صاحب نظراں نشۂ قوت ہے خطرناک
بادشاہت اور آمریت ان دونوں صورتوں میں طاقت بلا شرکت غیرے ہوتی ہے۔ اس لیے نشۂ قوت بہت جلدی چڑھ جاتا ہے۔
لیجیے پہلے تو غالب کا ایک شعر سنئے
پنہاں تھا دام سخت قریب آشیان کے
اڑنے نہ پائے تھے کہ گرفتار ہم ہوئے
بس جب سے سابق صدر پرویز مشرف کی واپسی ہوئی ہے تب سے یہ شعر ہمیں بار بار یاد آ رہا ہے۔ اس حوالے سے سیاسی مبصروں کے، رپورٹروں کے، کالم نگاروں، طنز و مزاح کے تیر چلانے والوں اور نشتر لگانے والوں کے قلم بہت رواں ہیں۔ ہم نہ سیاسی مبصر، نہ اس اترے شحنہ کے مداحوں وکیلوں میں، نہ للہی بیر رکھنے والوں میں اور معاملہ کی بات یہ ہے کہ خالی ڈکٹیٹروں کے سلسلہ میں نہیں بلکہ جو بھی اقتدار کی کرسی پر بیٹھا ہے نہ اس کی دوستی اچھی نہ اس کی دشمنی اچھی۔
مگر بات یوں ہے کہ ہم نے تھوڑی بہت اپنی تاریخ پڑھ رکھی ہے اور اپنے ان شاعروں کے کلام سے بھی تھوڑی بہت شناسائی ہے جنہوں نے ایسے پر آشوب زمانوں میں ہوش سنبھالا اور کتنے ایسے عبرتناک مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھے اور اس سے جو آگاہی اور جو عبرت انھیں میسر آئی اسے اپنی شاعری میں قلمبند کیا۔ سو پہلے ایسے چنے اشعار سن لیجیے۔ مرزا سودا کو سنئے؎
عجب وے لوگ ہیں جن کو ہے عُجب تاج سلطانی
فلک بالِ ہُما کو پل میں سونپے ہے مگس رانی
اور یہ شعر تو سیدھے سچے انداز میں جو دیکھا اس کا بیان ہے
دلی میں آج بھیک بھی ملتی نہیں انھیں
کل تک جنھیں غرور تھا یاں تخت و تاج کا
نے کس درد سے اور کتنے عبرت بھرے لہجہ میں کہا ہے
شہاں کہ کحل جواہر تھا آنکھ میں ان کی
انھیں کی آنکھوں میں پھرتی سلائیاں دیکھیں
اور غالب کا تو عین بین وہی مشاہدہ ہے جو اس وقت ہم اپنی گنہگار آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں
ہیں آج کیوں ذلیل کہ کل تک نہ تھی پسند
گستاخیٔ فرشتہ ہماری جناب میں
اور اب ذرا نظیر اکبر آبادی کی بات بھی گوش ہوش سے سن لیجیے
تھا ایک دن وہ، دھوم کا نکلے تھا جب اسوار ہو
ہر دم پکارے تھا نقیب آگے بڑھو پیچھے رہو
یا ایک دن دیکھا اسے تنہا پڑا پھرتا ہے وہ
بس کیا خوشی یا ناخوشی یکساں ہے سب اے دوستو
گر یوں ہوا تو کیا ہوا گر ووں ہوا تو کیا ہوا
یہ ہماری گزری تاریخ ہے جو اب ہماری ان گنہگار آنکھوں کے سامنے اپنے آپ کو دہرا رہی ہے۔ مگر ہماری پاکستان کی تاریخ میں فوجی آمریت کا بھی آغاز تھا کہ ہمارے ایک شاعر نے جلد ہی بھانپ لیا کہ ہمارے ملک کی تاریخ اب کونسا موڑ مڑی ہے اور آگے چل کر کیا گل کھلائے گی۔ یہ انجم رومانی تھے۔ اب مرحوم ہیں۔ ایوب خاں کا مارشل لا آتے ہی انھوں نے ایک غزل لکھی جس کا ایک شعر یہ ہے
اس دور کی بساط پہ ہر شاہ کو ہے مات
گھبرائیے نہ دیکھ کے پیدل گھرا ہوا
عروج و زوال کے یہ نقشے اب دیکھ لیے۔ اب خدارا علامہ اقبال کی ایک بات کان کھول کر سنئے
صاحب نظراں نشۂ قوت ہے خطرناک
