شیریں امیر بیگم بھٹو کی پہلی زوجہ

شیریں بیگم کی زندگی کا سب سے غمگین اور سیاہ دن بھٹو کی پھانسی تھا جس کے بعد وہ کبھی بھی اپنے کمرے سے باہر نہیں آئیں۔

کچھ روز پہلے میں ماضی کے گزرے ہوئے لمحوں کو یاد کرتے ہوئے گم صم ہوگیا تھا اور پھر مجھے لاڑکانہ میں رہنے والے دوستوں کی باتیں ایک ایک کرکے یاد آرہی تھیں جس میں ایک دوست خاکسار نثار شیخ بھی تھے جس کا کچھ دن پہلے انتقال ہوگیا تھا۔

اس کے پاس میں لاڑکانہ میں عورتوں کی شاپنگ مرکز میں کپڑے کی دکان تھی جہاں پر اس سے ملنے جاتا تھا۔ ایک دن وہاں پہنچا تو معلوم ہوا کہ وہ برابر میں شبیر شیخ کلاتھ مرچنٹ کے پاس گئے ہوئے ہیں جہاں پر ذوالفقار علی بھٹو کی پہلی بیوی شیریں امیر بیگم آئی ہوئی ہیں۔ وہ جب بھی وہاں آتی تو دکاندار اس کے پاس سلام کرنے جاتے تھے کیونکہ وہ ان لوگوں کے مسائل سن کر بھٹو یا پھر بے نظیر بھٹو سے کہہ کر حل کرواتی تھیں جس میں خاص طور پر نوجوان طبقہ ہوتا تھا جو اپنے لیے نوکری لینے کے لیے شیریں بیگم کے اردگرد جمع ہوجاتے تھے۔

وہ ہمیشہ پردے میں رہتی تھیں اور گھر سے بہت کم نکلتی تھیں اور کبھی کبھار لاڑکانہ کی ریشم گلی جاکر غریب، نادار اور مسکینوں کے لیے کپڑے اور دوسری چیزیں خریدنے جایا کرتی تھیں اور جیسے ہی دکانداروں کو پتا چلتا وہ انھیں سلام کرنے کے لیے پہنچ جاتے تھے کیونکہ وہ اس کا بے حد احترام کرتے تھے۔ بھٹو کی مصروفیات کی وجہ سے سوشل کام ان کے حوالے تھے، وہ گاؤں اور باقی شہروں کے غریب اور ضرورت مندوں کا خیال رکھتی تھیں اس لیے لوگ اسے یتیموں کی ماں کا خطاب دیتے تھے۔ وہ بیواؤں، یتیموں، معذوروں کے لیے مالی مدد کرتی رہتی تھیں۔ انھوں نے غریب گھرانوں کے لیے ماہوار رقم کے ساتھ سامان سلف مقرر کیا ہوا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ زیادہ کہیں باہر نہیں جاتیں کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ ان غریبوں کی دیکھ بھال کون کرے گا۔

نہ صرف یہ بلکہ اپنی جیب سے غریب لوگوں کو حج کرواتیں اور عمرہ کرواتیں۔ وہ گاؤں کے غریب لوگوں کی خوشیوں اور غموں میں شرکت کرتی تھیں اور جب بھی کسی غریب لڑکی کی شادی ہوتی تو اس کا جہیز وہ دیا کرتی تھیں اور رشتوں کو جوڑنے کے لیے ان سے صلاح لی جاتی تھی اور اس نے ہمیشہ صحیح فیصلہ کیا اور کبھی بھی کسی کو کوئی شکایت کا موقع نہیں ملا۔

امیر بیگم سر شاہنواز بھٹو کے بھائی خان بہادر احمد خان بھٹو کی چھوٹی بیٹی تھی اور ان کی شادی ذوالفقار علی بھٹو سے کروائی گئی تھی جو بھٹو سے دس سال بڑی تھی۔ جس وقت بھٹو کی شادی ہوئی تھی اس وقت بھٹو کی عمر 16 سال تھی۔ امیر بیگم مذہبی خیالات و روایات کی حامل تھی جس نے ساری عمر نماز اور عبادت میں گزار دی۔ ان کی شادی بھٹو سے اس لیے کی گئی تھی کہ دونوں بھائیوں میں محبت اور رشتہ مضبوط ہو اور گھر کی ملکیت اور جائیداد گھر میں ہی رہے۔ اس کے علاوہ شیریں بیگم کو بھٹو سے بے حد محبت تھی۔ شادی کے بعد وہ بھٹو کے ساتھ زیادہ وقت اس لیے باہر نہیں گزار سکتی تھیں کیونکہ ایک تو وہ زیادہ پڑھی لکھی نہیں تھی اور پھر وہ پردہ کیے بغیر کہیں بھی نہیں جاتی اس لیے وہ بھٹو کے ساتھ سیاسی معاملات میں ساتھ نہیں نبھا سکیں۔

