بینظیر کی سیکیورٹی وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کی ذمے داری تھی پرویز مشرف
بینظیرکودھمکی دی نہ قتل میں ہاتھ ہے، سابق صدر نے تمام الزامات مسترد کردیے
سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹوقتل کیس میں ملزم پرویز مشرف سے ایف آئی اے کی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم نے سب جیل جا کر تفصیلی تفتیش کی ہے اور تفتیش کا پہلا مرحلہ مکمل ہوگیا ہے۔
ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے محمد خالد قریشی کی قیادت میں تفتیشی ٹیم میں ڈی آئی جی بنوں محمد آزاد خان اور ڈپٹی ڈائریکٹر ایف آئی اے خالد رسول شامل ہیں۔ ڈی آئی جی سہیل تاجک اور ڈی آئی جی واجد ضیاء کو بھی پیر کو تفتیشی ٹیم میں شامل کیا جائیگا۔تفتیشی ٹیم نے پونے4 گھنٹے تک ملزم پرویز مشرف سے ان کے دیئے جانے والے بیان اور ٹیم کے پاس موجودان کیخلاف دستاویزی شہادتوں کی روشنی میں 100سے زائد سوالات کیے جن کے جوابات کو باقاعدہ تحریر میں بھی لایا جاتا رہا۔سابق صدرسے پوچھاگیا بینظیر بھٹوکو سیکیورٹی کیلیے 6 خطوط تحریرکرنے کے باوجود فول پروف سیکیورٹی کیوں نہیں دی گئی،انھیں یہ خطوط بھی دکھائے گئے۔
امریکی صحافی مارک سیگل کومحترمہ کی ای میل،جاویداقبال چیمہ کے بیان، باکس سیکیورٹی واپس لینے ،جائے شہادت دھلوانے ،محترمہ اوردیگرشہداء کا پوسٹمارٹم نہ ہونے دینے،مشرف اوربینظیربھٹوکی ٹیلی فونک گفتگو،ملزم پرویز مشرف اور بینظیر بھٹوکے درمیان ہونے والی مبینہ ڈیل اور اس کے ضامن کے بارے میں بھی سوال کیے گئے۔جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم آج اورکل بھی تفتیش جاری رکھے گی جو پیرکو مکمل کر لی جائے گی۔ایف آئی اے ذرائع کے مطابق پرویز مشرف نے زیادہ ترجواب ''مجھے نہیں پتہ'' اور صرف نوکہہ کر دیے۔ ملزم پرویز مشرف کے وکلاء سید منور عابد، بیرسٹر ایس جے درانی نے رابطے پر بتایا کہ یہ تفتیش خوشگوار ماحول میں ہوئی۔
پرویز مشرف نے سوالات کے ٹھوس جوابات دیے،انھوں نے دوٹوک انداز میں واضح کیا کہ بینظیر بھٹو کو سیکیورٹی فراہم کرنا بطور صدر ان کی ذمے داری نہیں تھی، وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ ذمے دار تھے ۔انھوں نے بتایا بطورصدر میں نے حکومت کوکراچی حملے کے بعد بینظیر بھٹوکو سیکیورٹی فراہم کرنے کی ہدایت کی تھی،ان کا پوسٹ مارٹم میں نے نہیں رکوایا، سابق صدر نے مارک سیگل کے بیان کی بھی نفی کی۔انھوں نے کہا کہ بینظیر بھٹوکے قتل یا اس کی سازش میں ان کا کسی بھی طورعمل دخل نہیں ہے نہ وہ ایسا چاہتے تھے۔ یہ صرف سیاسی الزام ہے جس کی وہ سختی کے ساتھ تردیدکرتے ہیں۔سابق صدر نے تفتیشی ٹیم کو انٹرپول کی وہ رپورٹ بھی بتائی جس میں انٹرپول نے قرار دیا تھا کہ ان کیخلاف کوئی ٹھوس ثبوت موجود نہیں ہے۔
