آر ایس ایس کی کامیابی بدشگونی ہے
آر ایس ایس خود کو ملک بھر میں پھیلا رہی ہے اور اس عمل میں دوسروں کی شناخت کو مٹانے کی کوشش کر رہی ہے۔
میں نے دیکھا ہے کہ سیکولر نظریے پر چلنے والے بھی اتنے ہی متعصب اور کٹر ہیں جتنے دوسرے ہوتے ہیں۔ چند روز قبل بی جے پی کے صدر امیت شاہ نے میری قیام گاہ پر آنے کا ارادہ ظاہر کیا، میرے ہاں کہنے پر مجھ پر ٹیلی فون اور ای میلز کے ذریعے اس قدر تنقید کی گئی کہ جس کا کوئی شمار نہیں۔ ان سب کا یہی کہنا تھا کہ تمہیں امیت شاہ کو اپنے گھر آنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے تھی۔ میں ریکارڈ درست رکھنا چاہتا ہوں۔ شاہ کی آمد سے دو چار دن قبل چند پرجوش کارکن میرے گھر آئے۔ ہم جے پرکاش نرائن کی تحریک میں ساتھ ساتھ تھے۔ انھوں نے مجھ سے پوچا کہ اگر امیت شاہ میرے گھر آنا چاہے تو کیا مجھے کوئی اعتراض تو نہیں ہو گا۔
میں نے کہا کہ میرے گھر جو چاہے آسکتا ہے اور میں کسی کے نظریات کی وجہ سے کوئی امتیازی سلوک نہیں کرتا۔ میرا خیال ہے کہ میری مذہب کو سیاست کے ساتھ خلط ملط نہ کرنے کی پالیسی مجھے بہت پسند ہے لیکن میں اپنے عقائد کا اشتہار لگانا مناسب نہیں سمجھتا۔ میں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ قانون قدرت ہے کہ جس چیز کو زیادہ دبایا جائے وہ اور زیادہ ابھرتی ہے۔ اسلام کے خلاف بدترین تعصب اور تشدد کے باوجود دنیا بھر میں لوگ دائرہ اسلام میں داخل ہو رہے ہیں۔ مہاتما گاندھی نے قائداعظم محمد علی جناح سے پوچھا کہ اب برصغیر کی تقسیم ہو جانی چاہیے۔ اگرچہ گاندھی قائداعظم کے ارادے کی مخالفت کر رہے تھے مگر وہ انھیں قائل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ اس کے باوجود ان دونوں میں کوئی تلخی نہ ہوئی۔
مہاتما گاندھی نے 21 دن کا مرن بھرت رکھ لیا جس کو وہ تطہیر قلب کا نام دیتے تھے۔ اس سے ہم یہ سبق سیکھ سکتے ہیں کہ اپنے اختلافات کو دور کرنے کے لیے میز پر بیٹھنے میں ہچکچاہٹ نہیں کرنی چاہیے۔ میں یہ تسلیم کرتا ہوں کہ امیت شاہ کے بارے میں میں اسے ایسا شخص محسوس کرتا ہوں جس کے منہ سے ہمیشہ آگ نکلتی رہتی ہے لیکن میں نے بہت انکساری کا مظاہرہ کیا اور بڑی نرم مزاجی سے اس کے ساتھ بات چیت کی۔ اس وجہ سے ماحول بڑا خوشگوار رہا۔ مجھے یہ تسلیم کرنے میں کوئی قباحت نہیں کہ امیت شاہ کو میں ایک ایسا شخص سمجھتا ہوں جس کے منہ سے شعلے نکلتے رہتے ہیں۔
