شنگھائی تعاون تنظیم اور پاکستان
افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان معاشی میدان میں وہ خاطر خواہ اور نمایاں ترقی نہیں کر سکا جو اسے کرنا چاہیے تھی۔
چین کے شمالی ساحلی شہر چنگ باؤ میں شنگھائی تعاون تنظیم کا دو روزہ اجلاس شروع ہوگیا ہے۔ اس موقع پر اجلاس میں شریک صدر مملکت ممنون حسین نے چین' ایران اور تاجک ہم منصبوں سے الگ الگ ملاقاتیں کیں جس میں خطے کی صورت حال' عالمی امور اور دوطرفہ تعلقات سے متعلق تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔
صدر مملکت ممنون حسین سے ملاقات کے دوران گفتگو کرتے ہوئے چینی صدر زی جن پنگ نے کہا کہ چین اور پاکستان کے درمیان سدا بہار اسٹرٹیجک تعاون صرف مشترکہ اثاثوں تک محدود نہیں بلکہ چین یہ تعلق عالمی تعلقات میں ایک نئے ماڈل تک چلے جانے کی پیشکش کرتا ہے۔
چینی صدر نے صدرممنون کو تنظیم کا باقاعدہ رکن بننے پرمبارکباد دی۔ چینی صدر نے کہا کہ چین سی پیک کی صورت میں مواصلاتی سٹرکچر کی تعمیر تسلسل سے جاری رکھے گا، چین خطے میں ون بیلٹ ون روڈکے تحت توانائی اور مواصلات کے ڈھانچے کی تعمیر کی صورت میں دوطرفہ تعاون کا سلسلہ جاری رکھے گا.
انھوں نے کہا چین پاکستان سے مل کر دہشت گردی کے خلاف اپنے تعاون کو مزید بڑھانا چاہتا ہے، چین پاکستان کی قومی آزادی کی حفاظت، خود مختاری اور علاقائی سالمیت کے لیے اس کی مدد جاری رکھے گا، پاکستان کی پوری مدد کی جائے گی تاکہ وہ اپنی ترقی کا راستہ خود طے کر سکے، پاکستان اور چین دیگر دوسرے ممالک کی طرح اپنے اہم مفادات اور عام مفادات کے حامل امور پر ایک دوسرے کی مدد جاری رکھیں گے۔
اس موقع پر دونوں رہنماؤںنے پاکستان اورچین کے درمیان آزمودہ اسٹرٹیجک شراکت داری اورقریبی دوستانہ تعلقات پر روشنی ڈالی اورکہاکہ پاکستان اور چین نے ہمیشہ ایک دوسرے کا ساتھ دیا ہے، دونوں ممالک وقت کی آزمائش پر پورا اترے ہیں اور دونوں ممالک آزمودہ تعلقات، تعاون اور شراکت داری کو مزید مضبوط بنائیںگے۔
شنگھائی تعاون تنظیم کا قیام جون 2001ء میں شنگھائی میں عمل میں لایا گیا جس کے رکن ممالک میں چین' روس'قازقستان' کرغزستان' تاجکستان اور ازبکستان شامل تھے۔ پاکستان اور بھارت 2017ء میں اس تنظیم میں شامل ہوئے' پہلے یہ تنظیم شنگھائی فائیو گروپ کے نام سے 1996ء میں بنی جس میں ابتدائی طور پر ازبکستان شامل نہیں تھا۔
پاکستان اور بھارت 2017ء میں اس تنظیم کے رکن بنے جس پر اس تنظیم کے رکن ممالک کی تعداد8 ہوگئی' اس تنظیم کی باضابطہ زبانیں چینی اور روسی ہیں۔ چین' بھارت اور پاکستان آبادی کے لحاظ سے بڑے ممالک ہیں اس طرح دیگر ممالک کی شمولیت سے یہ آبادی اور جغرافیائی لحاظ سے دنیا کی سب سے بڑی تنظیم شمار کی جاتی ہے' جس کا مقصد رکن ممالک کے درمیان سیاسی' اقتصادی اور عسکری تعاون کو مضبوط سے مضبوط تر بنانا ہے۔
