افلاس کا سبب ریاست
پولیس کبھی بھی عوام کی مشکلات میں کام نہیں آتی، ہاں مگر مشکلات کے...
آخر بھوک، افلاس، غربت، جہالت، بے روزگاری، خودکشی، ذلّت، غلاظت اور غذائی قلت کیوں ہے؟ 2400 سال قبل معروف فلسفی ارسطو نے کہا تھا کہ ''طبقاتی نظام ساری برائیوں کی جڑ ہے۔ یہ بات بعد کے فلسفیوں روسو، سولونو، پیترکروپوتکن، ہاکونن، پغوداں (پروڈان)، کارل مارکس اور ٹیڈ گرانٹ نے بھی کہی۔ دورِ وحشت میں جب طبقہ تھا اور نہ کوئی ریاست، اس وقت سب مل کر غذا جمع کرتے تھے اور مل بانٹ کر کھاتے تھے۔ دورِ وحشت میں اسمبلی، فوج، عدلیہ، جیل، وکیل، کرنسی نوٹ اور میڈیا کچھ نہیں تھا اور ساتھ ساتھ بھوک، افلاس، قتل، حسد، دشمن، ذخیرہ اور اقتدارِ اعلیٰ بھی نہیں تھا۔
ریاست بنیادی طور پر دولت مندوں کی محافظ اور عوام کا خون چوسنے والی جونک ہے۔ مثال کے طور پر چند برس پہلے کشمیر میں زلزلہ آیا۔ حکومت نے اعلان کیا کہ ''اس بھاری نقصانات کی تلافی ہم نہیں کرسکتے۔'' نتیجتاً اس خطے اور دنیا بھر سے عوام نے خود امدادی سامان پہنچایا۔ بعض کرپٹ سرکاری اہلکاروں نے زلزلہ زدگان کی مدد کرنے کے بجائے ان کے امدادی سامان کی لوٹ مار شروع کردی۔ یہ کرپٹ سرکاری کارندے امدادی سامان پر دھاوا بولتے رہے اور یہ سامان بعد میں بازاروں میں فروخت ہوتے نظر آئے۔ شاید اب بھی ان اہلکاروں کے پاس یہ سامان محفوظ ہوں۔ اس سے یہ ثابت ہوا کہ ریاستی مدد کے بغیر عوام زندہ رہ سکتے ہیں، ترقی کرسکتے ہیں اور دوسروں کے لیے امداد بھی کرسکتے ہیں۔
پولیس کو لے لیں۔ یہ کبھی بھی عوام کی مشکلات میں کام نہیں آتی، ہاں مگر مشکلات کے بڑھانے میں ضرور کام آتی ہے۔ روزانہ ہمارے ملک میں پولیس، ٹریفک پولیس، کسٹم پولیس اور دیگر ادارے اربوں روپے عوام سے نام نہاد الزامات لگا کر رشوتیں وصول کرتے ہیں۔ انصاف فراہم کرنے والے اداروں میں بھی رشوتیں لے کر مجرموں بشمول قاتلوں کو رہا کردیا جاتا ہے۔ رشوت دیے بغیر کوئی مقدمہ آگے نہیں بڑھ سکتا ہے۔ پھر ریاست کس طرح سے لوگوں کو انصاف دے سکتی ہے۔ 16 ویں صدی کے معروف یونانی فلسفی سولونو نے کہا تھا کہ قانون ایک ایسا مکڑی کا جال ہے کہ طاقتور اسے پھاڑ کر نکل جاتا ہے جب کہ کمزور ہمیشہ پھنس جاتا ہے۔'' ہندوستان میں بھی ایسی مثالیں ہیں۔
