مسابقتی کمیشن نے شوگر ایکٹ پر نظرثانی کی تجویز دے دی
صوبائی حکومتوں کوگنے کی فلور پرائس مقرر نہیں کرنی چاہیے،مارکیٹ کو تعین کرنے دینا چاہیے
مسابقتی کمیشن آف پاکستان نے کہا ہے کہ ملک میں گنے کی پیداوار بڑھانے، معیار کو بہتر کرنے اور چینی کی برآمد بڑھانے کے لیے وفاقی و صوبائی حکومتوں کو شوگر ایکٹ سمیت قانونی لائحہ عمل پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔
مسابقتی کمیشن آف پاکستان (سی سی پی) نے شوگر سیکٹر میں مسابقتی تحفظات کے حوالے سے اپنی سفارشات جاری کردی ہیں۔ سی سی پی کی جانب سے کہا گیا ہے کہ صوبائی حکومتوں کو گنے کی فلور پرائس مقرر نہیں کرنی چاہیے اور مارکیٹ کو فلور پرائس کا تعین کرنے دینا چاہیے۔
پرائس فلور محدود وقت کے لیے نافذ کرنی چاہیے۔ مسابقتی کمیشن آف پاکستان کے مطابق وفاقی و صوبائی سطح پر حکومتوں کو گنے کی پیداوار کے بارے میں آزادانہ طریقے سے پیش گوئی کرنی چاہیے۔
دستاویز کے مطابق سی سی پی نے کہا ہے کہ گنے کی قیمت مقررکرتے وقت دیگر فصلوں کی قیمت کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے تاکہ دیگر فصلیں اگانے والے کسانوں کو مایوسی نہ ہو۔ دستاویز کے مطابق صوبائی حکومتیں گنے کی فلور پرائس مقرر کرتی ہیں تو ان کو اس پر عمل درآمد کرانا چاہیے۔
مسابقتی کمیشن آف پاکستان نے سفارش کی ہے کہ وسیع پیمانے پر گنے کی فصل اگانے والے کسانوں کو پریمیم دینا چاہیے۔ اس سے گنے کی فصل کی پیداوری لاگت کم کرنے میں مدد ملے گی۔ گنے کی فصل کی بہتر پیداوار کے لیے تحقیقی سرگرمیاں کم ہوگئی ہیں جس سے زیادہ پیداوار دینے والی اقسام ملک میں کاشت نہیں ہو رہیں۔
گنے کے زیادہ پیداوار دینے والی اقسام کی کاشت کے لیے نئے بیج متعارف کروانے چاہئیں اور ملوں میں بھی آر اینڈ ڈی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ سی سی پی نے تجویز دی ہے کہ گنے کی فصل کی پیداوار اور مارکیٹ میں فصل آنے کے دورانیے کو عالمی تناظر میں دیکھنا چاہیے تاکہ پیداوار شروع ہونے کے عرصے میں خطے کے دیگر ملکوں میں چینی کی قیمت کا اندازہ لگایا جا سکے اور چینی کی برآمد کے لیے حکمت عملی بنائی جاسکے۔
دستاویز کے مطابق سی سی پی نے ملک میں چینی کی ذخیرہ اندوزی کو ختم کرنے کے لیے تجویز دی ہے کہ ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان چینی کا ایک خاص مقدار تک ذخیرہ برقرار رکھے اور جب ملک میں ضرورت سے زائد چینی موجود ہو تو اس کی برآمد کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔
مسابقتی کمیشن آف پاکستان نے سفارش کی ہے کہ شوگر سیکٹر مین تمام متعلقہ وفاقی و صوبائی اداروں، کسانوں اور مل مالکان کے نمائندوں پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی جائے جو ان تجاویز کی بنیاد پر ایک طویل مدتی منصوبہ تیار کرے تاکہ ملک کے شوگر سیکٹر کے شراکت داروں کی فلاح و بہبود کے لیے اقدامات کیے جاسکیں اور صارفین کا بھی تحفظ کیاجاسکے۔
مسابقتی کمیشن آف پاکستان (سی سی پی) نے شوگر سیکٹر میں مسابقتی تحفظات کے حوالے سے اپنی سفارشات جاری کردی ہیں۔ سی سی پی کی جانب سے کہا گیا ہے کہ صوبائی حکومتوں کو گنے کی فلور پرائس مقرر نہیں کرنی چاہیے اور مارکیٹ کو فلور پرائس کا تعین کرنے دینا چاہیے۔
پرائس فلور محدود وقت کے لیے نافذ کرنی چاہیے۔ مسابقتی کمیشن آف پاکستان کے مطابق وفاقی و صوبائی سطح پر حکومتوں کو گنے کی پیداوار کے بارے میں آزادانہ طریقے سے پیش گوئی کرنی چاہیے۔
دستاویز کے مطابق سی سی پی نے کہا ہے کہ گنے کی قیمت مقررکرتے وقت دیگر فصلوں کی قیمت کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے تاکہ دیگر فصلیں اگانے والے کسانوں کو مایوسی نہ ہو۔ دستاویز کے مطابق صوبائی حکومتیں گنے کی فلور پرائس مقرر کرتی ہیں تو ان کو اس پر عمل درآمد کرانا چاہیے۔
مسابقتی کمیشن آف پاکستان نے سفارش کی ہے کہ وسیع پیمانے پر گنے کی فصل اگانے والے کسانوں کو پریمیم دینا چاہیے۔ اس سے گنے کی فصل کی پیداوری لاگت کم کرنے میں مدد ملے گی۔ گنے کی فصل کی بہتر پیداوار کے لیے تحقیقی سرگرمیاں کم ہوگئی ہیں جس سے زیادہ پیداوار دینے والی اقسام ملک میں کاشت نہیں ہو رہیں۔
گنے کے زیادہ پیداوار دینے والی اقسام کی کاشت کے لیے نئے بیج متعارف کروانے چاہئیں اور ملوں میں بھی آر اینڈ ڈی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ سی سی پی نے تجویز دی ہے کہ گنے کی فصل کی پیداوار اور مارکیٹ میں فصل آنے کے دورانیے کو عالمی تناظر میں دیکھنا چاہیے تاکہ پیداوار شروع ہونے کے عرصے میں خطے کے دیگر ملکوں میں چینی کی قیمت کا اندازہ لگایا جا سکے اور چینی کی برآمد کے لیے حکمت عملی بنائی جاسکے۔
دستاویز کے مطابق سی سی پی نے ملک میں چینی کی ذخیرہ اندوزی کو ختم کرنے کے لیے تجویز دی ہے کہ ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان چینی کا ایک خاص مقدار تک ذخیرہ برقرار رکھے اور جب ملک میں ضرورت سے زائد چینی موجود ہو تو اس کی برآمد کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔
مسابقتی کمیشن آف پاکستان نے سفارش کی ہے کہ شوگر سیکٹر مین تمام متعلقہ وفاقی و صوبائی اداروں، کسانوں اور مل مالکان کے نمائندوں پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی جائے جو ان تجاویز کی بنیاد پر ایک طویل مدتی منصوبہ تیار کرے تاکہ ملک کے شوگر سیکٹر کے شراکت داروں کی فلاح و بہبود کے لیے اقدامات کیے جاسکیں اور صارفین کا بھی تحفظ کیاجاسکے۔