الیکٹ ایبلز کو ٹکٹ دینا تحریک انصاف کی کامیابی کیلئے ناگزیر تھا
ایک طرف جہاں ن لیگ اربوں روپے کا انتخابی بجٹ لیکر میدان میں اتر رہی ہےوہاں عمران خان کو بھی الیکٹ ایبلز ہی اتارنا پڑے
پاکستان تحریک انصاف نے جنرل نشستوں اور مخصوص نشستوں پر ٹکٹوں کے اجراء کا ابتدائی مرحلہ مکمل کر لیا ہے تاہم دونوں کیٹیگریز میں ''انصاف'' کی دھجیاں بکھرتی دکھائی دیتی ہیں۔
وزیر اعظم بننے کی''قیمت''سالہا سال سے نئے پاکستان کی جدوجہد میں شریک کارکنوں کی ''قربانی''کی صورت میں ہی ادا ہونا تھی لیکن کپتان یہ قربانی اپنے ہاتھوں سے کرتے تو شاید کارکن بھی خوشی خوشی قربان ہوجاتے لیکن یہ چھری انہوں نے چلائی جو خود قربانی کے لائق تصور کیئے جاتے ہیں۔ قومی و چاروں صوبائی اسمبلیوں کی تقریباً ایک ہزار نشستوں کیلئے تحریک انصاف کے پارلیمانی بورڈ کو 4653 درخواستیں موصول ہوئی تھیں۔
قومی اسمبلی کیلئے تحریک انصاف نے ابھی تک 178 نشستوں پر ٹکٹوں کا اعلان کیا ہے۔ سوشل میڈیا پر زیر گردش تفصیلات کے مطابق ان میں سے 104 ٹکٹ پی ٹی آئی کے لوگوں کو دیئے گئے ہیں، 19 پیپلز پارٹی کے الیکٹ ایبلز کو اور 18 نون لیگ سے آئے الیکٹ ایبلز کو ملے ہیں۔ ق لیگ سے آئے الیکٹ ایبلز کو 7 جبکہ آزاد حیثیت سے جیتنے والے 30 الیکٹ ایبلز کو ٹکٹ دیئے گئے ہیں۔ باقی رہ جانے والی بعض ٹکٹوں کے اعلانات اور اعلان کردہ چند ٹکٹوں میں تبدیلیوں کا فیصلہ کل تک ہونا ہے۔ بادی النظر میں ٹکٹوں کی تقسیم پر اتنا احتجاج نہیں ہے جتنا کہ الیکٹرانک میڈیا پر بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ ہر بڑی سیاسی جماعت کو الیکشن کے دنوں میں ایسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ماضی میں بھی ن لیگ اور پیپلز پارٹی کو ایسے حالات درپیش رہے اور اس وقت بھی ن لیگ کو مسائل کا سامنا ہے تاہم تحریک انصاف کو کچھ مشکلات زیادہ پیش آرہی ہیں کیونکہ اس کے کارکن اور رہنما کو بخوبی علم ہے کہ آئندہ حکومت ان کی بننے والی ہے لہذا اپنی کارکردگی اور استعداد کو نظر انداز کر کے ہر ایک ٹکٹ نہ ملنے کا گلہ کر رہا ہے اور فیصل آباد کے بعض تھڑے باز رہنما تو ایسے ہیں کہ وہ ٹکٹ نہ ملنے پر پارٹی کو کھلائی گئی مرغیوں اور چاولوں کی دیگوں کی تعداد پریس کانفرنس میں بتانے لگے ہیں۔ یہ ایک غیر سیاسی اور غیر اخلاقی حرکت ہے۔
اگر آپ کو پارٹی قیادت سے کوئی مسئلہ درپیش ہے یا اپنی بات رجسٹرڈ کروانا چاہتے ہیں تو اس کیلئے تہذیب اور پارٹی ڈسپلن کے دائرہ میں رہتے ہوئے بھی سب کچھ ممکن ہے۔ اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ اگر عمران خان الیکٹ ایبلز کو شامل نہ کرتے تو اس مرتبہ بھی وہ اور ان کی پارٹی اپوزیشن میں ہی بیٹھنے پر مجبور ہوتے۔ عمران خان کی جتننی بھی مقبولیت ہو، یہ حقیقت کیسے جھٹلائی جا سکتی ہے کہ ایم پی اے کا الیکشن لڑنے کیلئے کم سے کم 3/4 کروڑ روپے اور قومی اسمبلی کا الیکشن لڑنے کیلئے کم ازکم 10 کروڑ روپے کا خرچہ ہے۔ حلقہ میں دفاتر کھولنا، لوگوں کی خوشی غمی میں شریک ہونا، بینر، جھنڈے بنوانا، ووٹرز کو چائے پلانا ، کھانا کھلانا ان سب پر خرچہ ہوتا ہے اور سب سے بڑھ کر پولنگ ڈے کا خرچہ جس میں پولنگ کیمپس، وہاں موجود افراد کا طعام ، ووٹرز کو لانے لیجانے کیلئے ٹرانسپورٹ شامل ہے یہ سب خرچے امیدوار نے پورے کرنا ہوتے ہیں۔
اس وقت جن کو ٹکٹ نہیں ملا اور وہ شور مچا رہے ہیں ان میں سے 90 فیصد کے پاس یہ مالی استعداد موجود نہیں ہے۔ ابھی پاکستان میں جمہوریت اور انتخابی سیاست اس قدر شفاف اور آسان نہیں ہوئی ہے کہ یہ خرچے ختم یا کم ہو جائیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ یہ اخراجات عمران خان نے کرنے کو نہیں کہا یہ تو پاکستانی انتخابات کی موجودہ ڈیمانڈ ہے۔ ایک طرف جہاں ن لیگ اربوں روپے کا انتخابی بجٹ لیکر میدان میں اتر رہی ہے اور اس کے امیدوار کروڑوں روپے حلقوں میں لگا رہے ہیں وہاں مقابلہ کیلئے عمران خان کو بھی الیکٹ ایبلز ہی اتارنا پڑے۔ تاہم بعض نشستوں پر قایدت سے ٹکٹ دینے میں غلطی ہوئی ہے، خواہ نادانستگی میں ہوئی ہے یا کسی کی لابنگ کی وجہ سے۔ ان غلطیوں کو سدھارنے کی ضرورت ہے۔
سیالکوٹ،گوجرانوالہ ،راولپنڈی سمیت کئی شہروں میں غیر یقینی کی کیفیت ووٹر کو بھی متاثر کر رہی ہے۔ میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کیلئے 33 برس سے لاہور پر قائم اپنی اجارہ داری کو آئندہ انتخابات میں برقرار رکھنا بڑا چیلنج بن چکا ہے۔ ایسا نہیں کہ لاہور کی 14 قومی نشستوں پر تحریک انصاف عددی برتری لے جائے گی ، عددی اعتبار سے ن لیگ ہی لاہور کی قومی نشستوں پراول رہے گی لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ گزشتہ الیکشن میں تحریک انصاف نے لاہور کی 13 میں سے ایک نشست جیتی تھی لیکن اس مرتبہ لاہور کی 14 میں سے 4 نشستوں پر تو پی ٹی آئی کی جیت کے قوی امکانات ہیں جبکہ 3 نشستوں پر سخت مقابلہ ہے اور تحریک انصاف ایک یا دو نشستوں پر اپ سیٹ کر سکتی ہے۔
لہذا مجموعی طور پر اگر تحریک انصاف لاہور میں 4 یا 5 قومی اور 10 یا 12 صوبائی نشستیں جیتنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو ن لیگ کی ''بلا شرکت غیرے''اجارہ داری ختم ہوجائے گی۔ لاہور کے قومی حلقوں این اے 129،این اے131، این اے128 اور این اے125 میں تحریک انصاف کے امیدوار مضبوط پوزیشن میں ہیں ۔