آندھرا پردیش اور پنجاب میں 35 لاکھ ایکڑ زمین میں کسان دیسی کھاد اور دیسی ادویات استعمال کررہے ہیں اور ان کی پیداوار کیمیائی کھادوں کے برابر ہے جب کہ حکومت کیمیکل کھاد استعمال کرنے والوں کو مالی امداد دیتی ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوا کہ لاکھوں ایکڑ پر کام کرنے اور پیداوار دینے والے کسان ریاستی مدد کے بغیر پیداوار بڑھا رہے ہیں۔ حکومت کیمیکل کھاد اور پیسٹیسائیڈز استعمال کرنے والے کسانوں کو مالی امداد دے کر مہلک امراض پھیلا رہی ہے، ملٹی نیشنل کمپنیاں جو کھاد کی ترسیل کرتی ہیں، ان سے کمیشن وصول کرتی ہے، زمین کو بنجر بناتی ہیں اور کسانوں کو مقروض کررہی ہیں۔ اس سے ثابت ہوا کہ ریاست عوام کی مدد کے بجائے نقصان پہنچارہی ہے جب کہ دوسری جانب ریاستی مدد کے بغیر کسان لاکھوں ایکڑ زمین پر اپنی مدد آپ کی بنیاد پر اپنا کام سرانجام دے رہے ہیں۔
فوج رکھنا، اسلحہ بنانا اور اس کی تجارت کرنا ریاست کا فریضہ ہوتا ہے۔ ایک جانب امریکا میں 6 کروڑ افراد بے روزگار ہیں تو دوسری جانب امریکا نے 30,000 ایٹمی وار ہیڈ بنا رکھا ہے جس کے ذریعے اس دنیا کو 300 بار تباہ کیا جاسکتا ہے۔ اس کی صنعتی پیداوار کی 70 فیصد پیداوار اسلحے کی ہے۔ اس بار امریکا نے اپنا جنگی بجٹ 600 ارب ڈالر رکھا ہے۔ ٹھیک اسی طرح پاکستان میں صحت اور تعلیم کا بجٹ 2 فیصد سے بھی کم ہے جب کہ اسلحے کی پیداوار اور تجارت میں دنیا کا 11 واں ملک ہے۔ پاکستان کا جنگی بجٹ اس سال 510 ارب روپے رکھا گیا ہے۔
اب جہاں خوردنی تیل 200 روپے کلو، دالیں 100 روپے کلو، چاول 125 روپے کلو اور آٹا 35 روپے کلو ہو اور تعلیم اور صحت میں دنیا کا 134 واں نمبر ہو، ایسے ملک کا جنگی بجٹ بڑھانے کا کیا مطلب ہے؟ کہا جاتا ہے کہ ہندوستان حملہ کردے گا۔ ذرا غور سے توجہ دیں تو یہ نظر آئے گا کہ کیوبا اور وینزویلا امریکا کے پڑوسی ممالک ہیں۔ کیوبا کی ایک کروڑ اور وینزویلا کی 90 لاکھ کی آبادی ہے۔ ان کے پاس ایٹم بم ہے اور نہ بین البراعظمی میزائل۔ پھر امریکا کیوں حملہ کرکے قبضہ نہیں کرلیتا؟ اس سے یہ ثابت ہوا کہ ریاستیں اسلحے کی تجارت میں بہت زیادہ کماتی ہیں، بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ امریکا ترکی اور پاکستان کی معیشت اسلحے کی پیداوار اور تجارت پر کھڑی ہے۔
اگر دنیا سے اسلحے کی پیداوار ختم ہوجائے تو جنگ بھی ختم ہوجائے گی۔ کوئی بھی شخص بھوکا مرے گا اور نہ جاہل رہے گا۔ گزشتہ ماہ لندن میں ہائیڈ پارک کے سامنے کی ایک عمارت پر کسی نے یہ نعرہ درج کیا ہے کہ ''NO STATE NO WAR'' یعنی ریاست نہیں تو جنگ نہیں۔ اس سے یہ ثابت ہوا کہ ریاست ہی جنگ کو جنم دیتی ہے، اسلحے کی فروخت کے لیے میدانِ جنگ سجائی جاتی ہے، جہاں عوام کے خون سے ہولی کھیلی جاتی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ برابری کی بات کرنے والے ملکیت چھین لیں گے اور ملکیت تو شروع سے چلی آرہی ہے۔ امیر اور غریب ہمیشہ سے ہیں۔ یہ کیسے ختم ہوں گے؟ دراصل 10 افراد میں سے ایک کے پاس جائیداد ہے یا یوں کہہ لیں کہ 100 افراد میں 10 کے پاس ہے یعنی صرف 10 فیصد لوگوں کے پاس ملکیت ہے جب کہ 90 فیصد لوگ ملکیت سے محروم ہیں اور اتنے ہی لوگ خاندان رہتے ہوئے بھی بے خاندان ہیں۔ جیسا کہ کراچی میں کشمیر، پنجاب، پختون خوا اور اندرون سندھ سے لاکھوں مزدور آکر مزدوری کرتے ہیں۔ ان کے خاندان کراچی میں نہیں ہوتے۔ یعنی خاندان ہوتے ہوئے بھی بے خاندان ہیں۔ انقلاب کے بعد انھیں خاندان ملے گا۔
جب ساری جائیداد سارے لوگوں کی ہوگی تو یہ 90 فیصد لوگ بھی اجتماعی جائیداد کے مالک ہوں گے۔
اگر یہ مان لیا جائے کہ امیر اور غریب شروع سے موجود ہیں تو پھر ''ہسٹری بیفور کارل مارکس'' نامی کتاب میں مصنف پال کہتا ہے کہ ''جب آدم کسان تھا اور حوّا مزدور تھی تو اس وقت بڑا آدمی کون تھا؟'' یعنی آدم ہل چلاتا تھا اور حوّا چرخہ کاتتی تھی۔ اس موقعے پر ساحر لدھیانوی کا شعر یاد آتا ہے۔
قدرت نے ہر انسان کو انسان بنایا
تم نے اسے ہندو یا مسلمان بنایا
مالک نے ہمیں ایک ہی دھرتی بخشی تھی
تم نے کہیں بھارت کہیں ایران بنایا
دنیا کی تشکیلات کے وقت ملکوں، سرحدوں اور ملکیت کا کوئی تصور نہیں تھا۔ یہ تو جب سرمایہ داری غالب آئی تب ملکوں کی لکیریں کھینچی گئیں۔ درحقیقت ہم صرف فروعی اور سطحی بحثوں میں لگے رہتے ہیں بلکہ یوں کہہ لیں کہ عوام کو ان کے مسائل سے دور رکھنے کے لیے ایسا کرتے ہیں۔
ریاست بنیادی طور پر دولت مندوں کی محافظ اور عوام کا خون چوسنے والی جونک ہے۔ مثال کے طور پر چند برس پہلے کشمیر میں زلزلہ آیا۔ حکومت نے اعلان کیا کہ ''اس بھاری نقصانات کی تلافی ہم نہیں کرسکتے۔'' نتیجتاً اس خطے اور دنیا بھر سے عوام نے خود امدادی سامان پہنچایا۔ بعض کرپٹ سرکاری اہلکاروں نے زلزلہ زدگان کی مدد کرنے کے بجائے ان کے امدادی سامان کی لوٹ مار شروع کردی۔ یہ کرپٹ سرکاری کارندے امدادی سامان پر دھاوا بولتے رہے اور یہ سامان بعد میں بازاروں میں فروخت ہوتے نظر آئے۔ شاید اب بھی ان اہلکاروں کے پاس یہ سامان محفوظ ہوں۔ اس سے یہ ثابت ہوا کہ ریاستی مدد کے بغیر عوام زندہ رہ سکتے ہیں، ترقی کرسکتے ہیں اور دوسروں کے لیے امداد بھی کرسکتے ہیں۔
