپس جا رہے ہیں اور وہ اس کے اور اس کی بیگم کے لیے ایک الوداعی تقریب رکھنا چاہ رہی ہے جس میں مجھے ضرور آنا ہے۔
اس بہت پرتکلف اور دوستانہ محفل میں جو ایک افطار ڈنر کی شکل میں تھی خلیل نے بتایا کہ اب وہ دوبارہ واپس جا کر استنبول یونیورسٹی کے شعبۂ اردو کی صدارت کا چارج لیں گے کہ یہاں تو وہ صرف ایک سال کے لیے ڈیپوٹیشن پر آئے تھے اور ساتھ ہی یہ بھی اطلاع دی کہ ان کا تیسرا اردو شعری مجموعہ ''پردیسی'' کے نام سے شائع ہو رہا ہے اور امید ہے کہ روانگی سے قبل یہ پہلے ان تک اور پھر ان سے مجھ تک پہنچ جائے گا۔ اور ایسا ہی ہوا لیکن یوں کہ اس کے لیے برادرم ڈاکٹر ضیاء الحسن نے پنجاب یونیورسٹی ایگزیکٹو کلب میں ایک باقاعدہ تقریب کا اہتمام کیا۔ معلوم ہوا کہ یہ وہی کتاب ہے جس کا دیباچہ میں نے کوئی تین سال قبل لکھا تھا لیکن شاعری کی گوناگوں تنظیمی مصروفیات کی وجہ سے کتاب کی اشاعت میں تاخیر ہوتی ہی چلی گئی۔
اردو زبان و ادب کے استاد ہونے کے ناتے سے ڈاکٹر خلیل طوقار کا طویل تر کام تنقید اور تحقیق کے حوالے سے ہے۔ شاعری وہ اس ذہنی بوجھ کو کم کرنے کے لیے کرتے ہیں جو عالمی سطح پر نوع انسانی کی صورت حال، تذلیل، قتل و غارت، حیوانیت اور عقائد کے نام پر ہمہ وقت ہر سوچنے والے ذہن میں جمع ہوتا رہتا ہے۔ اقبال نے کہا تھا
نغمہ کجا و من کجا ساز سخن بہا نہ ایست
سوئے قطار می کشم ناقۂ بے زمام را
لیکن خلیل طوقار نے حُدی خوان کی آواز کی موسیقیت پر ''بانگ درا'' کو ترجیح دی ہے ان کا خیال ہے کہ عروض کی پابندیاں اور قافیے ردیف کے اہتمام کے لیے جو اضافی محنت کرنا پڑتی ہے اس کے بجائے اگر سارا وقت اپنی بات اور فکر کے براہ راست اظہار کو دیا جائے تو یہ ان کے لیے زیادہ بہتر اور آسان ہے۔ باالفاظ دیگر وہ پابند، معریٰ یا آزاد نظم کے بجائے نثری نظم کو ذریعۂ اظہار بنانا زیادہ پسند کرتے ہیں۔
اب چونکہ اردو ان کی مادری زبان بھی نہیں اس لیے ہم بھی اس بحث میں پڑنے کے بجائے ان کی وضاحت کے ساتھ رہتے ہوئے اس کتاب کے مندرجات کو دیکھتے ہیں تو سب سے پہلی اور نمایاں خوبی جو سامنے آنے کے ساتھ ساتھ دل کو بھی اپنی طرف کھینچتی ہے ان کی انسان دوستی اور وہ تڑپ ہے جو اعلیٰ تر انسانی اقدار کے خون پر ان کے دل میں پیدا ہوتی اور انھیں قلم اٹھانے پر مجبور کرتی ہے۔ میرے خیال میں ان کی زیر نظر نظم وہ سب کچھ کہہ رہی ہے جو ان کی شاعری کا مقصد بھی ہے اور لُب لباب بھی۔ سو آئیے بہت خیال افروز اور انسان دوست نظم کی معرفت خلیل طوقار سے ملتے ہیں۔ یقینا آپ بھی میری طرح اس کی داد دینے پر خود کو مجبور پائیں گے۔
اگر مگر سے ہے میری زندگی کی تشریح
اگر مگر سے خوابوں کی ہے تعبیر
اگر میں امیر ہوتا! اگر میں طاقت ور بنتا!
مگر امیر بن نہ سکا مگر طاقت ور نہ ہوا۔۔۔!