خواتین کی مخصوص نشستوں کیلئے الیکشن کمیشن میں جمع کروائی گئی فہرستوں کے حوالے سے تحریک انصاف خواتین ونگ میں قیامت صغرٰی کا منظر ہے ہر طرف دم توڑی خواہشات کے بین سنائی دے رہے ہیں۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ ہر خاص و عام خاتون رہنما کو یہ خوش فہمی لاحق تھی کہ اس کا نام لسٹ میں ضرور شامل ہوگا۔ لیکن اس سب کے باوجود یہ حقیقت اپنی جگہ اٹل اور قابل غور ہے کہ خواتین کی مخصوص نشستوں کی فہرست تیار کرتے ہوئے پارٹی قیادت سے بھیانک غلطیاں ہوئی ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ عمران خان، جہانگیر ترین اور شاہ محمود قریشی کو مرکزی خواتین رہنماوں نے لسٹ دیتے وقت زیادہ بریف نہیں کیا اور رہنماوں نے بھی زیادہ چھان بین کی ضرورت محسوس نہیں کی ورنہ سب تو نہیں لیکن چند ایک خواتین ایسی ہیں جن کے نام ان فہرستوں میں ہونا ضروری تھے۔
ان فہرستوں کے حوالے سے منزہ حسن اور عامر کیانی شدید تنقید اور الزامات کی زد میں ہیں۔ منزہ حسن ماضی میں بھی متنازعہ رہی ہیں لیکن اب کی مرتبہ ان کی مخالفت زیادہ شدت اور اتفاق رائے سے ہو رہی ہے جو کہ ان کے سیاسی مستقبل کیلئے اچھی بات نہیں ہے۔ خواتین کا ایک دھڑا یہ سمجھتا ہے کہ فہرستوں کی تیاری میں زیادہ ''خرابی'' منزہ حسن اور عالیہ حمزہ نے ہی کی ہے۔ اس صورتحال کو معمول پر لانے کیلئے بلیم گیم کھیلنے کی بجائے فہرست تیار کروانے والی خواتین رہنماوں کو اپنی پوزیشن کلیئرکرنا چاہیئے۔
کچھ خواتین کے نام بہت نچلے نمبر پر رکھے گئے ہیں حالانکہ ان کی پارٹی کیلئے ورکنگ اس سے بہتر پوزیشن کی مستحق تھی جبکہ تنزیلہ عمران اور انیلہ بیگ جیسی ورکرز کے نام شامل نہ کرنا بھی ''ٹارگٹ کلنگ'' ہی تصور کیا جا سکتا ہے۔ بہتر ہوتا کہ عمران خان کی قیادت میں پارلیمانی بورڈ سب درخواست گزار خواتین کو سن کر فیصلہ سناتا، یوں کسی کو یہ کہنے کا جواز نہیں ملتا کہ بنا سنے فیصلہ کیا گیا ہے۔
وزیر اعظم بننے کی''قیمت''سالہا سال سے نئے پاکستان کی جدوجہد میں شریک کارکنوں کی ''قربانی''کی صورت میں ہی ادا ہونا تھی لیکن کپتان یہ قربانی اپنے ہاتھوں سے کرتے تو شاید کارکن بھی خوشی خوشی قربان ہوجاتے لیکن یہ چھری انہوں نے چلائی جو خود قربانی کے لائق تصور کیئے جاتے ہیں۔ قومی و چاروں صوبائی اسمبلیوں کی تقریباً ایک ہزار نشستوں کیلئے تحریک انصاف کے پارلیمانی بورڈ کو 4653 درخواستیں موصول ہوئی تھیں۔
قومی اسمبلی کیلئے تحریک انصاف نے ابھی تک 178 نشستوں پر ٹکٹوں کا اعلان کیا ہے۔ سوشل میڈیا پر زیر گردش تفصیلات کے مطابق ان میں سے 104 ٹکٹ پی ٹی آئی کے لوگوں کو دیئے گئے ہیں، 19 پیپلز پارٹی کے الیکٹ ایبلز کو اور 18 نون لیگ سے آئے الیکٹ ایبلز کو ملے ہیں۔ ق لیگ سے آئے الیکٹ ایبلز کو 7 جبکہ آزاد حیثیت سے جیتنے والے 30 الیکٹ ایبلز کو ٹکٹ دیئے گئے ہیں۔ باقی رہ جانے والی بعض ٹکٹوں کے اعلانات اور اعلان کردہ چند ٹکٹوں میں تبدیلیوں کا فیصلہ کل تک ہونا ہے۔ بادی النظر میں ٹکٹوں کی تقسیم پر اتنا احتجاج نہیں ہے جتنا کہ الیکٹرانک میڈیا پر بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ ہر بڑی سیاسی جماعت کو الیکشن کے دنوں میں ایسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ماضی میں بھی ن لیگ اور پیپلز پارٹی کو ایسے حالات درپیش رہے اور اس وقت بھی ن لیگ کو مسائل کا سامنا ہے تاہم تحریک انصاف کو کچھ مشکلات زیادہ پیش آرہی ہیں کیونکہ اس کے کارکن اور رہنما کو بخوبی علم ہے کہ آئندہ حکومت ان کی بننے والی ہے لہذا اپنی کارکردگی اور استعداد کو نظر انداز کر کے ہر ایک ٹکٹ نہ ملنے کا گلہ کر رہا ہے اور فیصل آباد کے بعض تھڑے باز رہنما تو ایسے ہیں کہ وہ ٹکٹ نہ ملنے پر پارٹی کو کھلائی گئی مرغیوں اور چاولوں کی دیگوں کی تعداد پریس کانفرنس میں بتانے لگے ہیں۔ یہ ایک غیر سیاسی اور غیر اخلاقی حرکت ہے۔
اگر آپ کو پارٹی قیادت سے کوئی مسئلہ درپیش ہے یا اپنی بات رجسٹرڈ کروانا چاہتے ہیں تو اس کیلئے تہذیب اور پارٹی ڈسپلن کے دائرہ میں رہتے ہوئے بھی سب کچھ ممکن ہے۔ اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ اگر عمران خان الیکٹ ایبلز کو شامل نہ کرتے تو اس مرتبہ بھی وہ اور ان کی پارٹی اپوزیشن میں ہی بیٹھنے پر مجبور ہوتے۔ عمران خان کی جتننی بھی مقبولیت ہو، یہ حقیقت کیسے جھٹلائی جا سکتی ہے کہ ایم پی اے کا الیکشن لڑنے کیلئے کم سے کم 3/4 کروڑ روپے اور قومی اسمبلی کا الیکشن لڑنے کیلئے کم ازکم 10 کروڑ روپے کا خرچہ ہے۔ حلقہ میں دفاتر کھولنا، لوگوں کی خوشی غمی میں شریک ہونا، بینر، جھنڈے بنوانا، ووٹرز کو چائے پلانا ، کھانا کھلانا ان سب پر خرچہ ہوتا ہے اور سب سے بڑھ کر پولنگ ڈے کا خرچہ جس میں پولنگ کیمپس، وہاں موجود افراد کا طعام ، ووٹرز کو لانے لیجانے کیلئے ٹرانسپورٹ شامل ہے یہ سب خرچے امیدوار نے پورے کرنا ہوتے ہیں۔
اس وقت جن کو ٹکٹ نہیں ملا اور وہ شور مچا رہے ہیں ان میں سے 90 فیصد کے پاس یہ مالی استعداد موجود نہیں ہے۔ ابھی پاکستان میں جمہوریت اور انتخابی سیاست اس قدر شفاف اور آسان نہیں ہوئی ہے کہ یہ خرچے ختم یا کم ہو جائیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ یہ اخراجات عمران خان نے کرنے کو نہیں کہا یہ تو پاکستانی انتخابات کی موجودہ ڈیمانڈ ہے۔ ایک طرف جہاں ن لیگ اربوں روپے کا انتخابی بجٹ لیکر میدان میں اتر رہی ہے اور اس کے امیدوار کروڑوں روپے حلقوں میں لگا رہے ہیں وہاں مقابلہ کیلئے عمران خان کو بھی الیکٹ ایبلز ہی اتارنا پڑے۔ تاہم بعض نشستوں پر قایدت سے ٹکٹ دینے میں غلطی ہوئی ہے، خواہ نادانستگی میں ہوئی ہے یا کسی کی لابنگ کی وجہ سے۔ ان غلطیوں کو سدھارنے کی ضرورت ہے۔
