سیاسی رومانس
جب کوئی اچھا لگنے لگتا ہے تو اسے دیکھنے کا دل چاہتا ہے، رومانس کے اس پہلے مرحلے کو انسیت کہتے ہیں۔
رومانس کہتے ہیں پیار کو۔ قارئین کو اب تک صرف فلمی رومانس ہی سے واقفیت رہی ہو۔ ہیرو اور ہیروئین کی محبت، ایک غریب تو ایک امیر، پھر ظالم سماج کی دیوار یعنی ولن۔ کشمکش اور کلائمیکس کو چھوتی فلم کے آخر میں لڑکے اور لڑکی کی شادی۔ یہ تو ہوگیا فلمی رومانس۔ شاید سیاسی رومانس کا لفظ کالم نگاری کی دنیا میں پہلی مرتبہ استعمال ہوا ہو۔ یہ بھی فلمی رومانس سے ملتا جلتا ہے۔ اس میں بھی طبقاتی جنگ ہوتی ہے، ولن سامنے آتے ہیں اور آخر میں خوب صورت ملاپ ہوجاتا ہے۔
سیاسی رومانس کی تاریخ سو برس پرانی ہے۔ ہم برصغیر کی بات کر رہے ہیں جب یہاں انگریز حاکم ہوا کرتے تھے۔ ان سے لڑنے والوں میں جنرل بخت خان، بھگت سنگھ اور سبھاش چندر بوس تھے۔ یہ لوگ اسلحے سے گورے حاکموں سے لڑ رہے تھے۔ گاندھی نے قانونی لڑائی لڑی اور ہندوستان کے لوگوں کا رومانس ان سے ہوگیا۔ ان میں مسلمان بھی تھے اور ہندو بھی۔ گاندھی نے دونوں کو ایک ہی آنکھ سے دیکھنے کا وعدہ کیا جو وفا نہ ہوا۔ یوں مسلمانوں نے چاہا کہ ان کا اپنا کوئی مہاتما ہو۔ وہ عظیم قائد ہو جو صرف ان کے لیے سوچے اور ان کے لیے لڑے۔
ایسے میں مسلمانان ہند کا اصلی، سچا اور پکا پیار قائد اعظم محمد علی جناح سے ہوا۔یہ پہلا سیاسی رومانس عجیب و غریب تھا۔ مسلمانوں کی ہندوستان میں تیرہ سو سالہ تاریخ کا سب سے سچا اور پکا رومانس۔ کروڑوں لوگ ایک ہزار برس سے زیادہ وقت میں کسی ایک قائد پر کبھی متفق نہ ہوئے تھے۔ محمد علی جناح واحد شخصیت تھے جس پر ان سب کا اتفاق تھا۔ قائداعظم کی بات سمجھنے کے لیے رومانس کی تعریف کی ضرورت نہ تھی۔ پاکستان بننے کے بعد بھی کچھ لیڈر ایسے رہے ہیں جن سے عوام نے رومانس کیا ہے۔ اب لازمی ہے کہ پہلے رومانس کے چار درجے بیان کردیے جائیں اور پھر چار شخصیات پر بات کی جائے۔
جب کوئی اچھا لگنے لگتا ہے تو اسے دیکھنے کا دل چاہتا ہے، رومانس کے اس پہلے مرحلے کو انسیت کہتے ہیں۔ دل چاہتا ہے کہ وہ سڑکوں، ہوٹلوں، بازاروں، پارکوں، اداروں، دفتروں میں ملتا رہے۔ رومانس کی دوسری منزل محبت ہوتی ہے، اس میں محبوب کو اپنا بنا لینے کو جی چاہتا ہے، دل کرتا ہے کہ وہ میرا ہوجائے اور میں اس کا ہوجاؤں۔ رومانس کا تیسرا درجہ عشق کا ہوتا ہے، اس مقام پر عاشق خود کو گم کر بیٹھتا ہے، ''جدھر دیکھتا ہوں میں ادھر تو ہی تو ہے'' والی کیفیت ہوجاتی ہے، ہیر رانجھا، رومیو جولیٹ، عمرماروی، سسی پنوں اور لیلیٰ مجنوں کی مثالیں عشق کے متوالوں کو آج تک یاد ہیں۔
