اردو میں عدالتی فیصلہ
چیف جسٹس آف پاکستان نے تمام عدالتی فیصلہ اردو میں شایع کرنے کا وکلا کے مطالبے کو تسلیم کرتے ہوئے خوشخبری سنائی.
ISLAMABAD:
سہ روزہ انٹرنیشنل جوڈیشل کانفرنس جس میں 21 ممالک کے مندوبین اور پاکستانی عدالتوں کے ججز اور سینئر وکلا شریک تھے اختتام پذیر ہوگئی، اختتامی اجلاس کے موقع پر چیف جسٹس آف پاکستان نے تمام عدالتی فیصلہ اردو میں شایع کرنے کا وکلا کے مطالبے کو تسلیم کرتے ہوئے خوشخبری سنائی کہ جسٹس جواد ایس خواجہ نے پہلی مرتبہ ایک ایسا ادارہ قائم کیا ہے جو سپریم کورٹ کے قیام یعنی 1956 سے کیے گئے عوامی اہمیت اور انسانی حقوق کے اقدامات کے تمام فیصلے اردو میں شایع کرے گا تاکہ عوام ان کو پڑھ کر استفادہ اور آگہی حاصل کرے۔
کانفرنس میں شریک ایک نوجوان وکیل نے اٹھ کر تجویز پیش کی کہ عدالتی فیصلے جہاں انگریزی میں تحریر کیے جاتے ہیں وہیں انھیں اردو زبان میں بھی مشتہر کیا جائے، اس تجویز کی شرکاء کے علاوہ جسٹس جواد ایس خواجہ نے بھی تعریف کی اور تالیاں بجاکر حوصلہ افزائی بھی کی۔
1973 کے دستور کی شق نمبر 251 اور اس کی ذیلی شقوں میں کہا گیا تھا کہ پاکستان کی قومی زبان اردو ہوگی اور اس کے نفاذ کے لیے تمام اقدامات آج (12-04-1973) سے 15 سال کے اندر کرلیے جائیں گے، جب تک یہ انتظامات نہیں کرلیے جاتے اس وقت تک انگریزی کو دفتری زبان کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ذیلی شق نمبر 3 کے تحت صوبائی اسمبلیوں کو اس بات کا اختیار دیا گیا تھا کہ وہ صوبائی زبانوں کی ترقی، ترویج اور تدریس کے لیے بھی قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اقدامات کرسکتی ہیں جس کے تحت صوبہ سندھ میں سندھی زبان کے مضمون کو لازمی مضمون کی حیثیت سے نافذ کیا گیا۔
صوبہ سندھ وہ واحد صوبہ ہے جس میں چینی زبان پڑھانے کا بھی فیصلہ کرلیا گیا ہے جس کی وجہ سے یہاں کے طلبا پر اردو، انگریزی، سندھی اور چینی زبانوں کو پڑھنے کا بوجھ لاد دیا گیا ہے۔ چینی زبان نافذ کرنے کا فیصلہ بذات خود ماورائے آئین دکھائی دیتا ہے کیونکہ آئین کی شق 251(3) کے تحت صوبائی حکومتوں کو قومی زبان کے علاوہ صرف صوبائی زبانوں کی ترقی، ترویج اور تدریس کا اختیار دیا گیا ہے کسی بیرونی غیرملکی زبان کے متعلق یہ اختیار نہیں دیا گیا ہے۔ یہ شق بالکل واضح ہے جو کہتی ہے کہ بدقسمتی سے آئین میں دی گئی مدت کو گزرے ہوئے ماہ رواں میں ایک چوتھائی صدی بیت چکی ہے، مگر قومی زبان کے نفاذ کے لیے سرکاری سطح پر کسی حکومت نے مخلصانہ ذمے داریاں پوری نہیں کیں بلکہ اس میں تاخیری حربوں کو اختیار کیا جاتا رہا ہے۔
