عید کا حق
مہذب اور انسان دوست معاشروں میں اس پر مسلسل تحقیق اور کام ہو رہا ہے جس کے بہت بہتر اور مثبت نتائج بھی سامنے آ رہے ہیں
عیدالفطر کا تہوار ایک ایسا تحفہ ہے جو ہمیں روزوں کی عبادات سے ملا کر بلکہ ایک طرح سے ان کے انعام کے طور پر عطا ہوا ہے اور یوں اس کی نوعیت دنیا بھر کی مختلف قوموں میں طرح طرح کے حوالوں سے منائے جانے والے تہواروں سے ایک سطح پر کچھ مختلف بھی ہو جاتی ہے لیکن اس عید پر میرا دل روٹین کی باتوں سے ہٹ کر صرف یہ بات کرنے کو چاہ رہا ہے کہ رب کریم کے اس بے مثال تحفے کے کچھ ایسے حق بھی ہیں جن پرغور اور عمل کیے بغیر شاید ہم اس تحفے کا صحیح حق ادا کر ہی نہیں سکتے۔
چند دن قبل مجھے چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب کے فائونٹین ہائوس لاہور کے ایک دورے کا وڈیو کلپ دیکھنے کا اتفاق ہوا اور مزید اتفاق سے اگلے ہی دن مجھے اپنے شوگر کے معالج ڈاکٹر امتیاز حسن سے ڈاکٹر صداقت علی کے مشہور شوگر کلینک DIP جانے کا موقع ملا جس کی عمارت سے منسلک ایک دوسری عمارت میں انھوں نے منشیات کے عادی اور ذہنی امراض میں مبتلا مریضوں کے علاج اور بحالی کے لیے Willing ways کے نام سے ایک ادارہ قائم کر رکھا ہے اب بات یہ بنی کہ فائونٹین ہائوس سے اس کے بانی ڈاکٹر رشید مرحوم اور اپنے اخوت والے برادرم ڈاکٹر امجد ثاقب کی معرفت میرا تعلق نہ صرف پرانا ہے بلکہ ایک طرح سے مستقل بھی ہے کہ 80 کی دہائی میں، میں نے اپنے ایک ٹی وی سیریل ''فشار'' کے لیے ذہنی مریضوںکے علاج کے حوالے سے ہی وہاں کچھ ریکارڈنگ بھی رکھی تھی۔
(جس میں عارفہ صدیقی کا گایا ہوا ایک ایسا گیت بھی شامل تھا جو لکھا ہی ان ذہنی طور پر بیمار افراد کے لیے گیا تھا) اسی طرح سے کئی برس قبل ایک خصوصی فلم کے حوالے سے ڈاکٹر صداقت علی نے مجھے مری کے قریب اپنا ایک ادارہ وزٹ کروایا تھا جہاں منشیات کے عادی مریضوں کا علاج کیا جاتا تھا، وہ فلم تو بوجوہ نہ بن سکی مگر صداقت بھائی سے گاہے گاہے کی ملاقاتوں میں یہ پتہ ضرور چلتا رہا کہ وہ اپنے دیگر منصوبوں کے علاوہ Willing ways نامی ایک ایسا اسپتال نما ادارہ بھی چلا رہے ہیں جس کا مقصد ذہنی مریضوں کے بہتر علاج کے ساتھ ساتھ معاشرے کو اس کے مختلف پہلوئوں سے آگاہی فراہم کرنا بھی ہے۔
ان دونوں اداروں کے علاوہ اپنی کسی غلطی' حادثے' واقعے یا پیدائشی کمی کی وجہ سے مختلف طرح کے ذہنی امراض میں گرفتار لوگوں سے ملنے اور ان کے معاملات اور مسائل سے متعلق بہت سی باتوں کا پتہ دیگر ذرایع سے بھی چلتا رہا اور بارہا یہ احساس دامن گیر ہوا کہ اس ضمن میں ہمارے عمومی معاشرتی رویے بہت افسوسناک ہیں کہ شاید ایک فی صد کے استثنا کے ساتھ جن گھروں میں منشیات پیدائشی اختلال یا کسی بھی اور وجہ سے ذہنی عدم توازن کے مریض