نگراں حکومتیں کیوں
ملک میں نگراں حکومتوں کے قیام کی وجہ سیاسی جماعتوں کا ایک دوسرے پر عدم اعتماد اور سیاسی مفادات کا غیر قانونی حصول ہے۔
ملک میں جب سے نگراں حکومتوں کا تقرر شروع ہوا ہے پہلی مرتبہ اس سلسلے میں جو تماشا ہوا ہے اس سے قبل کبھی نہیں ہوا، اور تحریک انصاف کو ایسی تنقید کا سامنا کرنا پڑا جو اس سے قبل کسی اور پارٹی کے ساتھ نہیں ہوا۔
نگراں حکومتوں کا معاملہ جب سے شروع ہوا ہے تب سے پہلی بار تحریک انصاف پنجاب میں اپوزیشن میں تھی اور کے پی کے میں برسر اقتدار تھی مگر کہیں بھی وہ اپوزیشن اور حکومت سے اتفاق پیدا نہ کرسکی اور اس کے برعکس وفاق میں (ن) لیگ حکومت اور پیپلز پارٹی نے غیر متوقع طور پر ناصرالملک کے نام پر اتفاق کرکے سیاسی حلقوں کو خوشگوار حیرت میں ڈال دیا اور نگراں وزیراعظم دونوں کے اتفاق سے ہی منظر عام پر آئے جہاں متعدد ملاقاتوں کے باوجود اتفاق نہیں ہو رہا تھا اور اپوزیشن لیڈر مایوس ہو چکے تھے۔
سندھ میں پی پی حکومت اور ایم کیو ایم کے درمیان سیاسی کشیدگی عروج پر تھی اور حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ملاقات بھی دیر سے ہوئی اور حیرت انگیز طور پر حکومت اور ایم کیو ایم میں نگراں وزیراعلیٰ کے لیے فضل الرحمٰن پر اتفاق کر لیا گیا۔
پنجاب اور کے پی کے میں پہلے نگراں وزرائے اعلیٰ پر اتفاق ہوا پھر دونوں جگہ پی ٹی آئی نے یو ٹرن لے لیا اور معاملہ نہ بن سکا۔ پی ٹی آئی پنجاب میں اپوزیشن تھی اور کے پی کے میں حکومت اور دونوں ہی جگہ اس نے اپنی مصلحت کے تحت پہلے اتفاق اور بعد میں اختلاف کیا اور دونوں جگہ پارلیمانی کمیٹیوں کی بجائے الیکشن کمیشن کو نگراں وزیر اعلیٰ مقرر کرنا پڑے اور بلوچستان میں بھی نگراں حکومت پر حکومت اور اپوزیشن متفق نہ ہوئے اور معاملہ الیکشن کمیشن نے طے کیا۔
مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم نے اپنے باہمی اختلافات کے باوجود سیاسی تدبر کا ثبوت دیا مگر پی ٹی آئی دونوں صوبوں میں اتفاق رائے میں نہ صرف ناکام رہی بلکہ اس پر یوٹرن کا الزام بھی ہوگا۔
دنیا میں کہیں بھی عام انتخابات کے موقع پر نگراں حکومتیں قائم نہیں ہوتیں یہ سلسلہ پاکستان میں قائم ہوا اور اس پر تماشا بنا دیا گیا اور جگ ہنسائی الگ ہوئی مگر پی ٹی آئی، جے یو آئی اور بلوچستان اپوزیشن نے سیاسی بردباری نہ دکھا کر جہاں یہ ثابت کیا کہ یہ اپنی داڑھی دوسرے کے ہاتھ میں دے کر غیر ذمے دار ٹھہرے تو پیپلز پارٹی نے دو جگہ اور مسلم لیگ (ن) اور ایم کیو ایم نے ایک جگہ سیاسی بردباری کا ذمے دارانہ مظاہرہ کر کے یہ ثابت کیا کہ سب سیاسی جماعتیں پی ٹی آئی کی طرح نہیں اور ان میں باہمی اختلافات کے باوجود مسئلہ حل کرنے کی صلاحیت ہے۔
