بروقت معاوضہ نہ ملنے پر شوٹنگ سے انکار کردیتی ہوں ٹینا دتا
سوپ سیریل ’’اُترن‘‘ کی ’’اِچّھا‘‘ ٹینا دتا سے بات چیت
ٹینا دتا چھوٹی اسکرین کی معروف اداکارہ ہے۔ بنگالی حسینہ کی شوبز میں آمد صرف پانچ برس کی عمر میں ہوگئی تھی۔
اس نے بنگالی فلم '' چوکھر بالی'' میں بہ طور چائلڈ اسٹار اداکاری سے کیریئر کی شروعات کی تھی۔ ایشوریا رائے اس فلم کی ہیروئن تھی۔ پھر اس نے'' پرینیتا '' میں ودیا بالن کے بچپن کا رول کیا۔ ٹینا نے کم عمری میں ایئرہوسٹس بننے کا سپنا آنکھوں میں سجالیا تھا مگر قسمت کو اسے شوبز کی چکاچوند سے آشنا کروانا مقصود تھا، چناں چہ اس پر راستے کُھلتے چلے گئے۔
متذکرہ بالا فلموں کے علاوہ اس نے چند بنگالی فلموں میں بھی اداکاری کی اور اس کی پرفارمینس پسند بھی کی گئی، مگر اسے شناخت مِنی اسکرین کی اداکارہ کے طور پر ملی۔ اس شہرت کا سبب سوپ سیریل ''اُترن '' ہے۔ یہ ڈراما سیریل کلرٹی وی سے آج بھی دکھائی جارہی ہے۔ اس سیریل کے شائقین ٹینا کو اب میٹھی آکاش چٹرجی کے رول میں دیکھیں گے۔ اس سے قبل وہ اسی سیریل میں اِچھا ویر سنگھ کا کردار ادا کرتی رہی ہے۔ چھوٹے پردے کی مقبول اداکارہ سے کی گئی حالیہ بات چیت قارئین کے لیے پیش ہے۔
٭ '' اُترن'' کی کاسٹ میں شمولیت کا موقع کیسے ملا؟
میں ان دنوں میٹرک میں پڑھ رہی تھی جب مجھے بنگالی ڈرامے ''کھیلا'' میں رول کرنے کی آفر ہوئی۔ ان ہی دنوں ممبئی میں قائم ایک پروڈکشن ہاؤس بھی اپنے نئے شو کے لیے اداکاروں کا انتخاب کر رہا تھا۔ اسکول میں زیرتعلیم ہونے کی وجہ سے پاپا نے مجھے اداکاری کرنے کی اجازت نہیں دی۔ اس پروڈکشن ہاؤس کے عہدے دار تین سال تک مجھ سے رابطہ کرتے رہے۔
ان دنوں موبائل فون اور انٹرنیٹ عام نہیں تھا۔ میں مہینے میں ایک بار انٹرنیٹ کیفے میں جاکر اپنی ای میلز دیکھا کرتی تھی۔ اور تب مجھے پتا چلتا تھا کہ جن آڈیشنز کے لیے مجھے ای میلز موصول ہوئی تھیں ان کی تاریخ بھی گزرچکی ہے۔ بالآخرمیں 2009ء میں بروقت آڈیشن دینے میں کام یاب ہوگئی۔ چوں کہ میں کولکتہ سے ممبئی نہیں جاسکتی تھی، اس لیے پروڈکشن ہاؤس کی ٹیم آڈیشن لینے کے لیے میرے گھر پہنچی اور خوش قسمتی سے مجھے '' اُترن '' میں منتخب بھی کرلیا گیا۔ بس یہیں سے ٹیلی ویژن پر میرے سفر کا آغاز ہوا جو آج تک کام یابی سے جاری ہے۔
٭تو اس کا مطلب ہے کہ آپ کی تعلیم ادھوری رہ گئی۔۔۔۔
جی ہاں، میں پچھلے چار برس سے '' اُترن '' کے سلسلے میں مصروف ہوں، لیکن مجھے جب بھی موقع ملا میں اپنی تعلیم ضرور مکمل کروں گی۔ میں ذہین طالب علم رہی ہوں۔ میں نے انٹرکے امتحان میں 92 فی صد نمبر حاصل کیے تھے۔ انگریزی میں میرے 99 نمبر تھے اور میں اسی مضمون میں گریجویشن کرنا چاہتی تھی، مگر شوبز میں مصروفیت کی وجہ سے مجھے ممبئی منتقل ہونا پڑا جس کے بعد زندگی بدل گئی۔
