شام پر کیمیاوی ہتھیاروں کے استعمال کا الزام
اگر کیمیاوی اسلحے کا استعمال ثابت ہو گیا تو بشار الاسد حکومت کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا، صدر اوباما
امریکی صدر بارک اوباما نے شامی حکومت کی جانب سے مخالفین پر کیمیاوی ہتھیاروں کے استعمال کی اطلاعات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے بھرپور انداز میں تحقیقات کرانے کا اعلان کیا ہے اور ساتھ ہی خطرناک نتائج کی دھمکی بھی دی ہے۔ صدر اوباما کایہ اعلان کئی خطرات کی نشاندہی کر رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ شام میں بھی عراق اور لیبیا کی تاریخ دہرانے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔
عراق پر امریکی حملے کی راہ ہموار کرنے کی خاطر سابق امریکی صدر جارج بش جونیئر نے بھی عراقی صدر صدام حسین پر کردوں کے خلاف کیمیاوی ہتھیار استعمال کرنے کا الزام عائد کیا تھا اور پھر وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی تلاش کے بہانے اقوام متحدہ کے انسپکٹر وہاں بھجوا دیے۔ ان کی رپورٹ بھی مبہم تھی لیکن اس کے باوجود امریکا نے عراق پر حملے کی منظوری دے دی۔ عراق پر حملے کو کئی برس بیت چکے ہیں لیکن عراق میں بدامنی ابھی تک جاری ہے۔ اس بدامنی میں ہزاروں لوگ مارے جا چکے ہیں اور اب بھی امن قائم ہوتا نظر نہیں آرہا۔ اب شام کے معاملے میں بھی کیمیاوی ہتھیاروں کا شوشا چھوڑا جارہا ہے۔
امریکا کے موجودہ صدر اوباما کی طرف سے اپنے پیشرو صدر کی تقلید کوئی انہونی بات نہیں تاہم اب دنیا کو محتاط رہنا چاہیے کہ شامی حکومت پر کیمیاوی ہتھیاروں کے استعمال کے الزام کے بعد امریکا کے لیے دمشق میں بھی اپنی فوج اتارنے کا جواز پیدا کیا جا رہا ہے۔ یہ صورت حال مہذب اقوام کے لیے یقینی طور پر تشویش کا باعث ہونی چاہیے۔ اپنے بیان میں امریکی صدر اوباما نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر شامی حکومت پر کیمیاوی ہتھیاروں کے استعمال کا الزام ثابت ہو گیا تو یہ شام کے بارے میں امریکی پالیسی میں تبدیلی کا بڑا محرک ہو گا۔ امریکا اور برطانیہ دونوں نے شامی حکومت کی طرف سے اعصاب کو شل کر دینے والی ''نروگیس'' کے استعمال کے شواہد ملنے کا دعویٰ کیا ہے۔
ادھر اردن کے بادشاہ شاہ عبداللہ دوئم نے، جو ان دنوں امریکا یاترا پر ہیں، وہائٹ ہاؤس میں صدر اوباما سے ملاقات کی جنھیں امریکی صدر نے شام میں کیمیاوی ہتھیاروں کے استعمال کے بارے میں بتایا تاہم ساتھ میں یہ بھی کہا کہ ابھی ان کی معلومات کا ابتدائی تجزیہ کیا جا رہا ہے جس کے بعد ٹھوس حقائق تک رسائی حاصل ہو سکے گی۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ بالفر ض محال اگر شام میں کیمیاوی ہتھیاروں کے استعمال کا کوئی واضح اور ٹھوس ثبوت مل بھی جاتا ہے تو اس بات کا تعین کس طرح ہو گا کہ وہ ہتھیار شام کی سرکاری فوج نے استعمال کیے ہیں یا باغیوں کی طرف سے چلائے گئے ہیں کیونکہ شام میں خانہ جنگی کی کیفیت کی وجہ سے غیر جانبدار مبصرین یا جنگی نامہ نگاروں کا داخلہ مسدود ہو چکا ہے۔
شام میں خانہ جنگی کی صورت حال ہے، حکومت کے خلاف جو گروپ لڑ رہے ہیں وہ بھی جدید ہتھیار استعمال کر رہے ہیں۔ یقینی طور پر کوئی طاقت انہیں ہتھیار فراہم کر رہی ہے۔ ان حالات میں اس امر کا تعین کرنا انتہائی مشکل کام ہو گا کہ مہلک ہتھیار حکومت نے استعمال کیے ہیں یا باغیوں نے۔ ایسی صورت میں جس قسم کے الزامات وہ چاہیں لگائے جا سکتے ہیں۔ دریں اثناء امریکی سینیٹر جان مکین نے بھی شام میں کیمیاوی ہتھیاروں کے استعمال کا ذکر کرتے ہوئے صدر اوباما کی دھمکی دہرائی ہے کہ اگر کیمیاوی اسلحے کا استعمال ثابت ہو گیا تو بشار الاسد حکومت کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ سینیٹر جان مکین کا کہنا تھا کہ ان کے خیال میں امریکا شام کے خلاف فوجی کارروائی کرنی چاہیے۔ ادھر اسرائیل میں بھی حکام نے شام پر اس حوالے سے الزام تراشی کے بعد دھمکیوں کی زبان استعمال کرنا شروع کر دی ہے۔ یہ ساری صورتحال اس علاقے میں کسی ڈرامائی اقدام کی خبر دے رہی ہے۔