نگراں حکومتوں کی مدت دو تین ماہ ہوتی ہے اور الیکشن لڑے بغیر حکمرانی کا تاج اچانک کسی کے سر سج جائے تو مفت میں اقتدار حاصل ہو جاتا ہے۔ 2013ء میں بھی پی پی حکومت اور مسلم لیگ (ن) میں نگراں وزیر اعظم پر اتفاق نہ ہوا تھا اور معاملہ الیکشن کمیشن نے ہزار خان کھوسہ کو نگراں وزیراعظم بناکر طے کیا تھا اور 2013ء کے بعد 2018ء میں نگراں وزیراعظم بنائے جانے والے کا تعلق اعلیٰ عدلیہ سے ہے جب کہ اس سے قبل سیاسی لوگ ہی نگراں وزیر اعظم زیادہ بنے اور ایک بار صدر اسحاق اور آرمی چیف نے ایک غیر ملکی غیر سیاسی شخصیت کو یہ ذمے داری سونپی تھی جس کا شناختی کارڈ بھی پاکستان آنے پر بنایا گیا تھا اور انتخابات کروا کر واپس جانے کے بعد انھوں نے پاکستان آنا بھی گوارا نہیں کیا ان کا تقرر ایک لحاظ سے ملکی سیاستدانوں پر عدم اعتماد تھا۔
ملک میں نگراں حکومتوں کے قیام کی وجہ سیاسی جماعتوں کا ایک دوسرے پر عدم اعتماد اور سیاسی مفادات کا غیر قانونی حصول ہے۔ بھٹو حکومت نے 1977ء میں قبل از وقت جو انتخابات کرائے تھے اس وقت بھٹو صاحب اور چاروں صوبوں میں پیپلز پارٹی اقتدار میں تھی مگر پی پی پی کی سیاسی مفاد پرستی سے انتخابات متنازع ہوئے۔
پی پی حکومت کے خلاف ملک گیر تحریک چلی جس کا نتیجہ طویل مارشل لا نکلا جس کے بعد نگراں حکومتیں ضروری سمجھی گئیں اور ہر سیاسی جماعت کی کوشش رہی کہ وہ اپنے حامی نگراں لائے تا کہ انتخابات میں انھیں کامیابی حاصل ہو سکے۔ نگراں وزیر اعظم غلام مصطفیٰ جتوئی نے تو قومی اسمبلی کا انتخاب بھی لڑا تھا اور نواز شریف نے بھی انتخابات 1988ء کے دوران پنجاب کی نگراں حکومت چلائی تھی جس کے بعد ایسا نہیں ہوا۔
دیگر ملکوں میں انتخابات کے موقع پر برسر اقتدار حکومت کے اختیارات محدود ہو جاتے ہیں اور الیکشن کمیشن کے اختیارات بڑھ جاتے ہیں مگر یہاں ایسا نہیں ہے کیونکہ سیاسی حکمران اور مخصوص حلقے یہاں با اختیار الیکشن کمیشن نہیں چاہتے اور نگراں حکومتوں پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں جس کی وجہ سے الیکشن کمیشن اور نگرانوں پر الزامات لگتے آ رہے ہیں اور یہ ہر الیکشن میں ہوتا آ رہا ہے۔
نگراں حکومتیں اصل میں نگرانوں کو اپنوں کو نوازنے اور من مانیوں کو موقع دینا چاہ رہی ہیں۔ نگراں حکومتوں میں زیادہ لوگ سیاسی ہوتے ہیں جن کی ہمدردیاں اپنی اپنی پارٹیوں کے ساتھ ہوتی ہیں اور کمزور الیکشن کمیشن صرف وارننگ دے کر رہ جاتا ہے۔ اگر نگراں وزیر اعظم اور وزرائے اعلیٰ ضروری ہیں تو دو تین ماہ کے لیے وزیروں کے تقرر کی کیا ضرورت ہے۔ سرکاری محکمے سرکاری سیکریٹری ہی چلاتے ہیں اور نگراں وزرا صرف ذاتی مفادات حاصل کر لیتے ہیں اور ان کا سابق وزیر کہنے کا حق ضروری بن جاتا ہے۔