سابقہ حکومت کے دور میں 2012 میں قومی اسمبلی کے ارکان نے ایک آئینی ترمیمی بل کا مسودہ پیش کرکے اردو کو دریا برد کرکے انگریزی کو ہمیشہ کے لیے مسلط کرنے کی سرکاری و قانونی اور خطرناک کوششیں کیں جس کے تحت بلوچی، پنجابی، پشتو، سندھی، سرائیکی، بلتی، شنا اور اردو کو قومی زبانیں قرار دینے اور جب تک یہ زبانیں متبادل طور پر اختیارنہیں کرلی جاتیں انگریزی کو بدستور دفتری زبان برقرار رکھنے کی سفارش کی گئی تھی۔ اس قسم کی سازش کے دو پہلو واضح طور پر سامنے آتے ہیں، پہلا یہ کہ انگریزی زبان کو ملک پر ہمیشہ کے لیے مسلط کرکے اردو یا دیگر کسی بھی زبان کے رائج ہونے کے امکانات ہمیشہ کے لیے ختم کردیے جائیں اور ملک کے باشندوں میں اتحاد و اتفاق کے بجائے نفاق و عناد کی بنیادیں استوار کرکے انھیں باہم بدگمانیوں اور خوش گمانیوں کی زندگی کا اسیر بناکر اشرافیہ اپنے مفادات حاصل کرتی رہے۔
بقول امجد اسلام امجد اردو کو نوکروں کی زبان رہنے دیا جائے۔ بات بات پر آئین اور پارلیمنٹ کی بالادستی کا رونا رونے اور ڈھنڈورا پیٹنے والے حکمراں اور سیاستدان جب آئین کے حکم کے تحت 40 سال گزر جانے کے باوجود دنیا کی تیسری سب سے بڑی زبان اردو جس میں علم کا بڑا ذخیرہ ہے، جس کی لغات 22 جلدوں میں شایع ہوچکی ہے، جس میں قومی و صوبائی بجٹ، اسٹیٹ بینک کی سہ ماہی و سالانہ رپورٹیں شایع ہورہی ہیں، ہزاروں رسائل و جرائد شایع ہورہے ہیں، جس کو ایم ایم اے کی صوبائی حکومت نے سرحد میں نافذ کرکے اور حکیم محمد سعید نے ہمدرد جیسے بڑے ادارے میں رائج کرکے دکھادیا ہے، جب ہمارے حکمراں اس زبان کو رائج کرنے میں ناکام رہے ہیں تو پھر یہ توقع کیسے کی جاسکتی ہے کہ وہ ان علاقائی زبانون کو رائج کرسکیں گے یا اس میں مخلص ہیں۔
ترمیمی بل کے مسودے میں شامل کردہ شنا اور بلتی زبانوں کے نام سے بھی عوام اور سیاستدانوں کی اکثریت ناآشنا ہوگی اور شاید ان زبانوں کو بولنے والے افراد کی نمایندگی سینیٹ اور قومی اسمبلی میں بھی نہ ہو۔ اردو زبان کے استعمال کے نفاذ کو روکنے اور انگریزی کو جاری رکھنے کا نقصان بھی عام طور پر ان لسانی گروہوں سے وابستہ افراد کو ہی ہوگا جن کی زبانوں کے نفاذ کا شوشہ چھوڑ کر انگریزی کو ہمیشہ کے لیے مسلط کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ اردو زبان کے بارے میں یہ حقیقت ہمیں تسلیم کرلینی چاہیے کہ یہ کسی لسانی گروہ، صوبہ یا علاقہ کی زبان نہیں ہے بلکہ قومی اثاثہ اور رابطے کی زبان ہے۔
جو لسانی گروپ اردو زبان کو مادری زبان کے طور پر استعمال کرتا ہے، اردو کے نفاذ سے اسے کوئی معاشی فائدہ بھی نہیں پہنچے گا البتہ انگریزی زبان بدستور مسلط رہنے سے اس کا یہ فائدہ ضرور ہوا ہے اور ہوتا رہے گا کہ تعلیم کی طرف رجحان، بہترین تعلیمی ماحول اور انگلش میڈیم تعلیمی اداروں کی دستیابی و سہولت کی بنا پر وہ انگریزی زبان پر دسترس کی بنا پر اپنے سے زیادہ قابلیت کے حامل افراد پر جن کی انگریزی کمزور ہوتی ہے، سبقت حاصل کرتا رہے گا۔ تعلیم کو طبقاتی اور عوام کو تقسیم کرنے کی اشرافیہ کی اس سازش سے عوام کو چوکنا اور متحد رہنا چاہیے۔