پائے جاتے ہیں وہاں ان سے دانستہ یا نادانستہ طور پر غیر انسانی سلوک روا رکھا جاتا ہے انھیں لوگوں سے چھپا کر اور رسیوں وغیرہ سے باندھ کر کسی جانور یا ناپسندیدہ اور فالتو چیز کی طرح رکھا اور سمجھا جاتا ہے اور ان کے علاج اور دیکھ بحال پر توجہ دینا تو درکنار بعض صورتوں میں تو جائیداد وغیرہ کے معاملات میں بالخصوص انھیں جان بوجھ کر اس حالت میں رکھا جاتا ہے جو میرے نزدیک سب سے زیادہ تکلیف دہ بات ہے کہ پاگل خانوں سمیت کئی بحالی کے سینٹروں میں آپ کو ایسے مریض کثرت سے مل جاتے ہیں۔
جن کو معمولی اور قابل علاج اور استثنائی صورتوں میں بالکل ٹھیک ٹھاک ہونے کے باوجود پاگل مشہور کر دیا جاتا ہے۔ یہ معاملات اپنی جگہ پر سرکاری اور عوامی توجہ کے طلب گار ہیں اور بہت سے اہل خیر اور مستند متعلقہ طبی ادارے اپنے طور پر اپنے حصے کا کام کر بھی رہے ہیں مگر اس وقت میرا موضوع سخن اور زیر نظر معاملہ وہ سچ مچ کے ذہنی بیماریوں میں مبتلا مریض ہیں جن کے والی وارث نہ ہونے کے برابر ہیں اور جن کے لیے عید کا دن اس لیے کوئی معنی نہیں رکھتا کہ ان کے لیے تو سب دن ایک جیسے اندھیرے اور بے رنگ ہیں ، نہ کوئی عید کو ان کی خبر لینے آتا ہے اور نہ ہی کوئی ان کو عید کی خوشیوں میں شامل کرنے کا کسی بھی طرح سے اہتمام کرتا ہے، حالانکہ طبی تحقیق کے مطابق ایسے تمام عوامل جن کا تعلق اجتماعی شعور' رسم و رواج، تہواروں یا کسی خصوصی تیاری سے وابستہ ہو ان میں شمولیت اور شرکت بعض صورتوں میں ان مریضوں پر دوا سے بھی زیادہ کام کرتی ہے اور ان کا بگڑا ہوا ذہنی توازن شعور سے زیادہ لاشعور کے منطقے سے قربت کے باعث آپ سے آپ بہتری کی طرف مائل ہو جاتا ہے۔
مہذب اور انسان دوست معاشروں میں اس پر مسلسل تحقیق اور کام ہو رہا ہے جس کے بہت بہتر اور مثبت نتائج بھی سامنے آ رہے ہیں مگر ہمارے ہاں اس طرف توجہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ کیا ہی اچھا ہو اگر اس عید کو ہم میں سے ہر ایک کچھ لمحے ایسے ہی کسی ذہنی بیمار' بے سہارا بزرگ' جسمانی معذور یا یتیم بچے کے ساتھ گزارنے کا پہلے سوچے اور پھر اس پر عمل بھی کرے کہ رب کریم اپنے بندوں کا خیال رکھنے والوں کا خصوصی خیال تو رکھتا ہی ہے مگر میرا دل کہتا ہے کہ وہ ان ''خصوصی'' لوگوں پر شفقت کرنے والوں کو اور بھی زیادہ عزیز رکھتا ہو گا۔ ذرا سی کوشش سے ہم اپنے جاننے والے کسی خاندان یا فائونٹین ہائوس Willing ways یا ایسے ہی کسی اور اچھے ادارے یا یتیم خانے کا پتہ کر سکتے ہیں جہاں کوئی آدھا ادھورا آدم زادہ ہم بظاہر پورے انسانوں کا منتظر ہے۔ تو چلیے اسی بہانے اس خصوصی گیت کی لائنوں پر بھی ایک نظر ڈالتے ہیں جس کا موضوع ہی وہ لوگ تھے جن کی موجودگی میں اسے ریکارڈ کیا گیا تھا اور ان باتوں پر بھی غور اور عمل کرتے ہیں جو اس میں کہی گئی ہیں۔