نگراں حکومتوں کا معاملہ جب سے شروع ہوا ہے تب سے پہلی بار تحریک انصاف پنجاب میں اپوزیشن میں تھی اور کے پی کے میں برسر اقتدار تھی مگر کہیں بھی وہ اپوزیشن اور حکومت سے اتفاق پیدا نہ کرسکی اور اس کے برعکس وفاق میں (ن) لیگ حکومت اور پیپلز پارٹی نے غیر متوقع طور پر ناصرالملک کے نام پر اتفاق کرکے سیاسی حلقوں کو خوشگوار حیرت میں ڈال دیا اور نگراں وزیراعظم دونوں کے اتفاق سے ہی منظر عام پر آئے جہاں متعدد ملاقاتوں کے باوجود اتفاق نہیں ہو رہا تھا اور اپوزیشن لیڈر مایوس ہو چکے تھے۔
سندھ میں پی پی حکومت اور ایم کیو ایم کے درمیان سیاسی کشیدگی عروج پر تھی اور حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ملاقات بھی دیر سے ہوئی اور حیرت انگیز طور پر حکومت اور ایم کیو ایم میں نگراں وزیراعلیٰ کے لیے فضل الرحمٰن پر اتفاق کر لیا گیا۔
پنجاب اور کے پی کے میں پہلے نگراں وزرائے اعلیٰ پر اتفاق ہوا پھر دونوں جگہ پی ٹی آئی نے یو ٹرن لے لیا اور معاملہ نہ بن سکا۔ پی ٹی آئی پنجاب میں اپوزیشن تھی اور کے پی کے میں حکومت اور دونوں ہی جگہ اس نے اپنی مصلحت کے تحت پہلے اتفاق اور بعد میں اختلاف کیا اور دونوں جگہ پارلیمانی کمیٹیوں کی بجائے الیکشن کمیشن کو نگراں وزیر اعلیٰ مقرر کرنا پڑے اور بلوچستان میں بھی نگراں حکومت پر حکومت اور اپوزیشن متفق نہ ہوئے اور معاملہ الیکشن کمیشن نے طے کیا۔
مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم نے اپنے باہمی اختلافات کے باوجود سیاسی تدبر کا ثبوت دیا مگر پی ٹی آئی دونوں صوبوں میں اتفاق رائے میں نہ صرف ناکام رہی بلکہ اس پر یوٹرن کا الزام بھی ہوگا۔
دنیا میں کہیں بھی عام انتخابات کے موقع پر نگراں حکومتیں قائم نہیں ہوتیں یہ سلسلہ پاکستان میں قائم ہوا اور اس پر تماشا بنا دیا گیا اور جگ ہنسائی الگ ہوئی مگر پی ٹی آئی، جے یو آئی اور بلوچستان اپوزیشن نے سیاسی بردباری نہ دکھا کر جہاں یہ ثابت کیا کہ یہ اپنی داڑھی دوسرے کے ہاتھ میں دے کر غیر ذمے دار ٹھہرے تو پیپلز پارٹی نے دو جگہ اور مسلم لیگ (ن) اور ایم کیو ایم نے ایک جگہ سیاسی بردباری کا ذمے دارانہ مظاہرہ کر کے یہ ثابت کیا کہ سب سیاسی جماعتیں پی ٹی آئی کی طرح نہیں اور ان میں باہمی اختلافات کے باوجود مسئلہ حل کرنے کی صلاحیت ہے۔
