انتخابی منشور اور نعرے

بھٹو شہید کا تخلیق کردہ انتخابی منشور چار نکات پر مشتمل تھا ’’اسلام ہمارا دین ہے، جمہوریت ہماری سیاست ہے۔۔۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے 11مئی 2013کے مجوزہ عام انتخابات کے لیے امیدواروں کی حتمی فہرست کے اجرا کے بعد ملک بھر میں21روزہ انتخابی مہم کا باقاعدہ آغاز ہوچکا ہے، امن وامان کی مخدوش صورتحال کے باعث بلوچستان، خیبر پختونخوا اور سندھ میں امیدواروں اور اہم سیاسی رہنماؤں کو سیکیورٹی کے حوالے سے سنگین خطرات کا سامناہے، جب کہ پنجاب میں صورتحال قدرے پرسکون ہے، یہی وجہ ہے کہ دیگر صوبوں کے مقابلے میں پنجاب میں انتخابی گہما گہمی اورسیاسی جماعتوں وکارکنوں کا جوش وخروش پورے عروج پر ہے۔

ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں پی پی پی، مسلم لیگ ن، ایم کیوایم، اے این پی، مسلم لیگ ق، تحریک انصاف سمیت دیگر سیاسی جماعتوں نے بھی اپنے اپنے انتخابی منشور کا اعلان کردیا ہے اور سیاسی قائدین عوام کو اپنی تقریروں اور میڈیا مہم کے ذریعے یقین دہانیاں کرا رہے ہیں کہ کامیابی کی صورت میں وہ اپنے منشورپر عمل در آمد کرکے ملک وقوم کی تقدیر بدل دیں گے، ہر سیاسی جماعت نے اپنے منشور میں عوام کی فلاح وبہبود اور اہم قومی مسائل ومعاملات کے حوالے سے اپنی اپنی ترجیحات متعین کررکھی ہیں۔

ایک خاص بات یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کے انتخابی منشور میں عوام کو ''اپیل''کرتا ہوا کوئی نہ کوئی''سلوگن''یا سیاسی نعرہ ضرور شامل ہوتا ہے جس کی بنیاد پر پوری انتخابی مہم چلائی جاتی ہے، گزشتہ عام انتخابات کے دوران سیاسی جماعتوں نے اپنے انتخاب کے مطابق بے شمار نعرے متعارف کرائے لیکن ماسوائے پی پی پی کے انتخابی منشور کے نچوڑ اور سحر انگیز عوامی نعرے''روٹی کپڑا اور مکان'' کے دیگر جماعتوں کے انتخابی نعرے تاریخ کے اوراق میں خوابیدہ ہوگئے،1970 میں پی پی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کروڑوں غریبوں اور عام آدمی کے وسائل اور دکھوں کو قریب سے محسوس کیا انھوں نے لوگوں کی بنیادی ضروریات کی تکمیل کو اپنے انتخابی منشور کی بنیاد بتایا بھٹو شہید نے روٹی، کپڑا اور مکان کا غریب دوست نعرہ لگاکر قومی سیاسی میں ایسی ہلچل پیدا کی جس کی گرمجوشی اور تازگی کو آج بھی ملک کے کروڑوں عوام محسوس کرتے ہیں.

بھٹو شہید کا تخلیق کردہ انتخابی منشور چار نکات پر مشتمل تھا ''اسلام ہمارا دین ہے، جمہوریت ہماری سیاست ہے سوشلزم ہماری معیشت ہے اور طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں'' قومی سیاسی تاریخ میں ایسا جامع اور ہمہ گیر منشور کوئی دوسری جماعت پیش نہیں کرسکی، یہی وجہ ہے کہ پی پی کروڑوں غریبوں، مزدوروں، محنت کشوں، کسانوں، مزارعوں، طالب علموں اور پسماندہ طبقے کے دلوں میں جگہ بنانے میں کامیاب رہی، عوام نے چار مرتبہ پی پی پی کو اقتدار میں پہنچایا اور اپنے عوام دوست انتخابی منشور کی بنیاد پر اب پانچویں مرتبہ پی پی پی کے موجودہ قائد صدر آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کی رہنمائی میں ایوان اقتدار میں داخل ہونے کے لیے11 مئی 2013کو کامیابی کی ایک نئی تاریخ رقم کرنے جارہی ہے۔

ایک وفاقی ادارے میں اعلیٰ انتظامی عہدے پر فائز میرے ایک کرم فرما انجینئر محمود عباس شاہ نے راقم کو بتایاکہ پی پی کا منشور دوسری سیاسی جماعتوں کی طرح محض جذباتی نعروں پر مشتمل نہیں بلکہ عوام کی فلاح وبہبود کے منصوبے اور ملک کو درپیش چیلنجوں کا جامع حل اس منشور کی اساس ہے جو صدرپاکستان آصف علی زرداری کی سیاسی بصیرت اور قومی مسائل کے حل میں ان کی دلچسپی وسنجیدگی کا مظہر ہے، وزیراعظم سیکریٹریٹ میں میڈیا سیل کے انچارج اور میرے انتہائی مہربان ومخلص دوست ضیاء کھوکھر نے پی پی پی کے منشور برائے الیکشن 2013 کی ایک کاپی از راہ کرم راقم کو ارسال کی ہے جس کے چیدہ چیدہ نکات نوائے خامہ کے قارئین کے لیے نقل کررہاہوں۔