پولیس کو لے لیں۔ یہ کبھی بھی عوام کی مشکلات میں کام نہیں آتی، ہاں مگر مشکلات کے بڑھانے میں ضرور کام آتی ہے۔ روزانہ ہمارے ملک میں پولیس، ٹریفک پولیس، کسٹم پولیس اور دیگر ادارے اربوں روپے عوام سے نام نہاد الزامات لگا کر رشوتیں وصول کرتے ہیں۔ انصاف فراہم کرنے والے اداروں میں بھی رشوتیں لے کر مجرموں بشمول قاتلوں کو رہا کردیا جاتا ہے۔ رشوت دیے بغیر کوئی مقدمہ آگے نہیں بڑھ سکتا ہے۔ پھر ریاست کس طرح سے لوگوں کو انصاف دے سکتی ہے۔ 16 ویں صدی کے معروف یونانی فلسفی سولونو نے کہا تھا کہ قانون ایک ایسا مکڑی کا جال ہے کہ طاقتور اسے پھاڑ کر نکل جاتا ہے جب کہ کمزور ہمیشہ پھنس جاتا ہے۔'' ہندوستان میں بھی ایسی مثالیں ہیں۔
آندھرا پردیش اور پنجاب میں 35 لاکھ ایکڑ زمین میں کسان دیسی کھاد اور دیسی ادویات استعمال کررہے ہیں اور ان کی پیداوار کیمیائی کھادوں کے برابر ہے جب کہ حکومت کیمیکل کھاد استعمال کرنے والوں کو مالی امداد دیتی ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوا کہ لاکھوں ایکڑ پر کام کرنے اور پیداوار دینے والے کسان ریاستی مدد کے بغیر پیداوار بڑھا رہے ہیں۔ حکومت کیمیکل کھاد اور پیسٹیسائیڈز استعمال کرنے والے کسانوں کو مالی امداد دے کر مہلک امراض پھیلا رہی ہے، ملٹی نیشنل کمپنیاں جو کھاد کی ترسیل کرتی ہیں، ان سے کمیشن وصول کرتی ہے، زمین کو بنجر بناتی ہیں اور کسانوں کو مقروض کررہی ہیں۔ اس سے ثابت ہوا کہ ریاست عوام کی مدد کے بجائے نقصان پہنچارہی ہے جب کہ دوسری جانب ریاستی مدد کے بغیر کسان لاکھوں ایکڑ زمین پر اپنی مدد آپ کی بنیاد پر اپنا کام سرانجام دے رہے ہیں۔
فوج رکھنا، اسلحہ بنانا اور اس کی تجارت کرنا ریاست کا فریضہ ہوتا ہے۔ ایک جانب امریکا میں 6 کروڑ افراد بے روزگار ہیں تو دوسری جانب امریکا نے 30,000 ایٹمی وار ہیڈ بنا رکھا ہے جس کے ذریعے اس دنیا کو 300 بار تباہ کیا جاسکتا ہے۔ اس کی صنعتی پیداوار کی 70 فیصد پیداوار اسلحے کی ہے۔ اس بار امریکا نے اپنا جنگی بجٹ 600 ارب ڈالر رکھا ہے۔ ٹھیک اسی طرح پاکستان میں صحت اور تعلیم کا بجٹ 2 فیصد سے بھی کم ہے جب کہ اسلحے کی پیداوار اور تجارت میں دنیا کا 11 واں ملک ہے۔ پاکستان کا جنگی بجٹ اس سال 510 ارب روپے رکھا گیا ہے۔