بادشاہت اور آمریت ان دونوں صورتوں میں طاقت بلا شرکت غیرے ہوتی ہے۔ اس لیے نشۂ قوت بہت جلدی چڑھ جاتا ہے۔ اقبال نے اس نشہ کی خطرناکی کو جاننے کے لیے صاحب نظر ہونے کی شرط عائد کی ہے۔ مگر وہاں تو آنکھوں پر پردے پڑ جاتے ہیں۔ نظر کیسے کام کرے۔ ورنہ عام انسانی تجربہ یہ ہے کہ دولت اور اقتدار چلتی پھرتی چھائوں ہیں۔ آج یہاں کل وہاں۔ انیس نے کیسے پتے کی بات کہی ہے کہ
عروج مہر بھی دیکھا تو دوپہر دیکھا
خیر بادشاہت نے تو پھر بھی لمبی عمر پائی۔ مگر ڈکٹیٹر کو کتنی عمر میسر آتی ہے پاکستان میں اس کی اوسط عمر دس گیارہ سال ہے۔ دس گیارہ سال کی مدت بھی کوئی مدت ہے۔ اس پر یہ سمجھ رہے ہیں کہ وقت ٹھہر گیا ہے اور اقتدار ہمارا جاوداں ہے۔ مگر بس اچانک ہی سب کچھ بدل جاتا ہے اور پتہ چلتا ہے کہ یہ اقتدار
جھونکا ہوا کا تھا ادھر آیا ادھر گیا
بس پھر وہی نقشہ کہ کرسی پر جمے بیٹھے تھے تو عرش میں جھولتے تھے۔ کرسی نیچے سے کھسک گئی تو پھر پھانسی کا تختہ ہے یا پھر
پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں
واپسی کا خواب دیکھتے رہیے۔ اقتدار کی واپسی۔ یہ تو کسی کسی کو میسر آتی ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ محروم اقتدار کو شہنشاہ ہمایوں والی صبر کی دولت ملی ہو۔ اس نے بے تخت و تاج ہو کر کتنا لمبا عرصہ کتنے صبر کے ساتھ گھر سے بے گھر ہو کر ایران میں گزارا۔ صاحب نظر تھا۔ صحیح وقت پر جھرجھری لی اور اٹھ کھڑا ہوا۔ پھر مغلیہ سلطنت کو مستحکم بنیادوں پر استوار کر کے دنیا سے رخصت ہوا۔ یہ نہیں ہوا کرتا کہ ابھی تہمتیں اپنے ذمے لے کر جیسے تیسے رخصت ہوئے ہیں اور اگلے ہی دن سے واپسی کا خواب دیکھنا شروع کر دیا۔ ایسی واپسی میں خواری ہی خواری ہے۔
ایک عزیز نے آج کا احوال دیکھ کر عجب سوال اٹھایا کہ مسلمانوں کی عجب قسمت ہے کتنی صدیوں تک جو بادشاہت کے شکنجے میں پھنسے رہے، اس شکنجے سے خدا خدا کر کے نکلے تو فوجی آمریت کے شکنجے میں پھنس گئے۔ آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا۔ ہم نے فوراً ٹوکا کہ ڈکٹیٹر بننے کے لیے فوجی ہونا لازمی نہیں ہے۔ ہم نے سویلین حکمرانوں کو بھی جمہوریت کی مالا جپتے جپتے ڈکٹیٹر بنتے دیکھا ہے۔
تو خیر آمدم برسر مطلب۔ عرب دنیا ڈکٹیٹروں کو بھر پائی۔ بادشاہت تو ان کے بیچ جتنی بھی رہ گئی ہے اس سے انھوں نے نباہ کرنا سیکھ لیا ہے۔ مگر ڈکٹیٹروں کے خلاف عرب اب ابلے پڑ رہے ہیں۔ اسے عرب سپرنگ کہا جا رہا ہے۔ مگر عجب بہار ہے کہ بہار آنے سے پہلے خزاں آن پہنچی۔ جہاں جہاں ڈکٹیٹروں کے خلاف طوفان اٹھا وہ کیا رنگ لایا اور کیسا انقلاب آیا کہ سانپ کے منہ میں چھچھوندر۔ کہ نگلے تو اندھا اگلے تو کوڑھی۔ لیجیے پھر ایک شعر یاد آ گیا
اے اسیران خانۂ زنجیر
تم نے یاں غل مچا کے کیا پایا
اے صاحب اگر برتنے والے ہی خانہ خراب ہوں تو پھر کیا آمریت اور کیا جمہوریت۔ دونوں کا حاصل خانہ خرابی۔ سب کچھ نظام نہیں ہوتا۔ آدمیوں پر بھی بہت کچھ موقوف ہوتا ہے کہ وہ کس قماش کے ہیں۔ ہم نے نشۂ قوت جمہوریت کے نام پر بھی چڑھتے دیکھا ہے۔
