تمام قوانین کے اطلاق تک فاٹا انضمام بے سود ہوگا تجزیہ نگار
فاٹا میں ایک سال میں تین انتخابات چیلنج،فوج تعینات رکھنی چاہیے،رحیم اللہ یوسفزئی
قبائلی امورکے ماہرتجزیہ نگاروں نے کہاہے کہ فاٹا انضمام کے مکمل اثرات اس وقت ظاہر ہونگے جس وقت پاکستان کے ایک سو انیس قوانین کوقبائلی علاقوں تک توسیع دی جائے گی۔
انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی ریفارمز نے فاٹا کا خیبر پختونخوا سے انضمام کے بعدقبائلی علاقوں میں مختلف اضلاع میں ترقی اورچیلنجز کے حوالے سے رپورٹ شائع کی ہے،جس میں رحیم اللہ یوسفزئی اوررستم شاہ مہمند کی آرا شامل کی گئیں۔
رحیم اللہ یوسفزئی نے کہاکہ فاٹا کے عوام کے لیے یادگارلمحہ ہے تاہم انضمام کے بھرپور اثرات اس وقت ظاہرہونگے جب پاکستان کے تمام ایک سو انیس قوانین کا ان علاقوں میں اطلاق ہوگا،اس وقت تک فاٹا کے عبوری گورننس ریگولیشن کا ہی اطلاق ہوگا،انھوں نے کہاکہ پاکستان کومستقبل میں قبائلی علاقوں میں ایک لاکھ سترہزار فوجی تعینات رکھنے چاہیں،انھوںنے کہاکہ وہ علاقے جہاں پر انفراسٹرکچرمکمل تباہ ہوچکاہے وہاں پر ایک سال میں تین انتخابات کرانا ایک چیلنج ہے۔
رحیم اللہ یوسفزئی نے کہاکہ مقامی انتخابات کے حوالے سے حکومت کو ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنا چائیے،انھوں نے کہاکہ قبائلی علاقوں کیلئے ایک ہزارارب روپے کے فنڈزوفاق کی جانب سے صوبوں کیلئے فنڈزمیں سے رقم مختص کی جائے اورسارے صوبے اس پرمتفق ہوں اس فنڈ کو مناسب طریقے سے خرچ کیاجائے۔
رپورٹ میں معروف تجزیہ نگار رستم شاہ مہمند نے اتفاق کیاکہ قانونی نظام میں اصلاحات کی ضرورت ہے،قبائلی علاقوں کے عوام کا مطالبہ تعلیم،صحت سڑکیں پانی کی فراہمی سمیت دیگر سہولیات کی فراہمی ہے،ملک کے دیگرحصوں کی نسبت ان علاقوں میں امن وامان کا نظام زیادہ بہتر نہیں۔
انھوں نے کہاکہ عدالتی نظام سے وہاں کے عوام کومسائل کا سامناکرنا پڑ سکتا ہے،قبائلی علاقوں میں جرگہ سسٹم کیوجہ سے چھ ماہ میں تنازعات حل ہوجاتے ہیں جبکہ ملک می عدالتوں میں کئی سال تک مقدمات چلتے رہتے ہیں ۔
انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی ریفارمز نے فاٹا کا خیبر پختونخوا سے انضمام کے بعدقبائلی علاقوں میں مختلف اضلاع میں ترقی اورچیلنجز کے حوالے سے رپورٹ شائع کی ہے،جس میں رحیم اللہ یوسفزئی اوررستم شاہ مہمند کی آرا شامل کی گئیں۔
رحیم اللہ یوسفزئی نے کہاکہ فاٹا کے عوام کے لیے یادگارلمحہ ہے تاہم انضمام کے بھرپور اثرات اس وقت ظاہرہونگے جب پاکستان کے تمام ایک سو انیس قوانین کا ان علاقوں میں اطلاق ہوگا،اس وقت تک فاٹا کے عبوری گورننس ریگولیشن کا ہی اطلاق ہوگا،انھوں نے کہاکہ پاکستان کومستقبل میں قبائلی علاقوں میں ایک لاکھ سترہزار فوجی تعینات رکھنے چاہیں،انھوںنے کہاکہ وہ علاقے جہاں پر انفراسٹرکچرمکمل تباہ ہوچکاہے وہاں پر ایک سال میں تین انتخابات کرانا ایک چیلنج ہے۔
رحیم اللہ یوسفزئی نے کہاکہ مقامی انتخابات کے حوالے سے حکومت کو ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنا چائیے،انھوں نے کہاکہ قبائلی علاقوں کیلئے ایک ہزارارب روپے کے فنڈزوفاق کی جانب سے صوبوں کیلئے فنڈزمیں سے رقم مختص کی جائے اورسارے صوبے اس پرمتفق ہوں اس فنڈ کو مناسب طریقے سے خرچ کیاجائے۔
رپورٹ میں معروف تجزیہ نگار رستم شاہ مہمند نے اتفاق کیاکہ قانونی نظام میں اصلاحات کی ضرورت ہے،قبائلی علاقوں کے عوام کا مطالبہ تعلیم،صحت سڑکیں پانی کی فراہمی سمیت دیگر سہولیات کی فراہمی ہے،ملک کے دیگرحصوں کی نسبت ان علاقوں میں امن وامان کا نظام زیادہ بہتر نہیں۔
انھوں نے کہاکہ عدالتی نظام سے وہاں کے عوام کومسائل کا سامناکرنا پڑ سکتا ہے،قبائلی علاقوں میں جرگہ سسٹم کیوجہ سے چھ ماہ میں تنازعات حل ہوجاتے ہیں جبکہ ملک می عدالتوں میں کئی سال تک مقدمات چلتے رہتے ہیں ۔