عصر حاضر کے عوامی مسائل
اب تک کے تمام انتخابات میں ایسے لوگ منتخب ہوکر اسمبلیوں میں جاتے رہے جنھیں عوامی مسائل سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔
جیسے جیسے رمضان المبارک کا ماہ مقدس اختتام پذیر ہورہا ہے ایسے میں جہاں ایک جانب اگر عیدالفطر کی تیاریوں میں تیزی آرہی ہے، مطلب یہ کہ عیدالفطر کے لیے زیب تن کرنے کے لیے خوشنما پوشاکیں تیار ہورہی ہیں تو دوسری جانب حسب روایت ملک بھر کی مانند کراچی میں بھی افطار پارٹیوں کا بھی ایک گویا سیلاب امڈ آیا ہے۔
پریشانی کا باعث یہ بات ہوتی ہے کہ کس افطار میں شرکت کریں اور کن صاحب سے افطار پارٹی سے معذرت کی جائے۔ بہرکیف حسب روایت نامور ترین ٹریڈ یونین رہنما و دانشور ناصر منصور کی دعوت پر ہم 5 جون 2018 کو ان کے آفس میں مدعو تھے۔ مہمانان گرامی میں راقم کے علاوہ ممتاز ترین سماجی شخصیت فیصل ایدھی، کالم نویس زبیر رحمن، ہوم بیسڈ ورکرز فیڈریشن کی رہنما زہرا خان ودیگر ٹریڈ یونین سے وابستہ لوگ شریک تھے۔
تمام مہمان قبل از وقت ہی تشریف لاچکے تھے، چنانچہ یہ چھوٹی سی افطار پارٹی کی تقریب چھوٹے سے جلسے کی شکل اختیار کرگئی، چنانچہ سب سے پہلے ناصر منصور صاحب کو خطاب کی دعوت دی گئی۔
ناصر منصور نے حالات حاضرہ کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اچھی بات یہ ہے کہ ملک میں جمہوریت کا تسلسل جاری ہے، جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ گزشتہ دو قومی و صوبائی اسمبلیوں نے اپنی آئینی مدت پوری کی ہے اور اسی جمہوری تسلسل کو جاری رکھتے ہوئے موجودہ نگران حکومت نے اپنی اپنی ذمے داری پوری کرتے ہوئے ملک بھر میں 25 جولائی 2018 کو عام انتخابات کروانے کا اعلان کیا ہے اور امید ہے کہ مجوزہ عام انتخابات 25 جولائی 2018 کو ہی ہوں گے۔
یہ ضرور ہے کہ ہمارے ہاں منتخب نمائندے یا منتخب حکومتیں عوامی مسائل حل نہیں کرسکیں، کیونکہ آج بھی صنعتی مزدور تمام حقوق سے محروم ہیں، ٹھیکیداری نظام کے تحت پوری اجرت نہیں ملتی، حفاظتی اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں، جس کے باعث کثیر تعداد میں مزدوروں کی قیمتی جانیں ضائع ہورہی ہیں۔ ملک میں توانائی بحران ہے، پینے کے پانی کی شدید قلت ہے، کراچی میں سیوریج نظام تباہ ہوچکا ہے، پولیس گردی اپنے عروج پر ہے، عوام کو تحفظ دینے کے ذمے دار ہی عوام کے لیے مسائل پیدا کررہے ہیں۔
گمشدہ افراد کا مسئلہ سنگین سے سنگین صورت حال اختیار کرتا جارہا ہے، یہاں تک کہ عام محنت کش لوگ غائب ہورہے ہیں۔ پہلے یہ انسانی مسئلہ بلوچستان تک محدود تھا، اب اس مسئلے نے بلوچستان کے ساتھ ساتھ صوبہ سندھ میں بھی سنگین شکل اختیار کرلی ہے اور سندھ سے بھی کثیر تعداد میں لوگ غائب ہورہے ہیں۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ موجودہ جمہوری نظام میں تحریر و تقریر یا اظہار رائے کی آزادی ہے، چنانچہ عصر حاضر میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے حقوق کے لیے مشترکہ جد وجہد کریں اور اپنے حقوق حاصل کریں۔
