تو منا لی عید آپ نے
سارا رمضان، سیاست، روزوں اور پھر عید کے حوالے سے فاورڈ کیے گئے اختلافی اور مزاحیہ پیغامات نے خوب ستایا۔
آپ سب کو میری طرف سے عید سعید مبارک ہو، انتہا کی گرمی... موسم کی، رویوں کی، سیاست کی، مہنگائی کی، افواہوں کی مگر وقت کا پہیہ تونہیں رکتا اور ماہ رمضان تمام ہوا، عید سعید آ گئی... ہر سال کی طرح ہم نے روایت قائم رکھی دنیا سے الگ عید منا کر۔ جانے یہ چاند بھی مشرق وسطی تک پہنچ کر رک کیوں گیا اور ہمارے ''چشم بین'' اسے دیکھ نہ سکے، دنیا کی ہر ایجاد اور ٹیکنالوجی کو اپنا کر بھی ہم نے اس ٹیکنالوجی سے نظریں چرا رکھی ہیں ورنہ رویت ہلال کمیٹی کے اخراجات کا کیا جواز ہو گا، انھیں بھی تو اپنی موجودگی کا جواز دینا اور اپنے عوضانے حلال کرنا ہوتے ہیں۔
بدھ سے ہی سائنسی جواز کے ساتھ اطلاعات آنا شروع ہو گئی تھیں کہ عید امسال جمعے کو ہی ہو گی۔ ماضی میں ایسی مثالیں موجود ہیں جب حکمرانوں نے عید کے ساتھ جمعے کے خطبے کو حکمرانوں پر بھاری جانتے ہوئے خواہ مخواہ میں بھی چاند دکھا دیا تھا اور رویت ہلال کمیٹی کے اعلان کو رد کرتے ہوئے رات بارہ بجے کے بعد، عید کا اعلان کر دیا تھا۔
سحری کے لیے معمول کے مطابق جاگنے والے لوگوں کو مساجد کے اسپیکروں پر نماز عید کے اوقات کے اعلانات سنائی دیے تو علم ہوا کہ حکومت کو رات دیر سے کہیں چاند نظر آ گیا ہے۔ اس وقت تو کوئی ایسے حکمران نہیں کہ جنھیں فکر ہو دو خطبوں کے بھاری ہونے کی، انھیں کیا فرق پڑنے والا ہے کہ وہ تو یوں بھی عارضی ہیں اور ابھی تک اکھاڑ پچھاڑ جاری ہے۔ سو عید ہفتے کے روز منائے جانے کا اعلا ن سن کر، جو دودھ شیر خورمے کے لیے منگوایا تھا، اسی کو دہی سے جاگ لگا دی کہ سحری میں لسی بن جائے گی۔
احتیاطا استری کرلیے جانے والے کپڑوں کی وجہ سے جمعۃ الوداع کو دن کو مزید عبادات کے لیے وقت مل گیا اور ان خواتین کو امید بندھ گئی کہ درزی اب ان کے نئے جوڑے سی دینگے۔ جانے ہم عورتیں کیوں اس دن تک خوار ہونے کا انتظار کرتی ہیں کہ عید سے ایک دن پہلے تک درزیوں کے منتیں ترلے کر رہی ہوتی ہیں، رمضان سے پہلے کیا عید کا جوڑا نہیں سلوایا جا سکتا یا پھر یہ کہ ہمیں اس وقت تک علم نہیںہوتا کہ رمضان کے بعد عید بھی آئیگی۔
سارا رمضان، سیاست، روزوں اور پھر عید کے حوالے سے فاورڈ کیے گئے اختلافی اور مزاحیہ پیغامات نے خوب ستایا، جانے وہ وقت ہم کسی بہتر کام کے لیے کیوں وقف نہیں کر سکتے۔ امسال تو رمضان میں انتخابات 2018 ء کے سلسلے میں کاغذات نامزدگی، وفاداریوں کی تبدیلی، جانے والی حکومت کے قصے اور آنے والی کے قیافے، بھر پور موضوعات تھے جنہوں نے جی بھر کرکنفیوز کر رکھا ہے۔ لاکھ ہم ایک دوسرے کو سمجھا رہے ہیں کہ اب کے ووٹ سوچ کر دینا ہے مگر ہو گا کیا!! جب نتیجہ آئے گا تو آپ بھی دیکھ لینا کہ کیا فرق پڑا ہے... وہی چہرے ہوں گے اور وہی ان کے کام، بس پارٹی کا لیبل اس بار کے انتخابات کے لیے تبدیل ہو گاچند برسوں کے لیے۔