یاد رکھیے! ہم فلمی رومانس نہیں بلکہ سیاسی رومانس پر گفتگو کر رہے ہیں۔ اب تک ہم انسیت، محبت اور عشق پر گفتگو کرچکے ہیں۔ رومانس کا چوتھا درجہ کون سا ہوتا ہے؟ فنا کا جذبہ۔ محبوب کے لیے جان دے دینے کا جذبہ۔ یہ جذبہ وطن کی خاطر بھی ہوسکتا ہے اور مذہب کی خاطر بھی۔ کسی انسان کے لیے بھی جان دے دینے کی مثالیں ہیں اور کسی بڑے مقصد کی خاطر بھی۔ اب جب ہم چار سیاسی شخصیات پر ان چار جذبوں کے حوالے سے گفتگو کریں گے تو قارئین کو آسانی رہے گی کہ ہم سیاسی رومانس کے کس درجے کی بات کر رہے ہیں۔
بھٹو سے پاکستان کے عوام کا سیاسی رومانس ہماری تاریخ میں ہمیشہ یادگار رہے گا۔ جب بھٹو، اسکندر مرزا اور ایوب خان کی کابینہ کے وزیر تھے تو عوام انسیت کے درجے میں تھے۔ جب وہ اقتدار سے باہر آگئے تو عوام کو ان سے محبت ہوگئی۔ 70 کے انتخابات میں جیالوں کا عشق سر چڑھ کر بول رہا تھا۔ اس عشق نے بھٹو کو پاکستان کا بڑا لیڈر بنادیا۔ جب بھٹو پاکستان کے سربراہ بن گئے تو اس رومانس میں اتار چڑھاؤ آتا گیا۔ جب ان سے اقتدار چھین لیا گیا تو عوام بھٹو کے عشق میں انتہا تک پہنچ گئے۔ یہ تیسرا جذبہ تھا جو عوام اور قائد عوام کے درمیان تھا۔ اب چوتھے مرحلے یعنی فنا کی آزمائش درپیش تھی۔ چند غریب غربا نے اپنے آپ کو آگ لگاکر سیاسی رومانس کی انتہا کو چھو لیا۔
بہت بڑی اکثریت عشق سے آگے نہ بڑھ سکی۔ جیالوں کا یہ کمزور جذبہ بھٹو کو پھانسی کے پھندے پر جھولنے سے نہ بچاسکا۔ اگر ایک بڑی اکثریت رومانس کے آخری درجے پر ہوتی تو کسی کی جرأت نہ ہوتی کہ بھٹو کو کال کوٹھڑی سے آگے لے جاتا۔ بلیک وارنٹ کا اجرا پیپلزپارٹی کو ہمیشہ شرمندہ کرتا رہے گا کہ وہ بھٹو سے سیاسی رومانس کی انتہا تک کیوں نہ گئے۔ فنا کا جذبہ تاریخ کے اہم موڑ پر جیالوں کے اندر سے کیوں کر فنا ہوگیا۔نواز شریف اور بھٹو کی کہانیاں کافی ملتی جلتی ہیں۔ دونوں نے پہلے پنجاب کے عوام کے دلوں پر دستک دی۔ نواز شریف کے لیے انسیت اس وقت پیدا ہوئی جب وہ صوبائی وزیر تھے۔
