اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے

ملکی سیاست کے اُن کرداروں کا احوال‘ سیاسی وابستگی کی تبدیلی جن کے تعارف کا حصہ بن چکا ہے

ملکی سیاست کے اُن کرداروں کا احوال‘ سیاسی وابستگی کی تبدیلی جن کے تعارف کا حصہ بن چکا ہے فوٹو: فائل

پاکستان کی سیاست میں پارٹیاں بدلنا سیاست دانوں کا وطیرہ رہا ہے۔پارٹی تبدیل کرنا دوسرے لفظوں میں وفاداری تبدیل کرنا ہوتا ہے۔

ترقی یافتہ جمہوری معاشروں میں پارٹی رہنمائوں کی وفاداری دراصل اپنی جماعت کے پروگرام اور منشور کے ساتھ ہوتی ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک میں شخصیات کو سیاسی پروگرام پر فیصلہ کن فوقیت حاصل ہے اس لیے وفاداری بھی کسی شخصیت کے ساتھ ہوتی ہے اور پارٹی کو چھوڑنے کا فیصلہ بھی زیادہ تر اصولوں کے بجائے ذاتی مفادات کے تابع ہوتا ہے۔دلچسپ امر یہ ہے کہ جو بھی سیاست دان ایک پارٹی بدل کر دوسری پارٹی میں جاتا ہے تو وہ ہمیشہ یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اس نے یہ عمل نیک نیتی پر مبنی اصولی بنیادوں پر کیا یا اس نے ایسا فلاں اور فلاں وجوہات کے باعث کیالیکن ہر کوئی جانتا ہے کہ پاکستانی سیاست میں ''نیک نیتی ''یا پھر ''اصول'' کس شے کو کہتے ہیں۔

لہٰذا عملی طور پر یہ سب کچھ سیاسی وذاتی مفادات اور دیگر فوائد کے لیے کیا جاتا ہے۔عام طور پر سیاست دان پارٹی اس وقت بدلتے ہیں جب اپنی سیاسی پارٹی میں ان کی پوزیشن کمزور پڑتی دکھائی دیتی ہے یا ایسا اس وقت کیا جاتا ہے جب کوئی ایسی پارٹی ابھرتی دکھائی دیتی ہے جس کی جیت کے روشن امکانات دکھائی دے رہے ہوتے ہیں۔کبھی کوئی سیاست دان ایسی پارٹی میں شمولیت اختیار نہیں کرتا جو اقتدار میں آنے کے امکانات نہیں رکھتی چاہے اصولی اور اخلاقی طور پر یہ پارٹی کتنے ہی بلند کردار اور معیار کی حامل کیوں نہ ہو۔ وطن عزیز میں ایسے سیاست دانوں کی کوئی کمی نہیں جو آئے روز پارٹیاں بدلتے ہیں اور کبھی کسی پارٹی اور کبھی کسی پارٹی کے ساتھ شامل ہوکر اقتدار کے مزے لوٹتے ہیں۔اس اشاعت میں ان اہم سیاسی شخصیات کا ذکر ہے جنہوں نے ایک یا ایک سے زیادہ سیاسی جماعتیں تبدیلی کیں۔

شاہ محمود قریشی

مخدوم شاہ محمود قریشی نامور سیاست دان ہیں اور ان کا تعلق ملتان کے ایک اہم مذہبی و سیاسی خاندان سے ہے۔ان کے والد مخدوم سجاد حسین قریشی سابق گورنر پنجاب تھے۔وہ درگاہ شاہ رکن عالم اور دربار حضرت بہائوالدین زکریا کے سجادہ نشین تھے۔شاہ محمود قریشی کی طرح ان کے والد سجاد حسین قریشی نے بھی اپنے سیاسی کیرئیر کے دوران وفاداری تبدیل کی۔مثال کے طور پر وہ ستر کی دہائی میں بھٹو کی قیادت میں پیپلزپارٹی کے اہم سیاست دان تھے لیکن جب جنرل ضیاء الحق نے بھٹو کو پھانسی دی تو وہ ڈکٹیٹر ضیاء الحق کے ساتھ مل گئے جس نے انہیں پنجاب کا گورنر بنادیا۔

