غیرملکی میڈیا کی ہرزہ سرائی

کیا انسانی حقوق کے علمبرداروں کو مقتولین اور ان کے گھر والوں کے حقوق سمجھ میں نہیں آتے۔

anisbaqar@hotmail.com

اس میں کوئی شک نہیں کہ اب وہ دور آچکا ہے کہ اگر ہوائی جہاز سے تیس ہزار فٹ کی بلندی سے بھی کوئی چند انچوں کی گیند بھی گرائی جائے اور اگر سیٹلائٹ کو اس پر لگادیا جائے تو اس کا محل وقوع نمایاں ہوجائے گا۔ مگر اس دور میں سینسر یا بے جا قیاس آرائی کو استعمال کرنا بے وقوفی کے علاوہ کھ بھی نہیں ہے۔

دنیا کے ہر ملک میں ہر شے آشکارا ہے، خواہ اس کو خصوصی طور پر پوشیدہ ہی کیوں نہ کیا جائے، مگر ماضی کے قیاس کی بنیاد پر نئے نتائج کو زیر و زبر کرنا آج کل کی حکومتوں کی بے خبری ضرور ہے، کیونکہ ہر واردات کی نوعیت اور اس کی حتمی شکل یہ بتاتی ہے کہ اس کی یہ شکل کن ہاتھوں کی بنائی ہوئی ہے اور آج کل جدید ٹیکنالوجی اور قیاس کے علاوہ شواہد بھی گمشدہ قاتل کو تلاش کرلیتے ہیں، مگر 7 جون 1990کو ایک امریکی ٹی وی چینل نے قیاس پر مبنی ایک آرٹیکل لوگوں کے گوش گزار کیا ہے جس کو پڑھ کر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ فوکس نیوز کوئی آزاد چینل نہیں بلکہ یہ صہیونی حکومت کا ایک آلہ کار ہے، یہ مثبت کو منفی میں بدلنے کے طریقہ کار کا ماہر ہے۔ اگر طالب علموں کو نظر انداز کیا جائے تو پھر یہ انسانی حقوق کی آڑ میں مختلف بدگمانیاں پیدا کرتا ہے اور اگر ظالم کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے تو انسانی حقوق کا شعور بلند کرتے ہیں۔

اس چینل نے حالیہ دنوں میں جو انسانی حقوق کا شور وغل مچایا ہے، وہ ناقابل فہم بھی ہے۔ کہاں 1990 کے کراچی کے حالات اور کہاں آج کے حالات۔ یہ ضرب عضب کے بعد ہی ہوسکا کہ دکاندار اور ان سے خرید و فروخت کرنے والا محفوظ ہے، ورنہ ہر گلی کوچہ خون میں نہایا ہوا تھا، لیاری میں ڈاکوئوں اور نقب زنوں نے گھروں کے اندرونی راستے میں ٹنل، سرنگیں بنا رکھی تھیں، مرکزی شہر قوم پرستی کے نام پر مفلوج لوگوں کی رہائش گاہ بنا ہوا تھا۔ کیا یہ لوگ کسی درس و تدریس کے سایہ تلے دوسرے انسانوں کے حقوق کا خیال کرتے ہیں۔ قاتل کے اگر انسانی حقوق ہیں تو جو مقتول ہے اس کا بھی کوئی کنبہ ہوگا۔

کیا انسانی حقوق کے علمبرداروں کو مقتولین اور ان کے گھر والوں کے حقوق سمجھ میں نہیں آتے۔ انسانی حقوق کے علمبرداروں کو کبھی ان ریاستوں اور ممالک کے بارے میں کوئی تحریر نظر نہیں آتی جہاں شہنشاہی ہے اور اسلام کی آڑ میں حکومتیں قائم۔ کراچی جہاں مرکزی علاقے میں ہر گلی کے والدین نے اپنے نوجوان بیٹوں کی لاشیں اٹھائی ہیں، کوئی ان کے دل سے پوچھے کہ غم زندگی کیا ہوتا ہے۔ حکومت کے فرائض میں یہ بھی ہے کہ روٹی، کپڑا، مکان، آزادی رائے، مگر رہزنی کی آزادی جس سے دوسرا شخص مجروح ہو، اس کی آزادی تو مذہب نے بھی نہیں دی۔

مذہبی آزادی کا مطلب ہے کہ ہر شخص کو اس کے عقائد کی آزادی ہو، مگر دوسرے کے عقائد مجروح نہ ہوں۔ انسانی حقوق ایک نہایت حساس معاملہ ہے لہٰذا قلم اٹھانے سے پہلے ہر پہلو پر غور ضروری ہے۔ چند انتہا پسندوں کو ہم خیال بناکر بجرنگ دل بناکر گائے کی حرمت کے نام پر انسانوں کو قتل کرنے والے یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ وہ اپنے دین کی خدمت کررہے ہیں، جب کہ وہ خود اپنے دین سے گمراہ ہیں، لہٰذا انسانی حقوق کا نعرہ تجزیہ اور علم کی گہرائی میں اتر کر ہی حل کیا جاسکتا ہے اور اگر کوئی ایسے پیمانے بنالے کہ یہ حقوق اور یہاں سے باطل شروع ہوتا ہے وہ بھی غلط ہے، جیساکہ ایک امریکی ٹی وی چینل آج کل ہرزہ سرائی میں مصروف ہے۔ اس نے سندھ کے قائم مقام گورنر سے انٹرویو کے نام ایک لمبی تقریر کردی اور آنے والے انتخابی وقت کے متعلق ایک پرتشدد انتخاب کی تصویر کھینچ رہا ہے۔