اب جہاں خوردنی تیل 200 روپے کلو، دالیں 100 روپے کلو، چاول 125 روپے کلو اور آٹا 35 روپے کلو ہو اور تعلیم اور صحت میں دنیا کا 134 واں نمبر ہو، ایسے ملک کا جنگی بجٹ بڑھانے کا کیا مطلب ہے؟ کہا جاتا ہے کہ ہندوستان حملہ کردے گا۔ ذرا غور سے توجہ دیں تو یہ نظر آئے گا کہ کیوبا اور وینزویلا امریکا کے پڑوسی ممالک ہیں۔ کیوبا کی ایک کروڑ اور وینزویلا کی 90 لاکھ کی آبادی ہے۔ ان کے پاس ایٹم بم ہے اور نہ بین البراعظمی میزائل۔ پھر امریکا کیوں حملہ کرکے قبضہ نہیں کرلیتا؟ اس سے یہ ثابت ہوا کہ ریاستیں اسلحے کی تجارت میں بہت زیادہ کماتی ہیں، بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ امریکا ترکی اور پاکستان کی معیشت اسلحے کی پیداوار اور تجارت پر کھڑی ہے۔
اگر دنیا سے اسلحے کی پیداوار ختم ہوجائے تو جنگ بھی ختم ہوجائے گی۔ کوئی بھی شخص بھوکا مرے گا اور نہ جاہل رہے گا۔ گزشتہ ماہ لندن میں ہائیڈ پارک کے سامنے کی ایک عمارت پر کسی نے یہ نعرہ درج کیا ہے کہ ''NO STATE NO WAR'' یعنی ریاست نہیں تو جنگ نہیں۔ اس سے یہ ثابت ہوا کہ ریاست ہی جنگ کو جنم دیتی ہے، اسلحے کی فروخت کے لیے میدانِ جنگ سجائی جاتی ہے، جہاں عوام کے خون سے ہولی کھیلی جاتی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ برابری کی بات کرنے والے ملکیت چھین لیں گے اور ملکیت تو شروع سے چلی آرہی ہے۔ امیر اور غریب ہمیشہ سے ہیں۔ یہ کیسے ختم ہوں گے؟ دراصل 10 افراد میں سے ایک کے پاس جائیداد ہے یا یوں کہہ لیں کہ 100 افراد میں 10 کے پاس ہے یعنی صرف 10 فیصد لوگوں کے پاس ملکیت ہے جب کہ 90 فیصد لوگ ملکیت سے محروم ہیں اور اتنے ہی لوگ خاندان رہتے ہوئے بھی بے خاندان ہیں۔ جیسا کہ کراچی میں کشمیر، پنجاب، پختون خوا اور اندرون سندھ سے لاکھوں مزدور آکر مزدوری کرتے ہیں۔ ان کے خاندان کراچی میں نہیں ہوتے۔ یعنی خاندان ہوتے ہوئے بھی بے خاندان ہیں۔ انقلاب کے بعد انھیں خاندان ملے گا۔
جب ساری جائیداد سارے لوگوں کی ہوگی تو یہ 90 فیصد لوگ بھی اجتماعی جائیداد کے مالک ہوں گے۔
اگر یہ مان لیا جائے کہ امیر اور غریب شروع سے موجود ہیں تو پھر ''ہسٹری بیفور کارل مارکس'' نامی کتاب میں مصنف پال کہتا ہے کہ ''جب آدم کسان تھا اور حوّا مزدور تھی تو اس وقت بڑا آدمی کون تھا؟'' یعنی آدم ہل چلاتا تھا اور حوّا چرخہ کاتتی تھی۔ اس موقعے پر ساحر لدھیانوی کا شعر یاد آتا ہے۔
قدرت نے ہر انسان کو انسان بنایا
تم نے اسے ہندو یا مسلمان بنایا
مالک نے ہمیں ایک ہی دھرتی بخشی تھی
تم نے کہیں بھارت کہیں ایران بنایا
دنیا کی تشکیلات کے وقت ملکوں، سرحدوں اور ملکیت کا کوئی تصور نہیں تھا۔ یہ تو جب سرمایہ داری غالب آئی تب ملکوں کی لکیریں کھینچی گئیں۔ درحقیقت ہم صرف فروعی اور سطحی بحثوں میں لگے رہتے ہیں بلکہ یوں کہہ لیں کہ عوام کو ان کے مسائل سے دور رکھنے کے لیے ایسا کرتے ہیں۔