یہ محبت میں تب بدلی جب وہ وزیراعلیٰ بنے اور عشق میں اس وقت ڈھل گئی جب وہ دو تہائی اکثریت سے وزیر اعظم بنے۔ جوں جوں عہدے بڑھتے گئے ویسے ویسے سیاسی رومانس کے درجے میں ترقی ہوتی گئی یا رومانس عہدے بڑھاتا رہا۔ جب نواز شریف اقتدار سے اتر گئے اور فنا کے جذبے کی آزمائش کا وقت آیا تو متوالوں نے جیالوں کے نقش قدم پر چل کر ایک جیسی ہی تاریخ رقم کی۔ نعرے لگے تھے کہ ''نواز شریف! قدم بڑھاؤ ہم تمہارے ساتھ ہیں'' جب ساتھ دینے کا وقت آیا تو پیچھے کوئی نہ تھا۔ نئی صدی میں نواز کے حامیوں کا یہ نعرہ ترک کردینا ظاہر کرتا ہے کہ ان کے پر جل جاتے ہیں جب فنا کی منزل آتی ہے۔ شریف کے متوالوں کا نوٹ اور ووٹ سے بڑھ جانا بھی اہم تھا، ان سے فنا کے جذبے کی کبھی توقع رکھی ہی نہ گئی تھی۔
الطاف حسین کے چاہنے والوں کے لیے قائد سے عشق کے مرحلے تک براہ راست رسائی کے مواقع ہیں۔ انسیت اور محبت کے بغیر 78 سے آٹھ سالہ جدوجہد اور پھر چھ سال کامیابی کے تھے۔ جب برا عشرہ آیا تو ابتدائی دور کے ساتھی اور دودھ پینے والے مجنوں ساتھ چھوڑ گئے۔ اس مرحلے سے گزرنے کے بعد ایم کیو ایم کے قائد سے نئے آنے والوں کے لیے انسیت اور محبت کی سیڑھیاں ہٹالی گئیں۔ اب وہ قائد سے رومانس کے لیے براہ راست تیسرے پائیدان پر آجاتے ہیں، عشق کے پائیدان پر۔
الطاف حسین کی جلاوطنی نے ان کے چاہنے والوں کو دو چیزوں سے محروم کردیا ہے۔ قربت اور فرقت سے۔ قائد سے ہاتھ ملاکر، اسے چھو کر اور اس کا لمس محسوس کرکے توانائی پانا البتہ فون پر باتیں، خطاب سننا اور آواز کا لطف اٹھانا جاری ہے۔ متحدہ کے قائد کی وطن سے دوری نے ان کے کارکنوں کو قائد کی گرفتاری کے خطرے کے خدشے سے آزاد کردیا ہے۔ یوں نئے لوگوں کو کوئی آزمائش درپیش نہیں آئی جیسی جیالوں اور متوالوں کو پیش آئی تھیں۔ جب تنظیم پر برا وقت آیا تو جانثاروں نے اسی حد تک قربانیاں دیں جو جیالوں اور متوالوں نے دی تھیں۔
عمران خان سے پاکستانی عوام کا عشق تین مرحلوں میں طے ہوا ہے۔ پہلا بطور کرکٹر، پھر سماجی کارکن اور آخر میں ایک سیاسی لیڈر کے۔ 76 میں سڈنی میں انسیت، 87 کے ورلڈکپ میں محبت اور ورلڈ کپ کی کامیابی پر عشق۔ ایسے ہی مراحل شوکت خانم اسپتال اور نمل یونیورسٹی کے مواقع پر پیش آئے۔ نومبر 11 سے پہلے انسیت، اس کے بعد محبت اور انتخاب کے مواقع پر عشق کے مراحل۔ بھٹو، نواز شریف اور الطاف حسین جیسے تین لیڈر تین مراحل کو عبور کرچکے ہیں۔
کیا عمران خان رومانس کا چوتھا جذبہ عبور کر پائیں گے؟ کیا فنا کے جذبے کے حامل کارکنان ان کے پاس ہیں جو مقصد کی خاطر جان قربان کرپائیں؟ تحریک پاکستان، تحریک ختم نبوت اور تحریک نظام مصطفیٰ کے مواقع پر دیکھا گیا تھا چوتھا جذبہ، فنا کا جذبہ، جان قربان کردینے کا جذبہ۔ وہ جذبہ جسے کہا جاسکتا ہے قربانی دینے کی انتہا۔ افراد کے گرد گھومتی پاکستانی سیاست میں انسیت، محبت اور عشق کا جذبہ تو نظر آتا ہے لیکن فنا کا جذبہ نظر نہیں آتا۔ فنا کا جذبہ اور جان قربان کردینے کا جذبہ۔ عظیم اور بڑے مقصد کی خاطر۔ جان جان آفرین کو پیش کردینا۔ یہ کہتے ہوئے کہ جان دی، دی ہوئی اسی کی تھی۔ جان دینا قربانی دینے کی انتہا ہوتی ہے۔ انتہا سیاسی رومانس کی۔
