حقیقت تقویٰ اور اس کے فوائد

شریعت میں انسان کا ان کاموں سے بچنا جو اس کے لیے آخرت میں غضب خداوندی کا باعث ہوں تقویٰ کہلاتا ہے

شریعت میں انسان کا ان کاموں سے بچنا جو اس کے لیے آخرت میں غضب خداوندی کا باعث ہوں تقویٰ کہلاتا ہے۔ فوٹو: فائل

''اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو جیسے اللہ سے ڈرنے کا حق ہے۔''

''تو تم اللہ سے تقویٰ اختیار کرو جتنا تم سے ہو سکے۔'' ان آیات بینات میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو تقویٰ اختیار کرنے کا حکم دیا ہے۔ تقویٰ کی ضرورت و اہمیت کا اندازہ اس بات سے بہ خوبی لگایا جا سکتا ہے کہ قرآن مجید فرقانِ حمید کی بہت سی آیات ایسی ہیں جن میں بہت پرُزور انداز میں خالقِ کائنات نے بندوں سے تقویٰ کا مطالبہ کیا ہے۔

کئی آیات ایسی ہیں جن میں تقویٰ اختیار کرنے پر اجر و ثواب کا وعدہ ہے اور کہیں ترکِ تقویٰ پر عذاب کی وعید۔ کہیں ترغیب ہے تو کہیں ترہیب، کہیں فقط مسلمانوں کو خطاب ہے تو کہیں تمام بنی نوع انسان کو۔ اس صفتِ حمیدہ کی ضرورت کا اندازہ اس بات سے بھی ہوجاتا ہے کہ جنت میں جتنے بھی لوگ داخل ہوں گے وہ سب کے سب تقویٰ کے کسی نہ کسی درجے میں ضرور ہوں گے۔

اصطلاحِ شریعت میں انسان کا ان کاموں سے بچنا جو اس کے لیے آخرت میں غضب خداوندی کا باعث ہوں تقویٰ کہلاتا ہے۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ارشاد گرامی ہے : معصیت پر اصرار نہ کرنا اور اپنی عبادت پر ناز و اعتماد نہ کرنا تقویٰ ہے۔''

حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ نے فرمایا :'' تقویٰ ہر قسم کی بھلائی کا جامع ہے یہ وہ چیز ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے اولین و آخرین کو حکم دیا ہے۔''

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ارشاد فرماتے ہیں ! تقویٰ یہ ہے کہ انسان شرک، کبیرہ گناہ اور بے حیائی کے کاموں سے بچے۔

حضرت عبداللہ بن عمر اور حضرت امام حسن رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : '' تقویٰ یہ ہے کہ تُو ہر کسی کو اپنے سے بہتر سمجھے اور اپنے آپ کو ہر کسی سے حقیر اور کم تر۔''

حضرت عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہما کے صاحب زادے فرماتے ہیں : '' تقویٰ صرف دن کو روزہ رکھ لینے اور رات کو عبادت کے لیے قیام کرنے کا نام نہیں۔ بل کہ تقویٰ یہ ہے کہ جو کچھ اللہ نے حرام کیا ہے اس سے بچے اور جو فرض کیا ہے اسے ادا کرے۔

حضرت سری سقطیؒ فرماتے ہیں: متقی وہ شخص ہے جو اپنے نفس سے دشمنی کرتے ہوئے اس کے خلاف چلتا ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ تقویٰ ہر اس چیز سے بچنے کا نام ہے جو تجھے اللہ تعالیٰ سے دور کر دے۔

حضرت قاسم بن قاسمؒ فرماتے ہیں : '' تقویٰ آداب شریعت کی محافظت کا نام ہے۔''

ایک قول یہ ہے کہ اپنے دل کو غفلتوں سے، نفس کو شہوتوں سے، حلق کو لذتوں سے اور اعضاء کو گناہوں سے بچا لینا تقویٰ ہے۔ جب یہ چیزیں حاصل ہو جائیں گی تو اس وقت قربِ خداوندی کی منزل تک پہنچنے میں کوئی رکاوٹ نہ رہے گی۔

علامہ سید شریف جرجانیؒ اپنی مشہور و معروف کتاب ''التعریفات'' میں لکھتے ہیں: '' آدابِ شریعت کی حفاظت کرنا اور ہر وہ کام جو تمہیں اللہ تعالیٰ سے دور کر دے اس سے خود کو باز رکھنا تقویٰ ہے ۔''


حاصل کلام یہ ہے کہ تمام تعریفیں اپنی جگہ درست ہیں اور تقویٰ کے مختلف درجات کو کسی نہ کسی جہت سے حاوی ہیں۔ تمام تعریفات کو مدِنظر رکھ کر تمام اقوال کا خلاصہ یہ ہوا کہ مامورات کو بجا لانا اور منہیات سے بچنا اور اپنی زندگی کے شب و روز حسبِ استطاعت اتباعِ شریعت میں گزارنا تقویٰ ہے۔

تقویٰ کے درجات:

تقویٰ کے عام طور پر تین بڑے درجات ہیں: ادنیٰ، متوسط اور اعلیٰ

٭ ادنیٰ درجہ: دائمی اور ابدی عذاب سے بچنا یعنی کلمہ پڑھ کر دائرہ اسلام میں داخل ہونا۔ یہ درجہ ہر کلمہ گو مسلمان کو حاصل ہے۔