سیالکوٹ،گوجرانوالہ ،راولپنڈی سمیت کئی شہروں میں غیر یقینی کی کیفیت ووٹر کو بھی متاثر کر رہی ہے۔ میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کیلئے 33 برس سے لاہور پر قائم اپنی اجارہ داری کو آئندہ انتخابات میں برقرار رکھنا بڑا چیلنج بن چکا ہے۔ ایسا نہیں کہ لاہور کی 14 قومی نشستوں پر تحریک انصاف عددی برتری لے جائے گی ، عددی اعتبار سے ن لیگ ہی لاہور کی قومی نشستوں پراول رہے گی لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ گزشتہ الیکشن میں تحریک انصاف نے لاہور کی 13 میں سے ایک نشست جیتی تھی لیکن اس مرتبہ لاہور کی 14 میں سے 4 نشستوں پر تو پی ٹی آئی کی جیت کے قوی امکانات ہیں جبکہ 3 نشستوں پر سخت مقابلہ ہے اور تحریک انصاف ایک یا دو نشستوں پر اپ سیٹ کر سکتی ہے۔
لہذا مجموعی طور پر اگر تحریک انصاف لاہور میں 4 یا 5 قومی اور 10 یا 12 صوبائی نشستیں جیتنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو ن لیگ کی ''بلا شرکت غیرے''اجارہ داری ختم ہوجائے گی۔ لاہور کے قومی حلقوں این اے 129،این اے131، این اے128 اور این اے125 میں تحریک انصاف کے امیدوار مضبوط پوزیشن میں ہیں ۔
خواتین کی مخصوص نشستوں کیلئے الیکشن کمیشن میں جمع کروائی گئی فہرستوں کے حوالے سے تحریک انصاف خواتین ونگ میں قیامت صغرٰی کا منظر ہے ہر طرف دم توڑی خواہشات کے بین سنائی دے رہے ہیں۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ ہر خاص و عام خاتون رہنما کو یہ خوش فہمی لاحق تھی کہ اس کا نام لسٹ میں ضرور شامل ہوگا۔ لیکن اس سب کے باوجود یہ حقیقت اپنی جگہ اٹل اور قابل غور ہے کہ خواتین کی مخصوص نشستوں کی فہرست تیار کرتے ہوئے پارٹی قیادت سے بھیانک غلطیاں ہوئی ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ عمران خان، جہانگیر ترین اور شاہ محمود قریشی کو مرکزی خواتین رہنماوں نے لسٹ دیتے وقت زیادہ بریف نہیں کیا اور رہنماوں نے بھی زیادہ چھان بین کی ضرورت محسوس نہیں کی ورنہ سب تو نہیں لیکن چند ایک خواتین ایسی ہیں جن کے نام ان فہرستوں میں ہونا ضروری تھے۔
ان فہرستوں کے حوالے سے منزہ حسن اور عامر کیانی شدید تنقید اور الزامات کی زد میں ہیں۔ منزہ حسن ماضی میں بھی متنازعہ رہی ہیں لیکن اب کی مرتبہ ان کی مخالفت زیادہ شدت اور اتفاق رائے سے ہو رہی ہے جو کہ ان کے سیاسی مستقبل کیلئے اچھی بات نہیں ہے۔ خواتین کا ایک دھڑا یہ سمجھتا ہے کہ فہرستوں کی تیاری میں زیادہ ''خرابی'' منزہ حسن اور عالیہ حمزہ نے ہی کی ہے۔ اس صورتحال کو معمول پر لانے کیلئے بلیم گیم کھیلنے کی بجائے فہرست تیار کروانے والی خواتین رہنماوں کو اپنی پوزیشن کلیئرکرنا چاہیئے۔
کچھ خواتین کے نام بہت نچلے نمبر پر رکھے گئے ہیں حالانکہ ان کی پارٹی کیلئے ورکنگ اس سے بہتر پوزیشن کی مستحق تھی جبکہ تنزیلہ عمران اور انیلہ بیگ جیسی ورکرز کے نام شامل نہ کرنا بھی ''ٹارگٹ کلنگ'' ہی تصور کیا جا سکتا ہے۔ بہتر ہوتا کہ عمران خان کی قیادت میں پارلیمانی بورڈ سب درخواست گزار خواتین کو سن کر فیصلہ سناتا، یوں کسی کو یہ کہنے کا جواز نہیں ملتا کہ بنا سنے فیصلہ کیا گیا ہے۔