مسلم لیگ ن کی تنہا پرواز

پنجاب میں (ن) لیگ سے جماعت، جمعیت اور ہم خیال مسلم لیگ ان کی تنہا پرواز کے باعث ناراض ہیں.

KARACHI:
پاکستان میں دو بار حکومت کرنے اور بھاری مینڈیٹ کے ساتھ رہنے والی مسلم لیگ (ن) کو 1999 میں جنرل پرویز مشرف نے ایک جھوٹے طیارہ کیس میں اقتدار سے برطرف کرکے شریف برادران کے ساتھ جو سلوک کیا تھا اس پر کوئی خاص عوامی ردعمل سامنے نہیں آسکا تھا۔ اس وقت شریف برادران نے جس طرح خود جلاوطن ہوکر جان بچائی تھی وہ سیاست سے زیادہ عقلمندی تھی۔

جلاوطنی کے بعد میاں نواز شریف وطن واپس آئے اور تحریری معاہدے کے مطابق خاموش رہے اور معاہدوں کی مدت پوری ہونے کے بعد میاں نواز شریف نے اپنی فعال سیاست شروع کی اور انتخابات قریب آنے کے بعد انھوں نے اپنی سیاسی تنہائی ختم کرنے کے لیے سندھ میں متحدہ کی مخالفت میں قوم پرستوں کی طرف ہاتھ بڑھایا اور سندھ کے دو سابق وزرائے اعلیٰ ممتاز بھٹو اور لیاقت جتوئی کو (ن) لیگ میں لاکر سندھ میں اپنے قدم مضبوط کرنا شروع کیے مگر ظفر علی شاہ کے علاوہ کوئی اور بڑا نام ان کے ہاتھ نہ آسکا۔

(ن) لیگ نے پنجاب میں اپنی حکومت برقرار رکھنے کے لیے (ق) لیگ کے ارکان پنجاب اسمبلی کو ساتھ رکھ کر اپنی مدت تو پوری کرلی مگر مسلم لیگ کے اتحاد پر کوئی توجہ نہیں دی۔ مرحوم پیرپگاڑا کی کوشش بھی نواز شریف نے کامیاب نہیں ہونے دی۔ انتخابات کے موقعے پر توقع تھی کہ (ن) لیگ کی قیادت ملکی صورت حال اور عمران خان کی طرف سے بڑھتی ہوئی (ن) لیگ کی مخالفت اور شریف برادران پر کڑی تنقید اور الزامات کے باعث (ن)لیگ انتخابات میں اپنی سیاسی تنہائی ختم کرنے کے لیے دیگر سیاسی جماعتوں کو ساتھ لے کر چلے گی مگر ایسا نہیں ہوا اور (ق) لیگ سے جدا ہونے والے ہم خیال گروپ کو بھی (ن) لیگ نے ناراض کردیا اور ان کے ساتھ کوئی باعزت انتخابی اتحاد نہیں ہوسکا اور ہم خیال گروپ کے صدر ارباب غلام رحیم نے بھی (ن) لیگ سے مایوس ہوکر سندھ میں اپنی مسلم لیگ پیپلز کے نام سے بنالی اور خود کو اپنے مخصوص علاقوں تک محدود کرلیا۔

مسلم لیگ ہم خیال نے اس سلسلے میں خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ (ن) لیگ کی طرف سے کی جانے والی وعدہ خلافی پر انھیں دکھ ہے اور (ن) لیگ نے انھیں کہیں کا نہیں چھوڑا۔ مسلم لیگ (ن) نے قومی سطح پر کام کرنے والی پارٹیوں کے ساتھ چلنے کی بجائے قوم پرستوں کو ساتھ لے کر چلنے کا فیصلہ کر رکھا ہے۔ میاں شہباز شریف کوئٹہ جاکر اختر مینگل اور دیگر سے ملے اور (ن) لیگ بلوچستان کے صدر اسرار اللہ زہری نے اپنے قافلے پر حملے کا مقدمہ سردار اختر مینگل اور دیگر کے خلاف درج کرایا ہے تو ایسی صورت حال میں بلوچستان نیشنل پارٹی اختر مینگل گروپ کیا (ن) لیگ کے ساتھ چل سکے گا اور (ن) لیگ بلوچستان کے قوم پرستوں کا اعتماد حاصل کرپائے گی یہ ایک ایسا سوال ہے جس پر (ن) لیگ کے حامی بھی پریشان ہیں۔(ن)لیگ کو پہلے پنجاب تک محدود قرار دیا جاتا تھا اب (ن) لیگ کے لیے کہا جارہا ہے کہ جنوبی پنجاب میں اس کی مقبولیت کم ہوئی ہے اور وہ سینٹرل پنجاب تک محدود ہوکر رہ جائے گی۔