آگ اور گولہ بارود کے سوا اس کے منہ سے کچھ نکلتا نہیں لیکن میرے ساتھ وہ بڑے احترام اور انکساری سے پیش آیا۔ اس کے خیالات بہت واضح تھے اور مزاج میں بھی خاصی نرمی اور ملائمت تھی۔ وہ جانتا تھا کہ میں بی جے پی کے فلسفہ کے خلاف ہوں لیکن وہ مجھے اپنا ہم خیال بنانے کی کوشش کرتا رہا۔ اس نے بتایا کہ وہ صرف چھ سال کی عمر کا تھا جب اس نے آر ایس ایس کے کارسیوکوں کے اجلاس میں شرکت شروع کی۔ جب اس نے یہ کہا تو میں اس کی آنکھوں میں تفاخر کی چمک دیکھ سکتا تھا۔ بے شک وہ ناگ پور میں آر ایس ایس کے ہیڈ کوارٹرز میں ہونے والی خصوصی تقریبات میں شریک رہا تھا۔ امیت شاہ نے بہت طویل تربیتی سیشنز میں شرکت کی جس کے نتیجے میں وہ پارٹی کا صدر بن کر ابھرا۔ بھارت اس وقت ایک دوراہے پر کھڑا ہے۔ ہندوتوا کے پیروکاروں نے مرکز میں اقتدار پر قبضہ کر رکھا ہے اور اجتماعیت کے فلسفے کو راستے سے ہٹا دیا گیا ہے۔
امیت شاہ کے ساتھ بات چیت کے دوران میں نے ضمناً اس مسئلے کا ذکر کیا۔ اس کا کہنا تھا کہ جب بی جے پی کا اقتدار پر قبضہ مکمل ہو جائے گا تو وہ اس معاملے میں جامع اعتبار سے غور کرے گی۔ میں نے محسوس کیا کہ اس راہ میں مساجد کا انہدام بھی آئے گا۔ لیکن امیت شاہ نے میرے خدشے سے اتفاق نہیں کیا بلکہ کہا کہ ملکی ترقی کا انحصار ہر علاقے کے ڈپٹی کمشنر پر ہوگا۔ امیت شاہ نے اپنی بات چیت میں جن دو نکات کا ذکر کیا وہ تھے ذات پات اور ملک کی تقسیم۔ اس نے کہا کہ سوشلسٹ بالآخر سیاست میں ذات پات کے اثرات لے آئے ہیں۔ اس حوالے سے اس نے رام منوہر لوہیا کا ذکر کیا جو ہر موقع پر ذات پات کا ذکر کرتا تھا۔ میرے خیال میں یہ وجہ تھی کہ وہ بعض ریاستوں میں اقتدار حاصل کرسکے لیکن صرف محدود مدت کے لیے جب کہ مرکز میں انھیں اقتدار نہیں مل سکا۔ امیت شاہ نے اس بات پر زور دیا کہ موجودہ لیڈرز زیادہ تر اسی پالیسی پر عمل کررہے ہیں۔
یہ بات حیرت انگیز ہے کہ جو لوگ ملک کی ترقی کی بات کرتے ہیں وہی ملک کو تقسیم در تقسیم کا شکار بنا رہے ہیں۔ یہ بات ریاستوں کی سطح پر تو قابل فہم ہے لیکن سیاست میں اس کو فیصلہ کن قرار نہیں دیا جا سکتا۔ حکمران بی جے پی ایک مثال ہے، ان کی 21 ریاستوں پر حکومت ہے جب کہ اس پارٹی نے مختلف ریاستوں میں اقتدار پر قبضہ کرنے کے لیے مختلف حکمت عملی اور مختلف طریقے اختیار کیے ہیں حتیٰ کہ کانگریس جو ملک کی قدیم ترین پارٹی ہے جس کا چہرہ سیکولر ہے وہ بھی اپنی تنظیم میں کچھ خاص مختلف نہیں۔ اس کا مسئلہ یہ ہے کہ اس کے پاس کوئی تسلیم شدہ لیڈر نہیں ہے۔ اسی وجہ سے وہ تقسیم در تقسیم کی سیاست کرتی ہے۔ راہول گاندھی جسے 2019ء کے انتخابات میں وزیراعظم نریندر مودی کا مقابلہ کرنا پڑے گا اس کو بہت مشکل پیش آئے گی۔ واضح رہے مودی کرناٹک کا انتخاب باآسانی جیت چکے ہیں۔
امیت شاہ نے تقسیم کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اگر ہم کچھ صبر سے کام لے لیتے تو عین ممکن ہے برصغیر کو تقسیم نہ کرنا پڑتا۔ لیکن اس معاملے میں شاہ کا خیال درست نہیں۔ لارڈ کلیمنٹ ایٹلی جو برطانیہ کے وزیراعظم تھے اور جنہوں نے برطانوی حکومت ختم ہونے کی چھ جون 1948ء کی تاریخ مقرر کی تھی اور کہا تھا کہ وہ اس تاریخ کو یہ ملک چھوڑ جائیں گے۔ لیکن ہندوستان کی تقسیم لارڈ ایٹلی کی دی ہوئی تاریخ سے 10 ماہ پہلے ہی اگست 1947ء میں عمل میں آگئی۔ جب میں نے لارڈ مائونٹ بیٹن سے پوچھا کہ ہندوستان کی تقسیم جس کے لیے وزیراعظم ایٹلی نے جون 1948ء کی تاریخ مقرر کی تھی وہ وقت سے پہلے ہی کیوں عمل میں آگئی تو انھوں نے کہا کہ ہم ملک کو اکٹھا نہیں رکھ سکتے تھے نیز تقسیم کے وقت ہزاروں لاکھوں لوگوں کی ہلاکت پر بھی اس نے افسوس کا اظہار کیا۔ اس کے ساتھ ہی اس کا کہنا تھا کہ برطانوی حکومت بے بس ہوچکی تھی۔
اس حوالے سے امیت شاہ کا یہ مؤقف مضبوط نہیں کہ تقسیم کو روکا جا سکتا تھا۔ جب میں نے لارڈ مائونٹ بیٹن سے کہا کہ تقسیم کے دوران ہونے والی قتل و غارت کی ذمے داری ان پر آتی ہے تو ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے اناج سے بھرے بحری جہاز کولکتہ بھجوا کر کم از کم 20 لاکھ افراد کی جان بچائی جو انگریز فوجیوں کے لیے بھجوائے گئے تھے اور حشر میں اگر مجھ سے سوال کیا گیا تو میں قسم کھا کر کہوں گا کہ میں نے 20 لاکھ لوگوں کو قحط سے ہلاک ہونے سے بچایا تھا۔
امیت شاہ کے ریمارکس میں مایوسی کا ایک پہلو بھی تھا لیکن لگتا ہے کہ ان کی پارٹی نے حالات سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ بی جے پی ملک پر زبردستی ہندوتوا کی حکومت قائم کرنا چاہتی ہے حالانکہ بی جے پی اچھی طرح جانتی ہے کہ ملک میں 17 کروڑ سے زائد مسلمان بھی رہتے ہیں جو ہندوتوا کے خلاف ہیں۔ ایک چیز جو امیت شاہ کی پارٹی کو یاد رکھنی چاہیے وہ یہ ہے کہ بھارت آئینی طور پر ایک سیکولر ملک ہے۔ لہٰذا اس پر جو بھی حکومت کرے اسے آئین کی پاسداری کرنا ہوگی۔ آر ایس ایس خود کو ملک بھر میں پھیلا رہی ہے اور اس عمل میں دوسروں کی شناخت کو مٹانے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس حوالے سے بی جے پی کی حکومت ناجائز ہے۔
(ترجمہ: مظہر منہاس)
میں نے کہا کہ میرے گھر جو چاہے آسکتا ہے اور میں کسی کے نظریات کی وجہ سے کوئی امتیازی سلوک نہیں کرتا۔ میرا خیال ہے کہ میری مذہب کو سیاست کے ساتھ خلط ملط نہ کرنے کی پالیسی مجھے بہت پسند ہے لیکن میں اپنے عقائد کا اشتہار لگانا مناسب نہیں سمجھتا۔ میں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ قانون قدرت ہے کہ جس چیز کو زیادہ دبایا جائے وہ اور زیادہ ابھرتی ہے۔ اسلام کے خلاف بدترین تعصب اور تشدد کے باوجود دنیا بھر میں لوگ دائرہ اسلام میں داخل ہو رہے ہیں۔ مہاتما گاندھی نے قائداعظم محمد علی جناح سے پوچھا کہ اب برصغیر کی تقسیم ہو جانی چاہیے۔ اگرچہ گاندھی قائداعظم کے ارادے کی مخالفت کر رہے تھے مگر وہ انھیں قائل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ اس کے باوجود ان دونوں میں کوئی تلخی نہ ہوئی۔