جہاں تک ان کے بیٹے شاہ محمود قریشی کا تعلق ہے تو انہوں نے اپنے سیاسی کیرئیر کے دوران کئی پارٹیاں تبدیل کیں۔ان کا سیاسی کیرئیر بھی اتار چڑھائو کا شکار رہا۔وہ اپنے سیاسی کیرئیر کی ابتداء سے لیکر اب تک پارٹیاں بدلتے رہے۔صرف چند سال قبل تک وہ پیپلزپارٹی کا حصہ تھے اور اب تحریک انصاف میں شامل ہیں۔

انہوں نے غیر جماعتی انتخابات سے اپنے کیرئیر کا آغاز کیا۔اس کے بعد وہ جونیجو لیگ میں شامل ہوئے۔پھر مسلم لیگ(ن) میں چھلانگ لگائی۔ اس کے بعد پیپلزپارٹی کو جوائن کیا اور اب تحریک انصاف میں اپنی سیاست چمکارہے ہیں۔تفصیل اس اجمال کی کچھ یوں ہے:

وہ غیر جماعتی انتخابات کے نتیجے میں پہلی بار 1985ء میں ملتان سے پنجاب اسمبلی کے رکن بنے۔پھر وہ 1986ء میں مسلم لیگ جونیجو میں شامل ہوگئے۔ضیاء الحق کی موت کے بعد مسلم لیگ جونیجو گروپ کی تقسیم عمل میں آئی اور نوازشریف کی قیاد ت میں دوسرا دھڑا وجود میں آیا جو اب مسلم لیگ (ن) کہلاتا ہے، تو وہ اس میں شامل ہوگئے۔1988ء میں وہ ایک بار پھر ملتان سے پنجاب اسمبلی کے رکن بنے اور 1988-1990 میں نواز شریف کی کابینہ میں شامل ر ہے۔

1990-1993 کے دوران شاہ محمود قریشی وزیراعلیٰ نوازشریف کی کابینہ میں وزیرخزانہ کے عہدے پر رہے۔پھر 1993ء میں انہوں نے نواز شریف سے بھی راہیں جدا کرلیں اور پیپلزپارٹی میں شامل ہوگئے۔1993 ء کے عام انتخابات میں وہ ملتان سے قومی اسمبلی کے رکن بنے اور بے نظیر بھٹو کی کابینہ میں شامل رہے۔1997 کے عام انتخابات میں وہ مخدوم جاوید ہاشمی سے شکست کھاگئے۔2000سے 2002 کے دوران وہ ملتان کے ڈسٹرکٹ ناظم رہے۔ 2002 اور 2008 کے انتخابات میں بھی وہ پیپلزپارٹی کی طرف سے قومی اسمبلی کے رکن بنے۔2006ء میں بے نظیر بھٹو نے انہیں پیپلزپارٹی پنجاب کا صدر بنادیا۔

2008کے عام انتخابات کے بعد شاہ محمود قریشی کے بارے میں کہا جارہا تھا کہ وہ پیپلزپارٹی کی مخلوط حکومت میں وزیراعظم کے عہدے کے امیدوار ہیں تاہم پیپلزپارٹی کی جانب سے ان کے بجائے یوسف رضاگیلانی کو وزیراعظم بنادیا گیا۔ نومبر 2011ء میں شاہ محمود قریشی نے پیپلزپارٹی کو بھی چھوڑ دیا اور قومی اسمبلی کی نشست سے بھی استعفیٰ دیدیا۔اب وہ عمران خان کی زیرقیادت تحریک انصاف کا حصہ ہیں اور اس کے وائس چیئرمین ہیں۔



جاوید ہاشمی

ملتان سے تعلق رکھنے والے جاوید ہاشمی بھی ملک کے ایک نمایاں سیاست دان ہیں۔انہوں نے اپنے سیاسی کیرئیر کا آغاز جماعت اسلامی کے طلباء ونگ سے کیا۔ان پر ایک ساتھی طالب علم کے قتل کا الزام بھی عائد کیا گیا لیکن عدالت نے انہیں بے گناہ قرار دے دیا۔

بعدازاں انہوں نے اس وقت نواز شریف کا ہاتھ تھاما جب ان کا عروج تھا۔یہ 1985 کا زمانہ تھا۔ 1985 سے 1988تک وہ قومی اسمبلی کے رکن رہے۔1997-1999تک نوازشریف کی حکومت میں وہ وزیرمملکت برائے امور نوجواناں رہے۔بدنام زمانہ مہران بینک سکینڈل میں بھی ان کا نام آیا۔اس طرح نوازشریف کے دور میں ہی وہ وزیر صحت بھی رہے۔مشرف کے دور میں وہ پانچ سال جیل میں رہے۔مسلم لیگ ن میں اہم عہدوں پر رہنے کے باوجود آخرکار انہوں نے بھی وفاداری تبدیل کی اور عمران خان کی قیادت میں تحریک انصاف میں آگئے۔اس وقت وہ تحریک انصاف پاکستان کے صدر ہیں۔