کالم نگار زبیر رحمن نے اظہار خیال یوں کیا کہ لاقانونیت تمام حدیں پھلانگ چکی ہے، ملک میں جرائم پیشہ لوگوں نے گویا اپنا اپنا راج قائم رکھا ہے، عام شہری کے لیے انصاف کا حصول ناممکن ہوچکا ہے، عام سے وکیل کی فیس بھی لاکھوں روپے ہوتی ہے، ان حالات میں عام آدمی کو انصاف کیسے مل سکتا ہے، کیونکہ غریب آدمی تو کسی بھی صورت میں صداقت پر ہونے کے باوجود وکلا کی بھاری فیس ادا کرنے سے قاصر ہے۔
مزدور رہنما محمد عباس نے اپنی گفتگو میں کہا کہ ہمارے ملک میں مزدور کی حیثیت تسلیم نہیں کی جاتی، جبر تو یہاں تک ہے کہ ہمیں یکم مئی کا جلوس تک نہیں نکالنے دیا گیا، جب کہ انھوں نے عام آدمی کو روزمرہ زندگی میں پیش آنے والے مسائل کا بھی احسن طریقے سے ذکر کیا۔ انھوں نے مزید کہاکہ 99 پیسے 99 پیسے ہی ہوتے ہیں، پورا روپیہ نہیں، اسی طرح جب تک عوام کو تمام جمہوری حقوق یا سماجی حقوق حاصل نہ ہوں اس وقت تک جمہوری نظام مکمل نہیں ہوتا۔
اس موقع پر فیصل ایدھی نے اپنے خیالات کا یوں اظہار کیا کہ فضائی آلودگی میں حد درجہ اضافہ ہورہا ہے، موسمی ماحول دنیا بھر میں تبدیل ہورہا ہے، موسمی درجہ حرارت بڑھ رہا ہے اور اس بڑھتے ہوئے موسمی درجہ حرارت کا باعث ہے صنعتی ماحول، چونکہ کوئلے سے توانائی حاصل کی جارہی ہے جس کے سبب فضائی آلودگی بڑھ رہی ہے، بڑھتی ہوئی اس فضائی آلودگی کی وجہ سے اوزون کی ایکسولیس میل لمبی پٹی میں بھی کئی مقامات پر بڑے بڑے سوراخ ہورہے ہیں اور سورج کی روشنی زمین پر ڈائریکٹ آرہی ہے، یہ بھی بڑھتے ہوئے موسم درجہ حرارت کا باعث ہے۔ چنانچہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ماحول دوست درخت لگائیں، شمسی توانائی کے حصول کو فروغ دیں اور سولر سسٹم کے تحت توانائی حاصل کریں۔
اپنی گفتگو میں انھوں نے مزید کہا کہ میں اپنے وسائل سے شجرکاری مہم کا آغاز کرنے جارہا ہوں، امید ہے کہ لوگ اس سلسلے میں میرا ساتھ دیں گے۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ چند برس قبل مخصوص حالات میں 22 لاکھ کونو کوپیکس کے درخت لگائے گئے، جب کہ یوکلپٹس کے درخت بھی لگائے گئے جوکہ ہمارے ماحول سے مطابقت نہیں رکھتے تھے، بالخصوص کونوکوپیکس لوگوں میں دمہ جیسے خطرناک مرض کا باعث بن رہا ہے، جب کہ ہم کوشش کریں گے کہ پیپل، نیم و برگد کے درخت لگائیں جوکہ ماحول دوست درخت ہیں اور ہمارے ماحول سے مطابقت بھی رکھتے ہیں اور موسمی درجہ حرارت میں کمی کا باعث بھی بنتے ہیں۔
ہوم بیسڈ ورکرز فیڈریشن کی رہنما شبنم نے اپنی مختصر گفتگو میں کہا کہ اب تک کے تمام انتخابات میں ایسے لوگ منتخب ہوکر اسمبلیوں میں جاتے رہے جنھیں عوامی مسائل سے کوئی دلچسپی نہ تھی، یہی باعث ہے کہ عوامی مسائل جوں کے توں ہیں۔ انھوں نے گھریلو مسائل جوکہ گھریلو خواتین کو درپیش ہوتے ہیں ان پر خوبصورتی سے روشنی ڈالی۔ آخر میں مزدور رہنما ریاض عباسی نے موجودہ سیاسی صورتحال پر بات کی اور اس بات پر زور دیا کہ مزدوروں کے اپنے نمائندے آنے والے مجوزہ انتخابات میں حصہ لیں، ہار یا جیت ایک الگ مسئلہ ہے، کم سے کم مزدور رہنما عوام میں تو جائیں۔
