ایم کیو ایم کے دونوں دھڑوں کا اتحاد کامیابی کی ضمانت بن سکتا ہے
2013 کے عام انتخابات میں فاروق ستار ضلع جنوبی کراچی کی قومی اسمبلی کی نشست این اے۔ 249 سے الیکشن جیتا تھا
پورے ملک کی طرح سندھ میں بھی عام انتخابات کے لیے میدان سج گیا ہے۔ کاغذات کی چھان بین کا عمل مکمل ہو چکا ہے۔ قومی اور صوبائی اسمبلی کے ہر حلقے میں مدمقابل امیدواروں سے متعلق صورت حال واضح ہو چکی ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ سیاسی جماعتوں اور سیاسی اتحادوں کی پوزیشن بھی سامنے آ گئی ہے۔ سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی کے سوا کوئی بھی دوسری سیاسی جماعت نہیں ہے، جس نے پورے صوبے سے اپنے امیدوار کھڑے کیے ہوں۔ سندھ خصوصاً کراچی کی سیاست میں سب سے بڑی پیش رفت یہ ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ ( ایم کیو ایم ) پاکستان کے بہادر آباد اور پی آئی بی کالونی دھڑوں نے متحد ہونے کا اعلان کر دیا ہے۔
ایم کیو ایم کے پی آئی بی کے دھڑے کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار نے قانونی جنگ ہارنے کے بعد بالآخر بہادر آباد جا کر پارٹی کو متحد کرنے اور ایک ہی انتخابی نشان سے الیکشن لڑنے کا اعلان کیا ہے۔ واضح رہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ایم کیو ایم بہادر آباد کے موقف کو تسلیم کرتے ہوئے یہ فیصلہ دیا تھا کہ ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی پارٹی ٹکٹ جاری کرنے اور دیگر امور چلانے کی مجاز ہے اور رابطہ کمیٹی کے نومنتخب کنوینر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی ٹکٹ جاری کر سکیں گے۔
الیکشن کمیشن نے یہ بھی فیصلہ دیا تھا کہ '' پتنگ '' کا انتخابی نشان ایم کیو ایم بہادر آباد کو الاٹ ہو گا۔ ایم کیو ایم پی آئی بی کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار نے الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج کیا تھا۔ فاضل عدالت نے پہلے عبوری حکم جاری کیا تھا ، جس کے تحت ڈاکٹر فاروق ستار کو نہ صرف ایم کیو ایم کا کنوینر تسلیم کیا گیا بلکہ انہیں پتنگ کے انتخابی نشان کے لیے ٹکٹ جاری کرنے کا بھی اختیار دیا گیا لیکن بعد ازاں اسلام آباد ہائیکورٹ نے اپنا حتمی فیصلہ سنا دیا ، جس میں الیکشن کمیشن کے فیصلے کو برقرار رکھا گیا۔
یہ فیصلہ اس وقت آیا جب دونوں دھڑوں کے امیدوار کراچی اور حیدر آباد میں اپنے اپنے امیدواروں کے کاغذات نامزدگی جمع کرا چکے تھے۔ اس فیصلے کے بعد ڈاکٹر فاروق ستار کے پاس دو ہی راستے تھے۔ پہلا راستہ یہ تھا کہ وہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرتے لیکن اس کا ان کے پاس وقت نہیں تھا کیونکہ کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کا عمل شروع ہو چکا تھا۔ یہ رسک بھی تھا کہ سپریم کورٹ میں کیس کا فیصلہ فوری طور پر نہ ہوا اور یہ بھی خدشہ تھا کہ سپریم کورٹ بھی اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھے۔