نگراں حکومتوں کی مدت دو تین ماہ ہوتی ہے اور الیکشن لڑے بغیر حکمرانی کا تاج اچانک کسی کے سر سج جائے تو مفت میں اقتدار حاصل ہو جاتا ہے۔ 2013ء میں بھی پی پی حکومت اور مسلم لیگ (ن) میں نگراں وزیر اعظم پر اتفاق نہ ہوا تھا اور معاملہ الیکشن کمیشن نے ہزار خان کھوسہ کو نگراں وزیراعظم بناکر طے کیا تھا اور 2013ء کے بعد 2018ء میں نگراں وزیراعظم بنائے جانے والے کا تعلق اعلیٰ عدلیہ سے ہے جب کہ اس سے قبل سیاسی لوگ ہی نگراں وزیر اعظم زیادہ بنے اور ایک بار صدر اسحاق اور آرمی چیف نے ایک غیر ملکی غیر سیاسی شخصیت کو یہ ذمے داری سونپی تھی جس کا شناختی کارڈ بھی پاکستان آنے پر بنایا گیا تھا اور انتخابات کروا کر واپس جانے کے بعد انھوں نے پاکستان آنا بھی گوارا نہیں کیا ان کا تقرر ایک لحاظ سے ملکی سیاستدانوں پر عدم اعتماد تھا۔
ملک میں نگراں حکومتوں کے قیام کی وجہ سیاسی جماعتوں کا ایک دوسرے پر عدم اعتماد اور سیاسی مفادات کا غیر قانونی حصول ہے۔ بھٹو حکومت نے 1977ء میں قبل از وقت جو انتخابات کرائے تھے اس وقت بھٹو صاحب اور چاروں صوبوں میں پیپلز پارٹی اقتدار میں تھی مگر پی پی پی کی سیاسی مفاد پرستی سے انتخابات متنازع ہوئے۔
پی پی حکومت کے خلاف ملک گیر تحریک چلی جس کا نتیجہ طویل مارشل لا نکلا جس کے بعد نگراں حکومتیں ضروری سمجھی گئیں اور ہر سیاسی جماعت کی کوشش رہی کہ وہ اپنے حامی نگراں لائے تا کہ انتخابات میں انھیں کامیابی حاصل ہو سکے۔ نگراں وزیر اعظم غلام مصطفیٰ جتوئی نے تو قومی اسمبلی کا انتخاب بھی لڑا تھا اور نواز شریف نے بھی انتخابات 1988ء کے دوران پنجاب کی نگراں حکومت چلائی تھی جس کے بعد ایسا نہیں ہوا۔
دیگر ملکوں میں انتخابات کے موقع پر برسر اقتدار حکومت کے اختیارات محدود ہو جاتے ہیں اور الیکشن کمیشن کے اختیارات بڑھ جاتے ہیں مگر یہاں ایسا نہیں ہے کیونکہ سیاسی حکمران اور مخصوص حلقے یہاں با اختیار الیکشن کمیشن نہیں چاہتے اور نگراں حکومتوں پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں جس کی وجہ سے الیکشن کمیشن اور نگرانوں پر الزامات لگتے آ رہے ہیں اور یہ ہر الیکشن میں ہوتا آ رہا ہے۔
نگراں حکومتیں اصل میں نگرانوں کو اپنوں کو نوازنے اور من مانیوں کو موقع دینا چاہ رہی ہیں۔ نگراں حکومتوں میں زیادہ لوگ سیاسی ہوتے ہیں جن کی ہمدردیاں اپنی اپنی پارٹیوں کے ساتھ ہوتی ہیں اور کمزور الیکشن کمیشن صرف وارننگ دے کر رہ جاتا ہے۔ اگر نگراں وزیر اعظم اور وزرائے اعلیٰ ضروری ہیں تو دو تین ماہ کے لیے وزیروں کے تقرر کی کیا ضرورت ہے۔ سرکاری محکمے سرکاری سیکریٹری ہی چلاتے ہیں اور نگراں وزرا صرف ذاتی مفادات حاصل کر لیتے ہیں اور ان کا سابق وزیر کہنے کا حق ضروری بن جاتا ہے۔