بجلی کی لوڈ شیڈنگ نے خوب ستایا، اب کے نہ کوئی وقت تھا نہ دورانئے کا تعین، جب جی چاہتا تھا بجلی کی آنکھ مچولی جاری ہو جاتی تھی ۔ماحولیات کے حوالے سے فکریں عروج پر ہیں، موسموں میں تبدیلی میں ہمارا کیا کردار ہے، ہم اس گلوبل وارمنگ میں کس حد تک قصور وار اور حصہ دار ہیں، اس کے بارے میں آگاہی مہم چل رہی ہے۔ ہم نے تو ہر خطہ زمین سے درختوں کا خاتمہ کر دیا ہے اور کنکریٹ کے گھنے جنگل کھڑے کر دیے ہیں ۔
جس سے ماحول میں آلودگی اور درجہ ء حرارت میں شدید اضافہ ہو رہا ہے۔ پانی کی قلت کیوں ہو رہی ہے کیونکہ ہم جنھیں پانی میسر ہے وہ اس خطرے کو foresee نہیں کر رہے جو ہمیں لاحق ہونے والا ہے کیونکہ ہم ان لوگوں کے مسائل سے چشم پوشی کر لیتے ہیں جو ایک ایک بوند پانی کو ترستے ہیں اور سوچتے نہیں کہ ہم بھی ان جیسے ہو سکتے ہیں، بلکہ اس طرح ہونے میں ان کا قصور کم اور ہمارا زیاد ہے جو ا س پانی کے ایک ایک قطرے کو احتیاط سے استعمال نہیں کرتے۔ ڈریں اس وقت سے، سوچیں کہ ہمارے بچے کل کو کیا کریں گے!!!
مہنگائی کا طوفان تو بپا رہا مگر ہم نے بھی بڑی ڈھٹائی سے ہر اس جنس کو جی بھر کر کھایا جو مہنگی ہوتی جا رہی تھی۔ اول رمضان سے ساڑھے تین سو روپے کلو کے لیموں سے لے کر آخر رمضان تک آتے آتے سارھے تین سو روپے کلو کی مرغی تک... پھل، سبزیاں، بیسن، میدہ، جلیبی، سموسے اور تو اور معمول میں بیس روپے فی کس کی پودینے اور دھنیے کی گٹھی پورا رمضان پچاس روپے فی کس لے کر بھی ہم سوچتے رہے کہ ہم فائدے میں رہے کیونکہ بہت سی جگہوں پر تو اس گٹھی کو ''ڈاؤن سائز'' بھی کردیا گیا تھا۔
ہمارے ملک کے تاجر حضرات اس با برکت مہینے کی برکتوں سے خوب ''فیضیاب'' ہوتے ہیں، اتنے کہ سال بھر انھیں کم منافع بھی گوارا ہوتا ہے۔ اصل عید تو انھی کی ہوتی ہے جنہوں نے عوام کو اس ایک مہینے میں دونوں ہاتھوں سے لوٹا ہوتا ہے اور ہم کون سا ایسے عقلمند ہیں کہ لٹنے سے بچ جائیں ... ہم تو آخری روزے تک خریداری کرتے ہیں، عید کی خریداری کے نام پر کہ ' جو بچا تھا وہ بھی لٹانے کے لیے آئے ہیں!! ''
باقی کباڑا عیدی دینے میں ہو جاتا ہے... سو پچاس میں خوش ہو جانے والے بچے اب ہرے نوٹ سے بھی خوش نہیں ہوتے، انھیں بھی کم از کم نیلا نوٹ چاہیے اور اگر آپ کا تعلق سفید پوش طبقے سے اوپر کے طبقے سے ہے تو براؤن رنگ کا نوٹ بھی بمشکل ہی خوش کرتا ہے، انھیں عیدی دے کر بڑے خود مہینے کے باقی دن گننے لگتے ہیں۔ اب عید، جو کہ لفظی معانی کے اعتبار سے خوشی کا دن ہوتا ہے... ہر ایک کے لیے خوشی کا دن نہیں ہوتا، نہ خاتون خانہ کے لیے نہ صاحب خانہ کے لیے۔ مسائل کی چکی میں پستے ہر دن کو صبح سے شام اور شام کو صبح کرتے، ایک جیب سے نوٹ نکال کر کسی ایک ضرورت کا منہ ڈھانپتے اور اگلی ضرورت کے لیے پریشان ہوتے ہوئے ہی عمر گزرتی جا رہی ہے۔ سفید پوش طبقہ اب اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھنے سے بھی قاصر لگنے لگا ہے۔ ان کے لیے تو زندگی کسی مفلس کی قبا ہے کہ جس میں پیوند لگاتے اور رفو گری کرتے ہوئے انگلیاں فگار ہوئی جا رہی ہیں۔
عید خالی اپنی ہی خوشی کا نام نہیں ہے، اپنی خوشیوں میں دوسروں کو شامل کرنے کا نام بھی ہے... بالخصوص وہ جو خود اپنے حالات سے خوشیاں کشید کرنے کے اہل نہیں، وہ جو ہم سے مالی لحاظ سے کمتر ہیں، وہ جن کے لیے صبح سے شام کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے اور وہ ن کی سانسیں بھی کسی نہ کسی مجبوری کے باعث گروی رکھی ہوئی ہیں۔ اپنی خوشی تو ہم کسی نہ کسی طرح کشید کر ہی لیتے ہیں مگر ہمارے پاس مثالیں موجود ہیں کہ ہمارے نبیء اکرمﷺ نے عید کی حقیقی خوشی سے کن لوگوں کو فیضیاب کیا، وہ جو محروم تھے اور ان کے پاس کچھ نہ تھا، ماں باپ تک نہیں تو انھی کی ذات گرامیﷺ تھی کہ ان بچوں کے سر پر دست شفقت رکھ کر انھیں کہا کہ وہ انھیں اپنا باپ سمجھیں اور انھیں عید کی خوشیوں میں شامل کرنے کے لیے اپنے گھر لے گئے۔ کیا ہم اپنے کھانے میں بھی کسی غریب کو شامل کرتے ہیں؟ اپنے خاندان میں ان گھروں کو یاد رکھتے ہیں جہاں بیوہ عورتیں اور یتیم و بے سہارا بچے ہوتے ہیں؟ کیا ہم اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ ہمارے ہمسائے میں بسنے والے چالیس چالیس گھروں میں کوئی بھوکا تو نہیں رہا یا اسے عید کے دن نئے کپڑے تک نصیب نہیں ہوئے؟
ہم اپنی ہی ذات کے نفع نقصان کے شمار میں مصروف ہو گئے ہیں، ہمارے لیے خوشی کا مطلب صرف وہ مسکراہٹ ہے جو ہمارے اپنوں کے ہونٹوں پر چمکتی ہے... عید کا چاند صرف ہمارے آنگن میں اترتا ہے اور اوراس کی چمک سے مستفید ہونے کا حق فقط ہمارا ہی ہے۔ روز عیدکسی یتیم خانے میں اچھا کھانا بھجوا دیں، کسی غریب کے بچوں کو عیدی دے دیں جس کی توقع اسے کہیں سے نہ ہو۔ اپنے فطرانہ کی رقم سے، قبل از عید کسی ایک گھر میں سامان خور و نوش بھجوا دیں جہاں عید کے دن اس لیے فاقہ ہونا ہو کہ اس گھر کے کفیل کو اس دن مزدوری نہیں ملے گی۔ ہم خود ایسی مثالیں قائم کریں گے تو کل کو ہمارے بچے ان روایات کو لے کر آگے چلیں گے ورنہ یقین کریں کہ ان کے لیے عید کا مطلب صرف اپنے بستر پر لیٹے لیٹے ہی ٹیلی فون سے عید مبارک کے پیغامات کو فاورڈ کر کے، واپس نیند کی وادیوں میں اتر کر دن گزارنا رہ جائے گا!!
