نامیاتی مالیکیولوں سے بنی ’ ہارڈ ڈرائیوز‘
امریکی خفیہ ایجنسی کے لیے خصوصی کمپیوٹر بنائے جائیں گے
سائنس داں طویل عرصے سے ڈیٹا ذخیرہ کرنے کے لیے غیرروایتی ذرایع کی کھوج کررہے ہیں۔ اس سمت میں ایک اہم پیش رفت امریکی محکمہ دفاع کے اعلان کی صورت میں سامنے آئی ہے۔
انٹیلی جنس ایڈوانسڈ ریسرچ پروجیکٹس ایکٹیوٹی ( آئی اے آر پی اے ) امریکی محکمہ دفاع کا ماتحت ادارہ ہے جو امریکا کی خفیہ ایجنسیوں کے لیے نت نئی ایجادات کرنے کا ذمہ دار ہے۔ اس ادارے نے امریکی ایجنسیوں کے لیے ایسے کمپیوٹر بنانے کا اعلان کیا ہے جن میں ڈیٹا روایتی ہارڈ ڈرائیوز کے بجائے نامیاتی مالیکیولوں میں محفوظ کیا جائے گا۔
آئی اے آر پی اے کے مطابق عام میز کی سطح جتنی چوڑائی کی حامل یہ خصوصی مشینیں پولیمرز کے بڑے بڑے حصوں میں ڈیٹا محفوظ کریں گی۔ واضح رہے کہ پولیمرز کی اصطلاح دھاگے نما لمبے مالیکیولوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ ان مالیکیولوں میں ڈیٹا انفرادی ایٹموں کے سلسلوں یا گروپوں میں محفوظ کیا جاسکے گا۔
امریکی خفیہ ادارے کا یہ پروجیکٹ دورحاضر کے ایک بے حد اہم مسئلے کے حل کی جانب پیش رفت ثابت ہوسکتا ہے، اور وہ مسئلہ ہے ڈیٹا کی ہرلمحہ بڑھتی ہوئی مقدار اور اس کی ذخیرہ کاری کی ہر سیکنڈ بڑھتی ہوئی لاگت۔ لاگت میں اضافے کی اہم ترین وجہ ڈیٹا کی ذخیرہ کاری میں استعمال ہونے والی بجلی ہے۔
موجودہ دور میں کمپیوٹر ڈیٹا بڑے بڑے ڈیٹا سینٹرز میں محفوظ کیا جاتا ہے۔ ان ڈیٹا سینٹرز کے لاکھوں سرورز کو فعال رکھنے کے لیے بڑی مقدار میں بجلی درکار ہوتی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق 2016ء میں دنیا بھر میں پھیلے ڈیٹا سینٹرز نے 416.2 ٹیراواٹ آورز بجلی خرچ کی۔ یہ بجلی کی عالمی رسد کے تین فی صد کے مساوی ہے۔ بجلی کی کھپت کے ساتھ ساتھ ڈیٹا سینٹرز ماحول کے لیے بھی نقصان دہ ہیں۔
ماحول دشمن گیسیں جنھیں گرین ہاؤس گیسیں کہا جاتا ہے، ان کے مجموعی اخراج میں ڈیٹا سینٹرز کا حصہ دو فی صد ہے۔ انٹرنیٹ پر سفر کرتے ڈیٹا کی مقدار میں برق رفتار اضافے کے ساتھ ساتھ ڈیٹا سینٹرز کی تعداد بھی بڑھتی جارہی ہے اور اسی رفتار سے ان میں بجلی کی کھپت اور ان سے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں اضافہ ہورہا ہے۔
2016ء میں شایع ہونے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ ڈی این اے میں کمپیوٹر انفارمیشن ذخیرہ کی جاسکتی ہیں، نیز اس ذریعے پر عام ڈیٹا سینٹرز کی نسبت کہیں کم توانائی خرچ ہوگی، اور یہ بلند اور پست درجۂ حرارت پر روایتی ہارڈ ڈرائیوز کی نسبت طویل عرصے تک فعال رہ سکتا ہے۔ اُس تحقیق کے دوران آزمائشی طور پر ڈی این اے کمپیوٹر بنائے گئے تھے جن میں جینیاتی مالیکیولوں کو مختصر اور طویل مدت کے لیے ڈیٹا کی ذخیرہ گاہ کے طور پر استعمال کیا گیا تھا تاہم اس تحقیق کے بعد سائنس داں یہ وضع نہیں کرپائے تھے کہ بڑے پیمانے پر ڈی این اے ڈیٹا اسٹوریج کا اطلاق کیسے کیا جائے۔
آئی اے آر پی اے کے اس منصوبے کے تحت اسی پہلو پر تحقیق کو آگے بڑھایا جائے گا، یعنی ڈی این اے ڈیٹا اسٹوریج کو وسیع پیمانے پر قابل عمل بنانے پر توجہ دی جائے گی۔ یہ منصوبہ چار برسوں پر محیط ہوگا۔ دو مرحلوں پر مشتمل اس پروگرام کے پہلے مرحلے میں ہائی اسپیڈ پر مالیکیولوں سے ڈیٹا حاصل کرنے پر توجہ مرکوز کی جائے گی جب کہ دوسرے مرحلے میں ایسا آپریٹنگ سسٹم بنایا جائے گا جو ڈی این اے پر چل سکتا ہو۔