پنہاں تھا دام سخت قریب آشیان کے
اڑنے نہ پائے تھے کہ گرفتار ہم ہوئے
بس جب سے سابق صدر پرویز مشرف کی واپسی ہوئی ہے تب سے یہ شعر ہمیں بار بار یاد آ رہا ہے۔ اس حوالے سے سیاسی مبصروں کے، رپورٹروں کے، کالم نگاروں، طنز و مزاح کے تیر چلانے والوں اور نشتر لگانے والوں کے قلم بہت رواں ہیں۔ ہم نہ سیاسی مبصر، نہ اس اترے شحنہ کے مداحوں وکیلوں میں، نہ للہی بیر رکھنے والوں میں اور معاملہ کی بات یہ ہے کہ خالی ڈکٹیٹروں کے سلسلہ میں نہیں بلکہ جو بھی اقتدار کی کرسی پر بیٹھا ہے نہ اس کی دوستی اچھی نہ اس کی دشمنی اچھی۔
مگر بات یوں ہے کہ ہم نے تھوڑی بہت اپنی تاریخ پڑھ رکھی ہے اور اپنے ان شاعروں کے کلام سے بھی تھوڑی بہت شناسائی ہے جنہوں نے ایسے پر آشوب زمانوں میں ہوش سنبھالا اور کتنے ایسے عبرتناک مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھے اور اس سے جو آگاہی اور جو عبرت انھیں میسر آئی اسے اپنی شاعری میں قلمبند کیا۔ سو پہلے ایسے چنے اشعار سن لیجیے۔ مرزا سودا کو سنئے؎
عجب وے لوگ ہیں جن کو ہے عُجب تاج سلطانی
فلک بالِ ہُما کو پل میں سونپے ہے مگس رانی
اور یہ شعر تو سیدھے سچے انداز میں جو دیکھا اس کا بیان ہے
دلی میں آج بھیک بھی ملتی نہیں انھیں
کل تک جنھیں غرور تھا یاں تخت و تاج کا
نے کس درد سے اور کتنے عبرت بھرے لہجہ میں کہا ہے
شہاں کہ کحل جواہر تھا آنکھ میں ان کی
انھیں کی آنکھوں میں پھرتی سلائیاں دیکھیں
اور غالب کا تو عین بین وہی مشاہدہ ہے جو اس وقت ہم اپنی گنہگار آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں
ہیں آج کیوں ذلیل کہ کل تک نہ تھی پسند
گستاخیٔ فرشتہ ہماری جناب میں
اور اب ذرا نظیر اکبر آبادی کی بات بھی گوش ہوش سے سن لیجیے
تھا ایک دن وہ، دھوم کا نکلے تھا جب اسوار ہو
ہر دم پکارے تھا نقیب آگے بڑھو پیچھے رہو
یا ایک دن دیکھا اسے تنہا پڑا پھرتا ہے وہ
بس کیا خوشی یا ناخوشی یکساں ہے سب اے دوستو
گر یوں ہوا تو کیا ہوا گر ووں ہوا تو کیا ہوا
یہ ہماری گزری تاریخ ہے جو اب ہماری ان گنہگار آنکھوں کے سامنے اپنے آپ کو دہرا رہی ہے۔ مگر ہماری پاکستان کی تاریخ میں فوجی آمریت کا بھی آغاز تھا کہ ہمارے ایک شاعر نے جلد ہی بھانپ لیا کہ ہمارے ملک کی تاریخ اب کونسا موڑ مڑی ہے اور آگے چل کر کیا گل کھلائے گی۔ یہ انجم رومانی تھے۔ اب مرحوم ہیں۔ ایوب خاں کا مارشل لا آتے ہی انھوں نے ایک غزل لکھی جس کا ایک شعر یہ ہے
اس دور کی بساط پہ ہر شاہ کو ہے مات
گھبرائیے نہ دیکھ کے پیدل گھرا ہوا
عروج و زوال کے یہ نقشے اب دیکھ لیے۔ اب خدارا علامہ اقبال کی ایک بات کان کھول کر سنئے
صاحب نظراں نشۂ قوت ہے خطرناک
