حق بات پر ملتا ہے سدا زہر کا پیالہ…

مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے لوگ محفوظ رہیں۔ کیا...

نگہت فرمان

KARACHI:
خواب زندگی کا پر تو ہوتے ہیں۔ ہم جتنے بڑے خواب دیکھتے ہیں ان کی تعبیر اتنی ہی بڑی ہوتی ہے۔ جاگتی آنکھوں سے بھی تو خواب دیکھے جا سکتے ہیں، جیون کے بھی تو بہت سے رنگ ہیں۔ کوئی صر ف اپنے لیے جیتا ہے اور کوئی دوسروں کے لیے، کوئی اپنے دکھوں پر اشک بار ہے تو کوئی اپنے آس پاس کے لوگوں کے لیے۔ یہی تو ہیں زندگی کے رنگ اور ہر رنگ کی اپنی خوبصورتی، یہ دوسری بات ہے کہ کچھ رنگ بہت پھیکے ہوتے ہیں اور کچھ بہت شوخ۔ ان ہی رنگوں سے سجی ہے زندگی۔ وہ زندگی جو ہمیں صرف ایک بار ملتی ہے اور جسے اپنے انداز سے جینے کے لیے ہم بہت سی امیدیں اور ارادے باندھتے ہیںاور بہت سے خواب دیکھتے ہیں۔

ڈاکٹر محمد اقبال نے بھی تو خواب دیکھے تھے۔ ان کا ایک خواب تھا پاکستان، پھر وہ شرمندۂ تعبیر ہوا اور وہ مصّور پاکستان کہلائے۔ اقبال کا ایک خواب یہ بھی تو تھا جب انھوں نے اﷲ تعالیٰ سے دعا کی تھی۔

خدایا ! آرزو میری یہی ہے
میرا نور بصیرت عام کردے

آپ اس خواب کی تعبیر دیکھنا چاہتے ہیں تو تحقیق کرلیجیے دنیا بھر کی درس گاہوں میں اقبال کو پڑھا یا جاتا ہے۔ اقبال کے فلسفہ زندگی پر تحقیق ہورہی ہے۔ سیکڑوں کتابیں آپ کو مل جائیں گی بس جتنا بڑا خواب آپ دیکھتے ہیں۔ اس کی تعبیر اتنی ہی بڑی نکلتی ہے۔ عجیب سی بات ہے کہ ہم اپنے معاشرے کو دنیا بھر میں ممتاز و منفرد سمجھتے ہیں۔ سلیم احمد کی نظم تھی مشر ق مشر ق ہے۔ لکھا تھا سورج مشرق سے طلوع ہوتا ہے اور مغرب میں غروب ہوجاتا ہے۔ اپنی مشرقی تہذیب و ثقافت پر فخر بہت اچھی بات ہے لیکن کیا واقعی ہم ایک خیالی تجزیہ کرتے رہیں اور مشر ق مشرق ہے کا راگ الا پتے رہیں۔ سلیم احمد نے کیا درست کہا تھا کہ سورج مشرق سے ابھرتا ہے اور مغرب میں غروب ہوجاتا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ سورج کبھی غروب ہوتا ہی نہیں۔ علامہ اقبال نے اسی لیے کہا ہے کہ

جہاں میں اہل ایمان صورت خورشید جیتے ہیں

اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے، اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے

اب ایمان اور اہل ایمان کا تذکرہ ہم گناہ گار کیا اور کیسے کر سکتے ہیں۔ ہم صرف خیالی دنیا میں مگن رہتے ہیں۔ لفاظی اور صر ف لفاظی۔ لفظوں کے کھیل سے ذرا آگے بڑھتے ہیں تو اپنا حلیہ کچھ ایسا بنالیتے ہیں اور نیکی و پارسائی بس اسی کو سمجھ بیٹھتے ہیں۔ اسے آپ جذباتی گفتگو سمجھنے کی غلطی مت کیجیے گا بلکہ معاشرے میں نظر دوڑائیں قدم قدم پر آپ کو ایسی مثالیں مل جائیں گی۔ ہم خود کو مسلم کہتے ہیں۔ کیا ہم واقعی مسلم ہیں؟ مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے لوگ محفوظ رہیں۔ کیا واقعی ایسا ہے؟ اس کے جواب کے لیے آپ اپنے گریبانوں میں جھانک لیجیے۔ کیا ہمارے مذہبی رہنماؤں کی زندگی تضادات سے بھری ہوئی نہیں ہے؟ گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے ہمارے یہ مذہبی رہنما کیا واقعی معاشرے میں تبدیلی لاسکتے ہیں؟ یہ معصوم لوگوں کے جذبات سے کھیلتے ہیں اور پھر اسے حکمت کا نام دے کر خود کو تسلی دیتے ہیں۔