اردو کی ترقی و ترویج کے لیے انجمن ترقی اردو، مقتدرہ قومی زبان، جامعات کے سربراہان، شاعر، ادیب اور مدیران بڑے عرصے سے کوششیں کرتے آرہے ہیں، عدالت عظمیٰ نے اردو میں عدالتی فیصلوں کے اجرا کی جو خوشخبری سنائی ہے وہ واقعی ایک بڑی خوش آیند خبر ہے اور ایک بڑا عوامی ریلیف ثابت ہوگی۔ اس ناخواندہ ملک میں پڑھے لکھے لوگ انگریزی سے ناواقفیت کی وجہ سے بہت سے نقصانات اور پریشانیاں اٹھاتے ہیں، عدالتوں میں اردو دستاویزات کا انگریزی ترجمہ پیش کرنا ضروری ہوتا ہے جس کی وجہ سے سائلین مترجم کی تلاش میں مارے مارے پھرتے ہیں، ہائیکورٹ میں ترجمہ کرانے کا شعبہ بھی قائم کردیا گیا ہے، چند صفحات کے ترجمے کے لیے ہزاروں روپے کا معاوضہ دینا پڑتا ہے، وقت علیحدہ ضایع ہوتا ہے۔
انگریزی زبان جہاں تعلیم و روزگار میں اہل افراد کی حق تلفی کا سبب بنتی ہے وہیں وہ قانونی طور پر ان کی حق سلبی کا باعث بھی بنتی ہے۔ مقدمات میں ان سے اس قسم کے بیانات اور حلف نامے دستخط کرالیے جاتے ہیں جو ان کے مفادات اور حقیقت کے برعکس ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ اپنے حقوق سے قانونی طور پر محروم ہوجاتے ہیں۔ سنگینی کا اندازہ اس واقعے سے لگایا جاسکتا ہے کہ انگریزی کی وجہ سے لوگوں کو کیسے کیسے نقصان پہنچایا جاتا ہے۔
راقم کی جاننے والی ایک خاتون جو ماسٹر کیے ہوئے تھیں اعلیٰ تعلیمی معیار کی حامل چند نمبروں سے میڈیکل کالج میں داخلے سے محروم اس خاتون نے فزیوتھراپسٹ کا پیشہ اختیار کیا، ایک بڑے سرکاری اسپتال میں گزیٹڈ ملازم مگر انگریزی زبان سے مکمل طور پر آگاہی نہ رکھنے کی وجہ سے اپنے شوہر کی وراثت سے محروم کردی گئی، جس کو بتایا گیا کہ یہ مکان تمہارے نام پر کروا رہے ہیں سسرال والے پراپرٹی رجسٹرار کے پاس لے گئے، ملی بھگت سے اس خاتون کو اس کے بچوں کو وراثت سے محروم کردیا۔ یہ خاتون چونکہ پڑھی لکھی تھی اس نے دستخط کرتے وقت اس دستاویز کا ٹائٹل Relinquishment Deed تو پڑھ لیا لیکن مطلب نہ سمجھی، مگر ذہن میں مخمصے اور تشویش کی بناء پر دوسرے دن فون پر راقم سے دریافت کیا کہ Relinquishment Deed کیا ہوتی ہے، میں نے اسے بتایا کہ یہ دستبرداری کا معاہدہ ہے کہ آپ اپنے حصہ حق سے دستبردار ہورہی ہیں۔
اس خاتون نے سر پیٹ لیا کہ مجھے تو بتایا گیا تھا کہ تمہارے مرحوم شوہر کا مکان تمہارے نام کرایا جارہا ہے میں نے اس لیے دستخط کردیے۔ اس واقعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب ایک پڑھی لکھی، عملی زندگی گزارنے والی بااختیار و باہوش و حواس عورت کے ساتھ ایسا کیا جاسکتا ہے تو کم پڑھے لکھے، ناخواندہ اور سادہ لوح افراد کے ساتھ کیا کچھ نہ کیا جاتا ہوگا۔
