پرویز مشرف غداری کیسسپریم کورٹ نے فل کورٹ تشکیل دینے کی استدعا پھر مسترد کردی
ملک کی اعلیٰ عدلیہ نے 1975 سے 1999 تک آئین کی خلاف ورزیوں کی توثیق کی، وکیل پرویز مشرف
سپریم کورٹ میں پرویز مشرف غداری کیس کی سماعت کے موقع پر سابق صدر کے وکیل ابراہیم ستی کا کہنا ہے کہ صرف ان کے موکل کے خلاف کارروائی کی گئی تو یہ امتیازی سلوک ہو گا، کارروائی کرنی ہے تو سب کا ٹرائل کریں چاہے کوئی مرا ہو یا زندہ ہو۔
جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی ، دوران سماعت پرویز مشرف کے وکیل ابراہیم ستی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ان کو اپنے موکل سے ملنے نہیں دیا جارہا، کہا جارہا ہے کہ وہ جسمانی ریمانڈ پر ہیں جس پر جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ ہم ملاقات کا حکم دے دیں گے آپ دلائل جاری رکھیں، جواب میں وکیل ابراہیم ستی نے دلیل جاری رکھتے ہوئے لارجر بنچ کی تشکیل کے لیے بھارتی سپریم کورٹ اور احادیث مبارکہ کے حوالے دیئے، انہوں نے کہا کہ معاملہ دو کرداروں کے درمیان ہے جن میں سے ایک ان کا موکل اور ایک جج ہیں، جس پر جسٹس خلجی عارف نے کہا کہ یہ کسی کردار کا نہیں آئینی معاملہ ہے، ابراہیم ستی نے دلیل دی کہ صدر اپنے حلف سے باہر فیصلہ کر سکتا ہے۔
اس موقع پر جسٹس جواد نے استفسار کیا کہ صدر کو ماورائے آئین اختیار کس نے دیا، وکیل ابراہیم ستی کا کہنا تھا کہ صدر کو یہ اختیار ماضی کے عدالتی فیصلوں کی روشنی میں وراثت میں ملا، جس پر جسٹس جواد نے ریمارکس دیئے کہ آپ کیا یہ کہنا چاہتے ہیں کہ جب کوئی موقع آئے تو صدر آئین و قانون کو بالائے طاق رکھ کر فیصلہ کر سکتا ہے، وکیل نے کہا کہ صدر اور آرمی چیف کے حلف ناموں کے متن میں فرق ہے، 1975 سے 1999 تک آئین کی خلاف ورزیوں کی عدالت نے توثیق کی، ججوں کے علاوہ تمام ادارے کام کررہے تھے صرف عدلیہ میں کچھ تبدیلیاں کی گئیں، صرف میرے موکل کے خلاف کارروائی کی گئی تو یہ امتیازی سلوک ہو گا، کارروائی کرنی ہے تو سب کا ٹرائل کریں چاہے کوئی مرا ہو یا زندہ ہو، کس سے مشورہ لیا گیا، کس نے عملدرآمد کروایا سب کو شامل تفتیش کیا جائے۔
جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی ، دوران سماعت پرویز مشرف کے وکیل ابراہیم ستی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ان کو اپنے موکل سے ملنے نہیں دیا جارہا، کہا جارہا ہے کہ وہ جسمانی ریمانڈ پر ہیں جس پر جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ ہم ملاقات کا حکم دے دیں گے آپ دلائل جاری رکھیں، جواب میں وکیل ابراہیم ستی نے دلیل جاری رکھتے ہوئے لارجر بنچ کی تشکیل کے لیے بھارتی سپریم کورٹ اور احادیث مبارکہ کے حوالے دیئے، انہوں نے کہا کہ معاملہ دو کرداروں کے درمیان ہے جن میں سے ایک ان کا موکل اور ایک جج ہیں، جس پر جسٹس خلجی عارف نے کہا کہ یہ کسی کردار کا نہیں آئینی معاملہ ہے، ابراہیم ستی نے دلیل دی کہ صدر اپنے حلف سے باہر فیصلہ کر سکتا ہے۔
اس موقع پر جسٹس جواد نے استفسار کیا کہ صدر کو ماورائے آئین اختیار کس نے دیا، وکیل ابراہیم ستی کا کہنا تھا کہ صدر کو یہ اختیار ماضی کے عدالتی فیصلوں کی روشنی میں وراثت میں ملا، جس پر جسٹس جواد نے ریمارکس دیئے کہ آپ کیا یہ کہنا چاہتے ہیں کہ جب کوئی موقع آئے تو صدر آئین و قانون کو بالائے طاق رکھ کر فیصلہ کر سکتا ہے، وکیل نے کہا کہ صدر اور آرمی چیف کے حلف ناموں کے متن میں فرق ہے، 1975 سے 1999 تک آئین کی خلاف ورزیوں کی عدالت نے توثیق کی، ججوں کے علاوہ تمام ادارے کام کررہے تھے صرف عدلیہ میں کچھ تبدیلیاں کی گئیں، صرف میرے موکل کے خلاف کارروائی کی گئی تو یہ امتیازی سلوک ہو گا، کارروائی کرنی ہے تو سب کا ٹرائل کریں چاہے کوئی مرا ہو یا زندہ ہو، کس سے مشورہ لیا گیا، کس نے عملدرآمد کروایا سب کو شامل تفتیش کیا جائے۔