اگر میرے ہاتھ میں جادو کی چھڑی ہوتی
تو بدل دیتا تمام غریبوں کا حال
بھر دیتا جھولی بے کس لوگوں کی
اٹھا لیتا زمین سے گرے لوگوںکو
تعمیر کرتا پھر ایوان محبت، مینہ برساتا خیرو برکت بھرا
مگر۔۔ مگر میرے ہاتھ میں جادو کی چھڑی نہیں
بے بسی کی چھڑی کے سہارے سے چل رہا ہوں میں
اگر مرے ہاتھ میں جادو کی تلوار ہوتی
تو الٹ دیتا تخت ظالموں کا بھی، گرا دیتا ظلم و وحشت کے محل
چھین لیتا خون بہاتے بندوق، دفن کرتا فرقہ پرستی کی لاش
مٹا دیتا دنیا سے نفرت کا جال
مگر۔ مگر میرے ہاتھ میں جادو کی تلوار نہیں
تلواروں کے سامنے ہاتھ جوڑ کے جی رہا ہوں۔
اگر میرے سینے میں جادو کی سانس ہوتی
تو پھونک دیتا اسے انسانوں کے دلوں میں
زندہ کرتا ان کے مردہ دلوں کو
کھول دیتا بصیرت کی بند آنکھیں
جگا دیتا ان کے سوتے خوابوں کو
مگر۔ مگر میرے سینے میں جادو کی سانس نہیں
دم گھٹتے ہوئے کہرے میں جی رہا ہوں میں
امیر خسرو سے لے کر اب تک جن سیکڑوں اہم شعراء نے اس زبان میں شاعری کی ہے ان میں سے بیشتر کی مادری زبان کوئی اور تھی لیکن یہ سب زبانیں پاک و ہند ہی کے کسی نہ کسی علاقے میں بولی جاتی تھیں لیکن اس کی تاریخ میں ہمیں بہت سے ایسے شعراء بھی ملتے ہیں جو نسلی طور پر برصغیر سے باہر کے کسی علاقے سے تعلق رکھتے تھے اور جنھوں نے شوقیہ طور پر اس زبان کو سیکھا اور اس میں شاعری بھی کی لیکن ایسے لوگوں کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے جنھوں نے باقاعدہ اپنے دیوان مرتب کیے اور وہ شائع بھی ہوئے۔ فی زمانہ عرب امارات کے زبیر فاروق، چین کے چانگ شی شوان (انتخاب عالم) اور ہمارے ترک دوست خلیل طوقار ہی تین ایسے شاعر ہیں جنھوں نے نہ صرف اپنا اردو کلام کتابی شکل میں شائع کروایا ہے بلکہ اس میدان میں نام کمانے کے ساتھ ساتھ اپنا سکہ بھی جمایا ہے۔
خلیل طوقار (جن کے نام کا ترکی تلفظ ''خلیل طوقر'' ہے) کو میں گزشتہ تقریباً 20 برس سے جانتا ہوں اور مجھے پاکستان، بھارت، امریکا، کینیڈا اور یورپ میں ان کے ساتھ مشاعرے پڑھنے، ادبی کانفرنسوں میں شرکت کرنے اور سفر کرنے کا موقع بھی ملا ہے اور یوں اب وہ ادب کے ساتھ ساتھ میرے ذاتی دوست اور پسندیدہ شخصیت بھی ہیں۔
گزشتہ کچھ مہینوں سے وہ پاک ترک دوستی کے حوالے سے قائم کیے جانے والے یونس ایمرے کلچرل سینٹر کے ڈائریکٹر کے طور پر پاکستان ہی میں فرائض سرانجام دے رہے تھے۔ سو ان سے گاہے بگاہے ملاقات کا سلسلہ نکلتا رہتا تھا جو ہر بار اس وعدے پر ختم ہوتا تھا کہ جونہی وہ اس ذمے داری کے تنظیمی اور دفتری مراحل سے فارغ ہوتے ہیں، باقاعدگی سے مل بیٹھنے اور کچھ تہذیبی اور ادبی منصوبوں پر مل کر کام کرنے کی صورت نکالی جائے گی۔ مگر چند دن قبل عزیزہ ناز بٹ نے مجھے فون پر اطلاع دے کر الجھن میں ڈال دیا کہ خلیل اپنے وطن واپس جا رہے ہیں اور وہ اس کے اور اس کی بیگم کے لیے ایک الوداعی تقریب رکھنا چاہ رہی ہے جس میں مجھے ضرور آنا ہے۔