سہ روزہ انٹرنیشنل جوڈیشل کانفرنس جس میں 21 ممالک کے مندوبین اور پاکستانی عدالتوں کے ججز اور سینئر وکلا شریک تھے اختتام پذیر ہوگئی، اختتامی اجلاس کے موقع پر چیف جسٹس آف پاکستان نے تمام عدالتی فیصلہ اردو میں شایع کرنے کا وکلا کے مطالبے کو تسلیم کرتے ہوئے خوشخبری سنائی کہ جسٹس جواد ایس خواجہ نے پہلی مرتبہ ایک ایسا ادارہ قائم کیا ہے جو سپریم کورٹ کے قیام یعنی 1956 سے کیے گئے عوامی اہمیت اور انسانی حقوق کے اقدامات کے تمام فیصلے اردو میں شایع کرے گا تاکہ عوام ان کو پڑھ کر استفادہ اور آگہی حاصل کرے۔
کانفرنس میں شریک ایک نوجوان وکیل نے اٹھ کر تجویز پیش کی کہ عدالتی فیصلے جہاں انگریزی میں تحریر کیے جاتے ہیں وہیں انھیں اردو زبان میں بھی مشتہر کیا جائے، اس تجویز کی شرکاء کے علاوہ جسٹس جواد ایس خواجہ نے بھی تعریف کی اور تالیاں بجاکر حوصلہ افزائی بھی کی۔
1973 کے دستور کی شق نمبر 251 اور اس کی ذیلی شقوں میں کہا گیا تھا کہ پاکستان کی قومی زبان اردو ہوگی اور اس کے نفاذ کے لیے تمام اقدامات آج (12-04-1973) سے 15 سال کے اندر کرلیے جائیں گے، جب تک یہ انتظامات نہیں کرلیے جاتے اس وقت تک انگریزی کو دفتری زبان کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ذیلی شق نمبر 3 کے تحت صوبائی اسمبلیوں کو اس بات کا اختیار دیا گیا تھا کہ وہ صوبائی زبانوں کی ترقی، ترویج اور تدریس کے لیے بھی قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اقدامات کرسکتی ہیں جس کے تحت صوبہ سندھ میں سندھی زبان کے مضمون کو لازمی مضمون کی حیثیت سے نافذ کیا گیا۔
صوبہ سندھ وہ واحد صوبہ ہے جس میں چینی زبان پڑھانے کا بھی فیصلہ کرلیا گیا ہے جس کی وجہ سے یہاں کے طلبا پر اردو، انگریزی، سندھی اور چینی زبانوں کو پڑھنے کا بوجھ لاد دیا گیا ہے۔ چینی زبان نافذ کرنے کا فیصلہ بذات خود ماورائے آئین دکھائی دیتا ہے کیونکہ آئین کی شق 251(3) کے تحت صوبائی حکومتوں کو قومی زبان کے علاوہ صرف صوبائی زبانوں کی ترقی، ترویج اور تدریس کا اختیار دیا گیا ہے کسی بیرونی غیرملکی زبان کے متعلق یہ اختیار نہیں دیا گیا ہے۔ یہ شق بالکل واضح ہے جو کہتی ہے کہ بدقسمتی سے آئین میں دی گئی مدت کو گزرے ہوئے ماہ رواں میں ایک چوتھائی صدی بیت چکی ہے، مگر قومی زبان کے نفاذ کے لیے سرکاری سطح پر کسی حکومت نے مخلصانہ ذمے داریاں پوری نہیں کیں بلکہ اس میں تاخیری حربوں کو اختیار کیا جاتا رہا ہے۔