بدھ سے ہی سائنسی جواز کے ساتھ اطلاعات آنا شروع ہو گئی تھیں کہ عید امسال جمعے کو ہی ہو گی۔ ماضی میں ایسی مثالیں موجود ہیں جب حکمرانوں نے عید کے ساتھ جمعے کے خطبے کو حکمرانوں پر بھاری جانتے ہوئے خواہ مخواہ میں بھی چاند دکھا دیا تھا اور رویت ہلال کمیٹی کے اعلان کو رد کرتے ہوئے رات بارہ بجے کے بعد، عید کا اعلان کر دیا تھا۔
سحری کے لیے معمول کے مطابق جاگنے والے لوگوں کو مساجد کے اسپیکروں پر نماز عید کے اوقات کے اعلانات سنائی دیے تو علم ہوا کہ حکومت کو رات دیر سے کہیں چاند نظر آ گیا ہے۔ اس وقت تو کوئی ایسے حکمران نہیں کہ جنھیں فکر ہو دو خطبوں کے بھاری ہونے کی، انھیں کیا فرق پڑنے والا ہے کہ وہ تو یوں بھی عارضی ہیں اور ابھی تک اکھاڑ پچھاڑ جاری ہے۔ سو عید ہفتے کے روز منائے جانے کا اعلا ن سن کر، جو دودھ شیر خورمے کے لیے منگوایا تھا، اسی کو دہی سے جاگ لگا دی کہ سحری میں لسی بن جائے گی۔
احتیاطا استری کرلیے جانے والے کپڑوں کی وجہ سے جمعۃ الوداع کو دن کو مزید عبادات کے لیے وقت مل گیا اور ان خواتین کو امید بندھ گئی کہ درزی اب ان کے نئے جوڑے سی دینگے۔ جانے ہم عورتیں کیوں اس دن تک خوار ہونے کا انتظار کرتی ہیں کہ عید سے ایک دن پہلے تک درزیوں کے منتیں ترلے کر رہی ہوتی ہیں، رمضان سے پہلے کیا عید کا جوڑا نہیں سلوایا جا سکتا یا پھر یہ کہ ہمیں اس وقت تک علم نہیںہوتا کہ رمضان کے بعد عید بھی آئیگی۔
سارا رمضان، سیاست، روزوں اور پھر عید کے حوالے سے فاورڈ کیے گئے اختلافی اور مزاحیہ پیغامات نے خوب ستایا، جانے وہ وقت ہم کسی بہتر کام کے لیے کیوں وقف نہیں کر سکتے۔ امسال تو رمضان میں انتخابات 2018 ء کے سلسلے میں کاغذات نامزدگی، وفاداریوں کی تبدیلی، جانے والی حکومت کے قصے اور آنے والی کے قیافے، بھر پور موضوعات تھے جنہوں نے جی بھر کرکنفیوز کر رکھا ہے۔ لاکھ ہم ایک دوسرے کو سمجھا رہے ہیں کہ اب کے ووٹ سوچ کر دینا ہے مگر ہو گا کیا!! جب نتیجہ آئے گا تو آپ بھی دیکھ لینا کہ کیا فرق پڑا ہے... وہی چہرے ہوں گے اور وہی ان کے کام، بس پارٹی کا لیبل اس بار کے انتخابات کے لیے تبدیل ہو گاچند برسوں کے لیے۔
بجلی کی لوڈ شیڈنگ نے خوب ستایا، اب کے نہ کوئی وقت تھا نہ دورانئے کا تعین، جب جی چاہتا تھا بجلی کی آنکھ مچولی جاری ہو جاتی تھی ۔ماحولیات کے حوالے سے فکریں عروج پر ہیں، موسموں میں تبدیلی میں ہمارا کیا کردار ہے، ہم اس گلوبل وارمنگ میں کس حد تک قصور وار اور حصہ دار ہیں، اس کے بارے میں آگاہی مہم چل رہی ہے۔ ہم نے تو ہر خطہ زمین سے درختوں کا خاتمہ کر دیا ہے اور کنکریٹ کے گھنے جنگل کھڑے کر دیے ہیں ۔