یہ ہے صحافیانہ بدگمانی کی راہ، جس کو پوری دنیا میں پاکستان ہی نظر آیا، حالانکہ پاکستانی پالیسی براہ راست اسرائیل کے خلاف عمل نہیں، وہ شام کی حکومت کی سرپرستی بھی نہیں کررہی، وہ بشار الاسد کی ہمنوا بھی نہیں، بس اس لیے کہ پاکستان خود کو اسلامی جمہوریہ کہلاتا ہے اور ایران سے پرامن بقائے باہمی کے راستے پر چل رہا ہے، اس لیے وہ اسرائیل اور ان کے ہمنوائوں کے دل میں عوامی رجحانات کی وجہ سے کانٹے کی طرح کھٹکتا ہے۔ اس لیے اسرائیلی ہمنوا اور لفافوں کے متوالے ہمہ وقت پاکستان میں بدامنی کے لیے کوشاں ہیں، جن میں بعض سادہ لوح بھی ہیں جن کو حالات کا معقول تجزیہ نہیں ہے اور وہ یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ ن لیگ جمہوریت کی اصل تصویر ہے۔

اس کی چند وجوہات ہیں، کیونکہ ن لیگ کے لیڈران کے مدمقابل قوتیں اپنے اعمال اور کرداروں میں کوئی روشن دلیل پیش کرنے سے قاصر رہیں اور بعض اوقات یہ اخبارات اور میڈیا کے محور گفتگو میں جو لوگ شامل ہیں، ن لیگ کا مقدمہ عوام کو صحیح طریقے سے پیش نہ کرسکے۔ ایک اور وجہ ہے کہ نواز شریف کی جمہوریت کو پسند کرنے والے اور ان کی مخالفت کرنے والے الیکٹرانک میڈیا پر دو حصوں میں تقسیم ہیں۔ وکالت کرنے والے بھی منطق اور استدلال سے دور ہیں اور مخالفت کرنے والوں کو پاکستان کی سیاست سے کبھی کوئی تعلق نہ رہا۔ بس دونوں طرف وقت کا پیٹ بھرا جارہا ہے۔ ن لیگ کی مخالف لیڈر شپ کردار اور عوام دوستی میں کوئی اہم مثال ہے اور نہ علم و فضل میں۔ یہی حال صحافیوں کا بھی ہے۔

کیا لوگوں کو یہ یاد نہیں کہ ملک سنوارو اور قرض اتارو تحریک کا کیا ہوا؟ ڈالر اتنا بلند ہوا کہ سر پہ آکر بیٹھ گیا۔ کیا لوگ یہ بھول چکے کہ چیف جسٹس سید سجاد علی شاہ کی عدالت پر حملہ کیوں کیا گیا؟ اور حملہ آوروں کی ضیافت کا انتظام بھی خوب کیا گیا۔ وقت اس قدر گزر گیا کہ سادہ لوح لوگ ن لیگ کو جمہوریت کی بنیاد سمجھ بیٹھے۔ گویا یہ پاکستان کے ابراہم لنکن ہیں، اگر یہ نہ آئے تو ملک سے جمہوریت اور جمہوریت کا خاتمہ ہوگا۔ افسوس کا مقام ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کے دروازے اربوں کھربوں کی کرپشن نے بند کر رکھے ہیں، اور نئی لیڈر شپ کو طلبہ یونین کا چراغ گل کرکے ختم کردیا گیا۔ پاکستان کے حالات ایسے ہیں کہ بیرونی دنیا کے کچھ ایجنٹ ملک میں خلفشار پیدا کرنا چاہتے ہیں، اس لیے امریکی ٹی وی ایک الگ سمت سے اور نیویارک ٹائمز ایک ہی وقت میں ایک جیسی اسٹوری بنارہے ہیں۔

امریکی ٹی وی تو کراچی کے حالت کی دوبارہ برتری کی جانب کی پیش گوئی کے انداز میں بیان کررہا ہے، وہ آزادی رائے کو ایسی اہمیت دے رہا ہے کہ اگر کسی نے نہ کی تو اس کی فوری موت واقع ہوجائے گی، یعنی وہ انسانی ضروریات، حیات پر مقدم ہے۔ آزادی رائے کے علمبرداروں کو زندگی میں عملی مظاہرہ بھی کرنا چاہیے، آزادی رائے کا خیال صرف امیر زادوں کی جمہوریت پر یقین رکھتا ہے، عوام الناس کے کثیر انبوہ سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ نیویارک ٹائمز نے جس واقعے پر زور دیا ہے وہ ہے محترمہ گل کی رہ گزر پر رکاوٹ اور چند گھنٹے ان سے سخت کلامی، جس کو سرزنش کا نام بھی نہیں دے سکتے، محض بغیر توے بولنا بے سود ہوتا ہے۔

جیسا کہ الیکٹرانک میڈیا پر ایک تماشا لگا ہے، نہ زبان درست، نہ علم و ادب، اگر زیڈ اے بخاری مرحوم زندہ ہوتے تو اکثریت آڈیشن میں ہی فیل ہوجاتی۔ یہ فارن میڈیا ان لوگوں کے راز فاش نہیں کرتے جو ہمارے ملک کی دولت ان کے ملک میں جمع کراتے ہیں، دراصل ہمارے لیڈر غیر ملکی لوگوں کے اثاثے ہیں۔ کسی مہاتیر محمد کی ضرورت ہے جو 92 برس کی عمر میں ملائیشیا کی قسمت دوبادہ بدلنے آئے ہیں۔ ہرزہ سرائیوں سے ملک کی قسمت بدلنے کی نہیں ہے۔
Load Next Story