اس وقت دنیا میں یورپی یونین اور آسیان کے نام سے دو بڑی تنظیمیں کام کر رہی ہیں جن سے ان کے رکن ممالک کو ایک دوسرے کے قریب آنے اور ترقی کرنے کے بھرپور مواقع میسر آئے ہیں۔ اسی مثال کو سامنے رکھتے ہوئے شنگھائی تعاون تنظیم کا قیام عمل میں لایا گیا۔
اس وقت صورت حال یہ ہے کہ اس تنظیم کے ممالک میں چین اور روس اپنے مضبوط معاشی' اقتصادی اور عسکری انفراسٹرکچر کے باعث اہم رکن شمار ہوتے ہیں' چین اس وقت دنیا کی ایک ابھرتی ہوئی مضبوط معاشی قوت کے طور پر سامنے آ رہا اور وہ بڑی سرعت سے اپنے معاشی دائرے کو وسیع سے وسیع تر کرتا جا رہا ہے' دوسری جانب بھارت بھی ایک بڑی معاشی قوت کے طور پر سامنے آ رہا ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ اس تنظیم میں سب سے زیادہ فائدہ کس رکن ممالک کو حاصل ہو رہا ہے اور کون سا ملک سب سے پیچھے ہے۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان معاشی میدان میں وہ خاطر خواہ اور نمایاں ترقی نہیں کر سکا جو اسے کرنا چاہیے تھی' حکومتی اداروں کی اپنی رپورٹ کے مطابق بڑھتی ہوئی درآمدات اور گھٹتی ہوئی برآمدات کے باعث پاکستان کو تجارتی خسارے کا سامنا ہے اور روز بروز اس خسارے میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔
ایک جانب جہاں توانائی کے بحران کا سامنا ہے وہاں حکومت کی طرف سے عائد کردہ غیرضروری ٹیکسوں اور ڈیوٹیوں میں اضافے نے پاکستان کو صنعتی میدان میں بہت پیچھے دھکیل دیا ہے۔ جو صنعتیں قائم ہیں وہ بھی روبہ زوال ہیں۔ پاکستان کی جو صنعتی صورت حال ہے اسے دیکھ کر مایوسی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
اگر پاکستان کو معاشی میدان میں آگے بڑھنا اور شنگھائی تعاون تنظیم میں شامل ممالک کی تجارتی منڈیوں میں اہم مقام حاصل کرنا ہے تو اسے ایک مضبوط صنعتی پالیسی تشکیل دینے کے علاوہ دنیا میں ہونے والی ترقی اور جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ کرنا ہو گا' پرانی مشینری کے بجائے نئی اور ماڈرن مشینیں نصب کرنا ہوں گی۔ اگر مضبوط معاشی پالیسی تشکیل نہ دی گئی تو پھر پاکستان آہستہ آہستہ ایک مکمل صارف منڈی بن جائے گا جس کا آغاز عرصہ ہوا ہو چکا ہے۔
صدر مملکت ممنون حسین سے ملاقات کے دوران گفتگو کرتے ہوئے چینی صدر زی جن پنگ نے کہا کہ چین اور پاکستان کے درمیان سدا بہار اسٹرٹیجک تعاون صرف مشترکہ اثاثوں تک محدود نہیں بلکہ چین یہ تعلق عالمی تعلقات میں ایک نئے ماڈل تک چلے جانے کی پیشکش کرتا ہے۔
چینی صدر نے صدرممنون کو تنظیم کا باقاعدہ رکن بننے پرمبارکباد دی۔ چینی صدر نے کہا کہ چین سی پیک کی صورت میں مواصلاتی سٹرکچر کی تعمیر تسلسل سے جاری رکھے گا، چین خطے میں ون بیلٹ ون روڈکے تحت توانائی اور مواصلات کے ڈھانچے کی تعمیر کی صورت میں دوطرفہ تعاون کا سلسلہ جاری رکھے گا.