انھوں نے نام نہاد اسلام کو ایک ایسا ہتھیار بنالیا ہے جس کے سامنے کوئی کچھ کہنے کی جرأت نہیں کرسکتا۔ مکالمہ دم توڑ چکا ہے اور معصوم لوگ شخصیات کے پجاری بن گئے ہیں، ایسے پجاری جو اپنے رہنما کے ہر غلط عمل کا جواز بھی خود ہی تلاش کرتے ہیں اور تلاش نہیں بھی کرپائیں تو خاموشی اختیار کرلیتے ہیں۔ یہ لوگ سوچ و فکر سے عاری ہوگئے ہیں اور بھیڑوں کی طرح سر جھکائے چل رہے ہیں۔ ہم اسلام کو بس اپنے مفاد میں استعمال کر رہے ہیں اور مفاد کی تعریف صرف مالی مفاد نہیں کلّی مفاد ہے۔

ہم معصوم لوگوں کو اپنی لچھے دار باتوں میں الجھا کر پھانس لیتے ہیں اور پھر اپنا اصل رنگ دکھاتے ہیں اور وہ بھی اتنی بے حیائی اور ڈھٹائی سے کہ حیرت بھی دم بخود رہ جاتی ہے۔ ہمیں ہمارا رب سوچ و بچار اور فکر و تدبر کی تلقین کرتا ہے۔ ہمارا رب ہمیں بلا سوچے سمجھے عمل کرنے سے منع کرتا ہے لیکن ہمارا طرز عمل بالکل مختلف ہے۔ ہم خود نہیں سوچتے، دوسروں کی سوچوں پر عمل پیرا ہو کر خود کو معتبر سمجھتے ہیں۔ چاہے وہ سوچ کتنی ہی متروک ہوچکی ہو۔ ہم نئی راہیں نہیں بناتے، بس بنے بنائے رستے پر بھیڑوں کی طرح گامز ن ہیں۔ ہم میں جرأت اظہار ختم ہوچکی ہے۔

ہمیں بس سرجھکائے رکھنے کا حکم دیا جاتا ہے اور اطاعت امر کا نام دے کر ہر صحیح و غلط پر عمل کی تاکید کی جاتی ہے۔ یہ ہے آج کے معاشرے کا المیہ۔ اسلام ہمیں سوچ و فکر کی آزادی دیتا ہے۔ اسلام مکالمہ کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ حضرت علی ؓ نے فرمایا سوال آدھا علم ہوتا ہے۔ لیکن یہاں سوال اٹھانے والے کی بدترین کر دار کشی کی جاتی ہے، اسے گمراہ قرار دیا جاتا ہے، اس پر تہمتوں کی بارش کی جاتی ہے اور پھر خود کو اسلام کا علمبردار کہلانے پر فخر بھی کیا جاتا ہے۔ جب تک ہم اپنی آنکھیں نہیں کھولیں گے، جب تک ہم ان نام نہاد مذہبی رہنماؤں سے سوال نہیں پوچھیں گے، جب تک ہم اِن کی طرز زندگی کا تجزیہ نہیں کریں گے ہماری حالت نہیں سدھرے گی۔

اسلام کسی کی جاگیر نہیں ہے، اسلام ہم سب کا ہے اور ہمیں سوچ و فکر کی دعوت دیتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم بلاخوف وخطر آگے آئیں، سوال اٹھائیں اور ان نام نہاد مذہبی جبر کے چہرے سے نقاب اتار پھینکیں۔ یہی ہے اسلام کی خدمت، سچّے کھرے زندگی کے ہر شعبے میں اسلام کا نفاذ ہماری جدو جہد کا مرکز ہونا چاہیے۔ ہمیں یقین ہے کہ بہت سی پیشانیوں پر بل پڑگئے ہوں گے، بہت سے تلملا رہے ہوں گے، لیکن ہم جانتے ہیں کہ بڑا خواب دیکھنے اور اس کے لیے جدوجہد کرنے والوں کو ہمیشہ ہی طعنوں اور مشکلات کا سامنا رہا ہے۔
Load Next Story