طالبان نے امریکا کو پھر براہ راست مذاکرات کی دعوت دے دی

مسئلے کا واحد حل امریکی قیادت میں غیر ملکی فوجیوں کی واپسی ہے، ہبت اللہ اخوندزادہ

مستقل حل کیلیے بہت سی رکاوٹیں عبور کرنا باقی ہیں، حامد کرزئی۔ فوٹو: فائل

افغان طالبان کے سربراہ مولوی ہبت اللہ اخوندزادہ نے امریکا کو طالبان کے ساتھ براہ راست مذاکرات کی پھر دعوت دی ہے تاکہ افغان تنازع کا سیاسی حل تلاش کیا جا سکے۔

عید الفطر کے موقع پر اپنے پیغام میں طالبان سربراہ نے کہا کہ اگر امریکی اہلکار واقعی افغان مسئلے کا پر امن حل چاہتے ہیں تو انھیں طالبان کے ساتھ براہ راست مذاکرات کے لیے میز پر آنا چاہیے، انھوں نے کہا کہ افغان جنگ کے تباہ کن اثرات افغان امریکی دونوں کو متاثر کرتے ہیں اور یہ مسئلہ مذاکرات کے ذریعے ہی حل کیا جا سکتا ہے۔

مولوی ہبت اللہ نے مزید کہا کہ امریکی اہلکاروں کی سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ وہ مسائل کا حل کے بجائے ہر مسئلے پر ضد اور ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور اس کا حل طاقت کے استعمال میں تلاش کرتے ہیں۔

انھوں نے کہاکہ طالبان افغان مسئلے کے سیاسی حل کے لیے تیار ہے اور مفاہمت و مذاکرات کے لیے قطر میں سیاسی دفتر کھولا ہے جو مذاکرات کے لیے واحد ذریعہ ہے، انھوں نے افغانستان میں طالبان کی لڑائی کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ افغانوں کو اپنے ملک سے غیر ملکی جارحیت پسندوں کو نکالنے کے لیے لڑائی کا حق حاصل ہے۔


طالبان سربراہ نے کہا کہ افغان مسئلے کا واحد حل امریکی قیادت میں غیر ملکی فوجیوں کی واپسی ہے، انھوں نے کہا کہ غیر ملکی افواج کے نکلنے کے بعد افغانوں کو آپس میں مل بیٹھنے اور تمام لوگوں پر مشتمل حکومت بنانے کا موقع ملے گا۔

مولوی ہبت اللہ نے ان افغان علما پر سخت تنقید کی جو جنگ کے خاتمے کا مطالبہ تو کرتے ہیں لیکن انھوں نے کبھی بھی افغانستان سے غیر ملکی افواج کی واپسی کا مطالبہ نہیں کیا، انھوں نے علما کو خبردار کیا کہ امریکا اپنی شکست سے بچنے کیلیے علما کو استعمال کرنا چاہتا ہے، جبکہ افغان طالبان کے ترجمان قاری یوسف احمدی نے ان اطلاعات کی تردید کی ہے کہ طالبان نے عید کے موقع پر جنگ بندی کا اعلان کسی اور ملک کے کہنے پر کیا تھا۔

انھوں نے کہا کہ طالبان کی جانب سے جنگ بندی ان کی قیادت کا اپنا فیصلہ تھا تاکہ لوگ پر امن طریقے سے عید کی نماز اور دیگر رسوم پر امن ماحول میں ادا کر سکیں، انھوں نے کہا کہ عید کے موقع پر افغان فوجی اور حکومتی اہلکاروں کو ان علاقوں میں جانے کی اجازت ہوگی جو طالبان کے زیر کنٹرول ہیں۔

دریں اثنا سابق افغان صدر حامد کرزئی نے گلوبل میڈیا فورم کے ایک سیشن سے خطاب میں کہا ہے کہ وہ افغانستان میں مستقل امن کیلیے پرامید ہیں، کرزئی کے مطابق پاکستان کی پشتون تحفظ موومنٹ خطے میں قیام امن کیلیے ایک اہم کردار ادا کر سکتی ہے، افغان حکومت اور طالبان کی طرف سے جنگ بندی کے اعلانات 16 سال سے جاری جنگ کے خاتمے کی کوششوں کیلیے ایک مثبت پیش رفت ہے، امریکی اتحادی فورسز نے طالبان کی حکومت کا خاتمہ کیا تھا، جس کے بعد پہلی مرتبہ ان جنگجوؤں نے عارضی طور پر جنگ بند کرتے ہوئے اپنے رویوں میں کچھ لچک دکھائی ہے۔

حامد کرزئی نے زور دیا کہ یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ افغانستان پر جنگ مسلط کی گئی ہے، اس تنازع کے تمام فریق بشمول امریکا اور پاکستان کو ایک ڈیل پر پہنچنا ہوگا تاکہ اس جنگ بندی کو مستقل بنایا جا سکے، حامد کرزئی نے اپنے پرانے موقف کو پھر دہرایا کہ امریکی حکومت پاکستان پر دباؤ نہیں ڈال رہی کہ وہ مذہب پسند شدت پسندوں کی مبینہ حمایت ترک کر دے، بطور افغان، طالبان افغانستان میں امن چاہتے ہیں، انھیں مذاکرات کی میز پر دوبارہ لایا جا سکتا ہے تاہم قیام امن کیلیے ابھی مزید کوششوں کی ضرورت ہے۔
Load Next Story