سابقہ حکومت کے دور میں 2012 میں قومی اسمبلی کے ارکان نے ایک آئینی ترمیمی بل کا مسودہ پیش کرکے اردو کو دریا برد کرکے انگریزی کو ہمیشہ کے لیے مسلط کرنے کی سرکاری و قانونی اور خطرناک کوششیں کیں جس کے تحت بلوچی، پنجابی، پشتو، سندھی، سرائیکی، بلتی، شنا اور اردو کو قومی زبانیں قرار دینے اور جب تک یہ زبانیں متبادل طور پر اختیارنہیں کرلی جاتیں انگریزی کو بدستور دفتری زبان برقرار رکھنے کی سفارش کی گئی تھی۔ اس قسم کی سازش کے دو پہلو واضح طور پر سامنے آتے ہیں، پہلا یہ کہ انگریزی زبان کو ملک پر ہمیشہ کے لیے مسلط کرکے اردو یا دیگر کسی بھی زبان کے رائج ہونے کے امکانات ہمیشہ کے لیے ختم کردیے جائیں اور ملک کے باشندوں میں اتحاد و اتفاق کے بجائے نفاق و عناد کی بنیادیں استوار کرکے انھیں باہم بدگمانیوں اور خوش گمانیوں کی زندگی کا اسیر بناکر اشرافیہ اپنے مفادات حاصل کرتی رہے۔
بقول امجد اسلام امجد اردو کو نوکروں کی زبان رہنے دیا جائے۔ بات بات پر آئین اور پارلیمنٹ کی بالادستی کا رونا رونے اور ڈھنڈورا پیٹنے والے حکمراں اور سیاستدان جب آئین کے حکم کے تحت 40 سال گزر جانے کے باوجود دنیا کی تیسری سب سے بڑی زبان اردو جس میں علم کا بڑا ذخیرہ ہے، جس کی لغات 22 جلدوں میں شایع ہوچکی ہے، جس میں قومی و صوبائی بجٹ، اسٹیٹ بینک کی سہ ماہی و سالانہ رپورٹیں شایع ہورہی ہیں، ہزاروں رسائل و جرائد شایع ہورہے ہیں، جس کو ایم ایم اے کی صوبائی حکومت نے سرحد میں نافذ کرکے اور حکیم محمد سعید نے ہمدرد جیسے بڑے ادارے میں رائج کرکے دکھادیا ہے، جب ہمارے حکمراں اس زبان کو رائج کرنے میں ناکام رہے ہیں تو پھر یہ توقع کیسے کی جاسکتی ہے کہ وہ ان علاقائی زبانون کو رائج کرسکیں گے یا اس میں مخلص ہیں۔
ترمیمی بل کے مسودے میں شامل کردہ شنا اور بلتی زبانوں کے نام سے بھی عوام اور سیاستدانوں کی اکثریت ناآشنا ہوگی اور شاید ان زبانوں کو بولنے والے افراد کی نمایندگی سینیٹ اور قومی اسمبلی میں بھی نہ ہو۔ اردو زبان کے استعمال کے نفاذ کو روکنے اور انگریزی کو جاری رکھنے کا نقصان بھی عام طور پر ان لسانی گروہوں سے وابستہ افراد کو ہی ہوگا جن کی زبانوں کے نفاذ کا شوشہ چھوڑ کر انگریزی کو ہمیشہ کے لیے مسلط کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ اردو زبان کے بارے میں یہ حقیقت ہمیں تسلیم کرلینی چاہیے کہ یہ کسی لسانی گروہ، صوبہ یا علاقہ کی زبان نہیں ہے بلکہ قومی اثاثہ اور رابطے کی زبان ہے۔
جو لسانی گروپ اردو زبان کو مادری زبان کے طور پر استعمال کرتا ہے، اردو کے نفاذ سے اسے کوئی معاشی فائدہ بھی نہیں پہنچے گا البتہ انگریزی زبان بدستور مسلط رہنے سے اس کا یہ فائدہ ضرور ہوا ہے اور ہوتا رہے گا کہ تعلیم کی طرف رجحان، بہترین تعلیمی ماحول اور انگلش میڈیم تعلیمی اداروں کی دستیابی و سہولت کی بنا پر وہ انگریزی زبان پر دسترس کی بنا پر اپنے سے زیادہ قابلیت کے حامل افراد پر جن کی انگریزی کمزور ہوتی ہے، سبقت حاصل کرتا رہے گا۔ تعلیم کو طبقاتی اور عوام کو تقسیم کرنے کی اشرافیہ کی اس سازش سے عوام کو چوکنا اور متحد رہنا چاہیے۔