وکلاء کے مطابق پرویز مشرف کی30اپریل کو انسداد دہشتگردی کی خصوصی عدالت میں ضمانت کی درخواست دائرکی جائے گی۔ایکسپریس کے رابطے پر ایف آئی اے کے تفتیشی ذرائع نے بتایا کہ ملزم پرویز مشرف سے تفتیش جاری ہے کئی سوالات رہ گئے ہیں جن پر دوبارہ پوچھ گچھ کی جائے گی۔نجی ٹی وی کے مطابق تفتیشی ٹیم نے پرویز مشرف سے دریافت کیا کہ آیا انھوں نے ٹیلی فون پر بینظیر بھٹوکو دھمکی دیِ؟ مشرف نے جواب میں کہا کہ بینظیر بھٹو سے ان کا فون پر رابطہ تھا لیکن انھوں نے کبھی انھیں دھمکی نہیں دی ۔ بینظیرکی ٹیم ان سے مذاکرات کر رہی تھی، اگر وہ دھمکی دیتے تو مذاکرات کامیاب کیسے ہوتے؟۔ نمائندہ ایکسپریس غلام نبی یوسف زئی کے مطابق سابق صدرجنرل(ر) پرویز مشرف نے بینظیر بھٹوکے قتل کے بارے میں لگائے گئے تمام الزامات مستردکر دیے۔
سابق صدر نے کہا ہے کہ اس وقت کی حکومت نے بینظیر بھٹوکو بطور سابق وزیر اعظم ہر پہلو سے مکمل سکیورٹی فراہم کی تھی اور انہیں بار بار آگاہ بھی کیا تھا کہ ان کی جان کو شدید خطرات لاحق ہیں اس لیے محتاط رہنے کی ہداہت کی گئی تھی۔مستند ذرائع نے ایکسپریس کو بتایا کہ ہفتے کو پرویز مشرف سے ایف آئی اے نے تقریباً ڈھائی گھنٹے تفتیش کی اور بینظیربھٹوکی جائے شہادت کو دھونے،سیکیورٹی اور قتل کے فوری بعدکرائسز مینجمنٹ سیل کے سربراہ بریگیڈیئر(ر) جاوید اقبال چیمہ کی پریس کانفرنس کے بارے میں سوالات کیے گئے۔
ذرائع نے بتایا کہ پرویز مشرف نے جائے شہادت دھونے کے بارے میں الزمات مستردکیے اور ایف آئی اے کے ٹیم کو بتایا کہ جائے شہادت دھو ڈالنا مقامی پولیس اور انتظامیہ کاکام تھا اور اس بارے میں وہ ہی بتا سکیں گے کہ کیوں اورکس کے کہنے پر ایسا کیا،ذرائع نے بتایا کہ پرویز مشرف نے واضح کیا کہ اس واقعہ سے ان کا کوئی تعلق نہیں، سکیورٹی کے ایشو پر سابق ڈکٹیٹر نے بتایا کہ بینظیر بھٹوکو سابق وزیر اعظم کا پروٹوکول حاصل تھا اور وزارت داخلہ بینظیر بھٹوکے سکیورٹی سٹاف کے ساتھ ہر وقت رابطے میں ہوتی تھی۔بریگیڈیئر جاوید اقبال چیمہ کی پریس کانفرنس کے بارے میں بھی انہوں نے لاتعلقی کا اظہارکیا اور بتایاکہ سکیورٹی کے معاملات وزارت داخلہ کی ذمہ داری ہے اور وزارت کے ترجمان کی حیثیت سے انہوں نے پریس کانفرنس کی تھی۔
ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے محمد خالد قریشی کی قیادت میں تفتیشی ٹیم میں ڈی آئی جی بنوں محمد آزاد خان اور ڈپٹی ڈائریکٹر ایف آئی اے خالد رسول شامل ہیں۔ ڈی آئی جی سہیل تاجک اور ڈی آئی جی واجد ضیاء کو بھی پیر کو تفتیشی ٹیم میں شامل کیا جائیگا۔تفتیشی ٹیم نے پونے4 گھنٹے تک ملزم پرویز مشرف سے ان کے دیئے جانے والے بیان اور ٹیم کے پاس موجودان کیخلاف دستاویزی شہادتوں کی روشنی میں 100سے زائد سوالات کیے جن کے جوابات کو باقاعدہ تحریر میں بھی لایا جاتا رہا۔سابق صدرسے پوچھاگیا بینظیر بھٹوکو سیکیورٹی کیلیے 6 خطوط تحریرکرنے کے باوجود فول پروف سیکیورٹی کیوں نہیں دی گئی،انھیں یہ خطوط بھی دکھائے گئے۔
امریکی صحافی مارک سیگل کومحترمہ کی ای میل،جاویداقبال چیمہ کے بیان، باکس سیکیورٹی واپس لینے ،جائے شہادت دھلوانے ،محترمہ اوردیگرشہداء کا پوسٹمارٹم نہ ہونے دینے،مشرف اوربینظیربھٹوکی ٹیلی فونک گفتگو،ملزم پرویز مشرف اور بینظیر بھٹوکے درمیان ہونے والی مبینہ ڈیل اور اس کے ضامن کے بارے میں بھی سوال کیے گئے۔جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم آج اورکل بھی تفتیش جاری رکھے گی جو پیرکو مکمل کر لی جائے گی۔ایف آئی اے ذرائع کے مطابق پرویز مشرف نے زیادہ ترجواب ''مجھے نہیں پتہ'' اور صرف نوکہہ کر دیے۔ ملزم پرویز مشرف کے وکلاء سید منور عابد، بیرسٹر ایس جے درانی نے رابطے پر بتایا کہ یہ تفتیش خوشگوار ماحول میں ہوئی۔