منظور وٹو

میاں منظور وٹو پنجاب کے اہم سیاست دانوں میں شمار ہوتے ہیں۔ضیاء دور میں 1983 کے غیر جماعتی انتخابات کے نتیجے میں وہ ضلع کونسل اوکاڑہ کے چیئرمین منتخب ہوئے۔1985میں وہ پنجاب اسمبلی کے سپیکر بنے۔اس وقت وہ مسلم لیگ میں شامل تھے ۔مسلم لیگ جونیجو کی طرف سے وہ اس وقت پنجاب کے وزیراعلیٰ بنے جب مسلم لیگ ن کے وزیراعلیٰ غلام حیدر وائیں کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی۔مجموعی طور پر وہ دو مرتبہ پنجاب کے وزیراعلیٰ بنے۔

1995 میں وٹو نے حامد ناصر چٹھہ سے علیحدہ ہوکر اپنی مسلم لیگ جناح قائم کی۔وٹو کا سیاسی کیرئیر زبردست اتار چڑھائو کا شکار رہا۔ اس میں کبھی تخت اور کبھی تختہ ہوتا رہا۔اقتدار کے ساتھ ساتھ جیلوں کا بھی سامنا رہا۔مثال کے طور پر احتساب عدالت کی طرف سے کرپشن کے الزام میں وٹو کو سزا کا سامنا کرنا پڑا تاہم اعلیٰ عدالت کی جانب سے انہیں بری کردیا گیا۔منظور وٹو اور ان خاندان اوکاڑہ کی سیاست پر چھایا رہا ہے۔ان کے بیٹے خرم جہانگیر وٹو ضلع کی سب سے گنجان آباد تحصیل دیپالپور کے ناظم بھی منتخب ہوچکے ہیں جبکہ ان کی بیٹی روبینہ شاہین وٹو مسلم لیگ ق کی جانب سے قومی اسمبلی کی رکن رہ چکی ہیں۔وٹو نے جب مشرف کے ہاتھوں میں ہاتھ دیا تو اس قدر وفاداری دکھائی کہ اپنی مسلم لیگ جنا ح کو ان کی مسلم لیگ ق میں مدغم کردیا۔

چودھری برادران سے اختلافات کے باوجود منظور وٹو نومبر 2007 ء تک قاف لیگ میں شامل رہے۔ 2008ء کے انتخابات کے سلسلے میں وٹو نے قاف لیگ کو چھوڑ دیا اور آزاد حیثیت سے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا۔فروری کے انتخابات میں دوحلقوں این اے 146اور 147 سے کامیابی کے بعد مئی 2008 ء میں وٹو نے ایک بڑی کروٹ بدلی اور پیپلزپارٹی میں شامل ہوگئے۔اس وقت وہ پیپلزپارٹی پنجاب کے صدر ہیں۔

شیخ رشید

شیخ رشید پاکستان کے مشہور سیاست دان ہیں۔اپنے انداز گفتگو اور خیالات کے اچھوتے اظہارکی وجہ سے وہ ملک بھر میں جانے جاتے ہیں۔ شیخ رشید نے اپنے سیاسی کیرئیر کا آغاز بلدیاتی سیاست سے کیا۔1985ء میں وہ آزاد امیدوار کی حیثیت سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور پھر مسلم لیگ میں شامل ہوگئے۔اس کے بعد وہ چھ بار ایم این اے منتخب ہوئے۔