بادشاہت اور آمریت ان دونوں صورتوں میں طاقت بلا شرکت غیرے ہوتی ہے۔ اس لیے نشۂ قوت بہت جلدی چڑھ جاتا ہے۔ اقبال نے اس نشہ کی خطرناکی کو جاننے کے لیے صاحب نظر ہونے کی شرط عائد کی ہے۔ مگر وہاں تو آنکھوں پر پردے پڑ جاتے ہیں۔ نظر کیسے کام کرے۔ ورنہ عام انسانی تجربہ یہ ہے کہ دولت اور اقتدار چلتی پھرتی چھائوں ہیں۔ آج یہاں کل وہاں۔ انیس نے کیسے پتے کی بات کہی ہے کہ
عروج مہر بھی دیکھا تو دوپہر دیکھا
خیر بادشاہت نے تو پھر بھی لمبی عمر پائی۔ مگر ڈکٹیٹر کو کتنی عمر میسر آتی ہے پاکستان میں اس کی اوسط عمر دس گیارہ سال ہے۔ دس گیارہ سال کی مدت بھی کوئی مدت ہے۔ اس پر یہ سمجھ رہے ہیں کہ وقت ٹھہر گیا ہے اور اقتدار ہمارا جاوداں ہے۔ مگر بس اچانک ہی سب کچھ بدل جاتا ہے اور پتہ چلتا ہے کہ یہ اقتدار
جھونکا ہوا کا تھا ادھر آیا ادھر گیا
بس پھر وہی نقشہ کہ کرسی پر جمے بیٹھے تھے تو عرش میں جھولتے تھے۔ کرسی نیچے سے کھسک گئی تو پھر پھانسی کا تختہ ہے یا پھر
پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں
واپسی کا خواب دیکھتے رہیے۔ اقتدار کی واپسی۔ یہ تو کسی کسی کو میسر آتی ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ محروم اقتدار کو شہنشاہ ہمایوں والی صبر کی دولت ملی ہو۔ اس نے بے تخت و تاج ہو کر کتنا لمبا عرصہ کتنے صبر کے ساتھ گھر سے بے گھر ہو کر ایران میں گزارا۔ صاحب نظر تھا۔ صحیح وقت پر جھرجھری لی اور اٹھ کھڑا ہوا۔ پھر مغلیہ سلطنت کو مستحکم بنیادوں پر استوار کر کے دنیا سے رخصت ہوا۔ یہ نہیں ہوا کرتا کہ ابھی تہمتیں اپنے ذمے لے کر جیسے تیسے رخصت ہوئے ہیں اور اگلے ہی دن سے واپسی کا خواب دیکھنا شروع کر دیا۔ ایسی واپسی میں خواری ہی خواری ہے۔
ایک عزیز نے آج کا احوال دیکھ کر عجب سوال اٹھایا کہ مسلمانوں کی عجب قسمت ہے کتنی صدیوں تک جو بادشاہت کے شکنجے میں پھنسے رہے، اس شکنجے سے خدا خدا کر کے نکلے تو فوجی آمریت کے شکنجے میں پھنس گئے۔ آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا۔ ہم نے فوراً ٹوکا کہ ڈکٹیٹر بننے کے لیے فوجی ہونا لازمی نہیں ہے۔ ہم نے سویلین حکمرانوں کو بھی جمہوریت کی مالا جپتے جپتے ڈکٹیٹر بنتے دیکھا ہے۔
تو خیر آمدم برسر مطلب۔ عرب دنیا ڈکٹیٹروں کو بھر پائی۔ بادشاہت تو ان کے بیچ جتنی بھی رہ گئی ہے اس سے انھوں نے نباہ کرنا سیکھ لیا ہے۔ مگر ڈکٹیٹروں کے خلاف عرب اب ابلے پڑ رہے ہیں۔ اسے عرب سپرنگ کہا جا رہا ہے۔ مگر عجب بہار ہے کہ بہار آنے سے پہلے خزاں آن پہنچی۔ جہاں جہاں ڈکٹیٹروں کے خلاف طوفان اٹھا وہ کیا رنگ لایا اور کیسا انقلاب آیا کہ سانپ کے منہ میں چھچھوندر۔ کہ نگلے تو اندھا اگلے تو کوڑھی۔ لیجیے پھر ایک شعر یاد آ گیا
اے اسیران خانۂ زنجیر
تم نے یاں غل مچا کے کیا پایا
اے صاحب اگر برتنے والے ہی خانہ خراب ہوں تو پھر کیا آمریت اور کیا جمہوریت۔ دونوں کا حاصل خانہ خرابی۔ سب کچھ نظام نہیں ہوتا۔ آدمیوں پر بھی بہت کچھ موقوف ہوتا ہے کہ وہ کس قماش کے ہیں۔ ہم نے نشۂ قوت جمہوریت کے نام پر بھی چڑھتے دیکھا ہے۔