مہاتما گاندھی نے 21 دن کا مرن بھرت رکھ لیا جس کو وہ تطہیر قلب کا نام دیتے تھے۔ اس سے ہم یہ سبق سیکھ سکتے ہیں کہ اپنے اختلافات کو دور کرنے کے لیے میز پر بیٹھنے میں ہچکچاہٹ نہیں کرنی چاہیے۔ میں یہ تسلیم کرتا ہوں کہ امیت شاہ کے بارے میں میں اسے ایسا شخص محسوس کرتا ہوں جس کے منہ سے ہمیشہ آگ نکلتی رہتی ہے لیکن میں نے بہت انکساری کا مظاہرہ کیا اور بڑی نرم مزاجی سے اس کے ساتھ بات چیت کی۔ اس وجہ سے ماحول بڑا خوشگوار رہا۔ مجھے یہ تسلیم کرنے میں کوئی قباحت نہیں کہ امیت شاہ کو میں ایک ایسا شخص سمجھتا ہوں جس کے منہ سے شعلے نکلتے رہتے ہیں۔
آگ اور گولہ بارود کے سوا اس کے منہ سے کچھ نکلتا نہیں لیکن میرے ساتھ وہ بڑے احترام اور انکساری سے پیش آیا۔ اس کے خیالات بہت واضح تھے اور مزاج میں بھی خاصی نرمی اور ملائمت تھی۔ وہ جانتا تھا کہ میں بی جے پی کے فلسفہ کے خلاف ہوں لیکن وہ مجھے اپنا ہم خیال بنانے کی کوشش کرتا رہا۔ اس نے بتایا کہ وہ صرف چھ سال کی عمر کا تھا جب اس نے آر ایس ایس کے کارسیوکوں کے اجلاس میں شرکت شروع کی۔ جب اس نے یہ کہا تو میں اس کی آنکھوں میں تفاخر کی چمک دیکھ سکتا تھا۔ بے شک وہ ناگ پور میں آر ایس ایس کے ہیڈ کوارٹرز میں ہونے والی خصوصی تقریبات میں شریک رہا تھا۔ امیت شاہ نے بہت طویل تربیتی سیشنز میں شرکت کی جس کے نتیجے میں وہ پارٹی کا صدر بن کر ابھرا۔ بھارت اس وقت ایک دوراہے پر کھڑا ہے۔ ہندوتوا کے پیروکاروں نے مرکز میں اقتدار پر قبضہ کر رکھا ہے اور اجتماعیت کے فلسفے کو راستے سے ہٹا دیا گیا ہے۔
امیت شاہ کے ساتھ بات چیت کے دوران میں نے ضمناً اس مسئلے کا ذکر کیا۔ اس کا کہنا تھا کہ جب بی جے پی کا اقتدار پر قبضہ مکمل ہو جائے گا تو وہ اس معاملے میں جامع اعتبار سے غور کرے گی۔ میں نے محسوس کیا کہ اس راہ میں مساجد کا انہدام بھی آئے گا۔ لیکن امیت شاہ نے میرے خدشے سے اتفاق نہیں کیا بلکہ کہا کہ ملکی ترقی کا انحصار ہر علاقے کے ڈپٹی کمشنر پر ہوگا۔ امیت شاہ نے اپنی بات چیت میں جن دو نکات کا ذکر کیا وہ تھے ذات پات اور ملک کی تقسیم۔ اس نے کہا کہ سوشلسٹ بالآخر سیاست میں ذات پات کے اثرات لے آئے ہیں۔ اس حوالے سے اس نے رام منوہر لوہیا کا ذکر کیا جو ہر موقع پر ذات پات کا ذکر کرتا تھا۔ میرے خیال میں یہ وجہ تھی کہ وہ بعض ریاستوں میں اقتدار حاصل کرسکے لیکن صرف محدود مدت کے لیے جب کہ مرکز میں انھیں اقتدار نہیں مل سکا۔ امیت شاہ نے اس بات پر زور دیا کہ موجودہ لیڈرز زیادہ تر اسی پالیسی پر عمل کررہے ہیں۔