انٹیلی جنس ایڈوانسڈ ریسرچ پروجیکٹس ایکٹیوٹی ( آئی اے آر پی اے ) امریکی محکمہ دفاع کا ماتحت ادارہ ہے جو امریکا کی خفیہ ایجنسیوں کے لیے نت نئی ایجادات کرنے کا ذمہ دار ہے۔ اس ادارے نے امریکی ایجنسیوں کے لیے ایسے کمپیوٹر بنانے کا اعلان کیا ہے جن میں ڈیٹا روایتی ہارڈ ڈرائیوز کے بجائے نامیاتی مالیکیولوں میں محفوظ کیا جائے گا۔
آئی اے آر پی اے کے مطابق عام میز کی سطح جتنی چوڑائی کی حامل یہ خصوصی مشینیں پولیمرز کے بڑے بڑے حصوں میں ڈیٹا محفوظ کریں گی۔ واضح رہے کہ پولیمرز کی اصطلاح دھاگے نما لمبے مالیکیولوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ ان مالیکیولوں میں ڈیٹا انفرادی ایٹموں کے سلسلوں یا گروپوں میں محفوظ کیا جاسکے گا۔
امریکی خفیہ ادارے کا یہ پروجیکٹ دورحاضر کے ایک بے حد اہم مسئلے کے حل کی جانب پیش رفت ثابت ہوسکتا ہے، اور وہ مسئلہ ہے ڈیٹا کی ہرلمحہ بڑھتی ہوئی مقدار اور اس کی ذخیرہ کاری کی ہر سیکنڈ بڑھتی ہوئی لاگت۔ لاگت میں اضافے کی اہم ترین وجہ ڈیٹا کی ذخیرہ کاری میں استعمال ہونے والی بجلی ہے۔
موجودہ دور میں کمپیوٹر ڈیٹا بڑے بڑے ڈیٹا سینٹرز میں محفوظ کیا جاتا ہے۔ ان ڈیٹا سینٹرز کے لاکھوں سرورز کو فعال رکھنے کے لیے بڑی مقدار میں بجلی درکار ہوتی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق 2016ء میں دنیا بھر میں پھیلے ڈیٹا سینٹرز نے 416.2 ٹیراواٹ آورز بجلی خرچ کی۔ یہ بجلی کی عالمی رسد کے تین فی صد کے مساوی ہے۔ بجلی کی کھپت کے ساتھ ساتھ ڈیٹا سینٹرز ماحول کے لیے بھی نقصان دہ ہیں۔
ماحول دشمن گیسیں جنھیں گرین ہاؤس گیسیں کہا جاتا ہے، ان کے مجموعی اخراج میں ڈیٹا سینٹرز کا حصہ دو فی صد ہے۔ انٹرنیٹ پر سفر کرتے ڈیٹا کی مقدار میں برق رفتار اضافے کے ساتھ ساتھ ڈیٹا سینٹرز کی تعداد بھی بڑھتی جارہی ہے اور اسی رفتار سے ان میں بجلی کی کھپت اور ان سے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں اضافہ ہورہا ہے۔
2016ء میں شایع ہونے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ ڈی این اے میں کمپیوٹر انفارمیشن ذخیرہ کی جاسکتی ہیں، نیز اس ذریعے پر عام ڈیٹا سینٹرز کی نسبت کہیں کم توانائی خرچ ہوگی، اور یہ بلند اور پست درجۂ حرارت پر روایتی ہارڈ ڈرائیوز کی نسبت طویل عرصے تک فعال رہ سکتا ہے۔ اُس تحقیق کے دوران آزمائشی طور پر ڈی این اے کمپیوٹر بنائے گئے تھے جن میں جینیاتی مالیکیولوں کو مختصر اور طویل مدت کے لیے ڈیٹا کی ذخیرہ گاہ کے طور پر استعمال کیا گیا تھا تاہم اس تحقیق کے بعد سائنس داں یہ وضع نہیں کرپائے تھے کہ بڑے پیمانے پر ڈی این اے ڈیٹا اسٹوریج کا اطلاق کیسے کیا جائے۔
آئی اے آر پی اے کے اس منصوبے کے تحت اسی پہلو پر تحقیق کو آگے بڑھایا جائے گا، یعنی ڈی این اے ڈیٹا اسٹوریج کو وسیع پیمانے پر قابل عمل بنانے پر توجہ دی جائے گی۔ یہ منصوبہ چار برسوں پر محیط ہوگا۔ دو مرحلوں پر مشتمل اس پروگرام کے پہلے مرحلے میں ہائی اسپیڈ پر مالیکیولوں سے ڈیٹا حاصل کرنے پر توجہ مرکوز کی جائے گی جب کہ دوسرے مرحلے میں ایسا آپریٹنگ سسٹم بنایا جائے گا جو ڈی این اے پر چل سکتا ہو۔