شیخ رشید نے بھی اپنے سیاسی کیرئیر کے دوران متعدد بار پارٹیاں تبدیل کیں۔وہ ابتدا میں تحریک استقلال میں شامل رہے۔بعدازاں مسلم لیگ میں آگئے۔مسلم لیگ جب تقسیم ہوئی تو وہ مسلم لیگ کے اس دھڑے میں آئے جس کے قائد نواز شریف تھے۔ان کا شمار نوازشریف کے وفادار ترین ساتھیوں میں رہا۔لیکن پھر دونوں نے راستے جدا کرلیے ۔اس فعل پر انہیں طعن وتشیع کا سامنا کرنا پڑا اور لوگوں نے انہیں ''راولپنڈی کا لوٹا'' تک قرار دیا۔اکتوبر 2002 کے الیکشن کے بعد وہ مسلم لیگ ق میں شامل ہوگئے جو اس ڈکٹیٹر کی پارٹی تھی جس نے نواز شریف کی حکومت کا تختہ ا لٹا تھا۔ پھر وہ مشرف کے زبردست حامی بن گئے۔انہیں اپنے سیاسی کیرئیر کے دوران اقتدار کے مزے لوٹنے کے ساتھ ساتھ قید وبند کی صعوبتوں کا سامنا بھی رہا۔کلاشنکوف کیس میں وہ دو سال بہاولپور کی جیل میں رہے۔شیخ رشید اپنے عوامی سٹائل کی وجہ سے آج بھی عوام میں خاصے مقبول سمجھے جاتے ہیں۔جون 2008 سے وہ اپنی الگ سیاسی پارٹی عوامی مسلم لیگ چلارہے ہیں۔آمدہ انتخابات میں انہوں نے تحریک انصاف کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی ہے۔

عبدالعلیم خان

سیاست کی دنیا میں عبدالعلیم خان کا نام زیادہ پرانا نہیں لیکن اس مختصر مدت کے دوران بھی وہ ایک پارٹی سے دوسری پارٹی میں جمپ کرچکے ہیں ۔سیاست دان کے طور پر لاہور میں تو وہ خاصے نامور ہوچکے ہیں۔انہوں نے اپنے سیاسی کیرئیر کا آغاز مسلم لیگ ق سے کیا۔اس عرصے کے دوران وہ رکن صوبائی اسمبلی اور اس وقت کے وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویزالٰہی کی کابینہ میں صوبائی وزیر بھی رہے۔آج کل وہ تحریک انصاف ہیں۔

عبدالرحیم خان کے صاحبزادے عبدالعلیم خان 5مارچ 1972 کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے 1992ء میں گورنمنٹ کالج لاہور سے گریجویشن کی۔ وہ بنیادی طورپر تاجر تھے جو 2003ء کے ضمنی الیکشن میں پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور بعدازاں 24 نومبر 2003 تک صوبائی وزیر برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی رہے۔

مسلم لیگ ق سے تحریک انصاف میں شمولیت کا اعلان انہوں نے مینار پاکستان گرائونڈ میں تحریک انصاف کے جلسہ عام میں کیا جس میں لاکھوں کی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی تھی۔اس موقع پر انہیں خاصی تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور کہا گیا کہ انہیں پارٹی میں شمولیت اختیار ہوئے زیادہ عرصہ نہیں ہوا اورپارٹی کی جانب سے انہیں پرانے کارکنوں پر فوقیت دی گئی۔ بہرحال عبدالعلیم خان تحریک انصاف میں اہمیت حاصل کرنے میں کامیاب رہے ۔ انہوں نے محمود الرشید سمیت اپنے مدمقابل امیدواروں کو دوسو ووٹوں کی برتری سے شکست دی اور تحریک انصاف لاہور کے صدر منتخب ہوگئے۔عبدالعلیم خان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ مالی طورپر بہت مضبوط ہیں اور انہوں نے مالی طورپر پارٹی کی بہت مدد کی ہے۔

عبدالعلیم خان کے حامیوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے انہیں کامیاب کرانے کے لیے دن رات محنت کی اور آخر کار ان کی محنت رنگ لائی۔ نتیجے کے طور پر سب نے ان پر اعتماد کا اظہار کیا اور وہ تحریک انصاف لاہور کے صدر بن گئے۔اس طرح عبدالرشید بھٹی تحریک انصاف لاہور کے جنرل سیکریٹری بنے۔ عبدالعلیم خان کے مقابلے میں لاہور کی صدارت کے عہدے لیے مدمقابل امیدواروں میں میاں محمود الرشید اور فاروق امجد میر نمایاں تھے۔

ماروی میمن

ماروی میمن نے عوامی سیاست میں شمولیت اختیار کی تو وہ مسلم لیگ ق سے منسلک تھیں۔مارچ 2008ء میں وہ قومی اسمبلی کی رکن منتخب ہوئیں۔بعدازاں وہ قاف لیگ کی اہم لیڈر بن گئیں۔بائیس جون 2011 میں ماروی نے قاف لیگ سے استعفیٰ دیدیا اور ساتھ ہی قومی اسمبلی کی نشست بھی چھوڑ دی۔لگ بھگ سات ماہ تک کسی پارٹی کے بغیر رہنے کے بعد انہوں نے چار مارچ 2012کو مسلم لیگ ن کو اپنانے کا فیصلہ کیا۔اس وقت وہ مسلم لیگ ن میں اہم حیثیت میں کام کررہی ہیں۔