آخر میں تمام حاضرین نے فیصل ایدھی کی شجر کاری مہم میں ان کا پورا پورا ساتھ دینے کا وعدہ کیا اور اپنے مکمل تعاون کا یقین دلایا۔ اسی اثنا میں اذان مغرب کا وقت ہوگیا، تمام حاضرین کے لیے روزہ افطاری کا بہترین اہتمام تھا، نماز مغرب کے بعد ہم نے میزبان ناصر منصور سے اجازت لی اور ان کے آفس سے واپسی کا سفر اختیار کیا۔
پریشانی کا باعث یہ بات ہوتی ہے کہ کس افطار میں شرکت کریں اور کن صاحب سے افطار پارٹی سے معذرت کی جائے۔ بہرکیف حسب روایت نامور ترین ٹریڈ یونین رہنما و دانشور ناصر منصور کی دعوت پر ہم 5 جون 2018 کو ان کے آفس میں مدعو تھے۔ مہمانان گرامی میں راقم کے علاوہ ممتاز ترین سماجی شخصیت فیصل ایدھی، کالم نویس زبیر رحمن، ہوم بیسڈ ورکرز فیڈریشن کی رہنما زہرا خان ودیگر ٹریڈ یونین سے وابستہ لوگ شریک تھے۔
تمام مہمان قبل از وقت ہی تشریف لاچکے تھے، چنانچہ یہ چھوٹی سی افطار پارٹی کی تقریب چھوٹے سے جلسے کی شکل اختیار کرگئی، چنانچہ سب سے پہلے ناصر منصور صاحب کو خطاب کی دعوت دی گئی۔
ناصر منصور نے حالات حاضرہ کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اچھی بات یہ ہے کہ ملک میں جمہوریت کا تسلسل جاری ہے، جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ گزشتہ دو قومی و صوبائی اسمبلیوں نے اپنی آئینی مدت پوری کی ہے اور اسی جمہوری تسلسل کو جاری رکھتے ہوئے موجودہ نگران حکومت نے اپنی اپنی ذمے داری پوری کرتے ہوئے ملک بھر میں 25 جولائی 2018 کو عام انتخابات کروانے کا اعلان کیا ہے اور امید ہے کہ مجوزہ عام انتخابات 25 جولائی 2018 کو ہی ہوں گے۔
یہ ضرور ہے کہ ہمارے ہاں منتخب نمائندے یا منتخب حکومتیں عوامی مسائل حل نہیں کرسکیں، کیونکہ آج بھی صنعتی مزدور تمام حقوق سے محروم ہیں، ٹھیکیداری نظام کے تحت پوری اجرت نہیں ملتی، حفاظتی اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں، جس کے باعث کثیر تعداد میں مزدوروں کی قیمتی جانیں ضائع ہورہی ہیں۔ ملک میں توانائی بحران ہے، پینے کے پانی کی شدید قلت ہے، کراچی میں سیوریج نظام تباہ ہوچکا ہے، پولیس گردی اپنے عروج پر ہے، عوام کو تحفظ دینے کے ذمے دار ہی عوام کے لیے مسائل پیدا کررہے ہیں۔
گمشدہ افراد کا مسئلہ سنگین سے سنگین صورت حال اختیار کرتا جارہا ہے، یہاں تک کہ عام محنت کش لوگ غائب ہورہے ہیں۔ پہلے یہ انسانی مسئلہ بلوچستان تک محدود تھا، اب اس مسئلے نے بلوچستان کے ساتھ ساتھ صوبہ سندھ میں بھی سنگین شکل اختیار کرلی ہے اور سندھ سے بھی کثیر تعداد میں لوگ غائب ہورہے ہیں۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ موجودہ جمہوری نظام میں تحریر و تقریر یا اظہار رائے کی آزادی ہے، چنانچہ عصر حاضر میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے حقوق کے لیے مشترکہ جد وجہد کریں اور اپنے حقوق حاصل کریں۔
کالم نگار زبیر رحمن نے اظہار خیال یوں کیا کہ لاقانونیت تمام حدیں پھلانگ چکی ہے، ملک میں جرائم پیشہ لوگوں نے گویا اپنا اپنا راج قائم رکھا ہے، عام شہری کے لیے انصاف کا حصول ناممکن ہوچکا ہے، عام سے وکیل کی فیس بھی لاکھوں روپے ہوتی ہے، ان حالات میں عام آدمی کو انصاف کیسے مل سکتا ہے، کیونکہ غریب آدمی تو کسی بھی صورت میں صداقت پر ہونے کے باوجود وکلا کی بھاری فیس ادا کرنے سے قاصر ہے۔