سندھ میں (ن) لیگ نے چند ماہ قبل سندھ کی سطح پر فنکشنل لیگ سے کچھ سیاسی مفاہمت کرکے دس جماعتی اتحاد میں شمولیت کی تھی مگر پنجاب میں اپنی تنہا پرواز کا سفر جاری رکھا تھا اور جب (ن) لیگ کو اس سلسلے میں سندھ کی دھمکی ملی تو شہباز شریف کو کراچی پیرپگاڑا کے پاس آنا پڑا۔


صوبہ خیبرپختونخوا میں ہزارہ ڈویژن اب (ن) لیگ کا اہم گڑھ نہیں رہا اور (ن) لیگ وہاں ایک ہی جلسہ کرسکی ہے اور باقی علاقوں میں بھی (ن) لیگ دہشت گردی کے باعث خاموش ہے۔ سندھ میں (ن) لیگ کی بعض نشستوں پر دس جماعتی اتحاد سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ نہیں ہوسکی ہے جب کہ کراچی سے باہر بھی (ن) لیگ کسی ضلع میں مضبوط نہیں ہے۔ (ن)لیگ کے مقابلے میں فنکشنل لیگ سندھ میں پیپلز پارٹی کا متبادل بن چکی ہے مگر سندھ میں پیپلز پارٹی اب بھی مضبوط ہے۔(ن) لیگ سے انتخابی اتحاد کے لیے جمعیت علمائے اسلام (ف) اور جماعت اسلامی نے کوششیں کیں مگر کامیاب نہیں ہوئی۔

پنجاب میں (ن) لیگ سے جماعت، جمعیت اور ہم خیال مسلم لیگ ان کی تنہا پرواز کے باعث ناراض ہیں اور (ق)لیگ کے جن ارکان نے پنجاب اسمبلی میں (ن) لیگ کی حکومت چلوائی وہ بھی مطمئن نہیں۔ پنجاب میں تحریک انصاف بھی بڑے بڑے جلسے کر رہی ہے اور عمران خان (ن) لیگ اور نواز شریف پر تابڑ توڑ حملے کر رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ سے ناراض لوگ تحریک انصاف میں شامل ہورہے ہیں جن کے مقابلے کے لیے شریف برادران پنجاب میں انتخابی مہم چلا رہے ہیں اور جوش جذبات میں میاں شہباز شریف لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کے لیے جو مختلف بیانات دیتے رہے ہیں انھیں بنیاد بناکر پیپلز پارٹی نے بھی ان کے مختلف چہرے عوام کو دکھانا شروع کردیے ہیں۔

نواز شریف جنرل پرویز کے دور میں جلاوطنی کے معاہدے سے انکار کیا کرتے تھے اور دس سالہ معاہدے کی مجوزہ پابندی پوری ہونے کے بعد سیاست میں متحرک ہوئے اور 2008 کے برعکس (ن) لیگ کے سربراہ کے طور پر بھرپور انتخابی مہم تو چلا رہے ہیں مگر (ن) لیگ اپنے ہی صوبے پنجاب میں انتہائی تنہائی کا شکار ہے۔ (ن)لیگ پر تحریک انصاف کا بھی خوف سوار ہے۔ جس طرح تحریک انصاف انتخابی میدان میں تنہا ہے اسی طرح (ن) لیگ بھی سیاسی تنہائی کا شکار ہے جب کہ پنجاب میں پیپلز پارٹی کا (ق) لیگ سے اکثر نشستوں پر اتفاق ہوچکا ہے مگر (ن) لیگ کی قیادت نے عمران خان، پیپلز پارٹی اور (ق) لیگ کا بھوت سامنے ہونے کے باوجود سیاسی لچک کا مظاہرہ نہیں کیا اور وہ خود کو اب تک 1997 میں دیکھ رہی ہے حالانکہ (ن)لیگ کے دریا سے کافی پانی بہہ چکا ہے مگر بھاری مینڈیٹ کے خواب سے باہر نہیں آرہی۔

(ن)لیگ کے پاس بلا شبہ الیکشن میں کامیابی کی طاقت رکھنے والے مضبوط امیدوار ہیں مگر اب (ن) لیگ کا مقابلہ صرف پیپلز پارٹی اور (ق) لیگ سے نہیں بلکہ تحریک انصاف، جے یو آئی اور جماعت اسلامی سے بھی ہے اور سندھ میں بھی 10 جماعتی اتحاد میں شامل باقی 9 پارٹیاں (ن) لیگ سے مطمئن نہیں ہیں اور سندھ میں بھی بعض حلقوں میں (ن) لیگ تنہا پرواز کر رہی ہے جس کا سب سے بڑا نقصان مسلم لیگ (ن) کو اور فائدہ پیپلز پارٹی کو ہوگا۔

اب (ن) لیگ کے لیے حالات 1997والے نہیں رہے ہیں۔ انھیں خود بھی اکثریت ملنے کی امید نہیں ہے اور ویسے بھی نواز شریف اتحاد بنانے اور اتحادیوں کے ساتھ چلنے کے صدر زرداری جیسے ماہر نہیں۔
Load Next Story