شیخ روحیل اصغر

لاہور سے تعلق رکھنے والے کارخانہ دار شیخ روحیل اصغر شہر کے نمایاں سیاست دانوں میں بھی شمار ہوتے ہیں۔کچھ عرصہ قبل شیخ روحیل اصغر اور ان کے بیٹے خرم روحیل اصغر نے مسلم لیگ ن میں شمولیت اختیار کی۔وہ اس سے پہلے مسلم لیگ قاف کا حصہ رہ چکے تھے۔ انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ وہ ایک سرکاری سیاسی پارٹی کا حصہ رہے۔

اس موقع پر پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انہوں نے اپنے سیاسی کیرئیر کا آغاز مسلم لیگ ن کے پلیٹ فارم سے ہی کیا تھا اور وہ اسی پلیٹ فارم سے اپنی سیاست ختم کرنا چاہتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ وہ اس لیے ایک مرکزی اپوزیشن جماعت میں شمولیت اختیارکررہے ہیں کیونکہ اس کے سربراہ نوازشریف قیادت کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

جیسا کہ شیخ روحیل اصغر نے کہا کہ انہوں نے اپنی سیاست کا آغاز مسلم لیگ ن سے کیا۔یہ تو ایک روایتی بات ہے لیکن انہوں یہ بھی کہا کہ وہ مسلم لیگ ن سے ہی اس کو (اپنی سیاست) ختم کرنا چاہتے ہیں۔ اور یہ ایک اہم بیان ہے جو ان کے مسلم لیگ ن کے لیے قوی عزم کو ظاہر کرتا ہے۔ اب دیکھتے ہیں کہ وہ اپنے اس عزم پر کہاں تک قائم رہتے ہیں۔

شیخ وقاص اکرم

میڈیا کے اس دور میں بعض بظاہر کم عمر سیاست دان بھی خاصے نمایاں ہوچکے ہیں۔شیخ وقاص اکرم بھی ان میں سے ایک ہیں۔وہ جھنگ سے قومی اسمبلی کے رکن اور وزیرمملکت برائے محنت و افرادی قوت اور وزیرتعلیم بھی رہ چکے ہیں۔ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں لیکن کچھ عرصہ قبل ان کی او لیول کی ڈگری کو جعلی قرار دیا گیا تھا۔

وہ جھنگ میں مسلم لیگ قاف کے ٹکٹ پر این اے9 8سے بھاری اکثریت سے ایم این اے منتخب ہوچکے ہیں۔ تاہم قاف لیگ میں طویل عرصہ گذارنے اور اقتدار میں رہنے کے بعد انہوں کروٹ لی اور 2013 کے الیکشن سے قبل مسلم لیگ ن میں شمولیت اختیار کرلی۔ان کا کہنا تھا کہ قاف لیگ مقبولیت کھور ہی ہے اوراس کے ساتھ بہت کم تعداد میں سرکردہ سیاست دان رہ گئے ہیں۔

فیصل صالح حیات

مخدوم فیصل صالح حیات لاہور میں پیدا ہوئے۔وہ جھنگ سے تعلق رکھنے والے ممتاز سیاست دان ہیں۔وہ جھنگ کے جاگیردار گھرانے کے فرزند ہیں۔ اپنے طویل سیاسی کیرئیر کے دوران انہوں متعدد بار بار پارٹیاں تبدیل کیں۔وہ این اے 88 سے متعدد بار ایم این اے منتخب ہوچکے ہیں۔انہو ں نے اپنے سیاسی کیرئیر کا آغاز پیپلزپارٹی سے کیا۔ پھر وہ پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرین میں شامل ہوگئے اور بعدازاں مسلم لیگ ق میں شمولیت اختیار کی۔

عابدہ حسین


عابدہ حسین بھی ملک کی ایک معروف سیاست دان ہیں۔وہ جھنگ سے قومی اسمبلی کی رکن منتخب ہوچکی ہیں۔ان کے خاوند فخر امام بھی سیاست دان ہیںاور1985-86 کے دوران قومی اسمبلی کے سپیکر رہ چکے ہیں۔اس طرح ان کی بیٹی صغریٰ امام بھی سیاست میں ہیں اور صوبائی اسمبلی کی رکن رہ چکی ہیں۔