٭ '' پرینیتا'' اور '' چوکھر بالی'' میں اداکاری کیسے ممکن ہوئی؟
اسے آپ اتفاق کہہ سکتے ہیں۔ میں نے کولکتہ میں کم عمر ودیا بالن کے رول کے لیے آڈیشن دیا تھا جو پردیپ سرکار ( ڈائریکٹر ) کو پسند آیا۔ آڈیشن دیکھنے کے بعد ان کا کہنا تھا کہ میں اس کردار کے لیے موزوں ترین ہوں۔
٭کیا آپ ہمیشہ سے اداکارہ بننا چاہتی تھیں؟
نہیں، البتہ میرے والدین مجھے اداکارہ کے رُوپ میں دیکھنے کے متمنی ضرور تھے۔ ممی مجھے شوٹنگ کے لیے لے جاتی تھیں۔ سیٹ پر میں گھر جانے کے لیے رونا شروع کردیتی تھی مگر ممی مجھ سے مسلسل کہتی رہتی تھیں کہ مجھے یہ کام پسند آئے گا۔ دراصل وہ خود اداکارہ بننا چاہتی تھیں مگر نہ بن سکیں۔ چناں چہ انھوں نے میری صورت میں اپنا سپنا پورا کرنے کی ٹھان لی اور اس میں کام یاب رہیں۔
٭یہ خبریں آتی رہی ہیں کہ آپ یہ سیریل چھوڑ رہی ہیں یا آپ کو اس سیریل سے علیٰحدہ کیا جارہا ہے۔۔۔۔
سچی بات یہ ہے کہ جو اداکار جتنا زیادہ مقبول ہوتا ہے اس سے متعلق افواہیں بھی اتنی ہی زیادہ پھیلتی ہیں۔ پہلے پہل میں ان کا اثر لیتی تھی مگر اب میں نے ان پر دھیان دینا چھوڑ دیا ہے۔ ہر تین ماہ کے بعد اس طرح کی کہانیاں سننے کو ملتی ہیں۔
مجھے اس سیریل سے الگ کرنے کی خبریں اس لیے پھیلی تھیں کہ اِچھا موت کی طرف جارہی تھی، مگر اس کردار کو مرنا ہی تھا کیوں کہ اس کی جگہ میٹھی نے لینی تھی اور یہ رول بھی میں ہی کررہی ہوں۔ امید ہے کہ پرستار مجھے میٹھی کے کردار میں بھی اتنی ہی محبت دیں گے۔
٭ ٹیلی ویژن حلقوں میں آپ مغرور اور نخریلی مشہور ہیں۔ اس کی کیا وجہ ہے؟
میں لوگوں سے زیادہ ملتی جلتی نہیں، لیے دیے رہتی ہوں۔ شائد اسی وجہ سے وہ مجھے مغرور سمجھتے ہوں۔ دوسری بات یہ ہے کہ میں اپنے رول میں کسی طرح کی کمی نہیں چھوڑنا نہیں چاہتی۔ اگر میں سمجھتی ہوں کہ کوئی ساڑی اسکرین پر اچھی نہیں لگے گی تو میں ٹیم سے کہتی ہوں کہ اسے تبدیل کریں۔
ظاہر ہے کہ اگر میں اسکرین پر اچھی نہیں لگتی تو ناظرین تو یہیں کہیں گے نا کہ اِچھا بُری لگ رہی ہے، وہ یہ تونہیں گے کہ اس کی ذمہ دار کریئٹیو ٹیم ہے۔ میں پروٖڈیوسرز کو الزام نہیں دیتی، مگر کچھ مسائل مجھے ضرور درپیش ہیں۔ مجھے وقت پر ادائیگی نہیں ہوتی اور کبھی کبھی تو معاوضے کی صورت میں ملنے والا چیک بھی باؤنس ہوجاتا ہے۔
ایسا ہونے کی صورت میں، میں ادائیگی ہونے تک سیٹ پر آنے سے انکار کردیتی ہوں۔ اسی لیے لوگوں نے مجھے مغرور، غصہ ور، نخریلی اور نہ جانے کیا کیا مشہور کردیا ہے، حالاں کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ چار برس سے مجھے اوورٹائم نہیں بھی ملا جو کہ پچیس لاکھ روپے سے اوپر چلا گیا ہے مگر میں نے اس کا کبھی تقاضا نہیں کیا۔ اس کے باوجود لوگ میرے بارے میں منفی تصور رکھتے ہیں تو مجھے اس کی پروا نہیں۔