یہ بات حیرت انگیز ہے کہ جو لوگ ملک کی ترقی کی بات کرتے ہیں وہی ملک کو تقسیم در تقسیم کا شکار بنا رہے ہیں۔ یہ بات ریاستوں کی سطح پر تو قابل فہم ہے لیکن سیاست میں اس کو فیصلہ کن قرار نہیں دیا جا سکتا۔ حکمران بی جے پی ایک مثال ہے، ان کی 21 ریاستوں پر حکومت ہے جب کہ اس پارٹی نے مختلف ریاستوں میں اقتدار پر قبضہ کرنے کے لیے مختلف حکمت عملی اور مختلف طریقے اختیار کیے ہیں حتیٰ کہ کانگریس جو ملک کی قدیم ترین پارٹی ہے جس کا چہرہ سیکولر ہے وہ بھی اپنی تنظیم میں کچھ خاص مختلف نہیں۔ اس کا مسئلہ یہ ہے کہ اس کے پاس کوئی تسلیم شدہ لیڈر نہیں ہے۔ اسی وجہ سے وہ تقسیم در تقسیم کی سیاست کرتی ہے۔ راہول گاندھی جسے 2019ء کے انتخابات میں وزیراعظم نریندر مودی کا مقابلہ کرنا پڑے گا اس کو بہت مشکل پیش آئے گی۔ واضح رہے مودی کرناٹک کا انتخاب باآسانی جیت چکے ہیں۔
امیت شاہ نے تقسیم کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اگر ہم کچھ صبر سے کام لے لیتے تو عین ممکن ہے برصغیر کو تقسیم نہ کرنا پڑتا۔ لیکن اس معاملے میں شاہ کا خیال درست نہیں۔ لارڈ کلیمنٹ ایٹلی جو برطانیہ کے وزیراعظم تھے اور جنہوں نے برطانوی حکومت ختم ہونے کی چھ جون 1948ء کی تاریخ مقرر کی تھی اور کہا تھا کہ وہ اس تاریخ کو یہ ملک چھوڑ جائیں گے۔ لیکن ہندوستان کی تقسیم لارڈ ایٹلی کی دی ہوئی تاریخ سے 10 ماہ پہلے ہی اگست 1947ء میں عمل میں آگئی۔ جب میں نے لارڈ مائونٹ بیٹن سے پوچھا کہ ہندوستان کی تقسیم جس کے لیے وزیراعظم ایٹلی نے جون 1948ء کی تاریخ مقرر کی تھی وہ وقت سے پہلے ہی کیوں عمل میں آگئی تو انھوں نے کہا کہ ہم ملک کو اکٹھا نہیں رکھ سکتے تھے نیز تقسیم کے وقت ہزاروں لاکھوں لوگوں کی ہلاکت پر بھی اس نے افسوس کا اظہار کیا۔ اس کے ساتھ ہی اس کا کہنا تھا کہ برطانوی حکومت بے بس ہوچکی تھی۔
اس حوالے سے امیت شاہ کا یہ مؤقف مضبوط نہیں کہ تقسیم کو روکا جا سکتا تھا۔ جب میں نے لارڈ مائونٹ بیٹن سے کہا کہ تقسیم کے دوران ہونے والی قتل و غارت کی ذمے داری ان پر آتی ہے تو ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے اناج سے بھرے بحری جہاز کولکتہ بھجوا کر کم از کم 20 لاکھ افراد کی جان بچائی جو انگریز فوجیوں کے لیے بھجوائے گئے تھے اور حشر میں اگر مجھ سے سوال کیا گیا تو میں قسم کھا کر کہوں گا کہ میں نے 20 لاکھ لوگوں کو قحط سے ہلاک ہونے سے بچایا تھا۔
امیت شاہ کے ریمارکس میں مایوسی کا ایک پہلو بھی تھا لیکن لگتا ہے کہ ان کی پارٹی نے حالات سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ بی جے پی ملک پر زبردستی ہندوتوا کی حکومت قائم کرنا چاہتی ہے حالانکہ بی جے پی اچھی طرح جانتی ہے کہ ملک میں 17 کروڑ سے زائد مسلمان بھی رہتے ہیں جو ہندوتوا کے خلاف ہیں۔ ایک چیز جو امیت شاہ کی پارٹی کو یاد رکھنی چاہیے وہ یہ ہے کہ بھارت آئینی طور پر ایک سیکولر ملک ہے۔ لہٰذا اس پر جو بھی حکومت کرے اسے آئین کی پاسداری کرنا ہوگی۔ آر ایس ایس خود کو ملک بھر میں پھیلا رہی ہے اور اس عمل میں دوسروں کی شناخت کو مٹانے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس حوالے سے بی جے پی کی حکومت ناجائز ہے۔
(ترجمہ: مظہر منہاس)