انھوں نے کہا چین پاکستان سے مل کر دہشت گردی کے خلاف اپنے تعاون کو مزید بڑھانا چاہتا ہے، چین پاکستان کی قومی آزادی کی حفاظت، خود مختاری اور علاقائی سالمیت کے لیے اس کی مدد جاری رکھے گا، پاکستان کی پوری مدد کی جائے گی تاکہ وہ اپنی ترقی کا راستہ خود طے کر سکے، پاکستان اور چین دیگر دوسرے ممالک کی طرح اپنے اہم مفادات اور عام مفادات کے حامل امور پر ایک دوسرے کی مدد جاری رکھیں گے۔
اس موقع پر دونوں رہنماؤںنے پاکستان اورچین کے درمیان آزمودہ اسٹرٹیجک شراکت داری اورقریبی دوستانہ تعلقات پر روشنی ڈالی اورکہاکہ پاکستان اور چین نے ہمیشہ ایک دوسرے کا ساتھ دیا ہے، دونوں ممالک وقت کی آزمائش پر پورا اترے ہیں اور دونوں ممالک آزمودہ تعلقات، تعاون اور شراکت داری کو مزید مضبوط بنائیںگے۔
شنگھائی تعاون تنظیم کا قیام جون 2001ء میں شنگھائی میں عمل میں لایا گیا جس کے رکن ممالک میں چین' روس'قازقستان' کرغزستان' تاجکستان اور ازبکستان شامل تھے۔ پاکستان اور بھارت 2017ء میں اس تنظیم میں شامل ہوئے' پہلے یہ تنظیم شنگھائی فائیو گروپ کے نام سے 1996ء میں بنی جس میں ابتدائی طور پر ازبکستان شامل نہیں تھا۔
پاکستان اور بھارت 2017ء میں اس تنظیم کے رکن بنے جس پر اس تنظیم کے رکن ممالک کی تعداد8 ہوگئی' اس تنظیم کی باضابطہ زبانیں چینی اور روسی ہیں۔ چین' بھارت اور پاکستان آبادی کے لحاظ سے بڑے ممالک ہیں اس طرح دیگر ممالک کی شمولیت سے یہ آبادی اور جغرافیائی لحاظ سے دنیا کی سب سے بڑی تنظیم شمار کی جاتی ہے' جس کا مقصد رکن ممالک کے درمیان سیاسی' اقتصادی اور عسکری تعاون کو مضبوط سے مضبوط تر بنانا ہے۔
اس وقت دنیا میں یورپی یونین اور آسیان کے نام سے دو بڑی تنظیمیں کام کر رہی ہیں جن سے ان کے رکن ممالک کو ایک دوسرے کے قریب آنے اور ترقی کرنے کے بھرپور مواقع میسر آئے ہیں۔ اسی مثال کو سامنے رکھتے ہوئے شنگھائی تعاون تنظیم کا قیام عمل میں لایا گیا۔
اس وقت صورت حال یہ ہے کہ اس تنظیم کے ممالک میں چین اور روس اپنے مضبوط معاشی' اقتصادی اور عسکری انفراسٹرکچر کے باعث اہم رکن شمار ہوتے ہیں' چین اس وقت دنیا کی ایک ابھرتی ہوئی مضبوط معاشی قوت کے طور پر سامنے آ رہا اور وہ بڑی سرعت سے اپنے معاشی دائرے کو وسیع سے وسیع تر کرتا جا رہا ہے' دوسری جانب بھارت بھی ایک بڑی معاشی قوت کے طور پر سامنے آ رہا ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ اس تنظیم میں سب سے زیادہ فائدہ کس رکن ممالک کو حاصل ہو رہا ہے اور کون سا ملک سب سے پیچھے ہے۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان معاشی میدان میں وہ خاطر خواہ اور نمایاں ترقی نہیں کر سکا جو اسے کرنا چاہیے تھی' حکومتی اداروں کی اپنی رپورٹ کے مطابق بڑھتی ہوئی درآمدات اور گھٹتی ہوئی برآمدات کے باعث پاکستان کو تجارتی خسارے کا سامنا ہے اور روز بروز اس خسارے میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔
ایک جانب جہاں توانائی کے بحران کا سامنا ہے وہاں حکومت کی طرف سے عائد کردہ غیرضروری ٹیکسوں اور ڈیوٹیوں میں اضافے نے پاکستان کو صنعتی میدان میں بہت پیچھے دھکیل دیا ہے۔ جو صنعتیں قائم ہیں وہ بھی روبہ زوال ہیں۔ پاکستان کی جو صنعتی صورت حال ہے اسے دیکھ کر مایوسی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
اگر پاکستان کو معاشی میدان میں آگے بڑھنا اور شنگھائی تعاون تنظیم میں شامل ممالک کی تجارتی منڈیوں میں اہم مقام حاصل کرنا ہے تو اسے ایک مضبوط صنعتی پالیسی تشکیل دینے کے علاوہ دنیا میں ہونے والی ترقی اور جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ کرنا ہو گا' پرانی مشینری کے بجائے نئی اور ماڈرن مشینیں نصب کرنا ہوں گی۔ اگر مضبوط معاشی پالیسی تشکیل نہ دی گئی تو پھر پاکستان آہستہ آہستہ ایک مکمل صارف منڈی بن جائے گا جس کا آغاز عرصہ ہوا ہو چکا ہے۔