جس سے ماحول میں آلودگی اور درجہ ء حرارت میں شدید اضافہ ہو رہا ہے۔ پانی کی قلت کیوں ہو رہی ہے کیونکہ ہم جنھیں پانی میسر ہے وہ اس خطرے کو foresee نہیں کر رہے جو ہمیں لاحق ہونے والا ہے کیونکہ ہم ان لوگوں کے مسائل سے چشم پوشی کر لیتے ہیں جو ایک ایک بوند پانی کو ترستے ہیں اور سوچتے نہیں کہ ہم بھی ان جیسے ہو سکتے ہیں، بلکہ اس طرح ہونے میں ان کا قصور کم اور ہمارا زیاد ہے جو ا س پانی کے ایک ایک قطرے کو احتیاط سے استعمال نہیں کرتے۔ ڈریں اس وقت سے، سوچیں کہ ہمارے بچے کل کو کیا کریں گے!!!
مہنگائی کا طوفان تو بپا رہا مگر ہم نے بھی بڑی ڈھٹائی سے ہر اس جنس کو جی بھر کر کھایا جو مہنگی ہوتی جا رہی تھی۔ اول رمضان سے ساڑھے تین سو روپے کلو کے لیموں سے لے کر آخر رمضان تک آتے آتے سارھے تین سو روپے کلو کی مرغی تک... پھل، سبزیاں، بیسن، میدہ، جلیبی، سموسے اور تو اور معمول میں بیس روپے فی کس کی پودینے اور دھنیے کی گٹھی پورا رمضان پچاس روپے فی کس لے کر بھی ہم سوچتے رہے کہ ہم فائدے میں رہے کیونکہ بہت سی جگہوں پر تو اس گٹھی کو ''ڈاؤن سائز'' بھی کردیا گیا تھا۔
ہمارے ملک کے تاجر حضرات اس با برکت مہینے کی برکتوں سے خوب ''فیضیاب'' ہوتے ہیں، اتنے کہ سال بھر انھیں کم منافع بھی گوارا ہوتا ہے۔ اصل عید تو انھی کی ہوتی ہے جنہوں نے عوام کو اس ایک مہینے میں دونوں ہاتھوں سے لوٹا ہوتا ہے اور ہم کون سا ایسے عقلمند ہیں کہ لٹنے سے بچ جائیں ... ہم تو آخری روزے تک خریداری کرتے ہیں، عید کی خریداری کے نام پر کہ ' جو بچا تھا وہ بھی لٹانے کے لیے آئے ہیں!! ''
باقی کباڑا عیدی دینے میں ہو جاتا ہے... سو پچاس میں خوش ہو جانے والے بچے اب ہرے نوٹ سے بھی خوش نہیں ہوتے، انھیں بھی کم از کم نیلا نوٹ چاہیے اور اگر آپ کا تعلق سفید پوش طبقے سے اوپر کے طبقے سے ہے تو براؤن رنگ کا نوٹ بھی بمشکل ہی خوش کرتا ہے، انھیں عیدی دے کر بڑے خود مہینے کے باقی دن گننے لگتے ہیں۔ اب عید، جو کہ لفظی معانی کے اعتبار سے خوشی کا دن ہوتا ہے... ہر ایک کے لیے خوشی کا دن نہیں ہوتا، نہ خاتون خانہ کے لیے نہ صاحب خانہ کے لیے۔ مسائل کی چکی میں پستے ہر دن کو صبح سے شام اور شام کو صبح کرتے، ایک جیب سے نوٹ نکال کر کسی ایک ضرورت کا منہ ڈھانپتے اور اگلی ضرورت کے لیے پریشان ہوتے ہوئے ہی عمر گزرتی جا رہی ہے۔ سفید پوش طبقہ اب اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھنے سے بھی قاصر لگنے لگا ہے۔ ان کے لیے تو زندگی کسی مفلس کی قبا ہے کہ جس میں پیوند لگاتے اور رفو گری کرتے ہوئے انگلیاں فگار ہوئی جا رہی ہیں۔