عابدہ حسین بھی اپنے سیاسی کیرئیر کے دوران پارٹیاں بدل چکی ہیں۔مثال کے طورپر 1970 ء کی دہائی میں پیپلزپارٹی چھوڑنے کے بعد وہ 2006 سے دوبارہ پیپلزپارٹی کی رکن تھیں۔اس عرصے کے دوران انہوں پیپلزپارٹی کے حریف جنرل ضیاء الحق اور نوازشریف کے لیے بھی کام کیا۔2002 کا الیکشن انہوں نے پرویزمشرف کے ٹکٹ پر لڑا لیکن کامیاب نہ ہوسکیں۔

شعیب صدیقی

لاہور سے تعلق رکھنے والے شعیب صدیقی سیاست میں نو وارد ہیں۔ وہ آئندہ انتخابات میں تحریک انصاف کی جانب سے الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔ تحریک انصاف کو جوائن کرنے سے پہلے وہ قاف لیگ کا حصہ تھے۔

''سیاست نظریات نہیں ، اقتدار کا نام ہے ''

اکثر ملکوں میں سیاست دان اپنے سیاسی کیرئیر کے دوران شاید ہی کبھی سیاسی پارٹی تبدیل کرتے ہیں اور اگر کریں بھی تو اُس وقت جب اس کے بنا کوئی چارہ نہیں رہتا۔لیکن پاکستان میں مفادات کے لیے پارٹیاں بدلنا ایک معمول ہے۔ارباب خضرحیات پشاور سے تعلق رکھنے والے ایک ایسے سیاست دان ہیں جو 1996ء میں سیاست میں آئے اور اس مختصر عرصے کے دوران بھی وہ ریکارڈ چودہ مرتبہ پارٹیاں تبدیل کرچکے ہیں اور وہ اکیلے نہیں ہیں ۔ ایسے کئی سیاست دان پاکستان میں وجود رکھتے ہیں۔

خضرحیات کا تعلق ایک جاگیر دار خاندان سے ہے جو طویل عرصے سے سیاست میں ہے ۔ ان کے گھر میں جو تصاویر لگی ہیں ، ان میں وہ سابق صدر غلام اسحاق' سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو اور سابق وزیراعظم نوازشریف کے ساتھ کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔وہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ کے علاوہ تحریک انصاف کے ساتھ بھی رہ چکے ہیں۔

اس وقت وہ گذشتہ دو سال سے مسلم لیگ ن کے ساتھ ہیں اور الیکشن کے لیے فیورٹ سمجھے جاتے ہیں۔خضرحیات بتاتے ہیں کہ جب وہ دوبارہ مسلم لیگ ن میں شامل ہوئے تو نواز شریف نے انہیں فون کیا اور مذاق کرتے ہوئے پوچھا :''آپ کتنا عرصہ ہمارے ساتھ رہیں گے؟''

دلچسپ امر یہ ہے کہ وہ پارٹیاں بدلنے کی اپنی اس روش پر کوئی شرمندگی محسوس نہیں کرتے۔ وہ صاف کہتے ہیں کہ سیاست نظریات نہیں بلکہ اقتدار کا نام ہے۔ جب سیاست دان دیکھتے ہیں کہ کوئی پارٹی مقبولیت حاصل کررہی ہے تووہ اس میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔ ایک تجزیہ نگار نے اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں دو قسم کے سیاست دان ہیں ۔ ان میں نصف تو وہ ہیں جو اپنے نظریات کے وفادار ہیں اور نصف ایسے ہیں جو موقع پرست ہیں۔

عام انتخابات 2013 سے دو تین ماہ پہلے تک بہت سے سیاست دانوں نے وفاداریاں تبدیل کیں جن سے ان کے اصولوں اور عزائم کا پتہ چل سکتا ہے ، آئیے ان کے بارے میں آپ کو تاریخ وار تفصیلات سے آگاہ کرتے ہیں۔

April 9, 2013

ٹھٹھہ کے بااثر شیرازی سیاسی خاندان نے پیپلزپارٹی کو چھوڑ کر آزاد الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا۔پیپلزپارٹی کو جوائن کرنے سے قبل وہ مسلم لیگ ق کا حصہ تھے۔

