کچھ اصطلاحات کے بارے

لبرل ازم دراصل دو متضاد نظریات کے درمیان غیر جانبداری یا میانہ روی اختیارکرنے کا نام ہے۔

muqtidakhan@hotmail.com

سابق وفاقی وزیرداخلہ اور مسلم لیگ (ن) کے مرکزی مگر منحرف رہنما چوہدری نثار علی خان نے چند روز قبل اپنی جماعت اور اس کی قیادت کے بارے میں تنقید کرتے ہوئے دو ایسے جملے کہے، جن کے بارے وضاحتی گفتگو ضروری ہے ۔ اولاً ان کا کہنا تھا کہ وہ 1988 میں عورت کی قیادت کے مخالف تھے، اس لیے مسلم لیگ(ن) میں شمولیت کا فیصلہ کیا ۔دوئم،ان کا دعویٰ ہے کہ بعض عناصر ان کی جماعت(یعنی مسلم لیگ نواز) کو سیکولر بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ آئیے ان دونوں الزامات پر سیاسیات کے اصولوں کی روشنی میں گفتگوکرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

اب جہاں تک عورت کی حکمرانی کا تعلق ہے، تو جماعت اسلامی جیسی کٹر مذہبی جماعت نے 1964-65 کے صدارتی انتخابات کے دوران محترمہ فاطمہ جناح کی حمایت کی تھی ۔ تاریخ کے مختلف ادوار میں کئی مسلم خواتین سربراہ مملکت رہی ہیں۔ جامعۃ الازہر سمیت مستند اسلامی دینی تحقیقی اداروں نے خواتین کی حکمرانی کے بارے میں منفی رائے کا اظہار کبھی نہیں کیا ہے۔ محترمہ شہید دو مرتبہ وزارت عظمیٰ پر فائز ہوئیں۔ جمعیت علمائے اسلام نے دونوں مرتبہ ان کی حکمرانی کی حمایت کی اور عہدے قبول کیے۔

اب جمہوریت اور جمہوری کلچرکی بات کرتے ہیں۔ ہمارے یہاں ہر ایرا غیرا جمہوریت کا راگ الاپتا نظر آتا ہے، مگر بیشتر لوگ جمہوریت کے معنی و مطالب اور اس کی روح سے واقف نہیں ہیں ۔ جب ہم جمہوریت کی بات کرتے ہیں، تو یہ صرف نظم حکمرانی کی قسم ہی نہیں ہے بلکہ ایک طرز معاشرت یا ثقافتی اقدار کا معاملہ بھی ہے ۔

معاشرتی اور ثقافتی طور پر اس کا مطلب ہے کہ فکری کثرتیت کوقبول کرنا ۔ ہر قسم کے امتیازات سے پاک عقیدے، رنگ، نسل، لسان اور صنفی امتیازات سے بلند ہوکر برابری کے اصول کو پروان چڑھانا اورتمام شہریوں کے لیے مساوی انسانی اور شہری حقوق کی بنیاد پر سماجی تشکیلات کا قیام ۔ جمہوری معاشرے میں ہر شہری خواہ مرد ہو یا عورت، اکثریتی عقیدے سے تعلق رکھتا ہو یا اقلیتی عقیدے سے، بڑی لسانی کمیونٹی کا حصہ ہو یا چھوٹی لسانی کمیونٹی کا ، ترقی کرنے اور اپنی پسند کا روزگار حاصل کرنے اور ریاست کے اعلیٰ ترین منصب تک پہنچنے کا حق رکھتا ہے، اگر کوئی معاشرہ ان اصولوں سے انکارکرتا ہے یا ان کے کسی حصہ کو تسلیم نہیں کرتا، تواسے جمہوری نہیں کہا جاسکتا ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جمہوری معاشرے کے لیے سیکیولر ازم لازم و ملزوم ہے۔