اس نے بنگالی فلم '' چوکھر بالی'' میں بہ طور چائلڈ اسٹار اداکاری سے کیریئر کی شروعات کی تھی۔ ایشوریا رائے اس فلم کی ہیروئن تھی۔ پھر اس نے'' پرینیتا '' میں ودیا بالن کے بچپن کا رول کیا۔ ٹینا نے کم عمری میں ایئرہوسٹس بننے کا سپنا آنکھوں میں سجالیا تھا مگر قسمت کو اسے شوبز کی چکاچوند سے آشنا کروانا مقصود تھا، چناں چہ اس پر راستے کُھلتے چلے گئے۔
متذکرہ بالا فلموں کے علاوہ اس نے چند بنگالی فلموں میں بھی اداکاری کی اور اس کی پرفارمینس پسند بھی کی گئی، مگر اسے شناخت مِنی اسکرین کی اداکارہ کے طور پر ملی۔ اس شہرت کا سبب سوپ سیریل ''اُترن '' ہے۔ یہ ڈراما سیریل کلرٹی وی سے آج بھی دکھائی جارہی ہے۔ اس سیریل کے شائقین ٹینا کو اب میٹھی آکاش چٹرجی کے رول میں دیکھیں گے۔ اس سے قبل وہ اسی سیریل میں اِچھا ویر سنگھ کا کردار ادا کرتی رہی ہے۔ چھوٹے پردے کی مقبول اداکارہ سے کی گئی حالیہ بات چیت قارئین کے لیے پیش ہے۔
٭ '' اُترن'' کی کاسٹ میں شمولیت کا موقع کیسے ملا؟
میں ان دنوں میٹرک میں پڑھ رہی تھی جب مجھے بنگالی ڈرامے ''کھیلا'' میں رول کرنے کی آفر ہوئی۔ ان ہی دنوں ممبئی میں قائم ایک پروڈکشن ہاؤس بھی اپنے نئے شو کے لیے اداکاروں کا انتخاب کر رہا تھا۔ اسکول میں زیرتعلیم ہونے کی وجہ سے پاپا نے مجھے اداکاری کرنے کی اجازت نہیں دی۔ اس پروڈکشن ہاؤس کے عہدے دار تین سال تک مجھ سے رابطہ کرتے رہے۔
ان دنوں موبائل فون اور انٹرنیٹ عام نہیں تھا۔ میں مہینے میں ایک بار انٹرنیٹ کیفے میں جاکر اپنی ای میلز دیکھا کرتی تھی۔ اور تب مجھے پتا چلتا تھا کہ جن آڈیشنز کے لیے مجھے ای میلز موصول ہوئی تھیں ان کی تاریخ بھی گزرچکی ہے۔ بالآخرمیں 2009ء میں بروقت آڈیشن دینے میں کام یاب ہوگئی۔ چوں کہ میں کولکتہ سے ممبئی نہیں جاسکتی تھی، اس لیے پروڈکشن ہاؤس کی ٹیم آڈیشن لینے کے لیے میرے گھر پہنچی اور خوش قسمتی سے مجھے '' اُترن '' میں منتخب بھی کرلیا گیا۔ بس یہیں سے ٹیلی ویژن پر میرے سفر کا آغاز ہوا جو آج تک کام یابی سے جاری ہے۔
٭تو اس کا مطلب ہے کہ آپ کی تعلیم ادھوری رہ گئی۔۔۔۔
جی ہاں، میں پچھلے چار برس سے '' اُترن '' کے سلسلے میں مصروف ہوں، لیکن مجھے جب بھی موقع ملا میں اپنی تعلیم ضرور مکمل کروں گی۔ میں ذہین طالب علم رہی ہوں۔ میں نے انٹرکے امتحان میں 92 فی صد نمبر حاصل کیے تھے۔ انگریزی میں میرے 99 نمبر تھے اور میں اسی مضمون میں گریجویشن کرنا چاہتی تھی، مگر شوبز میں مصروفیت کی وجہ سے مجھے ممبئی منتقل ہونا پڑا جس کے بعد زندگی بدل گئی۔
٭ '' پرینیتا'' اور '' چوکھر بالی'' میں اداکاری کیسے ممکن ہوئی؟