اس صورت حال میں ڈاکٹر فاروق ستار کے دھڑے کو پتنگ کا نشان الاٹ نہ ہوتا اور دوسری سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان کا دھڑا ایک الگ سیاسی پارٹی کی حیثیت سے الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ بھی نہیں تھا۔ اس طرح ڈاکٹر فاروق ستار نے یہ راستہ اختیار کرنے سے گریز کیا ۔ دوسرا راستہ یہ تھا کہ وہ ایم کیو ایم بہادر آباد کے رہنماؤں سے مل کر دونوں دھڑوں کو متحد کرتے۔ انہوں نے یہی راستہ اختیار کیا لیکن اب ڈاکٹر فاروق ستار بہت کمزور پوزیشن میں ہیں کیونکہ قانونی جنگ ہارنے کے بعد ایک بار پھر بہادر آباد قیادت کے پاس گئے ہیں۔ اب یہ ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی اور بہادر آباد کے دیگر رہنماؤں پر منحصر ہے کہ وہ ڈاکٹر فاروق ستار کے کتنے امیدواروں کو ٹکٹ جاری کرتے ہیں اور ڈاکٹر فاروق ستار کو دوبارہ ایم کیو ایم رابطہ کمیٹی کا چیئرمین بناتے بھی ہیں یا نہیں۔
2013 کے عام انتخابات میں فاروق ستار ضلع جنوبی کراچی کی قومی اسمبلی کی نشست این اے۔ 249 سے الیکشن جیتا تھا لیکن نئی حلقہ بندیوں کے بعد یہ نشست ختم کر دی گئی ہے۔ کراچی ضلع جنوبی کی پہلے قومی اسمبلی کی تین نشستیں این اے۔ 248 ، این اے۔ 249 اور این اے۔ 250 تھیں۔ اب اس ضلع کی صرف دو نشستیں این اے۔ 246 اور این اے 247 ہیں۔ ڈاکٹر فاروق ستار کی پرانی نشست کے کچھ علاقے لیاری کی نشست این اے۔246 میں شامل کر لیے گئے ہیں اور کچھ علاقے این اے۔ 247 ڈیفنس ، کلفٹن اور صدر میں شامل کر دیئے گئے ہیں۔
این اے۔ 246 لیاری سے پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری الیکشن لڑ رہے ہیں اور ان کے مقابلے میں کسی دوسری جماعت کا کوئی قابل ذکر امیدوار نہیں ہے۔ ڈاکٹر فاروق ستار نے خود این اے 247 سے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں۔ اس نشست پر زبردست مقابلہ ہے۔ پاک سرزمین پارٹی کے سربراہ مصطفی کمال ، پیپلز پارٹی کے عزیز میمن اور تحریک انصاف کے عارف علوی کے علاوہ دیگر سیاسی و مذہبی جماعتوں کے بھی مضبوط امیدوار ہیں۔ ڈاکٹر فاروق ستار کے لیے اس نشست پر کامیابی پہلے کی طرح آسان نہیں ہو گی۔ البتہ دونوں دھڑوں کے متحد ہونے سے کراچی میں ایم کیو ایم واپس مقابلے کی پوزیشن میں آ گئی ہے۔ دونوں دھڑوں کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ الیکشن کے بعد بھی ایم کیو ایم متحد رہے گی۔
ایم کیوایم کے دو دھڑوں کے متحد ہونے کے بعد کراچی میں انتخابی صورت حال بہت دلچسپ ہو گئی ہے۔ ایم کیو ایم کے منحرف رہنماؤں کی نئی سیاسی جماعت پاک سرزمین پارٹی نے بھی ہر حلقے میں امیدوار کھڑے کیے ہیں۔ موجودہ صورت حال میں کراچی اور حیدر آباد میں دیگر سیاسی جماعتوں کے لیے بھی بہت سے حلقے مقابلے کے لیے '' اوپن '' ہو گئے ہیں لیکن سندھ کے دیگر اضلاع میں پیپلز پارٹی اب بھی کسی بڑے سیاسی چیلنج سے دوچار نظر نہیں آتی۔ پیپلز پارٹی نے سندھ کے تمام حلقوں میں امیدوار کھڑے کیے ہیں جبکہ سندھ میں کوئی دوسری سیاسی جماعت نہیں ہے، جو پورے صوبے کے تمام حلقوں پر مقابلے میں ہو۔ ایم کیو ایم۔ پی ایس پی صرف کراچی اور حیدر آباد تک محدود ہیں۔