April 6, 2013

پیپلزپارٹی ٹھٹھہ کی خواتین ونگ کی صدرفہمیدہ شاہ ،ان کے خاوند سابق ایم پی اے شفقت شاہ بخاری اور ان کے ساتھیوں نے متحدہ قومی موومنٹ میں شمولیت اختیار کی۔

April 2, 2013

تحریک انصاف خواتین ونگ پشاور کی سابق ضلعی صدر فرزانہ زین نے پارٹی کے ساتھ اپنی طویل وابستگی ختم کرتے ہوئے مسلم لیگ ن میں شمولیت کا اعلان کیا۔سکواش کے سابق کھلاڑی قمر زمان نے بھی تحریک انصاف چھوڑ کر مسلم لیگ ن میں شمولیت اختیار کی۔

March 23, 2013

گھوٹکی کے بااثر سیاست دان بھائیوں فیاض خان لونڈ اور بابر لونڈ نے پیپلزپارٹی چھوڑ کر مسلم لیگ فنکشنل میں شمولیت اختیار کی۔

سابق سپیکر قومی اسمبلی فخر امام نے نوازشریف سے ملاقات کے بعد مسلم لیگ ن میں شامل ہونے کا اعلان کیا۔فخرامام کی بیوی عابدہ حسین 2006ء میں پیپلزپارٹی میں شامل ہوئیں۔ اس سے پہلے دونوں میاں بیوی ن لیگ کا حصہ تھے اور پھر قاف لیگ میں شامل ہوگئے اور پھر دوبارہ پیپلزپارٹی میں شامل ہوگئے۔ان کی بیٹی صغریٰ امام سینیٹ کی رکن ہیں۔

March 18, 2013

پیپلزپارٹی فتح جنگ میں اپنے مضبوط ترین حامیوں حاجی سردار اشتیاق خان اور سردار افتخار خان سے محروم ہوگئی جنہوں نے مختلف وجوہات کی بنا پر پارٹی چھوڑنے کا اعلان کیا۔ان سے پہلے 6 مارچ کو پیپلزپارٹی کے ایک اور طاقتور امیدوار سردار سکندر حیات پارٹی چھوڑ کر تحریک انصاف میں شامل ہوگئے تھے۔

لیاری میں بھی پیپلزپارٹی کواس وقت ایک بڑے دھچکے کا سامنا کرنا پڑا جب اس کے سابق ایم این اے نبیل گبول نے ایم کیوایم میں شمولیت کااعلان کیا۔وہ عزیزآباد سے الیکشن لڑیں گے۔کہا جاتا ہے کہ انہوں نے پیپلزامن کمیٹی سے اختلافات پیدا ہونے کے بعد یہ فیصلہ کیا۔ان کا کہنا تھاکہ متحدہ کے سربراہ الطاف حسین ہر مشکل وقت میں ان کے ساتھ کھڑے رہے جس پر انہوں نے یہ فیصلہ کیا۔ ان کے بارے میں متوقع تھا کہ وہ ن لیگ یا تحریک انصاف میں شامل ہوں گے لیکن ان کی جانب سے ایم کیوایم میں شمولیت کے فیصلے نے سب کو حیران کردیا۔

March 14, 2013

شیخ وقاص اکرم نے قاف لیگ کو چھوڑ کر مسلم لیگ ن میں شمولیت کا اعلان کیا۔دلچسپ امر یہ ہے کہ وہ اس سے پہلے ن لیگ کے سربراہ میاں نوازشریف کو کالعدم عسکریت پسند تنظیم سے تعلقات کی بنا پر شدید تنقید کانشانہ بناتے رہے تھے ۔ تاہم شہباز شریف سے ملاقات کے بعد اور ن لیگ میں شمولیت اختیار کرنے کے بعد انہوں نے کہا کہ ان کے تحفظات دور ہوگئے ہیں اوروہ ن لیگ میں شمولیت پر خوش ہیں۔

March 6, 2013

سابق صوبائی وزیر اور پیپلزپارٹی کے سینئر رکن سردار سکندر حیات نے عمران خان سے ملاقات کے بعد تحریک انصاف میں شمولیت کا اعلان کیا۔