سیاسی رومانس کی تاریخ سو برس پرانی ہے۔ ہم برصغیر کی بات کر رہے ہیں جب یہاں انگریز حاکم ہوا کرتے تھے۔ ان سے لڑنے والوں میں جنرل بخت خان، بھگت سنگھ اور سبھاش چندر بوس تھے۔ یہ لوگ اسلحے سے گورے حاکموں سے لڑ رہے تھے۔ گاندھی نے قانونی لڑائی لڑی اور ہندوستان کے لوگوں کا رومانس ان سے ہوگیا۔ ان میں مسلمان بھی تھے اور ہندو بھی۔ گاندھی نے دونوں کو ایک ہی آنکھ سے دیکھنے کا وعدہ کیا جو وفا نہ ہوا۔ یوں مسلمانوں نے چاہا کہ ان کا اپنا کوئی مہاتما ہو۔ وہ عظیم قائد ہو جو صرف ان کے لیے سوچے اور ان کے لیے لڑے۔
ایسے میں مسلمانان ہند کا اصلی، سچا اور پکا پیار قائد اعظم محمد علی جناح سے ہوا۔یہ پہلا سیاسی رومانس عجیب و غریب تھا۔ مسلمانوں کی ہندوستان میں تیرہ سو سالہ تاریخ کا سب سے سچا اور پکا رومانس۔ کروڑوں لوگ ایک ہزار برس سے زیادہ وقت میں کسی ایک قائد پر کبھی متفق نہ ہوئے تھے۔ محمد علی جناح واحد شخصیت تھے جس پر ان سب کا اتفاق تھا۔ قائداعظم کی بات سمجھنے کے لیے رومانس کی تعریف کی ضرورت نہ تھی۔ پاکستان بننے کے بعد بھی کچھ لیڈر ایسے رہے ہیں جن سے عوام نے رومانس کیا ہے۔ اب لازمی ہے کہ پہلے رومانس کے چار درجے بیان کردیے جائیں اور پھر چار شخصیات پر بات کی جائے۔
جب کوئی اچھا لگنے لگتا ہے تو اسے دیکھنے کا دل چاہتا ہے، رومانس کے اس پہلے مرحلے کو انسیت کہتے ہیں۔ دل چاہتا ہے کہ وہ سڑکوں، ہوٹلوں، بازاروں، پارکوں، اداروں، دفتروں میں ملتا رہے۔ رومانس کی دوسری منزل محبت ہوتی ہے، اس میں محبوب کو اپنا بنا لینے کو جی چاہتا ہے، دل کرتا ہے کہ وہ میرا ہوجائے اور میں اس کا ہوجاؤں۔ رومانس کا تیسرا درجہ عشق کا ہوتا ہے، اس مقام پر عاشق خود کو گم کر بیٹھتا ہے، ''جدھر دیکھتا ہوں میں ادھر تو ہی تو ہے'' والی کیفیت ہوجاتی ہے، ہیر رانجھا، رومیو جولیٹ، عمرماروی، سسی پنوں اور لیلیٰ مجنوں کی مثالیں عشق کے متوالوں کو آج تک یاد ہیں۔