اسے آپ اتفاق کہہ سکتے ہیں۔ میں نے کولکتہ میں کم عمر ودیا بالن کے رول کے لیے آڈیشن دیا تھا جو پردیپ سرکار ( ڈائریکٹر ) کو پسند آیا۔ آڈیشن دیکھنے کے بعد ان کا کہنا تھا کہ میں اس کردار کے لیے موزوں ترین ہوں۔
٭کیا آپ ہمیشہ سے اداکارہ بننا چاہتی تھیں؟
نہیں، البتہ میرے والدین مجھے اداکارہ کے رُوپ میں دیکھنے کے متمنی ضرور تھے۔ ممی مجھے شوٹنگ کے لیے لے جاتی تھیں۔ سیٹ پر میں گھر جانے کے لیے رونا شروع کردیتی تھی مگر ممی مجھ سے مسلسل کہتی رہتی تھیں کہ مجھے یہ کام پسند آئے گا۔ دراصل وہ خود اداکارہ بننا چاہتی تھیں مگر نہ بن سکیں۔ چناں چہ انھوں نے میری صورت میں اپنا سپنا پورا کرنے کی ٹھان لی اور اس میں کام یاب رہیں۔
٭یہ خبریں آتی رہی ہیں کہ آپ یہ سیریل چھوڑ رہی ہیں یا آپ کو اس سیریل سے علیٰحدہ کیا جارہا ہے۔۔۔۔
سچی بات یہ ہے کہ جو اداکار جتنا زیادہ مقبول ہوتا ہے اس سے متعلق افواہیں بھی اتنی ہی زیادہ پھیلتی ہیں۔ پہلے پہل میں ان کا اثر لیتی تھی مگر اب میں نے ان پر دھیان دینا چھوڑ دیا ہے۔ ہر تین ماہ کے بعد اس طرح کی کہانیاں سننے کو ملتی ہیں۔
مجھے اس سیریل سے الگ کرنے کی خبریں اس لیے پھیلی تھیں کہ اِچھا موت کی طرف جارہی تھی، مگر اس کردار کو مرنا ہی تھا کیوں کہ اس کی جگہ میٹھی نے لینی تھی اور یہ رول بھی میں ہی کررہی ہوں۔ امید ہے کہ پرستار مجھے میٹھی کے کردار میں بھی اتنی ہی محبت دیں گے۔
٭ ٹیلی ویژن حلقوں میں آپ مغرور اور نخریلی مشہور ہیں۔ اس کی کیا وجہ ہے؟
میں لوگوں سے زیادہ ملتی جلتی نہیں، لیے دیے رہتی ہوں۔ شائد اسی وجہ سے وہ مجھے مغرور سمجھتے ہوں۔ دوسری بات یہ ہے کہ میں اپنے رول میں کسی طرح کی کمی نہیں چھوڑنا نہیں چاہتی۔ اگر میں سمجھتی ہوں کہ کوئی ساڑی اسکرین پر اچھی نہیں لگے گی تو میں ٹیم سے کہتی ہوں کہ اسے تبدیل کریں۔
ظاہر ہے کہ اگر میں اسکرین پر اچھی نہیں لگتی تو ناظرین تو یہیں کہیں گے نا کہ اِچھا بُری لگ رہی ہے، وہ یہ تونہیں گے کہ اس کی ذمہ دار کریئٹیو ٹیم ہے۔ میں پروٖڈیوسرز کو الزام نہیں دیتی، مگر کچھ مسائل مجھے ضرور درپیش ہیں۔ مجھے وقت پر ادائیگی نہیں ہوتی اور کبھی کبھی تو معاوضے کی صورت میں ملنے والا چیک بھی باؤنس ہوجاتا ہے۔
ایسا ہونے کی صورت میں، میں ادائیگی ہونے تک سیٹ پر آنے سے انکار کردیتی ہوں۔ اسی لیے لوگوں نے مجھے مغرور، غصہ ور، نخریلی اور نہ جانے کیا کیا مشہور کردیا ہے، حالاں کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ چار برس سے مجھے اوورٹائم نہیں بھی ملا جو کہ پچیس لاکھ روپے سے اوپر چلا گیا ہے مگر میں نے اس کا کبھی تقاضا نہیں کیا۔ اس کے باوجود لوگ میرے بارے میں منفی تصور رکھتے ہیں تو مجھے اس کی پروا نہیں۔