تھکی تھکی خالی آنکھوں کو خواب اک دیتے جائیں
دکھ سے بوجھ ان کاندھوں کا کچھ تو بوجھ گھٹائیں
رستہ رستہ تیز ہوا ہے اور سفر ہے عمروں کا
ایک دیا بجھنے سے روکیں ایک چراغ جلائیں
بس اک بول تسلی والا' ایک نظر سی الفت کی
بجھتے چہرے روشن کر دیں آگ میں پھول کھلائیں
چند دن قبل مجھے چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب کے فائونٹین ہائوس لاہور کے ایک دورے کا وڈیو کلپ دیکھنے کا اتفاق ہوا اور مزید اتفاق سے اگلے ہی دن مجھے اپنے شوگر کے معالج ڈاکٹر امتیاز حسن سے ڈاکٹر صداقت علی کے مشہور شوگر کلینک DIP جانے کا موقع ملا جس کی عمارت سے منسلک ایک دوسری عمارت میں انھوں نے منشیات کے عادی اور ذہنی امراض میں مبتلا مریضوں کے علاج اور بحالی کے لیے Willing ways کے نام سے ایک ادارہ قائم کر رکھا ہے اب بات یہ بنی کہ فائونٹین ہائوس سے اس کے بانی ڈاکٹر رشید مرحوم اور اپنے اخوت والے برادرم ڈاکٹر امجد ثاقب کی معرفت میرا تعلق نہ صرف پرانا ہے بلکہ ایک طرح سے مستقل بھی ہے کہ 80 کی دہائی میں، میں نے اپنے ایک ٹی وی سیریل ''فشار'' کے لیے ذہنی مریضوںکے علاج کے حوالے سے ہی وہاں کچھ ریکارڈنگ بھی رکھی تھی۔
(جس میں عارفہ صدیقی کا گایا ہوا ایک ایسا گیت بھی شامل تھا جو لکھا ہی ان ذہنی طور پر بیمار افراد کے لیے گیا تھا) اسی طرح سے کئی برس قبل ایک خصوصی فلم کے حوالے سے ڈاکٹر صداقت علی نے مجھے مری کے قریب اپنا ایک ادارہ وزٹ کروایا تھا جہاں منشیات کے عادی مریضوں کا علاج کیا جاتا تھا، وہ فلم تو بوجوہ نہ بن سکی مگر صداقت بھائی سے گاہے گاہے کی ملاقاتوں میں یہ پتہ ضرور چلتا رہا کہ وہ اپنے دیگر منصوبوں کے علاوہ Willing ways نامی ایک ایسا اسپتال نما ادارہ بھی چلا رہے ہیں جس کا مقصد ذہنی مریضوں کے بہتر علاج کے ساتھ ساتھ معاشرے کو اس کے مختلف پہلوئوں سے آگاہی فراہم کرنا بھی ہے۔
ان دونوں اداروں کے علاوہ اپنی کسی غلطی' حادثے' واقعے یا پیدائشی کمی کی وجہ سے مختلف طرح کے ذہنی امراض میں گرفتار لوگوں سے ملنے اور ان کے معاملات اور مسائل سے متعلق بہت سی باتوں کا پتہ دیگر ذرایع سے بھی چلتا رہا اور بارہا یہ احساس دامن گیر ہوا کہ اس ضمن میں ہمارے عمومی معاشرتی رویے بہت افسوسناک ہیں کہ شاید ایک فی صد کے استثنا کے ساتھ جن گھروں میں منشیات پیدائشی اختلال یا کسی بھی اور وجہ سے ذہنی عدم توازن کے مریض پائے جاتے ہیں وہاں ان سے دانستہ یا نادانستہ طور پر غیر انسانی سلوک روا رکھا جاتا ہے انھیں لوگوں سے چھپا کر اور رسیوں وغیرہ سے باندھ کر کسی جانور یا ناپسندیدہ اور فالتو چیز کی طرح رکھا اور سمجھا جاتا ہے اور ان کے علاج اور دیکھ بحال پر توجہ دینا تو درکنار بعض صورتوں میں تو جائیداد وغیرہ کے معاملات میں بالخصوص انھیں جان بوجھ کر اس حالت میں رکھا جاتا ہے جو میرے نزدیک سب سے زیادہ تکلیف دہ بات ہے کہ پاگل خانوں سمیت کئی بحالی کے سینٹروں میں آپ کو ایسے مریض کثرت سے مل جاتے ہیں۔