یاد رکھیے! ہم فلمی رومانس نہیں بلکہ سیاسی رومانس پر گفتگو کر رہے ہیں۔ اب تک ہم انسیت، محبت اور عشق پر گفتگو کرچکے ہیں۔ رومانس کا چوتھا درجہ کون سا ہوتا ہے؟ فنا کا جذبہ۔ محبوب کے لیے جان دے دینے کا جذبہ۔ یہ جذبہ وطن کی خاطر بھی ہوسکتا ہے اور مذہب کی خاطر بھی۔ کسی انسان کے لیے بھی جان دے دینے کی مثالیں ہیں اور کسی بڑے مقصد کی خاطر بھی۔ اب جب ہم چار سیاسی شخصیات پر ان چار جذبوں کے حوالے سے گفتگو کریں گے تو قارئین کو آسانی رہے گی کہ ہم سیاسی رومانس کے کس درجے کی بات کر رہے ہیں۔
بھٹو سے پاکستان کے عوام کا سیاسی رومانس ہماری تاریخ میں ہمیشہ یادگار رہے گا۔ جب بھٹو، اسکندر مرزا اور ایوب خان کی کابینہ کے وزیر تھے تو عوام انسیت کے درجے میں تھے۔ جب وہ اقتدار سے باہر آگئے تو عوام کو ان سے محبت ہوگئی۔ 70 کے انتخابات میں جیالوں کا عشق سر چڑھ کر بول رہا تھا۔ اس عشق نے بھٹو کو پاکستان کا بڑا لیڈر بنادیا۔ جب بھٹو پاکستان کے سربراہ بن گئے تو اس رومانس میں اتار چڑھاؤ آتا گیا۔ جب ان سے اقتدار چھین لیا گیا تو عوام بھٹو کے عشق میں انتہا تک پہنچ گئے۔ یہ تیسرا جذبہ تھا جو عوام اور قائد عوام کے درمیان تھا۔ اب چوتھے مرحلے یعنی فنا کی آزمائش درپیش تھی۔ چند غریب غربا نے اپنے آپ کو آگ لگاکر سیاسی رومانس کی انتہا کو چھو لیا۔
بہت بڑی اکثریت عشق سے آگے نہ بڑھ سکی۔ جیالوں کا یہ کمزور جذبہ بھٹو کو پھانسی کے پھندے پر جھولنے سے نہ بچاسکا۔ اگر ایک بڑی اکثریت رومانس کے آخری درجے پر ہوتی تو کسی کی جرأت نہ ہوتی کہ بھٹو کو کال کوٹھڑی سے آگے لے جاتا۔ بلیک وارنٹ کا اجرا پیپلزپارٹی کو ہمیشہ شرمندہ کرتا رہے گا کہ وہ بھٹو سے سیاسی رومانس کی انتہا تک کیوں نہ گئے۔ فنا کا جذبہ تاریخ کے اہم موڑ پر جیالوں کے اندر سے کیوں کر فنا ہوگیا۔نواز شریف اور بھٹو کی کہانیاں کافی ملتی جلتی ہیں۔ دونوں نے پہلے پنجاب کے عوام کے دلوں پر دستک دی۔ نواز شریف کے لیے انسیت اس وقت پیدا ہوئی جب وہ صوبائی وزیر تھے۔
یہ محبت میں تب بدلی جب وہ وزیراعلیٰ بنے اور عشق میں اس وقت ڈھل گئی جب وہ دو تہائی اکثریت سے وزیر اعظم بنے۔ جوں جوں عہدے بڑھتے گئے ویسے ویسے سیاسی رومانس کے درجے میں ترقی ہوتی گئی یا رومانس عہدے بڑھاتا رہا۔ جب نواز شریف اقتدار سے اتر گئے اور فنا کے جذبے کی آزمائش کا وقت آیا تو متوالوں نے جیالوں کے نقش قدم پر چل کر ایک جیسی ہی تاریخ رقم کی۔ نعرے لگے تھے کہ ''نواز شریف! قدم بڑھاؤ ہم تمہارے ساتھ ہیں'' جب ساتھ دینے کا وقت آیا تو پیچھے کوئی نہ تھا۔ نئی صدی میں نواز کے حامیوں کا یہ نعرہ ترک کردینا ظاہر کرتا ہے کہ ان کے پر جل جاتے ہیں جب فنا کی منزل آتی ہے۔ شریف کے متوالوں کا نوٹ اور ووٹ سے بڑھ جانا بھی اہم تھا، ان سے فنا کے جذبے کی کبھی توقع رکھی ہی نہ گئی تھی۔