پرویز مشرف نے سوالات کے ٹھوس جوابات دیے،انھوں نے دوٹوک انداز میں واضح کیا کہ بینظیر بھٹو کو سیکیورٹی فراہم کرنا بطور صدر ان کی ذمے داری نہیں تھی، وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ ذمے دار تھے ۔انھوں نے بتایا بطورصدر میں نے حکومت کوکراچی حملے کے بعد بینظیر بھٹوکو سیکیورٹی فراہم کرنے کی ہدایت کی تھی،ان کا پوسٹ مارٹم میں نے نہیں رکوایا، سابق صدر نے مارک سیگل کے بیان کی بھی نفی کی۔انھوں نے کہا کہ بینظیر بھٹوکے قتل یا اس کی سازش میں ان کا کسی بھی طورعمل دخل نہیں ہے نہ وہ ایسا چاہتے تھے۔ یہ صرف سیاسی الزام ہے جس کی وہ سختی کے ساتھ تردیدکرتے ہیں۔سابق صدر نے تفتیشی ٹیم کو انٹرپول کی وہ رپورٹ بھی بتائی جس میں انٹرپول نے قرار دیا تھا کہ ان کیخلاف کوئی ٹھوس ثبوت موجود نہیں ہے۔
وکلاء کے مطابق پرویز مشرف کی30اپریل کو انسداد دہشتگردی کی خصوصی عدالت میں ضمانت کی درخواست دائرکی جائے گی۔ایکسپریس کے رابطے پر ایف آئی اے کے تفتیشی ذرائع نے بتایا کہ ملزم پرویز مشرف سے تفتیش جاری ہے کئی سوالات رہ گئے ہیں جن پر دوبارہ پوچھ گچھ کی جائے گی۔نجی ٹی وی کے مطابق تفتیشی ٹیم نے پرویز مشرف سے دریافت کیا کہ آیا انھوں نے ٹیلی فون پر بینظیر بھٹوکو دھمکی دیِ؟ مشرف نے جواب میں کہا کہ بینظیر بھٹو سے ان کا فون پر رابطہ تھا لیکن انھوں نے کبھی انھیں دھمکی نہیں دی ۔ بینظیرکی ٹیم ان سے مذاکرات کر رہی تھی، اگر وہ دھمکی دیتے تو مذاکرات کامیاب کیسے ہوتے؟۔ نمائندہ ایکسپریس غلام نبی یوسف زئی کے مطابق سابق صدرجنرل(ر) پرویز مشرف نے بینظیر بھٹوکے قتل کے بارے میں لگائے گئے تمام الزامات مستردکر دیے۔
سابق صدر نے کہا ہے کہ اس وقت کی حکومت نے بینظیر بھٹوکو بطور سابق وزیر اعظم ہر پہلو سے مکمل سکیورٹی فراہم کی تھی اور انہیں بار بار آگاہ بھی کیا تھا کہ ان کی جان کو شدید خطرات لاحق ہیں اس لیے محتاط رہنے کی ہداہت کی گئی تھی۔مستند ذرائع نے ایکسپریس کو بتایا کہ ہفتے کو پرویز مشرف سے ایف آئی اے نے تقریباً ڈھائی گھنٹے تفتیش کی اور بینظیربھٹوکی جائے شہادت کو دھونے،سیکیورٹی اور قتل کے فوری بعدکرائسز مینجمنٹ سیل کے سربراہ بریگیڈیئر(ر) جاوید اقبال چیمہ کی پریس کانفرنس کے بارے میں سوالات کیے گئے۔
ذرائع نے بتایا کہ پرویز مشرف نے جائے شہادت دھونے کے بارے میں الزمات مستردکیے اور ایف آئی اے کے ٹیم کو بتایا کہ جائے شہادت دھو ڈالنا مقامی پولیس اور انتظامیہ کاکام تھا اور اس بارے میں وہ ہی بتا سکیں گے کہ کیوں اورکس کے کہنے پر ایسا کیا،ذرائع نے بتایا کہ پرویز مشرف نے واضح کیا کہ اس واقعہ سے ان کا کوئی تعلق نہیں، سکیورٹی کے ایشو پر سابق ڈکٹیٹر نے بتایا کہ بینظیر بھٹوکو سابق وزیر اعظم کا پروٹوکول حاصل تھا اور وزارت داخلہ بینظیر بھٹوکے سکیورٹی سٹاف کے ساتھ ہر وقت رابطے میں ہوتی تھی۔بریگیڈیئر جاوید اقبال چیمہ کی پریس کانفرنس کے بارے میں بھی انہوں نے لاتعلقی کا اظہارکیا اور بتایاکہ سکیورٹی کے معاملات وزارت داخلہ کی ذمہ داری ہے اور وزارت کے ترجمان کی حیثیت سے انہوں نے پریس کانفرنس کی تھی۔