اب جہاں تک سیکیولر ازم کا تعلق ہے، تواس کا مفہوم کسی بھی طورپرلادینیت نہیں ہے۔ یہ غلط فہمی مولوی عبدالحق مرحوم کے انگریزی اردو لغت میں اس کا ترجمہ '' لادینیت'' کرنے کی وجہ سے پیدا ہوئی۔ حالانکہ ان کی ٹیم میں ڈاکٹر اخترحسین رائے پوری جیسا جید دانشور بھی موجود تھا، جو اس اصطلاح کا مناسب ترجمہ کرسکتے تھے۔ سیاسیات کا ہر طالب علم اس حقیقت سے واقف ہے کہ سیکیولر ازم لوگوں کو ان کے عقیدے سے دور نہیں کرتی، بلکہ ریاست اور مذہب کو الگ رکھنے کا مشورہ دیتی ہے۔

انسانی معاشروں میں چند صدی قبل تک یہ روایت رہی ہے کہ مفتوحہ علاقے کے لوگوں کو جبراً فاتح حکمرانوں کا عقیدہ اختیار کرنے پر مجبور کیا جاتا تھا ۔ بابل و نینوا کے حکمران سائرس اعظم (600-530قبل مسیح) نے ڈھائی ہزار سال قبل پہلی مرتبہ یہ تصور دیا کہ رعیت کے لیے لازم نہیں کہ وہ بادشاہ کا عقیدہ اختیار کریں۔ یہ دراصل سیکیولر ازم کی ابتدا تھی ۔اس کے بعد ڈیڑھ ہزار برس قبل مدینہ کی ریاست سامنے آتی ہے، ریاستی استحکام میں میثاق مدینہ کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ اس ریاست کے لیے نبی کریمﷺ کی زیر قیادت ریاستی نظم ونسق کا ایک تحریری مسودہ منظورکیاگیا ، جس میں یثرب کی یہودی کمیونٹیوں کے علاوہ اطراف میں آباد مختلف مذاہب کے ماننے والوں کو مساوی شہری حقوق دیے گئے۔اس میثاق کو دنیا کے پہلے تحریری آئین کے علاوہ ہمہ دینی ریاست کے قیام کی بنیاد تصورکیا جاتا ہے۔


ہسپانوی عرب فلسفی ابن رشد (1126-1198 عیسوی) وہ پہلا مفکر ہے، جس نے ریاستی نظم ونسق (Governance) اور عقائد و نظریات کوالگ رکھنے کا فلسفیانہ تصور پیش کیا ۔ اس کاکہنا تھا کہ مملکت میں مختلف عقائد ونظریات کے حامل شہری ہوتے ہیں، جنھیں اس ریاست میں اپنی اہلیت کی بنیاد پر آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کے یکساںمواقعے اسی وقت مل سکتے ہیں، جب ریاست کسی مخصوص عقیدے یا نظریے کے زیر اثرنہ ہو ۔

سیکیولرازم ریاستی پالیسی کے طورپر پہلی مرتبہ انیسویں صدی کے اوائل میں متعارف ہوئی، جب جمہوریت کی جڑیں مضبوط ہونا شروع ہوئیں۔ برطانوی مصنف George Jacob Holyoake وہ پہلا دانشور ہے، جس نے 1851 میں سیکیولر ازم کی جدید اصطلاح استعمال کی۔اس نے چرچ اور ریاست کو ایک دوسرے کے معاملات میں مداخلت سے گریزکی تجویز دی، تاکہ معاشرے میں موجود فکری ونظریاتی تنوع کا احترام کیا جا سکے اور عقیدے کی بنیاد پر شہریوں کے ساتھ امتیازی سلوک کا خاتمہ ہوسکے۔ لہٰذا سیکیولرازم نہ تو لادینیت ہے اور نہ کسی طور مذہب مخالف۔