عید خالی اپنی ہی خوشی کا نام نہیں ہے، اپنی خوشیوں میں دوسروں کو شامل کرنے کا نام بھی ہے... بالخصوص وہ جو خود اپنے حالات سے خوشیاں کشید کرنے کے اہل نہیں، وہ جو ہم سے مالی لحاظ سے کمتر ہیں، وہ جن کے لیے صبح سے شام کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے اور وہ ن کی سانسیں بھی کسی نہ کسی مجبوری کے باعث گروی رکھی ہوئی ہیں۔ اپنی خوشی تو ہم کسی نہ کسی طرح کشید کر ہی لیتے ہیں مگر ہمارے پاس مثالیں موجود ہیں کہ ہمارے نبیء اکرمﷺ نے عید کی حقیقی خوشی سے کن لوگوں کو فیضیاب کیا، وہ جو محروم تھے اور ان کے پاس کچھ نہ تھا، ماں باپ تک نہیں تو انھی کی ذات گرامیﷺ تھی کہ ان بچوں کے سر پر دست شفقت رکھ کر انھیں کہا کہ وہ انھیں اپنا باپ سمجھیں اور انھیں عید کی خوشیوں میں شامل کرنے کے لیے اپنے گھر لے گئے۔ کیا ہم اپنے کھانے میں بھی کسی غریب کو شامل کرتے ہیں؟ اپنے خاندان میں ان گھروں کو یاد رکھتے ہیں جہاں بیوہ عورتیں اور یتیم و بے سہارا بچے ہوتے ہیں؟ کیا ہم اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ ہمارے ہمسائے میں بسنے والے چالیس چالیس گھروں میں کوئی بھوکا تو نہیں رہا یا اسے عید کے دن نئے کپڑے تک نصیب نہیں ہوئے؟
ہم اپنی ہی ذات کے نفع نقصان کے شمار میں مصروف ہو گئے ہیں، ہمارے لیے خوشی کا مطلب صرف وہ مسکراہٹ ہے جو ہمارے اپنوں کے ہونٹوں پر چمکتی ہے... عید کا چاند صرف ہمارے آنگن میں اترتا ہے اور اوراس کی چمک سے مستفید ہونے کا حق فقط ہمارا ہی ہے۔ روز عیدکسی یتیم خانے میں اچھا کھانا بھجوا دیں، کسی غریب کے بچوں کو عیدی دے دیں جس کی توقع اسے کہیں سے نہ ہو۔ اپنے فطرانہ کی رقم سے، قبل از عید کسی ایک گھر میں سامان خور و نوش بھجوا دیں جہاں عید کے دن اس لیے فاقہ ہونا ہو کہ اس گھر کے کفیل کو اس دن مزدوری نہیں ملے گی۔ ہم خود ایسی مثالیں قائم کریں گے تو کل کو ہمارے بچے ان روایات کو لے کر آگے چلیں گے ورنہ یقین کریں کہ ان کے لیے عید کا مطلب صرف اپنے بستر پر لیٹے لیٹے ہی ٹیلی فون سے عید مبارک کے پیغامات کو فاورڈ کر کے، واپس نیند کی وادیوں میں اتر کر دن گزارنا رہ جائے گا!!