آئی پی پیز نے 10سال میں 1000ارب زائد وصول کئےٹرانسپیرنسی
میسرز ابراج کو 198ارب کا فائدہ پہنچایا گیا، ازخود نوٹس لیا جائے، چیف جسٹس کو خط
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان نے کہا ہے کہ خودمختار بجلی ساز اداروں(آئی پی پی)، کے ای ایس سی اور کھاد کمپنیوں نے سازباز کرکے10سال کے دوران قومی خزانے سے ایک ہزار ارب روپے زائد وصول کئے ہیں۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قومی خزانے کو نقصان پہنچانے کے اس معاملے کا ازخود نوٹس لیں۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے نام 2خطوں میں ٹرانسپیرنسی کے مشیر سید عادل گیلانی نے کہا ہے انہیں شکایات موصول ہوئی ہیں کہ وزارت خزانہ کی مبینہ کرپشن سے میسرز ابراج Abraj کو قومی خزانے سے198ارب روپے کا فائدہ پہنچایا گیا۔
معاہدے کے تحت حکومت نے آئی پی پیز کو 18فیصد سے زائد اخراجات پر منافعے کی ضمانت دی ہے لیکن یہ آئی پی پیز جعلی اخراجات ظاہر کرکے حکومت سے رقوم بٹور رہی ہیں۔ اس خط میں ٹرانسپیرنسی نے سکیورٹی ایکسچینج کمیشن کو لکھے گئے سابق خط کا حوالہ بھی دیا ہے جس میں دعویٰ کیا گیا کہ 50سے زائد آئی پی پیز اور کھاد ساز ادارے اس خوردبرد میں ملوث ہیں۔
ریگولیٹری اداروں کے ساتھ ملکر ان اداروں نے گزشتہ10برس میں سالانہ 100ارب روپے کے اضافی فوائد حاصل کئے کیونکہ ریگولیٹری حکام نجی بجلی ساز اداروں کی پیداواری لاگت کی بنیاد پر بجلی کے نرخوں کا تعین کرتے ہیں ۔ ٹرانسپیرنسی کو جو شکایات موصول ہوئی ہیں ان کے مطابق فرنس آئل 3سے5فیصد اضافی مارک اپ بطور گارنٹی کوور کے ساتھ خریدا گیا۔ فروخت کنندہ نے 0.5فیصد رقم رکھ کر باقیماندہ رقم خریدار کو واپس کرنے کے بار بار معاہدے کئے۔ ان اداروں نے تکنیکی خدمات اور مشاورتی لاگت کی مد میں ماہانہ فیسیں بھی وصول کیں۔ اخراجات بڑھا چڑھا کر پیش کئے گئے۔
کئی کاموں کے زائد لاگت پر ذیلی ٹھیکے دیے گئے۔ ان ذیلی ٹھیکے داروں سے90فیصد ادائیگیاں واپس وصول کرلی گئیں۔ جعلی ٹھیکے دیے گئے اور سامان کی خریداری کی فرضی بلنگ کی گئی۔ ایس ای سی پی نے ٹرانسپیرنسی کے خط کے جواب میں تصدیق کی کہ آئی پی پیز اور کے ای ایس سی قصوروار ہیں اور انہوں نے فرضی لاگت ظاہرکی لیکن ان کے خلاف کارروائی اس لئے نہیں ہوسکتی کہ آئی پی پیز اسلام آباد ہائیکورٹ جاچکی ہیں۔ عادل گیلانی نے جناب چیف جسٹس سے استدعا کی کہ یہ قومی خزانے کو پہنچنے والے ایک ہزار ارب روپے کے نقصان کا معاملہ ہے۔
کے ای ایس سی کو پیپلزپارٹی سینٹ میں ''معاشی دہشت گرد'' قرار دے چکی ہے۔ آئی پی پیز کے طرف سے ایس ای سی پی کی ممکنہ کارروائی سے بچنے کیلئے ہائیکورٹ سے رجوع کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ وہ مجرم ہیں لہٰذا عدالت عظمی اس معاملے کا ازخود نوٹس لے۔ دوسرے خط میں ٹرانسپیرنسی نے نیپرا اور آئی پی پیز کے گٹھ جوڑ سے گزشتہ 10سال کے دوران صارفین پر 1000ارب روپے کا اضافی بوجھ منتقل کرنے کے معاملے کا ازخود نوٹس لینے کی درخواست کرتے ہوئے کہا کہ ایس ای سی پی نے ہمیں بتایا کہ اس نے نیپرا سے کئی بار درخواست کی کہ وہ آئی پی پیز کے اخراجات کے اصلی ہونے کی تصدیق کیلئے ایس ای سی پی کو متعلقہ ریکارڈ مہیا کرے لیکن ریکارڈ مہیا نہیں کیا جو ٹرانسپیرنسی کے خیال میں آرٹیکل19(a) کی خلاف ورزی ہے۔ آئین کے تحت نیپرا ایس ای سی پی بلکہ عوام الناس کو بھی یہ معلومات فراہم کرنے کا پابند ہے۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قومی خزانے کو نقصان پہنچانے کے اس معاملے کا ازخود نوٹس لیں۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے نام 2خطوں میں ٹرانسپیرنسی کے مشیر سید عادل گیلانی نے کہا ہے انہیں شکایات موصول ہوئی ہیں کہ وزارت خزانہ کی مبینہ کرپشن سے میسرز ابراج Abraj کو قومی خزانے سے198ارب روپے کا فائدہ پہنچایا گیا۔
معاہدے کے تحت حکومت نے آئی پی پیز کو 18فیصد سے زائد اخراجات پر منافعے کی ضمانت دی ہے لیکن یہ آئی پی پیز جعلی اخراجات ظاہر کرکے حکومت سے رقوم بٹور رہی ہیں۔ اس خط میں ٹرانسپیرنسی نے سکیورٹی ایکسچینج کمیشن کو لکھے گئے سابق خط کا حوالہ بھی دیا ہے جس میں دعویٰ کیا گیا کہ 50سے زائد آئی پی پیز اور کھاد ساز ادارے اس خوردبرد میں ملوث ہیں۔
ریگولیٹری اداروں کے ساتھ ملکر ان اداروں نے گزشتہ10برس میں سالانہ 100ارب روپے کے اضافی فوائد حاصل کئے کیونکہ ریگولیٹری حکام نجی بجلی ساز اداروں کی پیداواری لاگت کی بنیاد پر بجلی کے نرخوں کا تعین کرتے ہیں ۔ ٹرانسپیرنسی کو جو شکایات موصول ہوئی ہیں ان کے مطابق فرنس آئل 3سے5فیصد اضافی مارک اپ بطور گارنٹی کوور کے ساتھ خریدا گیا۔ فروخت کنندہ نے 0.5فیصد رقم رکھ کر باقیماندہ رقم خریدار کو واپس کرنے کے بار بار معاہدے کئے۔ ان اداروں نے تکنیکی خدمات اور مشاورتی لاگت کی مد میں ماہانہ فیسیں بھی وصول کیں۔ اخراجات بڑھا چڑھا کر پیش کئے گئے۔
کئی کاموں کے زائد لاگت پر ذیلی ٹھیکے دیے گئے۔ ان ذیلی ٹھیکے داروں سے90فیصد ادائیگیاں واپس وصول کرلی گئیں۔ جعلی ٹھیکے دیے گئے اور سامان کی خریداری کی فرضی بلنگ کی گئی۔ ایس ای سی پی نے ٹرانسپیرنسی کے خط کے جواب میں تصدیق کی کہ آئی پی پیز اور کے ای ایس سی قصوروار ہیں اور انہوں نے فرضی لاگت ظاہرکی لیکن ان کے خلاف کارروائی اس لئے نہیں ہوسکتی کہ آئی پی پیز اسلام آباد ہائیکورٹ جاچکی ہیں۔ عادل گیلانی نے جناب چیف جسٹس سے استدعا کی کہ یہ قومی خزانے کو پہنچنے والے ایک ہزار ارب روپے کے نقصان کا معاملہ ہے۔
کے ای ایس سی کو پیپلزپارٹی سینٹ میں ''معاشی دہشت گرد'' قرار دے چکی ہے۔ آئی پی پیز کے طرف سے ایس ای سی پی کی ممکنہ کارروائی سے بچنے کیلئے ہائیکورٹ سے رجوع کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ وہ مجرم ہیں لہٰذا عدالت عظمی اس معاملے کا ازخود نوٹس لے۔ دوسرے خط میں ٹرانسپیرنسی نے نیپرا اور آئی پی پیز کے گٹھ جوڑ سے گزشتہ 10سال کے دوران صارفین پر 1000ارب روپے کا اضافی بوجھ منتقل کرنے کے معاملے کا ازخود نوٹس لینے کی درخواست کرتے ہوئے کہا کہ ایس ای سی پی نے ہمیں بتایا کہ اس نے نیپرا سے کئی بار درخواست کی کہ وہ آئی پی پیز کے اخراجات کے اصلی ہونے کی تصدیق کیلئے ایس ای سی پی کو متعلقہ ریکارڈ مہیا کرے لیکن ریکارڈ مہیا نہیں کیا جو ٹرانسپیرنسی کے خیال میں آرٹیکل19(a) کی خلاف ورزی ہے۔ آئین کے تحت نیپرا ایس ای سی پی بلکہ عوام الناس کو بھی یہ معلومات فراہم کرنے کا پابند ہے۔