عراق پر امریکی حملے کی راہ ہموار کرنے کی خاطر سابق امریکی صدر جارج بش جونیئر نے بھی عراقی صدر صدام حسین پر کردوں کے خلاف کیمیاوی ہتھیار استعمال کرنے کا الزام عائد کیا تھا اور پھر وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی تلاش کے بہانے اقوام متحدہ کے انسپکٹر وہاں بھجوا دیے۔ ان کی رپورٹ بھی مبہم تھی لیکن اس کے باوجود امریکا نے عراق پر حملے کی منظوری دے دی۔ عراق پر حملے کو کئی برس بیت چکے ہیں لیکن عراق میں بدامنی ابھی تک جاری ہے۔ اس بدامنی میں ہزاروں لوگ مارے جا چکے ہیں اور اب بھی امن قائم ہوتا نظر نہیں آرہا۔ اب شام کے معاملے میں بھی کیمیاوی ہتھیاروں کا شوشا چھوڑا جارہا ہے۔
امریکا کے موجودہ صدر اوباما کی طرف سے اپنے پیشرو صدر کی تقلید کوئی انہونی بات نہیں تاہم اب دنیا کو محتاط رہنا چاہیے کہ شامی حکومت پر کیمیاوی ہتھیاروں کے استعمال کے الزام کے بعد امریکا کے لیے دمشق میں بھی اپنی فوج اتارنے کا جواز پیدا کیا جا رہا ہے۔ یہ صورت حال مہذب اقوام کے لیے یقینی طور پر تشویش کا باعث ہونی چاہیے۔ اپنے بیان میں امریکی صدر اوباما نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر شامی حکومت پر کیمیاوی ہتھیاروں کے استعمال کا الزام ثابت ہو گیا تو یہ شام کے بارے میں امریکی پالیسی میں تبدیلی کا بڑا محرک ہو گا۔ امریکا اور برطانیہ دونوں نے شامی حکومت کی طرف سے اعصاب کو شل کر دینے والی ''نروگیس'' کے استعمال کے شواہد ملنے کا دعویٰ کیا ہے۔
ادھر اردن کے بادشاہ شاہ عبداللہ دوئم نے، جو ان دنوں امریکا یاترا پر ہیں، وہائٹ ہاؤس میں صدر اوباما سے ملاقات کی جنھیں امریکی صدر نے شام میں کیمیاوی ہتھیاروں کے استعمال کے بارے میں بتایا تاہم ساتھ میں یہ بھی کہا کہ ابھی ان کی معلومات کا ابتدائی تجزیہ کیا جا رہا ہے جس کے بعد ٹھوس حقائق تک رسائی حاصل ہو سکے گی۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ بالفر ض محال اگر شام میں کیمیاوی ہتھیاروں کے استعمال کا کوئی واضح اور ٹھوس ثبوت مل بھی جاتا ہے تو اس بات کا تعین کس طرح ہو گا کہ وہ ہتھیار شام کی سرکاری فوج نے استعمال کیے ہیں یا باغیوں کی طرف سے چلائے گئے ہیں کیونکہ شام میں خانہ جنگی کی کیفیت کی وجہ سے غیر جانبدار مبصرین یا جنگی نامہ نگاروں کا داخلہ مسدود ہو چکا ہے۔
شام میں خانہ جنگی کی صورت حال ہے، حکومت کے خلاف جو گروپ لڑ رہے ہیں وہ بھی جدید ہتھیار استعمال کر رہے ہیں۔ یقینی طور پر کوئی طاقت انہیں ہتھیار فراہم کر رہی ہے۔ ان حالات میں اس امر کا تعین کرنا انتہائی مشکل کام ہو گا کہ مہلک ہتھیار حکومت نے استعمال کیے ہیں یا باغیوں نے۔ ایسی صورت میں جس قسم کے الزامات وہ چاہیں لگائے جا سکتے ہیں۔ دریں اثناء امریکی سینیٹر جان مکین نے بھی شام میں کیمیاوی ہتھیاروں کے استعمال کا ذکر کرتے ہوئے صدر اوباما کی دھمکی دہرائی ہے کہ اگر کیمیاوی اسلحے کا استعمال ثابت ہو گیا تو بشار الاسد حکومت کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ سینیٹر جان مکین کا کہنا تھا کہ ان کے خیال میں امریکا شام کے خلاف فوجی کارروائی کرنی چاہیے۔ ادھر اسرائیل میں بھی حکام نے شام پر اس حوالے سے الزام تراشی کے بعد دھمکیوں کی زبان استعمال کرنا شروع کر دی ہے۔ یہ ساری صورتحال اس علاقے میں کسی ڈرامائی اقدام کی خبر دے رہی ہے۔