اب ایک اور اصطلاح لبرل ازم کے بارے میں بھی ہمارے یہاں ابہام پایا جاتا ہے۔ پاکستان میںکم علم اور سیاسیات اور عمرانیات کے اصولوں سے عدم واقفیت رکھنے والے بعض دانشورآج کل بڑے فخر کے ساتھ'' لبرل فاشسٹ'' کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں، حالانکہ اس طرح وہ اپنے جہل پر مہر صداقت ثبت کر رہے ہوتے ہیں،کیونکہ لبرل کبھی فاشسٹ نہیں ہوسکتا۔ یہ اصطلاح گو کہ اٹھارویں صدی میں متعارف ہوئی، لیکن اسے قبولیت بیسویں صدی کے اوائل میں حاصل ہوئی۔

لبرل ازم دراصل دو متضاد نظریات کے درمیان غیر جانبداری یا میانہ روی اختیارکرنے کا نام ہے۔ لبرل ازم عقیدے، نظریے، نسلی ولسانی اور صنفی امتیازکے بغیرتمام شہریوں کے لیے مساوی انسانی اور شہری حقوق کے تحفظ، تمام شہریوں کے عقائد و نظریات اور ان کی عبادت گاہوں کے احترام ، تحفظ اور آئین و قانون کی بالادستی کی حمایت کرتی ہے۔ اس لیے لبرل ازم کو فاشزم سے جوڑنا کم عقلی اورکم علمی کے سوا کچھ نہیں۔

اب دو دیگر اصطلاحات پر بات کرلیتے ہیں جو Atheismاور Agnosticism ہیں ۔ ہمارے یہاں ان اصطلاحات کے بارے میں بھی کنفیوژن پایا جاتا ہے، بلکہ اکثریت انھیں سمجھتی ہی نہیں۔اس لیے ان دونوں تصورات پر گفتگو ضروری ہے۔ Atheism خداکے وجود سے انکار پر مبنی نظریہ ہے۔لہٰذا برٹرینڈ رسل اسے بھی عقیدہ ہی قرار دیتا ہے، کیونکہ یہ اپنی فکری توانائیاں خدا کے وجود کو Disproveکرنے میں لگاتے ہیں۔ اس کے برعکس اس کا خیال ہے کہ Agnosticismعقیدہ نہیں بلکہ سوچ ہے۔ کیونکہ Agnistic فرد غیر مرئی قوتوں کو Proveیا disproveکرنے کے بجائے انھیں unprovedتصور کرتاہے۔اس لیے وہ دنیا کے مرئی معاملات پر اپنی توجہ مرکوز رکھتا ہے۔

یہی کچھ معاملہ مارکسی فکرکے بارے میں کنفیوژن کا ہے۔ ہمارے یہاں مارکسی نظریات کے حامل سوشلسٹ افراد کو بھی منکرخدا یعنیAtheist سمجھا جاتا ہے۔ ایک مارکسی سوچ کے حامل شخص کے لیے ضروری نہیں کہ وہ لا مذہب ہو۔ مذہب پر یقین رکھنے والا شخص بھی سوشلسٹ ہوسکتا ہے۔جیسے مولاناحسرت موہانی تھے، جو خود کو مارکسی مسلمان کہا کرتے تھے۔

ہم اس سے قبل بھی درج بالا اصطلاحات کے حوالے سے عام لوگوں کے ذہن میں پائی جانے والی غلط فہمیوں اور ابہام کے خاتمے کے لیے اظہاریہ تحریر کرچکے ہیں۔ آج پھر اس کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کہ چوہدری نثار جیسا شخص بھی ان اصطلاحات کو منفی پیرائے میں استعمال کر رہا ہے ۔ ہمیں اس سے غرض نہیں کہ کسی فرد کے کیا عقائد و نظریات ہیں، مگرسیاسی وفلسفیانہ اصطلاحات کا غلط استعمال عام شہریوں میں جو کنفیوژن پھیلاتا ہے، اس سے پورا معاشرہ بری طرح متاثرہوتا ہے۔ اس لیے سیاسی اصطلاحات کو معنی و مطالب سمجھے بغیر استعمال کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔
Load Next Story