پاکستان میں ان کے بارے میں لوگ بہت کم ہی جانتے تھے مگر یہ بات اس وقت زیادہ ظاہر ہوگئی جب بھٹو کو پھانسی دینے کے بعد انھیں گڑھی خدا بخش تدفین کے لیے لایا گیا اور جب امیر بیگم کو بتایا گیا کہ بھٹو کی نعش کو لایا گیا ہے تو وہ گھر سے ننگے سر اور ننگے پاؤں دوڑتی ہوئی پہلی مرتبہ باہر پہنچ گئیں کیونکہ وہ اپنا ہوش و حواس کھو بیٹھی تھیں۔ اس دن وہ پہلی مرتبہ بین الاقوامی اور قومی سطح پر لوگوں کی نظر میں آئیں اور خاص طور پر جب بی بی سی کے نمایندے مارک ٹیلی نے ان کی بات کو دنیا تک پہنچایا۔ اس نے بی بی سی کو بتایا کہ جب اس نے بھٹو کا چہرہ دیکھا تو وہ گہری نیند میں سویا ہوا تھا اور اس کا چہرہ تازہ گلاب کے پھول کی طرح مہک رہا تھا اور وہ بہت معصوم لگ رہے تھے۔

امیر بیگم 1924 میں ضلع لاڑکانہ میرپور بھٹو میں پیدا ہوئی تھیں اور ان کی شادی بھی وہیں ہوئی تھی۔ شادی کے بعد وہ بھٹو کے ساتھ بمبئی چلی گئیں جہاں پر وہ بھٹو کی والدہ کے ساتھ تین سال رہی۔ بھٹو وہاں پڑھتے تھے۔ جب بھٹو کی والدہ کا انتقال ہوگیا تو وہ واپس گاؤں چلی آئیں۔ وہ 1944 سے 1947 تک وہاں رہیں۔ وہاں رہ کر بھی ان کا دل غریبوں کے لیے دھڑکتا تھا۔ وہ کہتی تھیں کہ دنیا میں سب سے زیادہ پیار اسے اپنے گاؤں والوں اور گاؤں سے تھا۔ جب انھیں معلوم ہوا کہ وہ ماں نہیں بن سکتیں تو اس نے اپنے خاندان کی نسل کو بڑھانے کے لیے اپنے سسر شاہنواز بھٹو سے خود کہا کہ وہ بھٹو کی دوسری شادی کروائیں تاکہ بھٹو خاندان کی نسل بڑھتی رہے۔


امیر بیگم کے اصرار پر بھٹو نے دوسری شادی نصرت سے کی جس نے انھیں چار بچوں کا تحفہ دیا جس میں بے نظیر بھٹو، میر مرتضیٰ بھٹو، شاہنواز بھٹو جونیئر اور صنم بھٹو شامل ہیں۔ وہ نصرت کے بچوں کو اپنے بچے سمجھتی تھی اور خاص طور پر بے نظیر سے اسے بہت پیار تھا۔ اس نے اپنی زندگی میں ہی اپنی جائیداد بھٹو کے بچوں کے نام کردی تھی۔ اسے سیاست سے کوئی دلچسپی نہیں تھی ۔اس نے ایک بیٹی لبنیٰ گود لی تھی جس کو کچھ ملکیت دے کر اپنا فرض نبھایا اور اس کی شادی بھی کروادی۔

وہ نصرت بھٹو کو چھوٹی ہوتے ہوئے بھی احتراماً باجی بولتی تھیں اور جب بھی ان پر کڑا وقت آیا تو وہ اس کے ساتھ کھڑی ہوجاتیں۔ نصرت بھی امیر بیگم کو بڑا چاہتی تھیں اور بے حد احترام کرتی تھیں۔ نصرت جب بھی باہر ممالک کے دورے سے واپس آتی تو ان کے لیے بڑے اچھے اچھے تحفے تحائف لاتی تھیں۔ نصرت انھیں اپنے ساتھ رہنے کے لیے کہتی رہتی تھیں مگر امیر بیگم نے اپنے گاؤں میں رہنے اور غریبوں کے کام آنے کو ترجیح دی۔ اس نے کبھی بھی کسی کے خلاف کچھ نہیں کہا۔ کسی کی دل شکنی اور دلازاری کبھی نہیں کی۔