مزدور رہنما محمد عباس نے اپنی گفتگو میں کہا کہ ہمارے ملک میں مزدور کی حیثیت تسلیم نہیں کی جاتی، جبر تو یہاں تک ہے کہ ہمیں یکم مئی کا جلوس تک نہیں نکالنے دیا گیا، جب کہ انھوں نے عام آدمی کو روزمرہ زندگی میں پیش آنے والے مسائل کا بھی احسن طریقے سے ذکر کیا۔ انھوں نے مزید کہاکہ 99 پیسے 99 پیسے ہی ہوتے ہیں، پورا روپیہ نہیں، اسی طرح جب تک عوام کو تمام جمہوری حقوق یا سماجی حقوق حاصل نہ ہوں اس وقت تک جمہوری نظام مکمل نہیں ہوتا۔
اس موقع پر فیصل ایدھی نے اپنے خیالات کا یوں اظہار کیا کہ فضائی آلودگی میں حد درجہ اضافہ ہورہا ہے، موسمی ماحول دنیا بھر میں تبدیل ہورہا ہے، موسمی درجہ حرارت بڑھ رہا ہے اور اس بڑھتے ہوئے موسمی درجہ حرارت کا باعث ہے صنعتی ماحول، چونکہ کوئلے سے توانائی حاصل کی جارہی ہے جس کے سبب فضائی آلودگی بڑھ رہی ہے، بڑھتی ہوئی اس فضائی آلودگی کی وجہ سے اوزون کی ایکسولیس میل لمبی پٹی میں بھی کئی مقامات پر بڑے بڑے سوراخ ہورہے ہیں اور سورج کی روشنی زمین پر ڈائریکٹ آرہی ہے، یہ بھی بڑھتے ہوئے موسم درجہ حرارت کا باعث ہے۔ چنانچہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ماحول دوست درخت لگائیں، شمسی توانائی کے حصول کو فروغ دیں اور سولر سسٹم کے تحت توانائی حاصل کریں۔
اپنی گفتگو میں انھوں نے مزید کہا کہ میں اپنے وسائل سے شجرکاری مہم کا آغاز کرنے جارہا ہوں، امید ہے کہ لوگ اس سلسلے میں میرا ساتھ دیں گے۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ چند برس قبل مخصوص حالات میں 22 لاکھ کونو کوپیکس کے درخت لگائے گئے، جب کہ یوکلپٹس کے درخت بھی لگائے گئے جوکہ ہمارے ماحول سے مطابقت نہیں رکھتے تھے، بالخصوص کونوکوپیکس لوگوں میں دمہ جیسے خطرناک مرض کا باعث بن رہا ہے، جب کہ ہم کوشش کریں گے کہ پیپل، نیم و برگد کے درخت لگائیں جوکہ ماحول دوست درخت ہیں اور ہمارے ماحول سے مطابقت بھی رکھتے ہیں اور موسمی درجہ حرارت میں کمی کا باعث بھی بنتے ہیں۔
ہوم بیسڈ ورکرز فیڈریشن کی رہنما شبنم نے اپنی مختصر گفتگو میں کہا کہ اب تک کے تمام انتخابات میں ایسے لوگ منتخب ہوکر اسمبلیوں میں جاتے رہے جنھیں عوامی مسائل سے کوئی دلچسپی نہ تھی، یہی باعث ہے کہ عوامی مسائل جوں کے توں ہیں۔ انھوں نے گھریلو مسائل جوکہ گھریلو خواتین کو درپیش ہوتے ہیں ان پر خوبصورتی سے روشنی ڈالی۔ آخر میں مزدور رہنما ریاض عباسی نے موجودہ سیاسی صورتحال پر بات کی اور اس بات پر زور دیا کہ مزدوروں کے اپنے نمائندے آنے والے مجوزہ انتخابات میں حصہ لیں، ہار یا جیت ایک الگ مسئلہ ہے، کم سے کم مزدور رہنما عوام میں تو جائیں۔
آخر میں تمام حاضرین نے فیصل ایدھی کی شجر کاری مہم میں ان کا پورا پورا ساتھ دینے کا وعدہ کیا اور اپنے مکمل تعاون کا یقین دلایا۔ اسی اثنا میں اذان مغرب کا وقت ہوگیا، تمام حاضرین کے لیے روزہ افطاری کا بہترین اہتمام تھا، نماز مغرب کے بعد ہم نے میزبان ناصر منصور سے اجازت لی اور ان کے آفس سے واپسی کا سفر اختیار کیا۔