امام ترمذیؒ روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابی کعب رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ''کلمۃ التقویٰ'' کی تفسیر میں فرمایا! ''لا الہ الا اللّٰہ '' اس تقویٰ کا مطالبہ اللہ رب العزت نے تمام بنی نوع انسان سے کیا ہے جیسا کہ خود رب قدوس کا فرمان پاک ہے : ''اے لوگو! تم خود اپنے آپ کو اور اپنے اہلِ و عیال کو جہنم کی آگ سے بچائو۔''

یہ تقویٰ کا پہلا درجہ ہے ہر انسان پر لازم ہے کہ وہ کم از کم کلمۂ اسلام پڑھ کر دین اسلام کے قلعہ میں پناہ لے اور اپنے آپ کو جہنم میں جانے سے بچالے۔ خیال رہے کہ کلمۂ اسلام تقویٰ کا ادنیٰ درجہ ہونے کے ساتھ باقی درجات کے لیے شرف کی حیثیت بھی رکھتا ہے۔

تقویٰ کا یہ پہلا درجہ یعنی کلمۂ اسلام نماز کی تکبیر تحریمہ کی مثل ہے جیسے تکبیر تحریمہ ایک لحاظ سے نماز کے لیے شرط کی حیثیت رکھتی ہے کہ دیگر ارکانِ نماز سے پہلے اس کا پایا جانا ضروری ہے۔ اور ایک لحاظ سے ارکانِ نماز میں داخل ہے کہ بغیر اس کے نماز کا وجود ہی متحقق نہیں ہو سکتا۔ ایسے ہی پہلا درجہ کلمۂ اسلام دیگر درجاتِ تقویٰ یا ارکان تقویٰ کے لیے شرط کی حیثیت رکھتا ہے کہ اس کے بغیر آدمی تقویٰ کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکتا۔ جب کہ دوسری سمت سے دیکھو تو کلمۂ اسلام تقویٰ کا پہلا اور ادنیٰ درجہ ہے کہ آدمی صرف کلمہ پڑھ کر اسی پر اکتفا کر جائے۔

٭ متوسط درجہ: تقویٰ کا متوسط اور درمیانہ درجہ یہ ہے کہ فرائض اور واجبات کو ادا کرنا حرام کاموں اور کبیرہ گناہوں سے بچنا ہر مسلمان کے لیے کم از کم اس قدر تقویٰ ضروری ہے ۔

٭ اعلیٰ درجہ: فرائض و واجبات کے علاوہ نوافل بھی بہ کثرت ادا کرنا مستحبات پر بھی عمل کرنا حرام کے ساتھ ساتھ مکروہات اور مشتبہ چیزوں سے بھی پرہیز اختیار کرنا۔ کبیرہ گناہوں سے بچنا اور صغیرہ پر اصرار نہ کرنا یہ خواص کا تقویٰ ہے۔

اعلیٰ ترین درجہ: یہ مقربین کا تقویٰ ہے فرائض و واجبات کی ادائی کے علاوہ سنن و نوافل کو بھی پابندی اور دوا م کے ساتھ ادا کرنا اور ہر اس چیز سے بچنا جو یادِ خدا سے غافل کر دے اور سنتِ نبوی ﷺ پر چلتے ہوئے شریعت کی کامل اتباع کرنا۔

رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ''خبردار! حلال چیزیں بھی واضح ہیں اور حرام بھی واضح ہیں اور ان کے درمیان کچھ چیزیں مشتبہ ہیں بہت سے لوگ ان کو نہیں جانتے پس جو شخص ان مشتبہ چیزوں سے بچ گیا اس نے اپنے دین کو بچا لیا اور اپنی عزت محفوظ کر لی۔''

تقویٰ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بہ خوبی ہوجاتا ہے کہ قرآنِ مجید میں دو سو چھتیس سے زاید آیات ایسی ہیں جن میں مختلف انداز میں تقویٰ ہی کا بیان ہے۔ اس کی اہمیت کا انداز اس بات سے بھی بہ خوبی ہو جاتا ہے کہ دنیا میں جتنے بھی انبیاء کرام تشریف لائے سبھی نے اپنی اُمتوں کو تقویٰ اختیار کرنے کا حکم دیا۔ قرآن مجید میں ایک مقام پر اللہ رب العزت نے مومنوں کو خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ''اے ایمان والو! تم اللہ سے تقویٰ اختیار کرو جیسا کہ اختیار کرنے کا حق ہے۔'' (آل عمران)

اللہ سے ڈرنے اور اس سے تقویٰ کرنے کا حق تو یہ ہے کہ مومن تادمِ مرگ سجدہ سے سر ہی نہ اُٹھائے، تقویٰ کا حق ادا کرنا بندوں کے بس کی بات ہی نہ تھی۔ چناں چہ اپنے حکم میں نرمی فرماتے ہوئے ارشاد ہوا: ''جتنا تم سے ہو سکے اتنا تو اللہ سے تقویٰ اختیار کرو۔'' (القرآن)

اللہ تعالیٰ ہم سب کو تقویٰ کی دولت سے مالا مال فرمائے۔ آمین
Load Next Story