٭غریبوں کے لیے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت نقد مالی امداد میں اضافہ کرکے دو ہزار روپے ماہوار کردی جائے گی۔
٭سال2018تک مزدوروں کی کم سے کم اجرت بتدریج بڑھاتے ہوئے18ہزار روپے ماہوارکردی جائے گی۔
٭کم آمدنی والے طبقات کے لیے نجی سرکاری شراکت کے تحت کم لاگت کی رہائشی اسکیمیں شروع کی جائیں گی۔
٭ہر سال اعلیٰ تعلیم اور فنی تربیت کے لیے10ہزار وظائف خصوصاً فاٹا اور بلوچستان میں دیئے جائیں گے۔
٭عورتوں کو زمینوں کی ملکیت، قرضوں اور قانونی تحفظ کے ذریعے حصول آمدنی کے مواقعے فراہم کیے جائیں گے۔
٭چھوٹے کاروبار کرنے والوں اور کاشت کاروں کو قرضوں کی سہولت دیتے ہوئے ملازمت کے نئے مواقعے پیدا ہوں گے۔
٭ خصوصی معاشی زون اور ویونگ بستی بنائیں گے، ٹیکسٹائل کی صنعت کو ترقی دینے کے لیے ہنر مندی کو فروغ دیاجائے گا۔

٭نادرا کی معاونت سے 2018تک ٹیکس نیٹ کو 50 لاکھ اور جی ڈی پی میں ٹیکس شرح کو 15فیصد تک لے جایاجائے گا۔
٭بجٹ خسارے میں کمی کے لیے حکومتی قرضوں میں کمی اور 2017تک اسے جی ڈی پی کے چار فیصد تک لایاجائے گا۔
٭انرجی مکس(آبی، کوئلے، گیس اور دوبارہ قابل استعمال توانائی)کے ذریعے حکومتی مدت کے دوران12ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کریں گے۔
٭پاکستان کو ایران پاکستان گیس پائپ لائن اور TAPکے ذریعے انرجی کوریڈور بنایاجائے گا۔
٭سرکاری نجی شراکت کے تحت صوبوں کو موٹرویز سے منسلک کیاجائے گا،سافٹ ویئر پارک اور ٹیلی مواصلات کو وسعت دیں گے۔
٭18ویں ترمیم کے تاریخی ارتقاء کو آگے بڑھاتے ہوئے مقامی شہری حکومتیں قائم کرنے کے لیے اتفاق رائے پیدا کیاجائے گا۔
٭بلوچستان کو قومی دہارے میں مزید مربوط کرنے اور جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانے کے لیے تمام آئینی اقدامات کیے جائیں گے۔
٭سول سروس میں اصلاحات اور میثاق جمہوریت کے تحت ایک آئینی عدالت قائم کریں گے۔
٭عدالتی گواہوں اور ججوں کے تحفظ کے لیے اقدامات اٹھائیں گے اور کالعدم تنظیموں اور مجرمانہ عناصر کے ساتھ سختی سے نمٹیں گے۔
٭ایوان وزیراعظم میں''نیشنل کاؤنٹریٹرازم اتھارٹی'' قائم کی جائے گی جو وفاقی اداروں کے لیے انسداد دہشت گردی کے کنٹرول روم کا کام کرے گی۔
٭پڑوسی ممالک کے ساتھ مستقل مکالمے کی پالیسی جاری رکھیں گے اور کشمیریوں کی جائز امنگوں کے لیے ان کی اخلاقی، سیاسی اور سفارتی حمایت جاری رہے گی۔
٭چین کے ساتھ اسٹرٹیجک ساجھے داری میں اضافے اور امریکا واسلامی ممالک کے ساتھ تعلقات کو تقویت دیں گے۔
٭36ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے انتظام سے آئی پی پیز کے ذریعے12ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کی جائے گی اور قرضوں کا مسئلہ حل کیاجائے گا۔
٭امن وامان کو بہتر بنانے کے لیے قومی سیکیورٹی پلان وضع کریں گے، اہداف جاتی فوجی آپریشن کریں گے اور سرحدی سلامتی کے اقدامات میں اضافہ کیاجائے گا۔
٭تشدد ترک کرنے پر آمادہ عسکری گروپوں اور افراد سے اسلحہ واپس لینے ان کی کارروائیاں ختم کرنے اور انھیں معاشرے میں ضم کرنے کا عمل شروع کیاجائے گا۔
٭وہ علاقے جہاں مذہبی یا لسانی اقلیتوں کی بڑی تعداد قیام پذیر ہے انھیں تحفظ دینے کے لیے مناسب اقدامات کیے جائیں گے۔
٭دیہی وکم آمدنی والے شہری علاقوں میں لیڈی ہیلتھ وزیٹرز کے ذریعے بنیادی طبی نگہداشت کے پروگرام میں100فیصد اضافہ اور 2018تک پولیو کا خاتمہ کرینگے۔
٭اگلی مدت کے خاتمے تک تعلیم پر جی ڈی پی کا4.5 فیصد سے زائد خرچ کیاجائے گا، درسی کتب کو نفرت آمیز مواد سے پاک کرنے کے لیے اصلاحات کریں گے۔
Load Next Story