الطاف حسین کے چاہنے والوں کے لیے قائد سے عشق کے مرحلے تک براہ راست رسائی کے مواقع ہیں۔ انسیت اور محبت کے بغیر 78 سے آٹھ سالہ جدوجہد اور پھر چھ سال کامیابی کے تھے۔ جب برا عشرہ آیا تو ابتدائی دور کے ساتھی اور دودھ پینے والے مجنوں ساتھ چھوڑ گئے۔ اس مرحلے سے گزرنے کے بعد ایم کیو ایم کے قائد سے نئے آنے والوں کے لیے انسیت اور محبت کی سیڑھیاں ہٹالی گئیں۔ اب وہ قائد سے رومانس کے لیے براہ راست تیسرے پائیدان پر آجاتے ہیں، عشق کے پائیدان پر۔
الطاف حسین کی جلاوطنی نے ان کے چاہنے والوں کو دو چیزوں سے محروم کردیا ہے۔ قربت اور فرقت سے۔ قائد سے ہاتھ ملاکر، اسے چھو کر اور اس کا لمس محسوس کرکے توانائی پانا البتہ فون پر باتیں، خطاب سننا اور آواز کا لطف اٹھانا جاری ہے۔ متحدہ کے قائد کی وطن سے دوری نے ان کے کارکنوں کو قائد کی گرفتاری کے خطرے کے خدشے سے آزاد کردیا ہے۔ یوں نئے لوگوں کو کوئی آزمائش درپیش نہیں آئی جیسی جیالوں اور متوالوں کو پیش آئی تھیں۔ جب تنظیم پر برا وقت آیا تو جانثاروں نے اسی حد تک قربانیاں دیں جو جیالوں اور متوالوں نے دی تھیں۔
عمران خان سے پاکستانی عوام کا عشق تین مرحلوں میں طے ہوا ہے۔ پہلا بطور کرکٹر، پھر سماجی کارکن اور آخر میں ایک سیاسی لیڈر کے۔ 76 میں سڈنی میں انسیت، 87 کے ورلڈکپ میں محبت اور ورلڈ کپ کی کامیابی پر عشق۔ ایسے ہی مراحل شوکت خانم اسپتال اور نمل یونیورسٹی کے مواقع پر پیش آئے۔ نومبر 11 سے پہلے انسیت، اس کے بعد محبت اور انتخاب کے مواقع پر عشق کے مراحل۔ بھٹو، نواز شریف اور الطاف حسین جیسے تین لیڈر تین مراحل کو عبور کرچکے ہیں۔
کیا عمران خان رومانس کا چوتھا جذبہ عبور کر پائیں گے؟ کیا فنا کے جذبے کے حامل کارکنان ان کے پاس ہیں جو مقصد کی خاطر جان قربان کرپائیں؟ تحریک پاکستان، تحریک ختم نبوت اور تحریک نظام مصطفیٰ کے مواقع پر دیکھا گیا تھا چوتھا جذبہ، فنا کا جذبہ، جان قربان کردینے کا جذبہ۔ وہ جذبہ جسے کہا جاسکتا ہے قربانی دینے کی انتہا۔ افراد کے گرد گھومتی پاکستانی سیاست میں انسیت، محبت اور عشق کا جذبہ تو نظر آتا ہے لیکن فنا کا جذبہ نظر نہیں آتا۔ فنا کا جذبہ اور جان قربان کردینے کا جذبہ۔ عظیم اور بڑے مقصد کی خاطر۔ جان جان آفرین کو پیش کردینا۔ یہ کہتے ہوئے کہ جان دی، دی ہوئی اسی کی تھی۔ جان دینا قربانی دینے کی انتہا ہوتی ہے۔ انتہا سیاسی رومانس کی۔