تحریک انصاف جیسی سیاسی جماعت کا فوکس صرف کراچی ہے۔ صوبے کے باقی 23 اضلاع میں اس کے قومی اسمبلی کے ایک درجن سے بھی کم امیدوار ہیں۔ گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس بھی پورے صوبے خصوصاً صوبے کے شہری علاقوں میں امیدوار کھڑے نہیں کر سکی ہے۔ مسلم لیگ (ن) تو جیسے سندھ میں انتخابی مقابلے میں ہی نہیں ہے۔ البتہ حلقہ اور مقامی سطح پر بننے والے سیاسی اتحاد سندھ میں غیر متوقع نتائج کا سبب بھی بن سکتے ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ سیاسی جماعتوں اور سیاسی اتحادوں کی پوزیشن بھی سامنے آ گئی ہے۔ سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی کے سوا کوئی بھی دوسری سیاسی جماعت نہیں ہے، جس نے پورے صوبے سے اپنے امیدوار کھڑے کیے ہوں۔ سندھ خصوصاً کراچی کی سیاست میں سب سے بڑی پیش رفت یہ ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ ( ایم کیو ایم ) پاکستان کے بہادر آباد اور پی آئی بی کالونی دھڑوں نے متحد ہونے کا اعلان کر دیا ہے۔
ایم کیو ایم کے پی آئی بی کے دھڑے کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار نے قانونی جنگ ہارنے کے بعد بالآخر بہادر آباد جا کر پارٹی کو متحد کرنے اور ایک ہی انتخابی نشان سے الیکشن لڑنے کا اعلان کیا ہے۔ واضح رہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ایم کیو ایم بہادر آباد کے موقف کو تسلیم کرتے ہوئے یہ فیصلہ دیا تھا کہ ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی پارٹی ٹکٹ جاری کرنے اور دیگر امور چلانے کی مجاز ہے اور رابطہ کمیٹی کے نومنتخب کنوینر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی ٹکٹ جاری کر سکیں گے۔
الیکشن کمیشن نے یہ بھی فیصلہ دیا تھا کہ '' پتنگ '' کا انتخابی نشان ایم کیو ایم بہادر آباد کو الاٹ ہو گا۔ ایم کیو ایم پی آئی بی کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار نے الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج کیا تھا۔ فاضل عدالت نے پہلے عبوری حکم جاری کیا تھا ، جس کے تحت ڈاکٹر فاروق ستار کو نہ صرف ایم کیو ایم کا کنوینر تسلیم کیا گیا بلکہ انہیں پتنگ کے انتخابی نشان کے لیے ٹکٹ جاری کرنے کا بھی اختیار دیا گیا لیکن بعد ازاں اسلام آباد ہائیکورٹ نے اپنا حتمی فیصلہ سنا دیا ، جس میں الیکشن کمیشن کے فیصلے کو برقرار رکھا گیا۔
یہ فیصلہ اس وقت آیا جب دونوں دھڑوں کے امیدوار کراچی اور حیدر آباد میں اپنے اپنے امیدواروں کے کاغذات نامزدگی جمع کرا چکے تھے۔ اس فیصلے کے بعد ڈاکٹر فاروق ستار کے پاس دو ہی راستے تھے۔ پہلا راستہ یہ تھا کہ وہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرتے لیکن اس کا ان کے پاس وقت نہیں تھا کیونکہ کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کا عمل شروع ہو چکا تھا۔ یہ رسک بھی تھا کہ سپریم کورٹ میں کیس کا فیصلہ فوری طور پر نہ ہوا اور یہ بھی خدشہ تھا کہ سپریم کورٹ بھی اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھے۔