جن کو معمولی اور قابل علاج اور استثنائی صورتوں میں بالکل ٹھیک ٹھاک ہونے کے باوجود پاگل مشہور کر دیا جاتا ہے۔ یہ معاملات اپنی جگہ پر سرکاری اور عوامی توجہ کے طلب گار ہیں اور بہت سے اہل خیر اور مستند متعلقہ طبی ادارے اپنے طور پر اپنے حصے کا کام کر بھی رہے ہیں مگر اس وقت میرا موضوع سخن اور زیر نظر معاملہ وہ سچ مچ کے ذہنی بیماریوں میں مبتلا مریض ہیں جن کے والی وارث نہ ہونے کے برابر ہیں اور جن کے لیے عید کا دن اس لیے کوئی معنی نہیں رکھتا کہ ان کے لیے تو سب دن ایک جیسے اندھیرے اور بے رنگ ہیں ، نہ کوئی عید کو ان کی خبر لینے آتا ہے اور نہ ہی کوئی ان کو عید کی خوشیوں میں شامل کرنے کا کسی بھی طرح سے اہتمام کرتا ہے، حالانکہ طبی تحقیق کے مطابق ایسے تمام عوامل جن کا تعلق اجتماعی شعور' رسم و رواج، تہواروں یا کسی خصوصی تیاری سے وابستہ ہو ان میں شمولیت اور شرکت بعض صورتوں میں ان مریضوں پر دوا سے بھی زیادہ کام کرتی ہے اور ان کا بگڑا ہوا ذہنی توازن شعور سے زیادہ لاشعور کے منطقے سے قربت کے باعث آپ سے آپ بہتری کی طرف مائل ہو جاتا ہے۔
مہذب اور انسان دوست معاشروں میں اس پر مسلسل تحقیق اور کام ہو رہا ہے جس کے بہت بہتر اور مثبت نتائج بھی سامنے آ رہے ہیں مگر ہمارے ہاں اس طرف توجہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ کیا ہی اچھا ہو اگر اس عید کو ہم میں سے ہر ایک کچھ لمحے ایسے ہی کسی ذہنی بیمار' بے سہارا بزرگ' جسمانی معذور یا یتیم بچے کے ساتھ گزارنے کا پہلے سوچے اور پھر اس پر عمل بھی کرے کہ رب کریم اپنے بندوں کا خیال رکھنے والوں کا خصوصی خیال تو رکھتا ہی ہے مگر میرا دل کہتا ہے کہ وہ ان ''خصوصی'' لوگوں پر شفقت کرنے والوں کو اور بھی زیادہ عزیز رکھتا ہو گا۔ ذرا سی کوشش سے ہم اپنے جاننے والے کسی خاندان یا فائونٹین ہائوس Willing ways یا ایسے ہی کسی اور اچھے ادارے یا یتیم خانے کا پتہ کر سکتے ہیں جہاں کوئی آدھا ادھورا آدم زادہ ہم بظاہر پورے انسانوں کا منتظر ہے۔ تو چلیے اسی بہانے اس خصوصی گیت کی لائنوں پر بھی ایک نظر ڈالتے ہیں جس کا موضوع ہی وہ لوگ تھے جن کی موجودگی میں اسے ریکارڈ کیا گیا تھا اور ان باتوں پر بھی غور اور عمل کرتے ہیں جو اس میں کہی گئی ہیں۔
تھکی تھکی خالی آنکھوں کو خواب اک دیتے جائیں
دکھ سے بوجھ ان کاندھوں کا کچھ تو بوجھ گھٹائیں
رستہ رستہ تیز ہوا ہے اور سفر ہے عمروں کا
ایک دیا بجھنے سے روکیں ایک چراغ جلائیں
بس اک بول تسلی والا' ایک نظر سی الفت کی
بجھتے چہرے روشن کر دیں آگ میں پھول کھلائیں