اردو کی ترقی و ترویج کے لیے انجمن ترقی اردو، مقتدرہ قومی زبان، جامعات کے سربراہان، شاعر، ادیب اور مدیران بڑے عرصے سے کوششیں کرتے آرہے ہیں، عدالت عظمیٰ نے اردو میں عدالتی فیصلوں کے اجرا کی جو خوشخبری سنائی ہے وہ واقعی ایک بڑی خوش آیند خبر ہے اور ایک بڑا عوامی ریلیف ثابت ہوگی۔ اس ناخواندہ ملک میں پڑھے لکھے لوگ انگریزی سے ناواقفیت کی وجہ سے بہت سے نقصانات اور پریشانیاں اٹھاتے ہیں، عدالتوں میں اردو دستاویزات کا انگریزی ترجمہ پیش کرنا ضروری ہوتا ہے جس کی وجہ سے سائلین مترجم کی تلاش میں مارے مارے پھرتے ہیں، ہائیکورٹ میں ترجمہ کرانے کا شعبہ بھی قائم کردیا گیا ہے، چند صفحات کے ترجمے کے لیے ہزاروں روپے کا معاوضہ دینا پڑتا ہے، وقت علیحدہ ضایع ہوتا ہے۔
انگریزی زبان جہاں تعلیم و روزگار میں اہل افراد کی حق تلفی کا سبب بنتی ہے وہیں وہ قانونی طور پر ان کی حق سلبی کا باعث بھی بنتی ہے۔ مقدمات میں ان سے اس قسم کے بیانات اور حلف نامے دستخط کرالیے جاتے ہیں جو ان کے مفادات اور حقیقت کے برعکس ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ اپنے حقوق سے قانونی طور پر محروم ہوجاتے ہیں۔ سنگینی کا اندازہ اس واقعے سے لگایا جاسکتا ہے کہ انگریزی کی وجہ سے لوگوں کو کیسے کیسے نقصان پہنچایا جاتا ہے۔
راقم کی جاننے والی ایک خاتون جو ماسٹر کیے ہوئے تھیں اعلیٰ تعلیمی معیار کی حامل چند نمبروں سے میڈیکل کالج میں داخلے سے محروم اس خاتون نے فزیوتھراپسٹ کا پیشہ اختیار کیا، ایک بڑے سرکاری اسپتال میں گزیٹڈ ملازم مگر انگریزی زبان سے مکمل طور پر آگاہی نہ رکھنے کی وجہ سے اپنے شوہر کی وراثت سے محروم کردی گئی، جس کو بتایا گیا کہ یہ مکان تمہارے نام پر کروا رہے ہیں سسرال والے پراپرٹی رجسٹرار کے پاس لے گئے، ملی بھگت سے اس خاتون کو اس کے بچوں کو وراثت سے محروم کردیا۔ یہ خاتون چونکہ پڑھی لکھی تھی اس نے دستخط کرتے وقت اس دستاویز کا ٹائٹل Relinquishment Deed تو پڑھ لیا لیکن مطلب نہ سمجھی، مگر ذہن میں مخمصے اور تشویش کی بناء پر دوسرے دن فون پر راقم سے دریافت کیا کہ Relinquishment Deed کیا ہوتی ہے، میں نے اسے بتایا کہ یہ دستبرداری کا معاہدہ ہے کہ آپ اپنے حصہ حق سے دستبردار ہورہی ہیں۔
اس خاتون نے سر پیٹ لیا کہ مجھے تو بتایا گیا تھا کہ تمہارے مرحوم شوہر کا مکان تمہارے نام کرایا جارہا ہے میں نے اس لیے دستخط کردیے۔ اس واقعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب ایک پڑھی لکھی، عملی زندگی گزارنے والی بااختیار و باہوش و حواس عورت کے ساتھ ایسا کیا جاسکتا ہے تو کم پڑھے لکھے، ناخواندہ اور سادہ لوح افراد کے ساتھ کیا کچھ نہ کیا جاتا ہوگا۔