شیریں بیگم کی زندگی کا سب سے غمگین اور سیاہ دن بھٹو کی پھانسی تھا جس کے بعد وہ کبھی بھی اپنے کمرے سے باہر نہیں آئیں سوائے اس کے کہ کوئی خاص کام ہو۔ پھانسی سے پہلے وہ بھٹو سے راولپنڈی کی جیل کی کال کوٹھری میں چار مرتبہ ملنے گئیں۔ جب وہ پہلی مرتبہ گئی تو اس سے رہا نہیں گیا اور وہ رو پڑیں جس پر بھٹو نے کہا کہ تم مت رو، ورنہ جیل والے اور دشمن کہیں گے کہ بھٹو کی عورتیں کمزور ہیں۔ بھٹو کی زندگی بچانے کے لیے وہ ساری ساری رات عبادت کرتی اور اللہ سے دعائیں مانگتی، پیروں اور فقیروں کے دروازوں پر جاکر دعائیں مانگتی رہتی۔ بھٹو کی پھانسی کے بعد وہ جب حج کرنے گئیں تو واپسی پر دبئی نصرت کی طبیعت پوچھنے اور بے نظیر سے ملنے گئی تھیں۔ انھوں نے تقریباً دس حج کیے تھے۔ حج کے دوران وہ اپنی گود لی ہوئی بیٹی لبنیٰ سے ملنے گئی تھیں۔

وہ مذہبی اور پرہیز گار عورت تھی جس نے ساری عمر عبادت اور انسانیت کی خدمت کرتے گزار دی۔ اس کی باتوں میں بڑی مٹھاس تھی جس کی وجہ سے سر شاہنواز بھٹو نے اس کو شیریں کا خطاب دیا ۔ بھٹو کے بعد اس نے برقعے کے بجائے چادر اوڑھنا شروع کیا تھا۔ جب وہ پہلی مرتبہ بھٹو کی قبر پر گئیں تو وہیں بے ہوش ہوگئیں کیونکہ جس شخص کو اس نے کبھی دیکھا تھا اب وہ مٹی کے نیچے آرام کی نیند سو رہا تھا۔

ایک انٹرویو میں امیر بیگم نے بھٹو کی شخصیت کے بارے میں کہا تھا کہ وہ بہادر، سچا، باہمت اور بڑا محنتی تھا جسے عوام سے بے حد پیار تھا۔ وہ اپنے کام میں وقت کا بڑا خیال رکھتے تھے۔ وہ عورتوں کی بڑی عزت کرتے تھے اور اس نے کبھی بھی ان کے ساتھ منہ بناکر یا پھر غصے میں بات نہیں کی اور ہمیشہ اس سے مسکرا کر بات کرتے تھے۔ وہ قائد اعظم کا بڑا مداح تھا اور اس نے اپنے کمرے میں جناح کی ایک بڑی تصویر لگا کر رکھی تھی اور وہ کہتے تھے کہ وہ قائد اعظم کی طرح بنیں گے۔ انھیں کرکٹ سے بڑا لگاؤ تھا۔ انھیں آم، فالسے اور انار بڑا پسند تھا۔ وہ اپنے آپ کو صاف ستھرا رکھتے تھے اور انھیں کپڑے پہننے اور رنگوں کی سلیکشن کی پہچان تھی۔

نصرت سے بھٹو کی شادی میں ان کی اور ان کے عزیزوں کی رضامندی شامل تھی جس کی یہ ایک بڑی مثال ہے کہ امیر بیگم کے والد نے نصرت اور بھٹو کی شادی کی خوشی میں کراچی میں ایک بڑی ضیافت کا اہتمام کیا تھا۔

وہ ان لمحوں کے سہارے جیتی رہی جب بھٹو اپنے بچوں اور نصرت کے ساتھ نو ڈیرو اور لاڑکانہ میں عید منانے آتے اور وہ ان کے لیے اپنے ہاتھوں سے سویاں اور حلوہ بناتی اور وہ لوگ بڑے شوق سے کھاتے تھے۔ جب بے نظیر اور باقی بھائی بہن اس کے آنگن میں کھیلتے تو اس کا چہرہ خوشی سے دمک جاتا تھا۔ بھٹو عید کے روز ڈبل گھوڑا بوسکی کی شلوار قمیض پہنتے تھے۔ مگر جب بھٹو نے انھیں زندگی کو بچانے کے لیے اپیل کرنے سے منع کیا تو انھیں اب جدائی کا غم کھانے لگا مگر اسے بھٹو کی بہادری پر ناز ہے جس نے موت کو وقار کے ساتھ گلے لگایا۔

بھٹو کی پھانسی کے صدمہ سے ایک دن اسے دل کا دورہ پڑا اور انھیں سول اسپتال لاڑکانہ میں ایمرجنسی وارڈ میں لایا گیا لیکن وہ 19 جنوری 2003 کو اللہ کو پیاری ہوگئیں ۔ ان کی میت کو گڑھی خدا بخش لایا گیا اور ان کی گود لی ہوئی بیٹی لبنیٰ کے پہنچتے ہی انھیں گڑھی خدا بخش کے فیملی قبرستان جہاں پر بھٹو، میر مرتضیٰ بھٹو، شاہنواز بھٹو جونیئر اور دوسرے دفن ہیں وہیں انھیں بھی آخری آرام گاہ دی گئی۔
Load Next Story