اس بہت پرتکلف اور دوستانہ محفل میں جو ایک افطار ڈنر کی شکل میں تھی خلیل نے بتایا کہ اب وہ دوبارہ واپس جا کر استنبول یونیورسٹی کے شعبۂ اردو کی صدارت کا چارج لیں گے کہ یہاں تو وہ صرف ایک سال کے لیے ڈیپوٹیشن پر آئے تھے اور ساتھ ہی یہ بھی اطلاع دی کہ ان کا تیسرا اردو شعری مجموعہ ''پردیسی'' کے نام سے شائع ہو رہا ہے اور امید ہے کہ روانگی سے قبل یہ پہلے ان تک اور پھر ان سے مجھ تک پہنچ جائے گا۔ اور ایسا ہی ہوا لیکن یوں کہ اس کے لیے برادرم ڈاکٹر ضیاء الحسن نے پنجاب یونیورسٹی ایگزیکٹو کلب میں ایک باقاعدہ تقریب کا اہتمام کیا۔ معلوم ہوا کہ یہ وہی کتاب ہے جس کا دیباچہ میں نے کوئی تین سال قبل لکھا تھا لیکن شاعری کی گوناگوں تنظیمی مصروفیات کی وجہ سے کتاب کی اشاعت میں تاخیر ہوتی ہی چلی گئی۔
اردو زبان و ادب کے استاد ہونے کے ناتے سے ڈاکٹر خلیل طوقار کا طویل تر کام تنقید اور تحقیق کے حوالے سے ہے۔ شاعری وہ اس ذہنی بوجھ کو کم کرنے کے لیے کرتے ہیں جو عالمی سطح پر نوع انسانی کی صورت حال، تذلیل، قتل و غارت، حیوانیت اور عقائد کے نام پر ہمہ وقت ہر سوچنے والے ذہن میں جمع ہوتا رہتا ہے۔ اقبال نے کہا تھا
نغمہ کجا و من کجا ساز سخن بہا نہ ایست
سوئے قطار می کشم ناقۂ بے زمام را
لیکن خلیل طوقار نے حُدی خوان کی آواز کی موسیقیت پر ''بانگ درا'' کو ترجیح دی ہے ان کا خیال ہے کہ عروض کی پابندیاں اور قافیے ردیف کے اہتمام کے لیے جو اضافی محنت کرنا پڑتی ہے اس کے بجائے اگر سارا وقت اپنی بات اور فکر کے براہ راست اظہار کو دیا جائے تو یہ ان کے لیے زیادہ بہتر اور آسان ہے۔ باالفاظ دیگر وہ پابند، معریٰ یا آزاد نظم کے بجائے نثری نظم کو ذریعۂ اظہار بنانا زیادہ پسند کرتے ہیں۔
اب چونکہ اردو ان کی مادری زبان بھی نہیں اس لیے ہم بھی اس بحث میں پڑنے کے بجائے ان کی وضاحت کے ساتھ رہتے ہوئے اس کتاب کے مندرجات کو دیکھتے ہیں تو سب سے پہلی اور نمایاں خوبی جو سامنے آنے کے ساتھ ساتھ دل کو بھی اپنی طرف کھینچتی ہے ان کی انسان دوستی اور وہ تڑپ ہے جو اعلیٰ تر انسانی اقدار کے خون پر ان کے دل میں پیدا ہوتی اور انھیں قلم اٹھانے پر مجبور کرتی ہے۔ میرے خیال میں ان کی زیر نظر نظم وہ سب کچھ کہہ رہی ہے جو ان کی شاعری کا مقصد بھی ہے اور لُب لباب بھی۔ سو آئیے بہت خیال افروز اور انسان دوست نظم کی معرفت خلیل طوقار سے ملتے ہیں۔ یقینا آپ بھی میری طرح اس کی داد دینے پر خود کو مجبور پائیں گے۔
اگر مگر سے ہے میری زندگی کی تشریح
اگر مگر سے خوابوں کی ہے تعبیر
اگر میں امیر ہوتا! اگر میں طاقت ور بنتا!
مگر امیر بن نہ سکا مگر طاقت ور نہ ہوا۔۔۔!
اگر میرے ہاتھ میں جادو کی چھڑی ہوتی
تو بدل دیتا تمام غریبوں کا حال
بھر دیتا جھولی بے کس لوگوں کی
اٹھا لیتا زمین سے گرے لوگوںکو
تعمیر کرتا پھر ایوان محبت، مینہ برساتا خیرو برکت بھرا
مگر۔۔ مگر میرے ہاتھ میں جادو کی چھڑی نہیں
بے بسی کی چھڑی کے سہارے سے چل رہا ہوں میں
اگر مرے ہاتھ میں جادو کی تلوار ہوتی
تو الٹ دیتا تخت ظالموں کا بھی، گرا دیتا ظلم و وحشت کے محل
چھین لیتا خون بہاتے بندوق، دفن کرتا فرقہ پرستی کی لاش
مٹا دیتا دنیا سے نفرت کا جال
مگر۔ مگر میرے ہاتھ میں جادو کی تلوار نہیں
تلواروں کے سامنے ہاتھ جوڑ کے جی رہا ہوں۔
اگر میرے سینے میں جادو کی سانس ہوتی
تو پھونک دیتا اسے انسانوں کے دلوں میں
زندہ کرتا ان کے مردہ دلوں کو
کھول دیتا بصیرت کی بند آنکھیں
جگا دیتا ان کے سوتے خوابوں کو
مگر۔ مگر میرے سینے میں جادو کی سانس نہیں
دم گھٹتے ہوئے کہرے میں جی رہا ہوں میں