اس صورت حال میں ڈاکٹر فاروق ستار کے دھڑے کو پتنگ کا نشان الاٹ نہ ہوتا اور دوسری سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان کا دھڑا ایک الگ سیاسی پارٹی کی حیثیت سے الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ بھی نہیں تھا۔ اس طرح ڈاکٹر فاروق ستار نے یہ راستہ اختیار کرنے سے گریز کیا ۔ دوسرا راستہ یہ تھا کہ وہ ایم کیو ایم بہادر آباد کے رہنماؤں سے مل کر دونوں دھڑوں کو متحد کرتے۔ انہوں نے یہی راستہ اختیار کیا لیکن اب ڈاکٹر فاروق ستار بہت کمزور پوزیشن میں ہیں کیونکہ قانونی جنگ ہارنے کے بعد ایک بار پھر بہادر آباد قیادت کے پاس گئے ہیں۔ اب یہ ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی اور بہادر آباد کے دیگر رہنماؤں پر منحصر ہے کہ وہ ڈاکٹر فاروق ستار کے کتنے امیدواروں کو ٹکٹ جاری کرتے ہیں اور ڈاکٹر فاروق ستار کو دوبارہ ایم کیو ایم رابطہ کمیٹی کا چیئرمین بناتے بھی ہیں یا نہیں۔
2013 کے عام انتخابات میں فاروق ستار ضلع جنوبی کراچی کی قومی اسمبلی کی نشست این اے۔ 249 سے الیکشن جیتا تھا لیکن نئی حلقہ بندیوں کے بعد یہ نشست ختم کر دی گئی ہے۔ کراچی ضلع جنوبی کی پہلے قومی اسمبلی کی تین نشستیں این اے۔ 248 ، این اے۔ 249 اور این اے۔ 250 تھیں۔ اب اس ضلع کی صرف دو نشستیں این اے۔ 246 اور این اے 247 ہیں۔ ڈاکٹر فاروق ستار کی پرانی نشست کے کچھ علاقے لیاری کی نشست این اے۔246 میں شامل کر لیے گئے ہیں اور کچھ علاقے این اے۔ 247 ڈیفنس ، کلفٹن اور صدر میں شامل کر دیئے گئے ہیں۔
این اے۔ 246 لیاری سے پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری الیکشن لڑ رہے ہیں اور ان کے مقابلے میں کسی دوسری جماعت کا کوئی قابل ذکر امیدوار نہیں ہے۔ ڈاکٹر فاروق ستار نے خود این اے 247 سے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں۔ اس نشست پر زبردست مقابلہ ہے۔ پاک سرزمین پارٹی کے سربراہ مصطفی کمال ، پیپلز پارٹی کے عزیز میمن اور تحریک انصاف کے عارف علوی کے علاوہ دیگر سیاسی و مذہبی جماعتوں کے بھی مضبوط امیدوار ہیں۔ ڈاکٹر فاروق ستار کے لیے اس نشست پر کامیابی پہلے کی طرح آسان نہیں ہو گی۔ البتہ دونوں دھڑوں کے متحد ہونے سے کراچی میں ایم کیو ایم واپس مقابلے کی پوزیشن میں آ گئی ہے۔ دونوں دھڑوں کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ الیکشن کے بعد بھی ایم کیو ایم متحد رہے گی۔
ایم کیوایم کے دو دھڑوں کے متحد ہونے کے بعد کراچی میں انتخابی صورت حال بہت دلچسپ ہو گئی ہے۔ ایم کیو ایم کے منحرف رہنماؤں کی نئی سیاسی جماعت پاک سرزمین پارٹی نے بھی ہر حلقے میں امیدوار کھڑے کیے ہیں۔ موجودہ صورت حال میں کراچی اور حیدر آباد میں دیگر سیاسی جماعتوں کے لیے بھی بہت سے حلقے مقابلے کے لیے '' اوپن '' ہو گئے ہیں لیکن سندھ کے دیگر اضلاع میں پیپلز پارٹی اب بھی کسی بڑے سیاسی چیلنج سے دوچار نظر نہیں آتی۔ پیپلز پارٹی نے سندھ کے تمام حلقوں میں امیدوار کھڑے کیے ہیں جبکہ سندھ میں کوئی دوسری سیاسی جماعت نہیں ہے، جو پورے صوبے کے تمام حلقوں پر مقابلے میں ہو۔ ایم کیو ایم۔ پی ایس پی صرف کراچی اور حیدر آباد تک محدود ہیں۔
تحریک انصاف جیسی سیاسی جماعت کا فوکس صرف کراچی ہے۔ صوبے کے باقی 23 اضلاع میں اس کے قومی اسمبلی کے ایک درجن سے بھی کم امیدوار ہیں۔ گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس بھی پورے صوبے خصوصاً صوبے کے شہری علاقوں میں امیدوار کھڑے نہیں کر سکی ہے۔ مسلم لیگ (ن) تو جیسے سندھ میں انتخابی مقابلے میں ہی نہیں ہے۔ البتہ حلقہ اور مقامی سطح پر بننے والے سیاسی اتحاد سندھ میں غیر متوقع نتائج کا سبب بھی بن سکتے ہیں۔