March 5, 2013

آئی بی کے سابق سربراہ اور تحریک انصاف کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے رکن مسعود شریف خٹک نے پارٹی الیکشن میں ہارس ٹریڈنگ کا الزام عائد کرتے ہوئے تحریک انصاف سے علیحدگی کا اعلان کیا۔اب وہ خیبرپختونخوا سے آزاد امیدوار کے طورپر قومی اسمبلی کے الیکشن میں حصہ لیناچاہتے ہیں۔

نوابزادہ لشکری رئیسانی بلوچستان میں پیپلزپارٹی کے سابق صدر ہیں ، جنہوں نے بائیس دیگر ساتھیوں کے ساتھ مسلم لیگ ن میں شمولیت اختیارکی۔رئیسانی نے یہ اعلان نوازشریف کے ساتھ ایک ملاقات کے بعد کیا۔

جہلم سے ایم این اے راجہ اسد خان نے پیپلزپارٹی چھوڑ کر آزاد امیدوار کی حیثیت سے الیکشن لڑنے کا اعلان کیا حالانکہ وہ ایک آدھ ماہ پہلے ہی مسلم لیگ ن چھوڑ کر اپنے والد راجہ افضل اور بھائی راجہ صفدر سمیت پیپلزپارٹی میں شامل ہوئے تھے۔

March 4, 2013

چیئرمین صوبہ ہزارہ تحریک اور قاف لیگ کے سابق رہنما سردار یوسف نے ساتھیوں سمیت مسلم لیگ ن میں شمولیت اختیار کی۔انہوں نے یہ فیصلہ نوازشریف کے داماد محمد صفدر اور پیرصابرشاہ سے ملاقات کے بعد کیا۔

February 25, 2013

کرک سے اے این پی کے صوبائی وزیر میاں ناصر گل نے وزارت اور پارٹی کی بنیادی رکنیت دونوں کو چھوڑ دیا۔ان کے قریبی حلقوں کاکہنا ہے کہ اگر ٹکٹ ملا تو وہ جمعیت علمائے اسلام (ف) میں شمولیت اختیار کرسکتے ہیں بصورت دیگر آزاد حیثیت سے الیکشن لڑیں گے۔

February 15, 2013

پنجاب میں پیپلزپارٹی کو اس وقت ایک دھچکا لگا جب اس کے نو کے قریب ارکان اسمبلی نے مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کرلی۔ان میں نشاط ڈاہا ، جمیل شاہ ، رانا منور ، سردار کامل گجر ، جاوید علائوالدین ، قیصر سندھو ، عظمیٰ زاہد بخاری اور دیگر شامل تھے۔

پاکستان کی سیاست میں پارٹیاں بدلنا سیاست دانوں کا وطیرہ رہا ہے،پارٹی تبدیل کرنا دوسرے لفظوں میں وفاداری تبدیل کرنا ہوتا ہے،دلچسپ امر یہ ہے کہ جو بھی سیاست دان ایک پارٹی بدل کر دوسری پارٹی میں جاتا ہے تو وہ ہمیشہ یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اس نے یہ عمل نیک نیتی پر مبنی اصولی بنیادوں پر کیا یا اس نے ایسا فلاں اور فلاں وجوہات کے باعث کیالیکن ہر کوئی جانتا ہے کہ پاکستانی سیاست میں ''نیک نیتی ''یا پھر ''اصول'' کس شے کو کہتے ہیں لہٰذا عملی طور پر یہ سب کچھ سیاسی وذاتی مفادات اور دیگر فوائد کے لیے کیا جاتا ہے۔

عام طور پر سیاست دان پارٹی اس وقت بدلتے ہیں جب اپنی سیاسی پارٹی میں ان کی پوزیشن کمزور پڑتی دکھائی دیتی ہے یا ایسا اس وقت کیا جاتا ہے کہ جب کوئی ایسی پارٹی ابھرتی دکھائی دیتی ہے جس کی جیت کے روشن امکانات دکھائی دے رہے ہوتے ہیں،کبھی کوئی سیاست دان ایسی پارٹی میں شمولیت اختیار نہیں کرتا جو اقتدار میں آنے کے امکانات نہیں رکھتی چاہے اصولی اور اخلاقی طور پر یہ پارٹی کتنے ہی بلند کردار اور معیار کی حامل کیوں نہ ہو وطن عزیز میں ایسے سیاست دانوں کی کوئی کمی نہیں جو آئے روز پارٹیاں بدلتے ہیں اور کبھی کسی پارٹی اور کبھی کسی پارٹی کے ساتھ شامل ہوکر اقتدار کے مزے لوٹتے ہیں۔
Load Next Story